مفتی ولی محمد رضوی
بحمدہ ٖتعالیٰ وبکرم حبیبہٖ الاعلیٰ جل جلالہ وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
ہندوپاک کی سرزمین پر فیضانِ رب اور عنایات رسول کریم علیہ السلام کے چشمے
ابتدائے اسلام سے ہی جاری رہے اور یہ بے آب وگیاہ زمین ایمان واسلام کی
بارش سے شاداب ہوتی رہی ۔ تاریخ کے ابواب سے یہ حقیقت روز روشن سے زیادہ
ظاہر ہے ۔ اولیائے کاملین اور علمائے ربانین نے اپنے قدومِ ناز سے اسے رشک
ثریا بنادیا ، جدھر جائیے ان کے آستانے بلند گنبد اور عظیم مزارات و
خانقاہیں پھران کے قرب و جوار میں بڑی بڑی مساجد ومدارس کی عمارتیں اس کی
شہادت دے رہی ہیں ۔ یہ وہ تاریخی مقامات وعلامات وآثار ہیں جو زبان حال سے
بتارہے ہیں کہ یہ ملک اولیا و علما کا مسکن رہا ہے اور جو آج اسلامی رنگ
ورونق اس وسیع وعریض ملک میں نظر آرہی ہے یہ عرفائے کاملین اور علمائے حق
کی بے مثال اور بے لوث قربانیوں کا ثمرہ و نتیجہ ہے۔
سب اولیا وعلمائے حق لائق ادب وعقیدت ہیں خواہ وہ سلسلۂ عالیہ قادریہ کے
مشائخ ہوں یا سلسلۂ نقشبندیہ کے مشائخ خواہ وہ سلسلۂ عالیہ سہروردیہ کے
بزرگ ہوں یا سلسلۂ چشتیہ کے مشائخ ہوں یہ سب مدنی آقاپیارے مصطفی صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کے نائب ووارث ہیں (رضی اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) نام تو
ایک شناخت ہے ورنہ سب توحید کی مئے اورجام محمدی کے میخوار ہیں ۔ تھوڑا
ساظاہری رنگ وروپ مختلف ہے ور نہ حقیقت میں سب ایک ہیں سب دین کے علمبردار
اور اسلام کے ترجمان ہیں ۔ ان کی عقیدت والفت کے بغیر اسلام کا تصور پھیکا
اور بے روح ہے، ان کو سمجھے بغیر اسلام کو سمجھنا خام خیالی ہے۔ سینکڑوں
تاریخ وسیرت کی تالیفات وتصنیفات میں ان کے کارنامے روحانیت کی دنیا میں
تاروں سے زیادہ منور وتاباں ہیں۔
آنکھ والے تیری جوبن کا تماشہ دیکھے
دیدۂ کور کو کیا آئے نظر کیادیکھے
گرنہ بیند بروز سپرۂ چشم
چشمۂ آفتاب راچہ گناہ
ان اولیاکی جھرمٹ میں اور ان مقدس ہستیوں کے گروہ میں ایک ہستی جو سردار
اولیائے ہند بن کر چمکی جو خواجۂ خواجگاں معین الدین چشتی اجمیری قدس سرہ
کے نام گرامی سے یاد کی گئی۔ جو پیدا تو سجستان میں ہوا اور مرشد برحق حضرت
شیخ الشیوخ خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ تعالیٰ سے روحانی تعلیم وتربیت
حاصل کی اور مرشد برحق کی صحبت سے ۲۰ سال مسلسل مالا مال ہوتے رہے کہ نظر
عثمانی نے معین کو تاجدار ہند بنادیا اورمرشد برحق کی بارگاہ اور توسل سے
بارگاہ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حاضری نے وہ مقبولیت عطا فرمائی
کہ بوقت وصال قلم قدرت نے پیشانی پر لکھا ’’ہذا حبیب اللہ مات فی حب اللہ
‘‘ محبوب خدا کی محبت میں موت کاجام پی چکا ہے۔ (خواجہ غریب نواز :ص۱۱۸)
فقیر کے تبرک نے وہ انقلاب پیدا کیا کہ وہ باغ وغیرہ فقرا پر تقسیم کرکے
راہ حق میں نکل پڑے اور پھر ہمیشہ کے لیے اسی کے راہی بن گئے اور راہ گیروں
کے آپ رہنما بن گئے ۔ مسلسل فقر وفاقہ مجاہدہ وریاضت سے کندن بن گئے اور دل
ونظر اس قدر منور ہوئے کہ جس پر نظر پڑ گئی اس کی تقدیر چمک گئی ، قسمت مہک
اٹھی۔
نگاہ ولی میں وہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی
بارگاہ رسالت سے اشارہ بلکہ حکم حاصل ہوا تو ہند کا سفر کیا اور اجمیر میں
قیام کرکے دین کی خدمات کاسلسلہ شروع کیا ۔ وہ عطائے رسول ہیں روحانی پشت
پناہی سے وہ انقلاب برپا کیا کہ ہر جگہ فیضان نبوت عام کرتا رہا اور
ہندوستان میں اسلام کی بہار ہی بہار نظر آنے لگی ۔ ایسے مقام پر جہاں سب
اجنبی ہوں، ظلم وستم کا مرکز ہو جہاں اسلام کا نام لینا جرم ہو وہاں عزم
واستقلال کے ساتھ حق کا پرچم لہرانا ان کا کمال تھا اور پھر وہاں سے اکثر
مقامات پر نور اسلام پھیلتا گیا اور یہ سلسلہ انشاء اللہ تاقیامت چلتا رہے
گا ۔ آج اس روضہ پر آکر نہ جانے کتنے لوگ اسلام قبول کرتے ہیں یہ روحانی
فیض جاری رہے گا اور غریب نواز کی حکومت چلتی رہے گی۔
یہاں دعا تو ایسی مقبول ہوتی ہے کہ امیر، غریب، بادشاہ ، وزیر جھولی
پھیلائے کھڑے رہتے ہیں اور ان کے توسل سے خالی دامن مرادوںسے بھرکر لے جاتے
ہیں آپ کا دربار محتاجوں کا ٹھکانہ ہے ۔امام احمد رضا فرماتے ہیں : ’’
خواجہ ہند کے مزار شریف پر دعا قبول ہوتی ہے ‘‘ ۔
(احسن الوعاء فی آداب الدعاء ص۵۰)
یہ ہے مجدد اعظم کی غریب نواز سے دلی عقیدت کا اظہار جو نہاںنہیں بلکہ عیاں
ہے اور حضرت خواجہ کی طرف اشارہ ہے یہ بھی ملاحظہ کریں کہ مجدد اعظم سے جب
اجمیر کے ساتھ شریف نہ لگانے کی بابت سوال کیاگیا تو آپ نے محبت بھراجواب
دیا۔ اجمیر کے نام پاک کے ساتھ شریف نہ لکھنا اور ان تمام مواقع میں اس کا
التزام نہ کرنا اگر اِس بناپر ہے کہ حضور سیدنا خواجہ غریب نواز رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کی جلوہ افروزی حیات ظاہری ومزار منور کو (جن کے سبب مسلمان
اجمیر شریف کہتے ہیں) وجہ شرافت نہیں جانتا تو گمراہ بلکہ عدو اللہ ہے ۔
صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
جس نے میرے کسی ولی سے عداوت کی تو اس سے میرا اعلان جنگ ہے اگر یہ ناپاک
التزام بربنائے سستی اور کوتاہ قلبی ہے تو سخت بے برکتی اور فضل عظیم وخیر
جسیم سے محروم ۔
(فتاویٰ رضویہ جلد ۶ص۱۸۷رضا اکیڈمی ممبئی)
آج آستانہ خواجہ جہاں پر آباد ہے وہاں ہزاروں عقیدت مندپروانہ وار شمع کے
گرد منڈلاتے ہیں یہ رب العالمین کے دربار میں حضور خواجہ ہند علیہ الرحمہ
کی بے مثال مقبولیت ہے جو فرقہ وہابیہ نجدیہ کو ایک نظر نہیں بھاتی ہے اور
باطل فرقہ کے باطل وفاسد کتاب تجدید احیائے دین میں صاف لکھاہے کہ جو لوگ
کلیر واجمیر جاتے ہیں تاکہ ان کی مرادیں پوری ہوں اور مشکلات حل ہوں وہ زنا
وقتل سے بھی برا گناہ کرتے ہیں۔ اللہ اللہ معاذ اللہ استغفراللہ ربی من کل
ذنب واتوب الیہ ۔(ص۹۶)
یہ ہے شرارت آمیز، فساد انگیز قلم کی شرارت وفساد کہ چند جملوں میں ہی
بتادیا ہے کہ ولی دشمنی میں ان کا قلم آگ اگل رہاہے ایسے دریدہ دہنوں کو
للکار کر امام عشق ومحبت کہتے ہیں۔
حاکم حکیم داد ودوادیں یہ کچھ نہ دیں
مردود یہ مراد کس آیت خبر کی ہے
یعنی اے وہابی حاکم سے انصاف اور حکیم سے دوا لینے والے علاج کرانے والے تم
ان سے داد ودوا لے رہے ہو تو کیا ان کوخدا سمجھ کر لے رہے ہو او ر اگر غیر
خدا سمجھ کر جاتے ہو تو تم وہاں جاکر پکے مومن وموحد ہی رہ گئے تواے ظالم
سن ! ہم اللہ والوں کے آستانوں پر انہیں محبوب خدا سمجھ کر ، خدا کا
پیاراجان کر اور مان کر جاتے ہیں۔ جب تو ان دنیا داروں کے یہاں سوال کرکے
بھیک مانگ کر مسلمان ہی رہ گیاتو ہم محبوبان خدا سے وسیلہ طلب کرکے مشرک
کیسے ہوگئے؟
اللہ رے خود ساختہ توحید کا نیرنگ
جو بات کہیں فخر وہی بات کہیں ننگ
شامی شریف کے مقدمہ میں ہے امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے
ہیں’’انی لا تبرک بابی حنیفۃ واجئی الیٰ قبرہ‘‘ یعنی میں امام ابوحنیفہ
رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے برکت حاصل کرتا ہوں اور ان کی قبر پر آتا ہوں جب
مجھے کوئی حاجت درپیش ہوتی ہے تو دورکعت نماز پڑھ کر امام ابو حنیفہ کی قبر
کے پاس کھڑاہوکر رب سے دعا کرتا ہوں تو فوراً حاجت پوری ہوجاتی ہے۔ مودودی
کے قول بدتر از بول سے تو امام شافعی بھی معاذ اللہ قاتل وزانی سے بدتر
ہوئے مگر حقیقت میںوہ امام اہل حق تھے اور ہیں۔ مودودیت اور وہابیت گمرہی
وفساد کانام ہے جس کا مشن ہی انبیا واولیا کی شان وشوکت اورقدر کو دلوں سے
خرچ کرنکالنا اور عقیدت والفت کے چراغ کو شیطان کی آماجگاہ بناناہے۔ نماز
روزہ کی تبلیغ تو صرف ہاتھی کے دکھانے کے دانت ہیں۔
لہٰذا عوام اہل سنت کو ان بگلے بھگتوں سے ہمیشہ دور رہنا چاہئے۔ خضر کے
بھیس میں آنے والے رہزنوں سے ہوشیاررہنا ہے۔ غرضیکہ حضور غریب نواز علیہ
الرحمہ وہ مقبول خدا ہیں کہ آج ہزاروں بچوں کے نام ان کی یاد ومحبت میں
رکھے گئے ہیں، آج سینکڑوں مدارس ومساجد ان کے نام گرامی سے منسوب ہیں، آج
متعدد کوچہ و بازار ان کے نام سے رکھے گئے ہیں۔ سینکڑوں شعرانے ہزاروں
اشعار ان کی شان میں لکھے ہیں اور عقیدت کا اظہار کیاہے۔ ہزاروں مضامین
ومقالات قلم کاروںنے لکھ کر عقیدت ومحبت کا مظاہرہ کیا ہے۔ سیر الاولیاء
میں ان کا تذکرۂ جمیل کرکے تاریخ اسلام میں آپ کے کارناموں کو اجاگر
کردیاہے ۔ ہر ماہ چھٹی شریف پر بھی آپ کے کارناموں کو بیان کیاجاتاہے ۔ عرس
میں عقیدت مند آتے ہیں اور آپ کے وسیلے سے بارگاہ خداوندی میں دعائیں کرتے
ہیں پھر مرادیں پوری کرواکر جاتے ہیں ۔ اس موقع پر (۶؍ رجب المرجب) تو
بارگاہ خواجہ ہند میں پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں ملتی، جان کی بازی لگا کر بھی
حاضری دینا غلام سعادت سمجھتے ہیں ۔ مولیٰ تعالیٰ اس دربار کو شان سے تادیر
قائم رکھے۔ خواجۂ خواجگاں کے مراتب کو مزید بلند فرمائے اور ان کے فیضان سے
ہم کو مالا مال فرمائے ۔ تمام اہل سنت وجماعت کی ایمان وآبرو جان و مال کی
حفاظت فرمائے اور گستاخان اولیاسے ہمیں دور ونفور رہنے کی توفیق رفیق عطا
فرمائے ۔
خواجۂ ہندو دربار ہے اعلیٰ تیرا
کبھی محروم نہیں مانگنے والا تیرا |