خان آصف
حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمہ سراپا جمال ومحبت تھے۔کیسا بھی
ناخوش گوار موسم ہوتامگر دیکھنے والوں کو آپ کے ہونٹوں پر ایک دل نواز تبسم
نظرآتا ۔سرزمین ہند کا ایک ایک گوشہ جاہلوں اور سرکشوں سے بھراہواتھا ،حضرت
خواجہ غریب نواز کے دربارِمعرفت میں کبھی کبھی نہایت بے ہودہ اور گستاخ لوگ
آتے تھے لیکن آپ ان کے سامنے بھی اسلام کی بے مثال رواداری اور محبت کا
مظاہرہ کرتے تھے۔یہاں تک کہ ان کی سنگ دلی نرمی میں تبدیل ہوجاتی اور تائب
ہوکر پارسائوں جیسی زندگی بسر کرنے لگتے ۔حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ
الرحمہ نے اپنی پوری زندگی میں نہ کسی کو بددُعادی اور نہ کسی نے آپ کو
حالت غضب میں دیکھا۔حضرت خواجہ غریب نواز کے طویل دور حیات میں بس دومواقع
ایسے آئے تھے کہ جب آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا تھا۔
ایک وہ لمحہ تھا جب پرتھوی راج چوہان کے ظلم وستم سے خلق خداتنگ تھی اور آپ
نے مجبور ہوکر راجپوت حکمراں کی ہلاکت کے لئے ہاتھ اٹھادیے تھے۔اگر اس
واقعہ کی حقیقت پر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ ان کیفیات
کا حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی ذات سے کوئی تعلق نہ تھا،یہ ستم رسیدہ
انسانوں کی نجات کے لئے حضرت خواجہ کی ایک کوشش تھی جسے اللہ نے فتح ونصرت
سے ہم کنار کیا ۔ دوسرالمحہ وہ تھا جب حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے ایک
مرید کو ایک سود خور شخص نے ذلیل کرنا چاہا تو آپ اپنے خدمت گار کی یہ
رسوائی برداشت نہ کرسکے اور لوگوں نے دیکھا کہ اس وقت آپ کی شان جلالی کا
اظہار ہورہاتھامگر یہاں بھی یہ بات قابل غور ہے کہ حضرت خواجہ غریب نواز
علیہ الرحمہ کا غصہ اپنے نفس کی خاطر نہیں تھا۔
اس واقعہ کے راوی آپ کے خلیفۂ اکبر حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی
ہیں۔حضرت قطب علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’میں عرصہ دراز تک اپنے پیرومرشدکی خدمت میں حاضر رہاہوں مگر میں نے کبھی
آپ کو غصے کی حالت میں نہیں دیکھا ۔سوائے ایک بار کے ،جب حضرت غریب نواز
اپنے مرید شیخ علی کے ساتھ حجرے میں قیام فرماتھے ،اچانک ایک اجنبی شخص
خانقاہ میں داخل ہوا۔اس نے آتے ہی شیخ علی کا گریبان پکڑ کر کھینچنا شروع
کردیا اور زبان سے نہایت نازیباکلمات نکالنے لگا۔حضرت خواجہ غریب نواز صورت
حال سے بے خبر تھے۔اس لئے آپ نے بدتہذیبی کے مظاہرے کی وجہ دریافت کی۔اجنبی
نے غضبناک لہجے میں بتایا کہ شیخ علی اس کا قرضدار ہے اور مسلسل وعدے کرنے
کے باوجود رقم کی ادائیگی نہیں کررہا ہے ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے
اجنبی شخص سے رقم کی تعداد پوچھی تو صرف چند پیسوں کی بات تھی ۔ آپ نے قرض
خواہ کو محبت آمیز لہجے میں سمجھایا کہ جہاں اس نے اتنا انتظار کیا ہے ،
وہاں کچھ دن اور صبر کرلے ۔ اس وقت کوئی بھی شریف النفس انسان ہوتا تو حضرت
خواجہ کی گفتگو کا مقصد آسانی سے سمجھ لیتا ۔ مگر وہ سودخور اپنی حد سے
گزرگیا تھا اور اس نے تمام آداب واخلاق کو بالائے طاق رکھ دیا تھا۔ اس کی
بس ایک ہی ضد تھی کہ وہ اسی وقت شیخ علی سے اپنے پیسے لے کر جائے گا ورنہ
تشدد کے ذرائع استعمال کرے گا۔ یہ ایک بڑا جارحانہ عمل تھا۔ پھر بھی حضرت
خواجہ معین الدین چشتی نے اِتمام حجت کے طور پر اسے آخری وقت تک سمجھانے کی
کوشش کی لیکن جب وہ مصالحت کا ایک لفظ بھی سننے کو آمادہ نہیں ہوا تو آپ نے
اپنی چادر زمین پر بچھادی۔ یہ وہی چادر تھی جسے حضرت خواجہ غریب نواز اپنے
دوش مبارک پر ڈالے رہتے تھے۔
اس وقت حضرت خواجہ معین الدین چشتی کا چہرۂ مبارک غصے سے سرخ ہورہا تھا ۔
پھر آپ نے غضبناک لہجے میں اس اجنبی شخص سے فرمایا’’علی کا گریبان چھوڑ دے
اور اپنی رقم زمین پر سے اٹھالے‘‘ ۔
ابھی حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے الفاظ کی گونج ختم نہیں ہوئی تھی کہ
پوری چادر نقرئی سکوں سے بھر گئی ۔ اجنبی بد حواس ہوگیا اور شیخ علی کا
گریبان چھوڑ کر دولت کے اتنے بڑے ذخیرے کو دیکھنے لگا۔ اسے سکتہ سا ہوگیا
تھا، آخر کچھ دیر بعد اس کے ہوش وحواس بحال ہوئے تو سکّوں کے ڈھیرے سے اپنی
مطلوبہ رقم اٹھانے لگا۔ سود خور نے اپنی پوری زندگی میں دولت کا اتنابڑا
انبار نہیں دیکھا تھا۔ کثرت ِمال نے اسے بد دیانتی پر اکسایا۔ چند لمحوں
میںنیت بگڑ گئی اور پھر اجنبی شخص نے اپنی رقم سے کہیں زیادہ سکّے اٹھا کر
جیب میں ڈال لیے، اس کے بعد وہ کھڑا ہوگیا۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے اس سے پوچھا کہ اب تو شیخ علی کی طرف تیرا
کوئی مطالبہ باقی نہیں رہا؟ سود خور نے اثبات میں جواب دیا اور تیزی کے
ساتھ خانقاہ سے نکل کر چلا گیا ۔ اسے اندیشہ تھا کہ کہیں حضرت معین الدین
چشتی کو اس چوری کی خبر نہ ہوجائے مگر آپ ان تمام چیزوں سے بے نیاز تھے اور
سب کچھ جانتے ہوئے بھی قصداً انجان بن گئے تھے۔
جب سود خور چلا گیا تو حضرت خواجہ غریب نواز نے اپنے مرید شیخ علی کو مخاطب
کرتے ہوئے فرمایا ’’ یہ تو اس ذات بے نیاز کی دستگیری ہے کہ وہ اپنے
عاجزبندوں کی مشکل کشائی فرماتا ہے اور انہیں اہلِ دنیا کے سامنے رسوا ہونے
سے بچا لیتا ہے۔ مگر بندگی کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں۔ درویش کو یہ زیب نہیں
دیتا کہ وہ کسی انسان سے حاجت روائی کی امید رکھے۔ قرض اور درویشی میں کوئی
نسبت نہیں۔‘‘
حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی فرماتے ہیں ’’کچھ دن بعد میں نے اس اجنبی
سود خور کو حضرت خواجہ غریب نواز کی خانقاہ میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا لیکن
اس بار وہ بے حد پریشان نظر آرہا تھا ۔ اس کا چہرہ دیکھ کر ظاہر ہوتا تھا
کہ جیسے وہ برسوں سے بیمار ہے۔ سارا غرور وتکبر رخصت ہوچکا تھا۔ اب وہ
بھکاری کے مانند حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے پائے مبارک پر سر رکھے
رورہا تھا۔میں نے دیکھا کہ اس کا ہاتھ بالکل خشک ہوچکا ہے اور کسی درخت کی
ٹوٹی ہوئی شاخ کی طرح لٹک رہا ہے۔ حضرت سلطان الہند نے دریافت کیا کہ اب
کیا تکلیف ہے؟ اجنبی نے گریہ وزاری کرتے ہوئے بتایا کہ جس دن وہ اپنی رقم
لے کر گھر گیا ، اسی روز اس کے دائیں ہاتھ میں شدید درد اُٹھا۔ شہر کے تمام
طبیبوں سے رجوع کیا مگر وہ درد ناقابلِ علاج ٹھہرا۔ پھر کچھ دن بعد دوسری
آفت ناگہانی نازل ہوئی، درد تو تھم گیا لیکن ہاتھ نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ یہ
کہہ کر اجنبی نے اپنا بے ہنگم مفلوج ہاتھ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے
سامنے پیش کردیا۔ سلطان الہند نے جواباً فرمایا’’ میں کوئی طبیب نہیں ہوں،
کسی اچھے معالج کو دکھائو‘‘۔
سود خور دوبارہ زار وقطار رونے لگا اور پھر اس نے اپنے گناہ کا اعتراف کرتے
ہوئے کہا کہ وہ حضرت خواجہ کا مجرم ہے۔ اس نے شیخ علی کے قرض کی ادائیگی کے
دن اپنے مطالبے سے زیادہ سکے اٹھالیے تھے۔ پھر یہی چوری اس کے لیے عذاب بن
گئی ۔ اب وہ اپنے جذبات حرص وہوس پر سخت نادم ہے۔ اگر حضرت خواجہ نے اسے
معاف نہیں کیا تو وہ تمام عمر اسی طرح زمانے کی ٹھوکروں میں رہے گا۔اجنبی
کا لہجہ اس قدر رِقَّت آمیز تھا کہ حضرت خواجہ غریب نواز کو اس پر رحم آگیا
تاہم آپ نے اسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا’’ اے شخص! تو میرا مجرم نہیں ۔ سکوں
کا وہ انبار تو اللہ کے خزانوں میں سے ایک حقیر خزانہ تھا۔ اللہ اس سے بے
نیاز ہے کہ کوئی بندہ چوری کرکے اپنا رزق حاصل کرتا ہے یا اسے حلال روزی کی
جستجو ہوتی ہے؟ ہر انسان مقررہ وقت پر اپنا نامۂ اعمال دیکھ لے گا ۔ تیرے
ہاتھ کا اس طرح سوکھ جانا چوری کے باعث نہیں ، شیخ علی کی دل آزاری کا سبب
ہے۔ اگر وہ تجھے معاف کردے گا تو پھر میں بھی تیری صحت کے لیے بارگاہِ
خداوندی میں عرض کردوں گا۔‘‘ وہ شخص بے قراری کے عالم میں اُٹھا اور اس
درخت کے قریب پہنچا جہاں شیخ علی اپنے پیرومرشد کی لیے کھانا پکارہے تھے
۔اگر چہ شیخ علی اس شخص کی طرف سے بہت آزردہ خاطرتھے لیکن حضرت خواجہ معین
الدین چشتی کی بنیادی تعلیم ہی یہی تھی کہ دشمنوں کو بھی معاف کردو۔ شیخ
علی نے پیرومرشد کی تربیت کے زیر اثر اس شخص کو دل کی گہرائی سے معاف
کردیا۔ پھر حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے نماز ادا کرنے کے بعد اجنبی کے
حق میں دعائے خیر فرمائی اور اپنا دست مبارک اس کے مفلوج ہاتھ پر تین مرتبہ
پھیرا ۔ اجنبی کو محسوس ہوا کہ جیسے اس کے خون کی گردش اچانک تیز ہوگئی ہو
۔ زندگی کی حرارت سے محروم ہاتھ آہستہ آہستہ حرکت کرنے لگا یہاں تک کہ چند
روز بعد وہ شخص مکمل طور پر صحت یاب ہوگیا۔
یہ حضرت خواجہ غریب نواز کی ایک بڑی کرامت تھی کہ خدا نے آپ کو ایک خاص
انداز مسیحائی بخشا تھا جس کے اثر سے اجنبی کا جسمانی عارضہ ختم ہوگیا تھا
مگر اس کرامت کا زیادہ روشن پہلویہ تھا کہ وہ اسی در کا پابند ہوکر رہ گیا
۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ کل تک جو شخص حرص وہوس کا غلام تھا ، آج اس کے
قلب کی تمام کثافتیں دور ہوگئیں تھیں۔ پھر لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ وہ
اپنا سارا مال وزر خدا کی راہ میں لٹارہا تھا۔ روح پر برسوں کے چھائے ہوئے
گہرے بادل چھٹ رہے تھے اور قلب کی تاریکیوں سے تیز روشنی کی ایک کرن پھوٹ
رہی تھی۔لوگوں نے اس کی طبیعت کا یہ انقلاب دیکھ کر پوچھا’’ تونے اپنی متاع
حیات اتنی آسانی سے لٹادی، اب کس کے سہارے زندہ رہے گا؟اس نے سرِ بازار
نعرۂ مستانہ بلند کیا اور دنیا والوں سے چیخ کرکہا’’میں انسانی خون میں
ڈوبی ہوئی دولت تمہیں واپس کرتا ہوں مجھے غریب نواز کی ایک نظر کافی
ہے۔‘‘(ماخوذ از اللہ کے ولی) |