محمد شاہد علی رضوی فیضانی
تاریخ شاہد ہے کہ جن جلیل القدر اور تاریخ ساز شخصیات کی بدولت ہندوستان
میں نورِ اسلام وایمان پھیلا ، کفروشرک اور بت پرستی کا خاتمہ ہوا اور
توحید ورسالت کے نغمات بلند ہوئے ان میں خواجۂ خواجگاں عطائے رسول ہند
الولی حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین حسن چشتی اجمیری رحمۃ اللہ تعالیٰ
علیہ کی ذات گرامی سر فہرست ہے۔
ولادت مبارکہ:
آپ نجیب الطرفین سید ہیں ۔ آپ کے والد بزرگوار حضرت خواجہ غیاث الدین حسن
سیستان کے صاحب عظمت و ثروت بزرگ تھے۔ سیستان کی بد نظمی سے تنگ آکر خراسان
میں اقامت پزیر ہوگئے تھے۔ خواجہ صاحب ۵۳۷ھ؍۱۱۴۲ء میں سجستان کے قصبہ سنجر
میں پیدا ہوئے اور خراسان میں نشوونما پائی۔ (مرأۃ الاسرار :ص ؍۵۹۳ )
تعلیم وتربیت:
عالی نسب خواجہ بزرگ نے متقی و پارسا والدین کی آغوش تربیت میں پرورش پائی
تھی اس لیے وہ عام بچوں کی طرح آشنائے لہو ولعب نہ تھے۔ پیشانی مبارکہ پر
لمعہ نور اور شائستہ اطوار اس امر کی غمازی کرتے تھے کہ آپ ایک غیر معمولی
شخصیت بننے والے ہیں اور آگے چل کر فکروعمل صلاح وتقویٰ کا روشن مینار ہوں
گے۔ آپ کی پرورش اور تعلیم وتربیت خراسان میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم والد
گرامی کے زیر سایہ ہوئی جو بہت بڑے عالم تھے۔ نو برس کی عمر میں قرآن شریف
حفظ کیا پھر ایک مدرسہ میں داخل ہوکر تفسیرو حدیث اور فقہ کی تعلیم پائی۔
خداداد قوت حفظ و ضبط اور غیر معمولی فہم وفراست کی وجہ سے بہت قلیل مدت
میں کثیر علم حاصل کرلیا۔ گیارہ برس کی عمر تک انتہائی نازو نعم میں پروان
چڑھتے رہے۔(سلطان الہند خواجہ غریب نواز،از مولانا ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی:ص؍۸۰؍۸۱)
ابراہیم قندوزی سے ملاقات اور اعلیٰ تعلیم کا حصول:
جب آپ کی عمر مبارک پندرہ سال کی ہوئی تو آپ کے سر سے والد گرامی کا سایہ
عاطفت اٹھ گیا اور تعلیم وتربیت کا یہ مبارک سلسلہ موقوف ہوگیا۔ پھر آپ
اپنے والد گرامی کے ترکہ سے ملے ہوئے باغ اور پن چکی کی دیکھ ریکھ میں لگ
گئے لیکن خدائے تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ جیسا کہ واقعہ مشہور ہے
کہ آپ ایک دن اپنے باغ کو پانی دے رہے تھے کہ ایک بزرگ حضرت ابراہیم قندوزی
قدس سرہ جنہوں نے مراحل عرفانی اس قدر طے کرلیے تھے کہ جوش وحدت اور عشق
حقیقی نے ان پر جذب اور خود فراموشی کا عالم طاری کررکھا تھا۔ اشارۂ غیبی
سے باغ میں تشریف لائے جب حضرت خواجہ کی نظر ان صاحب باطن مجذوب پر پڑی تو
ادب واحترام کے ساتھ ان کے پاس گئے اور ایک سایہ دار درخت کے پاس بٹھا دیا
اور تازہ انگور کا ایک خوشہ سامنے لاکر رکھ دیا خود دو زانو ہوکر بیٹھ گئے۔
حضرت مجذوب نے انگور تناول فرمائے اور خوش ہوکر بغل سے ایک کھلی کا ٹکڑا
نکال کر اپنے منہ میں ڈالا اور دندان مبارک سے چباکر خواجہ کے منہ میں ڈال
دیا۔ اس طرح جویائے حقیقت کو ذوقِ حقیقت کی لذت سے آشنا کردیا ۔ کھلی کا
حلق سے اترنا تھا کہ قلب وروح میں انوارِ الٰہی ہویدا ہوگئے، شبہات کے پردے
نگاہوں سے اٹھنے لگے، دل کی دنیا میں انقلاب برپا ہوگیا ، دنیا سے نفرت
پیدا ہوگئی ، رشتہ ومحبت کے سارے علائق توڑ دئیے۔ باغ اور پن چکی اور
سازوسامان بیچ ڈالا ، ساری قیمت فقرا ومساکین میں تقسیم کردی اور طالبِ حق
بن کر میدان جستجو میں اتر پڑے ، وطن چھوڑ دیا اور سیروسیاحت شروع
کردی۔سالکان طریقت کا یہ دستور رہا ہے کہ وہ منزل معرفت تک پہونچنے کے لیے
سب سے پہلے علوم ظاہری کا زینہ طے کرتے ہیں پھرعمل کی دشوار گزار منزلوں سے
آگے بڑھ کر علوم باطن کی تحصیل کرتے ہیں۔ حضرت خواجہ غریب نواز نے چونکہ
تعلیم موقوف کردی تھی لہٰذا اس کی تکمیل کے لیے وطن سے نکل کر سمر قند و
بخارا کا رخ کیا۔ جہاں عظیم الشان علمی درسگاہیں قائم تھیں اور ہزاروں
تشنگان علوم وفنون جوق در جوق اقطاع عالم سے کھینچ کھینچ کر آتے تھے۔ آپ
پورے انہماک کے ساتھ طلب علم میں مصروف ہوگئے۔ تفسیر وحدیث اور فقہ وکلام
کا درس لیا اور کامل دستگاہ حاصل کرلی ۔ آپ کے اساتذہ میں مولانا حسام
الدین بخاری اور حضرت مولانا شرف الدین صاحبِ ’’ شرع الاسلام ‘‘ کے نام
خلوص طور پر لیے جاتے ہیں۔ ( اہلسنت کی آواز مارہرہ شریف کا خواجہ غریب
نواز نمبر سن ۲۰۰۸ : ص؍ ۱۱۶، ۱۱۷ )اس واقعہ سے ہمیں یہ معلوم ہواکہ سلطان
الہند خواجہ غریب نواز قدس سرہ کے سینے میں کس قدر حصول علم کا جذبہ جاگزیں
تھا۔ اس طرح آپ بتیس سال کی عمر مبارک تک حصول علم دین میں مشغول ومصروف
رہے۔
مرشد کامل کی تلاش اور بیعت:
جب آپ علوم ظاہری کی تکمیل کرچکے توروحانی فیضان کی بارش میں نہانے کے لیے
مرشد برحق کی تلاش میں نکل پڑے اور حرمین شریفین ودیگر مقامات مقدسہ کی
زیارت سے مشرف ہوتے ہوئے علاقۂ نیشاپور کے قصبہ ہارون میں قدم رنجہ فرمایا
۔ جہاں اس دور کے ولی کامل ، عارف باللہ ، قطب وقت اور غوّاص بحرِ معرفت
حضرت خواجہ عثمان ہارونی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسند رشد و ہدایت پر جلوہ
فرماتھے۔ حضرت خواجہ بارگاہِ عثمان ہارونی میں پہنچ کر شرف بیعت سے مشرف
ہوئے۔ آپ اپنی بیعت وارادت کا واقعہ ’’ انیس الارواح ‘‘ میں یوں تحریر
فرماتے ہیں۔’’مسلمانوں کے دعا گو فقیر حقیر کمترین بندگان معین حسن سنجری
کو شہر بغداد میں خواجہ جنید بغدادی کی مسجدمیں حضرت خواجہ عثمان ہارونی کی
قدم بوسی کی دولت نصیب ہوئی۔ اس وقت معزز مشائخ بھی خدمت میں حاضر تھے۔ میں
نے آپ کی خدمت میں سر زمین پر رکھا تو آپ نے فرمایا’دوگانہ ادا کر ‘ میں نے
ادا کیا پھر فرمایا’ قبلہ کی طرف منہ کرکے بیٹھ‘ میں بیٹھ گیاسورۂ بقرہ پڑھ
کر فارغ ہوا تو فرمایا’ ۲۱ دفعہ کلمۂ سبحان پڑھ ‘ میں نے پڑھا، بعد میں خود
کھڑے ہوکر منہ آسمان کی طرف کیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا میں نے تجھے
خدا تک پہنچایا دیا ۔ اس کے بعد ایک قینچی لے کر میرے سر پر چلائی اور چار
ترکی ٹوپی اس فقیر کے سر پر رکھی اور خاص گدڑی عنایت فرمائی، پھر
فرمایابیٹھ جا، میں بیٹھ گیا۔ فرمایا کہ ہمارے خانوادے میں آٹھ پہر کا
مجاہدہ ہوتا ہے لہٰذاآج کی رات اور دن مجاہدے میں مشغول رہو۔ آپ کے ارشاد
کے موافق میں نے ایک دن رات مجاہدے میں گزاراجب دوسرے دن خدمت میں حاضر ہوا
تو فرمایا : ایک ہزار مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھ میں نے پڑھی، فرمایا: اوپر کی
طرف دیکھ میں نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی تو فرمایا: تجھے کیا دکھائی دیتا
ہے میں نے عرض کیا کہ عرش اعظم تک دیکھتا ہوں ، فرمایاکہ زمین کی طرف دیکھ
۔ میں نے زمین کی طرف دیکھا تو فرمایا :کہاں تک تجھے دکھائی دیتا ہے؟ میں
نے عرض کیا، تحت الثریٰ تک، حکم ہوا پھر ہزار بار سورۂ اخلاص پڑھ اور جب اس
حکم کی بھی تعمیل کرچکا تو فرمایا : آسمان کی طرف دیکھ اور بتا کہاں تک
دیکھتا ہے ، میں عرض کیا حجابِ عظمت تک ، اب فرمایا آنکھیں بند کر، میں نے
بند کرلیں، اور ارشاد فرمایا اب کھول دے ، میں نے کھول دیں پھر آپ نے دونوں
انگلیاں میری نظر کے سامنے کردیں اور پوچھا کیا دیکھتا ہے ، عرض کیا اٹھارہ
ہزار عالم دیکھ رہا ہوں ، جب میری زبان سے یہ کلمہ سنا تو ارشاد فرمایا بس
تیرا کام پورا ہوگیا ، پھر ایک اینٹ کی طرف دیکھ کر فرمایا اسے اٹھا، میں
نے اٹھایا تو اس کے نیچے سے کچھ دینار نکلے ، فرمایا انہیں لے جا کر
درویشوں میں خیرات کر چنانچہ میں نے ایساہی کیا ، پھر ارشاد فرمایا: چند
روز تو ہماری خدمت میں رہ، میں نے کہا حاضر ہوں ، پھر آپ نے خانۂ کعبہ کی
طرف سفر اختیار فرمایا۔ راستہ میں ہم نے ایک شہر میں قیام کیا تو وہاں
مقربان خدا کی ایک جماعت دیکھی جن کو اپنے آپ کا ہوش نہ تھا چند روز انہیں
کے پاس رہے پھر خانۂ کعبہ کی زیارت کی۔ اس جگہ بھی خواجہ صاحب نے میرا ہاتھ
پکڑ کر مجھے خدا کے سپرد کیا اور خانۂ کعبہ کے پر نالے کے نیچے میرے لیے
مناجات کی تو آواز آئی کہ ہم نے معین الدین کو قبول کیا ۔ جب وہاں سے لوٹ
کر ہم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے آئے تو فرمایا:
سلام کر ، میں نے سلام کیا تو آواز آئی کہ وعلیکم السلام اے سمندروں اور
جنگل کے مشائخوں کے قطب، جب یہ آواز آئی تو خواجہ صاحب نے فرمایا: تیرا کام
مکمل ہوگیا‘‘۔ (انیس الارواح: ص:۱تا ۳)حلقۂ ارادت میں داخل ہونے کے بعد آپ
کو اپنے مرشد برحق سے اس قدر محبت ہوگئی کہ آپ ہمیشہ صبح وشام اپنے
مرشدکامل کی خدمت میںلگے رہتے ۔جہاں کہیں مرشد تشریف لے جاتے آپ ان کا بستر
استراحت ، توشہ دان اور دیگر ضروری اشیا اپنے سر پر اٹھائے ہوئے ساتھ ساتھ
چلتے۔اس طرح آپ نے تقریباً بیس سال اپنے مرشد کی خدمت میں گزاردئیے ۔
خرقۂ خلافت وجانشینی:
روحانیت کے تاجدار نے جب اپنے مرید خاص کو حقیقت ومعرفت کا سبق پڑھاکر تلاش
حق کے تمام مراحل طے کرادئے اور اپنی خاص باطنی توجہ سے درجہ قطبیت پر
فائزکردیاتو فرمایا:’’معین الدین محبوب خداہے اور مجھے اس کی مریدی پرناز
ہے‘‘۔جب آپ قابل اور لائق فخر بن گئے تو مرشدکامل نے بغدادمیں آپ کو خرقہ
خلافت اور جانشینی سے سرفراز فرماکر وہ سارے تبرکات مصطفوی جو خاندان چشت
میں سلسلہ بسلسلہ چلے آرہے تھے حضرت خواجہ کو مرحمت فرمادئیے۔
حضرت خواجہ غریب نواز فرماتے ہیں:
حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے فرمایا:اے معین الدین !میں نے سب کام تیری
تکمیل کے لئے کیاہے تجھ کو اس پر عمل کرنا لازم ہے۔فرزندخلف وہی ہے جو اپنے
ہوش گوش میں اپنے پیر کے ارشادات کو جگہ دے ،اپنے شجرے میں ان کو لکھے اور
انجام کو پہونچائے تاکہ کل قیامت کے دن شرمندگی نہ ہو۔اس ارشاد کے بعد
عصائے مبارک جو مرشد کے سامنے رکھاتھادعاگوکوعطافرمایا۔بعدازاں خرقہ ،
نعلین ، چوبین ، (کھڑائوں)اور مصلیٰ بھی عنایت فرماکر سرفراز کیاپھر ارشاد
فرمایا:یہ تبرکات ہمارے پیروں کی یادگار ہیں جورسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم سے ہم تک پہونچی ہیں، ہم نے تجھے دیں۔مناسب ہے کہ جیسا ہم نے ان
چیزوں کو رکھا ہے ویسا ہی تو بھی رکھے اور جس شخص کو تو مردِخدامعلوم کرے
یہ یادگار اسے دے دے۔جب یہ فرماچکے تو بندہ سے بغل گیر ہوکر فرمایاکہ تجھے
خدا کو بخشا ۔جوں ہی یہ فرمایاعالم تحیر میں مشغول ہوگئے ۔(ہشت بہشت ص۴۹)
حضرت خواجہ غریب نوا زعلیہ الرحمہ اپنے مرشد برحق سے جداہوکر اصفہان اور
مکہ مکرمہ کی زیارت کرتے ہوئے جب بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے تو یہ پیغام
ملا:’’اے معین الدین !تو میرے دین کا معین ہے ،میں نے تجھے ہندوستان کی
ولایت بخشی تو اجمیر جا،تیرے وجودسے ظلمت ِکفر دور ہوگی اور اسلام رونق
پذیر ہوگا ۔(سیر الاقطاب:ص ۱۲۴)
یہ بشارت سن کر سرکار غریب نواز علیہ الرحمہ مسرورہوئے مگر کچھ تردد بھی
لاحق ہواکہ شہر اجمیر کہاں واقع ہے؟شہر اجمیر پہونچنے کا راستہ کیا
ہوگا؟مدینہ منورہ سے شہر اجمیر کی مسافت کیا ہوگی؟اسی تردد میں تھے کہ آپ
کو نیند آگئی اور عالم رُویامیں سرکار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے
جمال جہاں آراکی زیارت سے شرفیاب ہوئے ۔اس خواب میں حضور نے آپ کو ایک ہی
نظر میں شرق سے غرب تک ساراعالم دکھا دیا ، تمام بلادوامصار آپ کی نگاہوں
میں آگئے ۔اجمیر کا قلعہ اور یہاں کی پہاڑیاں نظر آئیںپھر سرکار صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم نے آپ کو ایک انار عطا فرماکر ارشاد فرمایا:ہم تجھے خداکے
سپر د کرتے ہیں۔(شان غریب نواز ،ص :۶۸)
بارگاہ نبوی سے پیغام ملنے کے بعد سرکار غریب نواز فرمان مصطفوی کی تعمیل
کرتے ہوئے ہندوستان کے لئے روانہ ہوگئے اوربغداد،بخارا،لاہور،دہلی ہوتے
ہوئے اجمیر پہونچے۔
اجمیر میں آمد:
حضرت خواجہ غریب نواز قدس سرہ جب ۵۸۷ھ/۱۱۹۱ء میں اجمیر وارد ہوئے تو اس وقت
وہاں کا راجہ پرتھوی راج تھا،یہ شمالی مغربی ہند کے ایک وسیع وعریض خطہ کا
فرماں رواتھا،پایہ تخت تو اس کا اجمیر تھا مگر اس کی عمل داری میں دہلی بھی
تھا۔یہ زمانہ شہاب الدین غوری کی فتح دہلی واجمیر سے پہلے کا ہے۔حضرت خواجہ
غریب نواز رضی اللہ تعالیٰ عنہ دعوت توحید کے لئے یہاں تشریف لائے
تھے،گمرہی کو دورکرنے اور لوگوں کو تہذیب واخلاق سے آراستہ کرنے کے لئے آئے
تھے ، جس کے لئے زبردست روحانی قوت کی ضرورت تھی،اس لئے شروع شروع میں دعوت
توحید کے لئے آپ کرامتیں بھی دکھاتے رہے۔ حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کی دعوت وتبلیغ قولی وعملی دونوں طریقے پر جاری رہی ۔قدرت نے آپ
کے چہرے پر وہ زیبائی اور بشاشت عطافرمائی تھی کہ بہت سے کفار ومشرکین چہرے
کی زیبائی سے حقانیت کا اُجالادیکھ کر مشرف بہ اسلام ہوگئے،اجمیر میں
مندروں کے مہنتوں کے سردار رام دیومہنت کا قبول اسلام آپ کی پرخلوص قولی
وفعلی دعوت توحید کا ایک نمونہ ہے ۔(اہل سنت کی آواز،غریب نواز
نمبر،ص:۱۵۹،۱۶۰)
رام دیوکا قبول اسلام :
انا ساگر جس کے گردونواح میں ہزاروں بت خانے تھے،جن پر سینکڑوں من تیل اور
پھول صرف ہوتے ،صبح سے شام تک پرستاروں کا ہجوم رہاکرتا تھا،برہمنوں اور
پجاریوں کو حضرت کا قیام ناگوار گزرا۔ایک دن جب راجہ اور اہل شہر کی کثیر
تعدادمندروں میں پوجاکے لئے حاضر ہوئی ۔مہنتوں کا سردار رام دیو مہنت ایک
جماعت کثیر کے ساتھ حضرت کی بارگاہ میں حاضر آیا ۔ حضرت خواجہ کے جمال جہاں
آراپر نظر پڑتے ہی لوگوں کے جسموں پر لرزہ طاری ہوگیا،بید کی طرح کانپنے
لگے،حضرت کی نگاہ کیمیاتاثیر نے مہنت کے دل کی کیفیت بدل دی وہ بصد خلوص
وعقیدت آگے بڑھااور دست حق پرست پر اسلام قبول کرلیا۔پجاریوں کا سردار رام
دیو جوچند ساعت قبل کفروشرک سے نہ صرف آلودہ تھا بلکہ اس باطل فکر وعمل کا
ترجمان بھی تھا ،اب توحیدورسالت کا اقراری بن چکاتھا۔ایک جماعت لے کر حضرت
خواجہ کو پریشان کرنے کے لئے آیاتھامگر شرپسندوں کا وہی قائد حضرت خواجہ کے
دفاع میں سینہ سپر ہوگیااور لکڑی اور پتھر سے معاندین خواجہ کو مارمار کر
بھگا دیا ۔حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رام دیو کی یہ
مجاہدانہ خدمت دیکھی تو ازراہ کرم ایک پیالہ پانی عطافرمایا اور پینے کا
حکم دیا ،پانی پیتے ہی اس کا آئینہ دل ضلالت وگمرہی کے زنگ سے پاک ہوگیا۔آب
قدح نے آب حیات کا اثر دکھایا ،بے جان قلب وروح میں زندگی کی توانائی
پیداہوئی ،عشق وارادت کے فیض عام نے اسے حضرت کے قدموں میں ڈال دیا اور وہ
داخل سلسلہ ہو گیا۔خواجہ نے اس کا نام شادی دیورکھا۔(سلطان الہند خواجہ
غریب نواز،ص:۱۰۱،۱۰۲)
جوگی جے پال کا قبول اسلام :
جب رام دیو قبول اسلام کر کے حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے
حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے تو پرتھوی راج نے حضرت خواجہ غریب نواز کو دینی
،تبلیغی اور اصلاحی خدمات سے روکنے کے لئے اپنے زمانہ کے مشہور جادوگرجے
پال جو گی کا سہارا لیا ۔اس وقت اس کے جادو کا سکہ چلتا تھا ،اس نے اپنے
جادوکے ذریعہ کئی ایک تماشے دکھائے مگر آپ پر اس کے سحر کا کوئی اثر نہ
ہوا۔آپ اسی طرح اپنے تبلیغی کاموں کو بڑھاتے رہے ۔ آخر کار جب جوگی جے پال
اپنے سارے کرتب دکھا کر عاجز آگیا اور حضرت خواجہ اور آپ کے ساتھیوں کا کچھ
نہ بگاڑ سکا تو اس نے اپنے کرتب کا آخری دائو استعمال کیا۔’’جے پال نے ہرن
کا مرگ چھالاہوامیں پھینکااور اچھل کر اس پر بیٹھ گیا۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ
فضا میں پرواز کرنے لگااور نگاہوں سے غائب ہوگیااور لوگ حیران تھے کہ دیکھو
اب کیا ہوتا ہے ؟حضرت نے جے پال کا یہ کرشمۂ سحر اور لوگوں کی حیرت دیکھی
تو اپنے نعلین چوبین (کھڑائوں)کو حکم دیا کہ جائو سرزنش کرتے ہوئے مغرورجے
پال کو نیچے اُتار لائو ۔یہ فرمان سنتے ہی دونوں کفش پرندوں کی طرح اُڑتے
ہوئے نگاہوں سے روپوش ہوگئے ۔چند ساعت بعد لوگوں نے یہ حیرت انگیز منظر
دیکھا کہ حضرت کے پاپوش جے پال کے سر کو کُوٹتے ہوئے خواجہ کے پاس لے آئے
،کھڑائوں کی ضرب نے منکر جے پال کے غرورونخوت کابت توڑ دیا تھا۔روحانی
صداقت کے سامنے جادوگری کا فریب تارعنکبوت کی طرح پارہ پارہ ہوچکاتھا۔اسے
معلوم ہوگیا کہ یہ درویش کوئی جادوگر نہیں روحانیت کی غیر متزلزل قوت کا
مالک ہے ،اس کے ادنیٰ حکم سے بے جان پاپوش نہ صرف ہو امیں اڑنے کی صلا
حیتوں سے بہرہ مند ہوجاتے ہیں بلکہ ہندوستان کے ماہر فن جادوگر کو بے بس
کرکے ذلت وحقارت کے ساتھ زمین پر لانے کی قوت بھی پاجاتے ہیں ۔نگاہوں سے
حجابات اٹھ چکے تھے ،جے پال نے حضرت کے قدموں میں سر رکھ دیا اور خلوص دل
کے ساتھ اسلام قبول کیا۔عرض کی ،حضور دعافرمائیے کہ میں امر ہو جائوں یعنی
تا قیامت زندہ رہوں۔حضرت نے دعا فرمائی ،الٰہی اس بندہ کی دعا قبول فرما۔جب
حضرت پر دعا کی قبولیت کا اثر ظاہر ہو ا۔آپ نے ارشاد فرمایا :تو نے دائمی
زندگی پالی مگر لوگوں کی نگاہ سے پوشیدہ رہے گا۔چنانچہ ایسا ہی ہوا،مشہور
ہے کہ جے پال اب تک اجمیر کے کوہستان میں رہتا ہے جو راہ گیر راستہ بھول
جاتا ہے اس کی رہبری کرتا ہے ۔ہر شب جمعہ روضہ مقدسہ کی زیارت سے مشرف ہوتا
ہے ۔ حضرت خواجہ نے اس کا نا م عبداللہ رکھا۔(ایضاص:۱۰۶۔۱۰۷)
پرتھوی راج کو دعوت اسلام :
خواجہ ہند رضی اللہ عنہ کی کرامات سے متاثر ہوکر کثیر تعداد میں لوگوں نے
شرک اور بت پرستی سے توبہ کی اور مشرف بہ اسلام ہوکر آپ کے حلقۂ ارادت میں
شامل ہوگئے اور اپنی دنیاوآخرت کو سنوار لیا اور یہ سلسلہ روزبروز بڑھتا ہی
چلا گیا۔جب پرتھوی راج کے آدمی دامن اسلام سے وابستہ ہوگئے اور دائرہ اسلام
وسیع ہونے لگا تو حضرت خواجہ غریب نوازنے پرتھوی راج کو دعوت اسلام پیش کی
،آپ نے تحریر فرمایا :’’اے راجہ تیرااعتقاد جن جن لوگوں پرتھا وہ بحکم
خدامسلمان ہوگئے ہیں۔اگر بھلائی چاہتا ہے تو تو بھی مسلمان ہوجاورنہ ذلیل
وخوار ہوگا۔سنگ دل پرتھوی راج نے اس دعوت کو قبول نہ کیا ۔تو حضرت خواجہ نے
مراقبہ کیا ،کچھ دیر کے بعد جیب تفکر سے اٹھایا اور فرمایا اگر یہ بدبخت
ایمان نہ لایا تو میں اسے اسلامی لشکر کے حوالے زندہ گرفتار کرادوں
گا۔(سیرا لاقطاب،ص:۱۳۲)سلطان الہند خواجہ غریب نواز نور اللہ مرقدہ کی عظمت
وبزرگی ، فضیلت وروحانیت اور کرامات کو دیکھ کر بھی پرتھوی راج دولت اسلام
سے محروم رہااور لشکر اسلام کے ہاتھوں گرفتار ہو کر قتل ہوا۔مورخین نے لکھا
ہے کہ حضرت خواجہ کی دعوت وتبلیغ پر نَوّے لاکھ سے زیادہ کفارومشرکین نے
اسلام قبول کیا ۔یہ حضرت خواجہ کا ایساکارنامہ ہے کہ تاریخ میں اس کی مثال
نہیں ملتی۔آج ہندوستان میں ایمان واسلام کی جو بہار اور نور نظر آرہاہے یہ
سب حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کی دعوت وتبلیغ ہی کا ثمرہ ہے۔آپ نے
تقریبا ۴۵سال تک سر زمین ہند پر دعوت توحید اور تبلیغ دین فرمائی اور ظلمت
کدہ ٔہند میں اسلام کا اُجالا پھیلایا۔ |