حضرت خواجہ غریب نوازاصفہان سے ہندوستان تک

از:محمدعبداللہ سروراعظمی
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
ہر زمانہ میں اللہ عزوجل نے اپنے دین کے غلبہ اور اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے ایسے نفوسِ قدسیہ کو اس دنیا میں بھیجا ہے جنہوں نے اپنی جد و جہد اور مسلسل کوششوں سے راہِ حق کے متلاشیوں کی رہنمائی کی، صراطِ مستقیم سے بھٹک جانے والوں کو سیدھی راہ دکھائی اور آنے والے انسانوں کے لئے نقوشِ قدم چھوڑ گئے۔ ان کی زندگی ہمیشہ اعلائے کلمۃ الحق میں گزری، انہوں نے اپنا سب کچھ راہِ حق میں قربان کر دیا اور اللہ کی ذات پر مکمل بھروسہ کر کے میدانِ عمل میں سرگرم رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بڑی سے بڑی طاقتیں ان کی زبان کو حق گوئی اور ان کی ذات کو حق کی حمایت سے نہ روک سکیں۔ انہیں برگزیدہ شخصیتوں میں سلطان الہند، عطائے رسول حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بھی شمار ہے جنہوں نے ہندوستان کی سرزمین پر جلوہ افروز ہو کر بت پرستوں کو بت شکن بنایا، راہِ حق سے بھٹکے ہوئوں کو حق تعالیٰ کی شناخت کرائی اور پتھروں کے سامنے جھکی ہوئی پیشانیوں کو رب حقیقی کی بارگاہ میں جھکایا۔

آج ہم جو اسلام کی دولت سے آشنا ہیں اور عشقِ رسول ا کا جام پی کر محبت رسول ا سے سرشار ہیں یہ انہیں کی بے لوث کاوشوں کا ثمرہ ہے۔ لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ ہم اس نعمت کے شکریہ میں حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے گن گاتے رہیں، آپ کی یادیں تازہ کرتے رہیں اور آپ کے نقوشِ قدم پر چل کر اپنے آپ کو جنت کی راہ پر گامزن کر لیں۔

نام و نسب:
آپ کا نام ’’معین الدین حسن‘‘ ہے، آپ کے والد کا نام غیاث الدین ہے۔ آپ حسینی سید ہیں۔

ولادت اور عہد اوائل:
آپ کی ولادت ۹؍جمادی الثانی ۵۳۰؁ھ مطابق ۱۵؍مارچ ۱۱۳۶؁ء اصفہان میں ہوئی، بچپن کا زمانہ سنجر میں گزرا، ۱۲؍سال کی عمر میں والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، ترکہ میں ایک پن چکی اور ایک باغ ملا، اسی کی نگہداشت کے دوران ابراہیم قلندر نامی ایک بزرگ کا پس خوردہ (جوٹھا) منہ میں پڑا اور دل انوارِ الٰہی سے منور ہو گیا۔ دنیا کی محبت مردہ پڑ گئی، راہِ حق میں نکل پڑے۔ سمر قند میں کلام اللہ حفظ کیا اور دینی علوم حاصل کئے۔ اس کے بعد عراق کا رخ کیا، جس کے ایک قصبہ ہارون میں ایک خدا رسیدہ بزرگ ان کے حصہ کی نعمت سرمدی لئے ان کا انتظار کر رہے تھے، حضرت شیخ المشائخ خواجہ عثمان ہارونی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ نے شرفِ بیعت حاصل کیا، مرشد کامل نے اپنے سلسلہ میں داخل فرمانے کے بعد چہرۂ مبارک آسمان کی طرف اٹھایا اور مرید کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ’’میں نے تجھے خدا تک پہنچا دیا اور حق تعالیٰ کا مقبول بنا دیا‘‘ (مسلمان اور ہندوستان)

سیر و سیاحت:
یہاں سے تکمیل کمال کے بعد ڈھائی ماہ شیخ نجم الدین کبریٰ کی خدمت میں بسر کئے اور کوہِ جودی ہوتے ہوئے بغداد شریف میں حضرت غوث پاک کی خدمت میں کچھ عرصہ رہے اور انہی کے ہمراہ کئی سفر بھی کئے۔ بغداد ہی میں شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی کی خدمت میں بھی رہے، ہمدان پہنچے تو وہاں کے ایک بزرگ جلیل الدین کی صحبت میں رہے اور حضرت یوسف ہمدانی سے ملاقات کر کے تبریز آئے۔ حضرت ابوسعید تبریزی سے استفاضہ کیا۔ اصفہان میں خواجہ محمود اصفہانی سے ملاقات کی، مہمند سے استرآباد آئے اور حضرت بایزید بسطامی کی اولاد میں سے ایک بزرگ خواجہ ناصر الدین صاحب ولادت سے ملاقات کی جن کی عمر اس وقت ۱۲۷؍سال کی تھی۔ غزنی آ کر شمس العارفین شمس عبدالواحد غزنوی سے ملے اور وہاں سے صدہا اولیاء اللہ سے شرفِ نیاز حاصل کر کے عازم ہندوستان ہوئے۔ اس سفر میں اور بھی مختلف مقامات ہرات، بلخ، بخارا بھی تشریف لے گئے۔(سیر الاخیار:۳۴۰)

ولایتِ ہند:
حج سے فارغ ہو کر آپ مدینہ منورہ پہنچے، یہاں کچھ عرصہ تک مقیم رہے، ان ایام میں ایک دن آپ کو دربارِ رسالت سے بشارت ہوئی ’’اے معین الدین! تو میرے دین کا معین ہے، تجھے ہندوستان جانا چاہئے، وہاں کے ایک شہر اجمیر میں میرے فرزندوں میں سے سید حسین بہ نیت جہاد و غزوہ گیا تھا، وہ وہاں شہید ہو گیا ہے اور وہ مقام کفار کے ہاتھ آگیا ہے، تیرے جانے سے وہاں پھر اسلام آشکارا ہوگا اور کفار مقہور ہوں گے‘‘۔ آپ کو دربارِ رسالت سے ایک انار عطا کیا گیا اور فرمان ہوا ’’اس میں دیکھو تاکہ یہ معلوم ہو تمہیں کہاں جانا ہے‘‘ حضرت خواجہ کو انار میں مشرق سے مغرب تک نظر آیا اور شہر اجمیر اور اس کے پہاڑ بھی دیکھ لئے، بعد ازاں آپ ہندوستان روانہ ہوئے۔(معین الارواح:۵۹)

ہندوستان میں جلوہ گری:
ملک ہند میں اپنا تبلیغی مشن شروع کرنے سے پہلے پانچ سال تک ملتان میں رہ کر ہندوستان کی زبان سیکھی۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو لے کر آپ اجمیر کی سرزمین پر تشریف لائے۔اجمیر شریف میں بالکل نو وارد تھے، جا کر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے، ایک شخص نے روکا کہ یہاں مہاراج کے اونٹ بیٹھتے ہیں، آپ اٹھ کر تالاب انا ساگر پر جا بیٹھے جہاں صدہا بت خانے تھے، اگلے روز راجہ کے ملازموں نے اونٹوں کو اٹھانا چاہا تو وہ وہاں سے نہ اٹھ سکے، جب ان لوگوں نے آپ سے معافی مانگی اس کے بعد اونٹ اپنی جگہ سے اٹھ سکے۔لوگوں نے راجہ سے جا کر کہا کہ غیر مذہب کے کچھ لوگ ہماری پرستش گاہ کے قریب آ ٹھہرے ہیں، راجہ نے حکم دیا کہ پکڑ کر نکال دو۔ راجہ کے کارکن جب تالاب پر پہنچے تو آپ نے آیۃ الکرسی ایک چٹکی مٹی پر پڑھ کر پھینک دیا، جس پر وہ مٹی پڑی وہ وہیں بے حس و حرکت ہو کر رہ گیا۔ اجمیر میں آپ کو آئے ہوئے تیسرا ہی دن تھا کہ راجہ اور تمام اہل شہر تالاب پر پوجا کے لئے جمع ہوئے، رام دیو مہنت ایک جماعت کثیر کے ساتھ آپ کو بہ جبر اٹھانے کے لئے بڑھا، نظر جو اٹھائی تو اس کے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا، اسی وقت پائوں پر گرا اور اسلام قبول کر لیا۔ یہ پہلا مسلمان تھا جو آگے چل کر بڑے مرتبہ پر فائز ہو گیا۔(سیر الاخیار:ص:۳۴۳) ؎
نگاہِ ولی میں وہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی

جوگیوں اور جادوگروں سے مقابلے:
اس وقت راجہ رائے پتھورا کی حکومت تھی، راجہ کے مقربین کو اپنے علاقہ میں مسلمان درویشوں کا آنا ناگوار ہوا اور انہوں نے نت نئے حیلوں، بہانوں اور اپنی شرارتوں سے انہیں تنگ کرنا شروع کردیا تاکہ یہ لوگ اکتا کر چلے جائیں مگر اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہوئے، ہندو جوگیوں اور جادو گروں کو ان کے پیچھے لگادیا جن سے خواجہ صاحب کے بڑے بڑے معرکے ہوئے۔ ان معرکوں کی حیثیت گویا اسلام اور کفر کے مقابلے کی تھی۔ قدرت خداوندی کو اس سرزمین پر اسلام کو فروغ بخشنا منظور تھا اس لئے اپنے برگزیدہ بندوں کو مبلغ اسلام نہیں بلکہ چلتا پھرتا اسلام بنا کر یہاں بھیج دیا تھا۔ تمام ہندو جوگیوں اور جادو گروں کو خواجہ صاحب کے مقابلے میں کھلی ہوئی شکستوں کا سامنا کرنا پڑا۔

ہندو مذہبی رہنمائوں کا سردار جوگی جے پال نہ صرف آپ کے مقابلے میں ہار گیا بلکہ اعترافِ شکست کر کے دائرۂ اسلام میں داخل ہوا، آپ نے اس کا نام ’’عبداللہ‘‘ رکھا اور اسے روحانی تعلیمات دے کر اپنی خلافت سے نوازا۔ (مسلمان اور ہندوستان:۱۷۳)
ع خود نہ تھے جو راہ پہ اوروں کے ہادی بن گئے

لشکر کفار کا قبول اسلام:
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی روحانی عظمتوں کے نئے نئے واقعات اجمیر کی سرزمین پر دیکھ دیکھ کر پتھورا رائے کے لشکریوں میں سے لوگ جوق در جوق اسلام قبول کرنے لگے۔ راجہ اور اس کے ہم مذہب ایسے لوگوں کو اذیت دیتے تو وہ لوگ آپ کی خدمت میں استغاثہ لاتے۔(سیر الاولیا،ص:۴۶)

پتھورا کی حکومت کا زوال:
راجہ نے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد دیکھ کر اپنے اور اپنی حکومت کے لئے خطرہ کا احساس کیا اور آپ کو اجمیر بدر کرنے کا حکم دیا۔ آپ کو جب یہ خبر ملی تو آپ نے فرمایا ’’میں نے اسے خود نکال دیا اور دوسروں کے حوالے کر دیا‘‘(ایضا:۴۷)چنانچہ پتھورا رائے کی اس گستاخی کے بعد ہی ایک دن کی بات ہے خراسان میں بادشاہ شہاب الدین غوری نے خواب میں دیکھا کہ خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سامنے کھڑے ہوئے فرما رہے ہیں ’’اللہ تعالیٰ تمہیں ملک ہند کی بادشاہت دینے والا ہے، تم اس جانب قدم بڑھائو‘‘ سلطان شہاب الدین نے فوراً حملہ کی تیاری کی اور آپ کے فرمان کے بموجب فاتح و کامران ہوا۔ (مسلمان اور ہندوستان:۱۷۴)

آپ کے خلفا:
حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کے بعد آپ کے جن خلفائے نامدار کے ذریعہ اکنافِ ہند میں اشاعتِ اسلام اور دینِ حنیف کے نمایاں کام سر انجام پائے ان میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، شیخ حمید الدین ناگوری کے اسمائے مبارکہ بدرِ منیر کی طرح درخشاں اور تاباں ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ وہ دور خطۂ ہند میں مسلم سلاطین کے اقتدار کا دور تھا۔ شمشیرو سنان کے سائے میں مسلم سلاطین ایک طرف یہاں کے قدیم سیاسی نظام کی اصلاح کر رہے تھے دوسری طرف مشائخِ سلاسل بالخصوص حضرت خواجہ غریب نواز اور ان کے خلفا دلوں کی سرزمین میں اپنے اخلاق و کردار اور خدمتِ خلق کے ذریعہ اسلامی تعلیم کی شجر کاری کر رہے تھے۔ ان کی بہی خواہی اور جذبۂ ہمدردی نے قلوب کی تسخیر فرمائی اور لوگ جوق در جوق اسلام کے دامن میں آتے گئے۔ (خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ:۳۷)

یہاں ہم یہ حقیقت واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ آپ کے پیش نظر صرف ایک مقصد تھا اور وہ تھا تبلیغ اسلام اور اصلاح مسلمین۔ ایک طرف تو آپ نے اپنی صاحبزادی کو کامل بنا کر مستورات میں تبلیغ کے لئے مامور کیا اور دوسری طرف آپ نے اپنے خلفا کو ہندوستان کے اہم مراکز میں اسی مقصد کی تکمیل کے لئے مقرر کیا۔ آپ کی خانقاہ سے ہزاروں اشخاص درجۂ ولایت حاصل کر کے اور اولیا بن کر نکلے اور دنیا بھر میں پھیل گئے۔
ہندوستان میں جو آج اتنے مسلمان نظر آرہے ہیں یہ دہلی و اجمیر کے چشتیہ اور ملتان کے سہروردیہ خاندان کی مساعی جمیلہ کا ثمرہ ہے۔ (سیر الاخیار:۳۴۷)

وصال مبارک:
شب ششم رجب ۶۲۷؁ھ مطابق ۲۱؍مئی ۱۲۳۰؁ھ بروز شنبہ شب دوشنبہ بعد نمازِ عشا آپ نے حجرہ کا دروازہ بند کر لیا اور خدام کو اندر آنے کی ممانعت فرمائی، خدام حجرہ کے باہر موجود رہے، ان کے کانوں میں تمام شب صدائے وجد آتی رہی، آخر شب میں وہ صدا بند ہو گئی۔ جب نماز صبح کا وقت آیا اور حجرہ کا دروازہ حسب معمول نہیں کھلا تو دروازہ توڑ کر دیکھا گیا کہ آپ واصل بحق ہو چکے ہیں اور جبین مبارک پر بخط قدرت ’’ہذا حبیب اللہ مات فی حب اللہ‘‘ منقوش ہے۔ (معین الارواح:۹۰)

جس شب کو انتقال ہوا ہے تمام شب حجرہ سے لوگوں کے چلنے کی آوازیں آتی رہیں۔ شب انتقال چند بزرگوں نے خواب میں دیکھا کہ رسولِ کریم ا فرما رہے ہیں: میں اپنے معین الدین کی پیشوائی کو آیا ہوں۔ کسی نے خواب میں دیکھا کہ آپ فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بخش دیا اور ساکنانِ عرش کے نزدیک مجھے جگہ ملی ہے۔ ستر برس تک شب کو نہیں سوئے، دن بھر روزے رکھتے اور رات بھر مراقب رہتے۔ آپ کا شمار دنیا کے اکابر مشائخ میں ہوتا ہے۔

لارڈ کرزن نے درست لکھا ہے کہ ہندوستان میں ایک قبر حکومت کر رہی ہے اور وہ قبر خواجہ غریب نواز کی ہے۔(سیر الاخیار:۳۴۸)

ارشادات و فرمودات:
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زبانِ مبارک سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ کو اپنی زندگی کے لئے نمونۂ عمل بنانا ہمارے لئے کامیابی کی ضمانت ہے، آپ کے ارشادات و فرمودات میں سے چند باتیں ضبط تحریر ہیں۔
٭ جو فقر و فاقہ کو دوست رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے دوست رکھتا ہے۔
٭ بلائے سخت اور بیماری میں مبتلا ہونا صحت ایمان کی دلیل ہے۔
٭ جس دل میں محبت ہے اس میں جو کچھ بھی آئے گا جل جائے گا۔
٭ غریبوں سے محبت رکھو اور جھوٹ، غیبت سے بچتے رہو۔
٭ خدا کے دوست میں یہ چار صفات ضرور ہوں گی۔ تواضع، شفقت، سخاوت اور اختیار صحبت صالحین۔
٭ خدا پر توکل کئے رہو اور کسی سے کوئی توقع و غرض نہ رکھو۔
٭ غم کو خوشی اور فاقہ کو فخر سمجھو۔ (سیر الاخیار،ص:۳۴۷)
ابر رحمت ان کی مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شانِ کریمی ناز برداری کرے
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731436 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More