خاندانی حالات و خدمات:
حضرت خواجہ معین الدین چشتی حقیقت میں سلطان الہند اور ایک سر آمد روزگار
بزر گ گزرے ہیں آپ ہی نے کفرستان ہند میں اسلام کی روشنی پھلائی اور اشاعت
دین قیم کے لئے چپہ چپہ پر اپنے خلفا ء اور علمائے باطنی کاایک جال پھیلاد
یا جو غیر مسلموں کو اسلام کے سائے میں لانے لگا۔ آپ محض ایک جلیل القدر
ولی ہی نہ تھے بلکہ آپ ہندوستان کے سب سے بڑے اور سب سے پہلے اسلامی قائد
بھی تھے جن کے مساعی گرامی سے نہ صرف یہ کہ ارض ہند کے تاریخی اور کفر پرور
گوشوں میں اسلامی شعائیں جگمگائیں بلکہ سلطنت اسلامی بھی قائم ہو گئی۔
بظاہر تو ہندوستان میں اسلامی سلطنت کابانی و موسس سلطان شہاب الدین غوری
اور اس کا لائق و شجاع جنرل اور نائب السلطنت قطب الدین ایبک مشہور ہے مگر
بباطن یہ بنیادیں خواجہ غریب نوازہی کی قائم کردہ اور استوار کی ہوئی ہیں۔
صحیح النسب سید اور اولاد رسو ل تھے ۔۷۳۵ھ میں بمقام سنجر کتم عدم سے پردہ
وجود پر جلوہ گر ہوئے۔ آثار ولایت و عرفان بچپن ہی سے ناصیۂ سعادت پر نمایا
ں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے دولت و ثروت سب کچھ دے رکھی تھی۔ آپ کے والد گرامی
سید غیاث الدین حسن سنجری کا انتقال ہوا تو آپ کی عمر صرف چودہ برس کی تھی
اور ناز و نعم کے ساتھ پلے بڑھے تھے۔ آپ کے حصہ میں ترکۂ پدری سے ایک وسیع
و پر فضا باغ اور ایک پن چکی آئی تھی۔ اس کی آمدنی بھی وافر تھی۔ اسی باغ
میں کام کر رہے تھے کہ ایک بزرگ ابراہیم قلندر مجذوب تشریف لائے۔ آپ بہت
عزت سے پیش آئے اور انگور کے چند خوشے پیش کئے جنہیں کھاکر انہوں نے تھوڑی
پھلی اپنے منہ میں چباکر آپ کو دی جس کے کھاتے ہی آپ کی طبیعت دنیا سے سیر
ہوگئی اور سینہ میں انوار الٰہی چمکنے لگے۔
سیاحی و بیعت:
تھوڑی دیر بعد اٹھے، سب کچھ فروخت کر کے اللہ کی راہ میں لٹایا اور گھر سے
نکل کھڑے ہوئے۔ سمر قند پہنچ کر علوم ظاہری کی تکمیل کی اور کئی سال کے بعد
حجا ز کی جانب چل پڑے اور علاقہ نیشاپور کے قصبہ ہارون پہنچ کر قطب وقت
حضرت عثمان ہارونی سے مریدہو گئے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ اس آغوش ناز میں آپ
کو کیا ملا،بیس سال چھ ماہ کی طویل مدت یہیں بسر کردی، خدمت پیر میں رہ کر
مجاہدات کئے، باطنی نعمتوں سے فیض اندوز ہوئے اور ہر وقت ان کے ساتھ رہنے
لگے۔ ان کا سامان دوش مبارک پر ہر جگہ اٹھائے پھر تے تھے۔ ان کے ساتھ متعدد
حج بھی کئے، خرقہ خلافت تو ڈھائی سال ہی کی مدت میں عطا ہوگیا تھا مگر تشنۂ
کرم دامن کہاں چھوڑسکتا تھا یہاں سے تکمیل کمال کے بعد ڈھائی سال شیخ نجم
الدین کبریٰ کی خدمت میں بسر کئے اور کوہ جودی ہوتے ہوئے بغداد شریف میں
حضرت غوث پاک کی خدمت میں کچھ عرصہ رہے اور انہیں کے ہمراہ کئی سفر بھی
کئے۔ بغداد ہی میں شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی کی خدمت میں بھی رہے
ہمدان پہنچے تو وہاں کے ایک بزرگ جلیل الدین کی صحبت میں رہے اور حضرت یوسف
ہمدانی سے ملاقات کرکے تبریز آئے، حضرت ابو سعید تبریزی سے استفاضہ
کیا،اصفہان میں خواجہ محمود اصفہانی سے ملاقات کی ،مہمند آکر خواجہ ابوسعید
مہمندی ملے، مہمند سے استر آباد آئے اور حضرت با یزید بسطامی کی اولاد میں
سے ایک بزرگ خواجہ ناصر الدین صاحب ولایت سے ملاقات کی جن کی عمر اس وقت
۱۲۷سال تھی۔ غزنی آکر شمس العارفین شمس عبدالواحد غزنوی سے ملے اور وہاں سے
صدہااولیاء اللہ سے شرف نیاز حاصل کرتے ہوئے عازم ہندوستان ہوئے اس سفر میں
اور بھی مختلف مقامات ہرات، بلخ اور بخارا بھی تشریف لے گئے۔ اس سفر میں
ایک خاد م ہر وقت ساتھ رہتاتھا۔
عبادت و استغراق:
سفر حجاز میں حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے کعبہ شریف کے سامنے کھڑے ہو کر
اور آپ کا ہاتھ پکڑکر آپ کے لئے دعا کی تھی اور عرض کی تھی کہ رب قدیر
’’معین الدین‘‘کو تیرے سپرد کرتاہوں۔ اسی وقت آواز آئی تھی کہ ہم نے قبول
کرلیا۔ پھر روضۂ اطہر پر جاکر سلام عرض کیا تو جواب میں کہا گیا تھا ’’علیک
السلام یاقطب المشائخ! ہند کی ولایت ہم نے تجھے دی ‘‘اس کے بعد حضرت خواجہ
عثمان ہارونی نے اشاعت دین قیم کے لئے آپ کو ہندوستان کی طرف روانہ کیا اور
اسی وقت آنکھیں بند کراکر سارا ہندوستان آپ کو دکھادیا گیا۔ انیس الاوح میں
لکھا ہے کہ حضرت خواجہ عثمان رحمۃ اللہ علیہ نے جب خرقہ خلافت عطاکیا ہے تو
اپنی دونوں انگلیاں آسمان کی طرف کر کے کہا کہ ’’معین دیکھ ‘‘دیکھا تو تمام
فضائے ملکوت وجبروت آپ کی نگاہوں کے سامنے تھے۔ جس وقت خلافت عطاہوئی اس
وقت سِن شریف باون سال تھا یہ حالت تھی کہ رات رات بھر بیدار رہتے اور
عشاکے وضوسے صبح کی نماز ادا کرتے۔ بعض اوقات ایک روز میں دودوقرآن ختم کئے
ہیں۔ دوران سفر میں تو ہر وقت قرآن پڑھتے رہتے تھے سیر الاقطاب میں مرقوم
ہے کہ مکہ معظمہ ہی میں ایک روزآپ مراقب تھے۔ نداآئی کہ مانگ کیامانگتا ہے۔
ہم تجھ سے خوش ہیں جو طلب کرے گا پائے گا۔ عرض کی الٰہی میرے مرید وں کے
مرید وں کو بخش دے۔ حکم ہوا بخش دیا۔ عرض کی کہ جب تک میرے مرید بہشت میں
نہ جائیں گے میں اس کے اند ر قدم نہ رکھو ں گا۔
بعض اوقات استغراق ومحویت کا یہ عالم ہوتا تھا کہ نماز کے وقت حضرت قطب
الاقطاب بہ آواز بلند گوش مبارک پر صلوٰۃ کہتے تھے۔ دوش مبارک پکڑکر جنبش
دیتے۔ کئی بار تکرار کرتے تھے جب کہیں جاکر آنکھیں کھلتیں اور فرماتے کیا
کروں شرع محمدی سے چار ہ نہیں نماز بہر کیف فرض ہی ہے۔ حجر ہ میں تشریف لے
جاتے تو پیکر محویت بن جاتے حجر ہ کے سامنے پتھر رکھ دئے جاتے تھے۔ اول نظر
انہی پر پڑتی اور وہ خاکستر ہو جاتے۔ صاحب اقتباس الانوار لکھتے ہیں کہ
چالیس روز تک جسم مبارک اپنے کیف نورانی کے باعث کسی کو نظر ہی نہ آیا۔ غرض
یہ کہ آپ کا رتبہ بہت بلند اور منصب رفیع تھا۔
ارض ہند میں ورودسعید:
آپ شہر لاہور میں بحکم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو دو
ماہ تک حضرت مخدوم علی ہجویری داتاگنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے روضۂ منورہ پر
معتکف رہے۔ اس کے بعد جب دہلی پہنچے تو چالیس اشخاص آپ کے ساتھ تھے۔ دہلی
میں آپ کچھ عرصہ تک مقیم رہے۔
کفار نے ہر چند آپ کو نقصان پہنچانے کی سعی کی کہ اس وقت یہ شہر کفر ستان
تھا۔ آپ برابر اذا نیں دے کر نماز اداکرتے رہے۔ مگر کوئی آپ کا کچھ نہ بگاڑ
سکا۔ ایک شخص ایک عظیم سازش کانمائندہ بن کر چھری دربغل سامنے آیا۔ مگر آتے
ہی لرز گیا۔ علمائے ظاہر خود کو وارث انبیا بتاتے تو ہیں مگر کسی عالم میں
یہ قوت تھی کہ وہ ان حالات میں دہلی اور اجمیر کے اندر قدم رکھ کر اپنی جان
سلامت لے جا سکتا تھا۔ نہیں اور ہر گز نہیں۔ انبیاکے مقابلے جو کفار سے
ہوئے ان کی طاقت بازو سے کہیں زیادہ ان کی روحانیت کام کرتی رہی۔کس عالم
میں طاقت تھی وہ ہندوستان کے جادو گروں اور دشمنوں سے تنہا عہدہ برآہو
سکتا۔ علمائے باطن کو اللہ تعالیٰ نے علم اورروحانیت دونوں عطا کئے ہیں اور
ان کے ذریعے دشمنوں سے خود کو محفوظ بھی رکھ سکتے ہیں اور ان پر غالب بھی
آسکتے ہیں۔
مہاراجہ ہند کی ماں نجوم وکہانت میں کمال رکھتی تھی۔ اس نے بارہ برس پیستر
ہی اپنے بیٹے پر تھوی راج سے کہہ دیا تھا کہ ایک مرد بزرگ فلاں حلیہ کا اس
ملک میں آکر تیرے اور تیری سلطنت کے زوال کاباعث ہوگا۔ اسی وجہ سے راجہ
ہمیشہ متفکر رہتا تھا اور اس نے احکام صادر کردئے تھے فلاں حلیہ کا اگر
کوئی شخص سلطنت کے کسی حصہ میں پایا جائے تو اسے گرفتارکرکے فوراًحاضر کیا
جائے اسے اس پر بہت کچھ انعام ملے گا۔چنانچہ جب سامانہ میں پہنچے تو
کارکنان سلطنت نے شناخت کر کے کہا کہ آپ کوئی بزرگ شخص معلوم ہوتے ہیں۔
آیئے ہم آپ کو کسی معقول جگہ ٹھہرائیں۔ مراقبہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے ہدایت کر دی ان لوگوں کے فریب میں نہ آنا آپ نے انھیں صاف جواب دے
دیا۔ اجمیر شریف ۱۰؍محرم ۵۶۱ھ میں تشریف لائے۔
ملازمان راج اور جادوگروں سے مقابلے:
اجمیر شریف میں بالکل نووارد تھے، جاکر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے، ایک شخص
نے روکا کہ یہاں مہاراجہ کے اونٹ بیٹھتے ہیں۔آپ اٹھ کر تالاب اناساگر پر
جابیٹھے، جہاں صدہا بت خانے تھے، اگلے روز اونٹوں کو اٹھاناچاہا تو وہاں سے
نہ اٹھ سکے۔ اور جب لوگوں نے آکر معافی مانگی تو اونٹ اٹھ سکے۔ لوگوں نے
راجہ سے جالگائی کہ غیر مذہب کے کچھ لوگ ہماری پرستش گاہ کے قریب آٹھہرے
ہیں۔ راجہ نے حکم دیا کہ پکڑ کر نکال دو۔ سرہنگان راجہ جو پہنچے اور ہجوم
کیا تو حضور نے آیت الکرسی خاک کی ایک چٹکی پر پڑ ھ کر پھینک دی۔ جس پر پڑی
وہ وہیں کا ہو کر رہ گیا تیسراہی روز تھا کہ راجہ اور تمام اہل شہر تالاب
پر پوجا کے لئے جمع ہو ئے رام دیو مہنت ایک جماعت کثیر کے ساتھ آپ کو جبراً
اٹھا نے کے لئے بڑھا۔ نظر جو اٹھائی تو جسم پر لرزہ طاری تھا۔ اسی وقت پاؤں
پر گرا اور اسلام قبول کرلیا۔ پہلا مسلمان تھا جو آگے چل کر بڑے مرتبہ پر
فائز ہو گیا۔
تالاب سے اٹھے تو گویا ایک آفتابہ میں پانی بھر لیا۔ جس سے کل تالاب کا
پانی خشک ہو گیا۔ راجہ گبھرا گیا اور جیپال جوگی کو جو ارض ہند کا سب سے
نام ور اور بڑا جوگی تھا بلوایا۔ وہ مرگ چھالا پر ڈیڑھ ہزار چیلوں کو ساتھ
لئے ہوے بہ سرعت اجمیر پہنچ گیا اور ایک خوفناک قوت کے ساتھ مقابلہ کے لئے
بڑھا۔ اس طرح کہ جادو کے شیراوراژدہے ساتھ ہیں اور سب آگ کے چکر پھینکتے
ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ مخلوق عظیم ساتھ تھی۔ ہمراہی جادو کا یہ دہشت خیز
سامان دیکھ کر گبھرائے۔ آپ نے سب کے گرد حصار کھینچ دیا۔ اب ایک طرف سے
سانپ بڑھنے شرو ع ہوئے۔ دوسری طرف سے شیر چلے اوپر سے سامنے سے آگ برسنی
شروع ہوگئی۔ دہشت ناک سماںتھا۔ اہل شہر لرز رہے تھے، کوئی حصار کے اندر قدم
نہ رکھ سکتا تھا۔ آپ نماز میں مصروف تھے جس کے بعد آپ نے ایک مٹھی خاک جو
پھونک کر پھینکی سارا طلسم فنا ہو کر رہ گیا۔ اب میدان صاف تھا اور جے پال
ہزیمت زدہ ومطیع ہو کر اسی وقت پاؤں پر گر کر معافی مانگی۔ مسلمان ہو
ااورمرتبۂ کمال کو پہنچا۔ اسلامی نام عبد اللہ رکھا گیا۔ اسے ’’پرواز
‘‘کاپورا ملکہ تھا۔ چنانچہ اڑاتو افلاک کی بلندیوں میں جا داخل ہوا مگر
حضور کی کھڑاویںمارتی اسے اتار لائیں۔ اللہ کی دین ہے کہ وہ انتہائی شقاوت
پسندوں اور بد بختوں کو ہدایت دے کر آن کہ آن میں انتہائی سعید بنادیتا ہے۔
سلطنت اسلام کاقیام وبشارت :
اس سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ روحانی ترقیاں ’’پرواز ‘‘ اور ’’روشنی ‘‘غیر
مذاہب میں بھی تھی اور اب کسی حد تک رہ گئی ہے۔ مگر نبوت کا دور بدل جانے
سے غیر مذاہب فقراپہلے ہی قدم کو آخری قدم سمجھتے ہیں۔ اور ’’بالا ‘‘کو
چھوڑکر اپنے ہی ارد گرد گھومتے رہتے ہیں حقیقی ترقی صرف اسلام ہی میں ہے۔
اور اسلام سے پیشتر اپنے اپنے اوقات میںدیگر مذاہب میں بھی رہی ہے کہ
’’مونس الارواح ‘‘کی سند کے مطابق مجاہد ات اور ریاضات کی کثرت کی وجہ سے
جے پال کافلک اول تک پرواز کرنا ثابت ہے یہی اس کی انتہا تھی۔ ہمارے ہاں
فنائیت کی پہلی ہی منزل میں بچے تک بھی عرش تک پرواز کر لیتے ہیں اور کلمہ
کی تعلیم ہی میں جو ترقی کا پہلا علمی دروازہ ہے وہ کچھ دیکھتے ہیں جو
دوسرے مذاہب کے منتہیٰ بھی نہیں دیکھ سکتے، راجہ پرتھوی راج کو اپنی اس
شکست اول جے پال جیسے گرو کے مسلمان ہو نے کا سخت رنج تھا۔
وہ کچھ نہ کر سکتا تھا۔ مگر اس کے قلب میں آپ کا قیام اجمیر کانٹے کی طرح
کھٹک رہا تھا، اس کی ماں نے اسے ہر چند سمجھایا کہ دیکھ ! پرتھوی راج پھر
سمجھاتی اور کہتی ہوں جو آج سے بارہ سال پیشتر کہا تھا کہ تو اس فقیر کامل
کا مقابلہ نہ کر اس کی دشمنی سے باز آ۔ اس کی عزت وتکریم کر،ورنہ تواور
تیری حکومت دونوں ان کے ہاتھوں تباہ ہو کر رہ جائیں گے۔ مگر اس نے ایک نہ
سنی اور بار بار کہنے اور سمجھانے پر نہ سنی، سلطان شہاب الدین غوری کو
پہلی اتفاق اور باز رفت نے اس کے حوصلے بہت ہی بڑھا دئے تھے۔ خیال کر تا
تھا کہ کرامت اور چیز ہے ورنہ مسلمان میدان جنگ میں میرا کچھ نہیں بگاڑ
سکتے، ہزار بار لڑیں تو بھی شکست کھائیں گے۔ فطری دشمن اسلام تھا گوڈرتا
تھا مگر پھر بھی مسلمانوں کو تنگ کر تا رہتا تھا۔ ایک روز اس نے کسی مسلمان
پر ظلم کیا آپ کو غصہ آگیا اور لکھ بھیجا کہ من تراز ندہ بدست لشکر اسلام
سپر دم اور اسی شب کو آپ نے سلطان شہاب الدین غوری کو خواب میں بشارت دی کہ
ہندوستان پر فوراً حملہ کرو۔ اللہ تعالیٰ اس دفعہ تجھے ضرور کامیاب کرے گا۔
راجہ حضرت کی تحریر دیکھ کر ہنس دیا مگر کچھ ہی دن بعد سلطان سے عظیم شکست
کھا کر زندہ گرفتار ہوا اور مارا گیا۔ سلطان فتح کے بعد سب سے پہلے اجمیر
آیا اور خواجہ غریب نواز کی خدمت میں باریاب ہو کر قدم چومے اور نماز جمعہ
اداکی۔ تین روز قیام کرنے کے بعد رخصت ہو گیا۔ اجمیر میں راجہ کا بیٹا بھی
باج گزارراجہ کی حیثیت سے مسند نشین کر دیا گیا۔
کرامت وخوراق عادات:
ایک روز آپ کی خدمت میں ایک عورت روتی ہوئی آئی۔ عرض کی کہ میرے بیٹے
کوحاکم شہر نے قتل کردیا۔ آپ کو رحم آگیا اور خدام کو ساتھ لے کر عصالئے
ہوئے قتل گاہ میںجا پہنچے۔ مقتول کا سردھڑ سے ملاکر فرمایا کہ اے شخص اگر
واقعی تو بے گناہ مارا گیا ہے تو اللہ کے حکم سے اٹھ کھڑا ہو، زبان مبارک
سے یہ الفاظ نکلنے تھے کہ مقتول کی نعش کو حرکت ہوئی زندہ ہو گیا اور اپنا
سر اٹھا کر خواجہ غریب نواز کے پاؤں پر رکھ دیا۔ اور خوش خوش اپنی ماں کے
ساتھ چلا گیا۔ حاکم شہر یہ سن کر لرزگیا اوراس نے آکر معافی مانگی۔
ایک شخص نے خواجہ فرید الدین گنج شکر کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ میری
زندگی بڑی ہی تنگ دستی میں گزرر ہی تھی۔ میں نے خواجہ غریب نواز کی طرف
رجوع کیا۔ خواب دیکھا کہ آپ نے تشریف لاکر مجھے چھ روٹیاں عنایت کیں۔ وہ دن
ہے اور آج کا دن ساٹھ برس گزر چکے ہیں۔ ہر روز مجھے ضرورت کے مطابق خرچ مل
جاتا ہے اور میں اور میرے تمام گھر والے آرام وآسود گی میں زندگی بسر کرتے
ہیں۔ بابا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ وہ خواب نہ تھا فضل الٰہی تھا
کہ سرِحلقۂ اولیا نے تجھ پر کرم فرمایااور تیری عسرت رفع ہو گئی۔
ایک روز آپ مشاہد ۂ حق میں مصروف تھے کہ ایک مرید نے آکر عرض کی کہ حضور
حاکم شہر نے مجھے بہت تنگ کر رکھا ہے اور میری جلاوطنی کا حکم بھی صاد ر کر
دیا ہے۔ پوچھا حاکم ہے کہاں ؟کہا سوار ہو کر کہیں باہر گیا ہے۔ فرمایا تو
جا وہ گھوڑے سے گر کر مر گیا۔ واپس گیا تو یہ خبر مشہور تھی۔ جس وقت خواجہ
بزگ پہلی باردہلی آئے ،ایک شخص بغل میں چھری دبائے ہوئے حملہ کی نیت سامنے
سے آیا۔ حضرت نے فرمایا :آیا ہے تو اپنا کام کر ، وہ یہ الفاظ سنتے ہی تھر
تھر کاپنے لگا۔ قدموں پر گراا سی وقت مسلمان ہو گیا،یہ کرامت دیکھتے ہی بہت
افراد مسلمان ہو گئے۔
جب آپ ہرات سے سبز دار تشریف لائے ہیں تو معلوم ہوا کہ یہاں کاحاکم شیعہ ہے
اور ظالم ہے۔ جوشخص اپنے بچوں کا نام ابو بکر یا عمررکھتا ہے قتل کرادیتا
ہے۔ بے حد متعصب ہے نام یادگار مرزا ہے اور یہ اسی کا باغ ہے جس میں لب حوض
آپ مقیم ہوئے۔ لوگوں نے منع بھی کیا کہ آپ یہاں نہ بیٹھیں سخت ظالم ہے
پرواہ نہ کی۔ اتنے میں حاکم بھی بڑے شکوہ وطمطراق کے ساتھ آپہنچا منع
کرناتو کجا۔ نظر جو پڑی لرزنے لگا اور بیہوش ہو کر گر پڑا۔ نہ صرف اس پر
بلکہ اس کے تمام امرا و ملازمین پر دہشت طاری ہو گئی ۔آپ رحم دل بھی بہت
تھے اورکس کی جرأت تھی ؟ آپ نے خود ہی اٹھ کر اس کے منہ پر پانی چھڑکا ،ہوش
میں آیا تو بہ کی اور اس کے تمام امرا وغیرہ بھی تائب ہو کر مرید ہو گئے۔
یادگار مرزا نے توبہ کر کے اپنا خزانہ اور زرو جواہر اللہ کی راہ پر لٹا
دیئے ۔ غلاموں اور کنیزوں کو آزاد کر دیا۔ اللہ کے دین اور رحمٰن کریم کا
کرم ملاحظہ کیجئے کہ یہی شخص جس کانامۂ اعمال پورا کاپورا سیاہ تھا۔ آن کی
آن میں قدسیوں کی جماعت میں شامل ہو گیا، باغی دوست بن گیااور خلافت پاکر
ہرات کا صاحب ولایت ہوا۔
بلخ پہنچے تو یہاں ایک صاحب حکیم ضیاء الدین رہتے تھے جو بہت بڑے متبحر
عالم تھے مگر بہت مغرور خود پسند تھے اور اولیائے کرام کی عظمت سے قطعی
انکار تھا۔ حضرت نے خود دست مبارک سے ایک کُلنگ(ایک پرندہ) شکار کر کے اس
کے کباب تیار کئے اسی وقت یہ صاحب بھی آگئے آپ نے ایک کبا ب انہیں بھی دیا
جس کے کھاتے ہی بیہوش ہو گئے ۔ہوش آیا تو حالت ہی اور تھی مرید ہوئے،کتب
فلسفہ جلادیں اور توجہ خاص سے چند ہی روز میں کامل ہو گئے۔
قیا م لنگر خانہ اور تعلیمات:
اجمیر شریف میں آپ نے ایک عظیم الشان خانقاہ بھی تیار کرائی مسجد بھی
بنوائی اور لنگر خانہ بھی جاری کر دیا۔ جہاں اب روضۂ منورہ بنا ہوا ہے وہیں
آپ کا لنگر خانہ تھا کسی سے ایک پیسہ بھی نہ لیتے تھے۔ نہ کوئی آمدنی تھی۔
جب خرچ ختم ہو جاتا۔ خادم عرض کر تا تو مصلی کا گوشہ اٹھا کر اس کے نیچے سے
حسب ضرورت رقم خادم کو دے دیتے۔ صاحب سیر الاقطاب لکھتے ہیں کہ اس لنگر
خانے میں اتنا کھانا تیار ہوتا تھا کہ کئی ہزار افراد روز انہ دونوں وقت
کھا تے تھے اوراتنی برکت تھی کہ اگر دگنے اور چوگنے آدمی بھی آجاتے تو کمی
نہ پڑتی۔
آپ اس کتاب میں جابجالنگر خانوں کا ذکر پڑھیں گے۔ آج کوئی ان کی عظمت نہیں
سمجھتا مگر مسلمان بزرگوں، امیروں اور ولیوں نے تقسیم طعام کو ہمیشہ
خوشنودی رب قدیر کا ذریعہ سمجھا۔ رزاقی خالق اکبر کی خاص صفت ہے۔ اور اللہ
تعالیٰ جتنا خوش اپنے بندوں کو کھلانے اور ان کے پیٹ بھر نے سے ہو تا ہے،
اتنا اورکسی چیز سے نہیں ہوتا۔ دوسرے اس طرح تبلیغ کا کام بھی خوب ہوتا ہے
،طلبا اطمینان سے تعلیم پاتے ہیں۔ نو مسلم بے فکری کے ساتھ رہ کر اپنی حالت
سنبھال سکتے ہیں اور طالبانِ حقیقت آزادی کے ساتھ خانقاہ میں رہ کر کسب
کمال کرتے قدیم زمانہ میں ہر مر کزی خانقاہ اورنا مور بزرگ کے ساتھ لنگر
خانہ ضرور ہوتا تھا اور ایسے لنگر خانے فقرا امرا کی طرف سے تمام ملک میں
جاری تھے۔
فرمایا کہ جو فقر وفاقہ بیماری و موت کو دوست رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے
دوست رکھتا ہے۔ فرمایا بلائے سخت اور بیمار ی میں مبتلا ہوناایما ن کی
علامت ہے۔ آپ تو اللہ سے اس کی دعا ئیں مانگتے تھے۔ جس دل میں محبت ہے اس
میں جو کچھ بھی آئے گاجل جا ئے گا۔ فرمایا میں نے قید جسم سے باہر آکر جو
دیکھا تو معلوم ہوا۔ عشق عاشق اور معشوق سب ایک ہیں۔
فرمایا: غریبوں سے محبت رکھو اور جھوٹ سے بچتے رہو۔
فرمایا کہ خدا کے دوست میں یہ چار صفات ضرور ہوںگی۔ تواضع، شفقت، سخاوت،
اختیار، صحبت صالحین مسلمانوں کا مسلمانوں کو ذلیل سمجھنا بیحد نقصان رساں
ہے ۔فرمایا :تین چیزیں گوہر نفس ہیں۔ دشمن سے دوستی کرنا، اپنے افلاس کو
چھپانا، اپنا دکھ درد کسی سے نہ کہنا۔
فرمایا: خدا پر توکل کئے رہو اور کسی سے کوئی توقع وغرض نہ رکھو۔
فرمایا : خدا کو پہچاننے والا خلقت سے ہمیشہ تنفربرتتا ہے۔
فرمایا: جس کے دل سے غیر حق اٹھ گیا وہ عارف ہے۔
فرمایا: عاشق وہ ہے کہ اگر آج صبح کی نماز ادا کرے تو دوسری صبح تک اسی کے
خیال میں محو رہے۔
فرمایا: عارف وہ ہے جس کادل کونین سے بیزار ہو۔
فرمایا :ثابت قدم مرید وہ ہے جس سے بیس سال تک کوئی گناہ سرزدنہ ہو۔ (مونس
الا رواح)
تبلیغی مساعی اور انتقال:
قاضی حمید الدین ناگوری لکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی
ہدایت وحکم کے مطابق آپ نے متعددنکاح کئے۔ جن سے متعدد اولاد ہیں۔ ان میں
آپ کی صاحبزادی حافظ جمال صاحب ولایت خاتون گزری ہیں آپ نے انہیں خلافت دے
کرمستورات کی تبلیغ واصلاح کیلئے مامور کیا تھا۔ یہاں ہم یہ حقیقت واضح کر
دینا چاہتے ہیں کہ آپ کے پیش نظر صرف ایک مقصد تھا اور وہ تھا تبلیغ اسلام
اور اصلاح مسلمین ایک طرف تو آپ نے اپنی بیٹی کو کامل بناکر مستورات میں
تبلیغ کے لئے مامور کیا اور دوسری طرف آپ نے اپنے خلفاء کو ہند وستان کے
اہم مراکز میں اسی مقصد کی تکمیل کیلئے مقرر کیا۔ آپ کی خانقاہ سے ہزاروں
اشخاص درجہ ء ولایت حاصل کر کے اور اولیا بن کر نکلے اور دنیا بھر میں پھیل
گئے ہندوستان میں جوآج اتنے مسلمان نظر آرہے ہیں یہ دہلی واجمیر کے چشتیہ
اور ملتان کے سہر وردیہ خاندان کی مساعی جمیلہ کا ثمرہ ہے۔ جس شب کو انتقال
ہوا ہے شب حجرہ سے لوگوں کے چلنے پھرنے کی آواز یں آتی رہیں۔
سیرۃالسالکین کی روایت کے مطابق شب انتقال چند بزرگوں نے خواب میں دیکھا کہ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں کہ میں اپنے معین الدین کی
پیشوائی کو آیا ہوں۔ کسی نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے
کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بخش دیا اور ساکنان عرش کے نزدیک مجھے جگہ ملی ہے۔
بعہد شمش الدین التمش ۶۳۳ھ میںوصال ہوا ،صاحب مراۃ الاسرار نے لکھا ہے کہ
مقامات، قطبی دعوتی اور قطب الا قطابی سے گزرکرقطب وحدت ومرتبہ محبوب پر
فائز ہو چکے تھے۔ ستر برس تک شب کو نہیں سوئے ،دن بھر روزہ رکھتے اور رات
بھر مراقب رہتے۔ آپ کا شمار دنیا کے اکابر مشائخ میں ہوتا ہے۔
لارڈکزن نے درست لکھا ہے کہ ہندوستان میں ایک قبر حکومت کر رہی ہے اور وہ
قبر خواجہ غریب نواز کی قبر ہے۔
٭٭٭
|