گزشتہ پانچ سال سے ہر طرف مسائل
میں گھرے ، سسکتے، تڑپتے اور محرومیوں کا شکار ،ملکی نظام حکومت سے مایوس
کروڑوں پاکستانی ایک بار پھر 11 مئی کو ووٹ ڈالنے گھروں سے نکلے۔ اس بار
الیکشن سے قبل لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دلانے کے لیے بھرپور تشہیری مہم
چلائی گئی۔ ہر طرف سے ایک ہی آواز آرہی تھی کہ ”ووٹ دو، بھائی ووٹ دو“
الیکشن سے قبل کچھ بین الاقوامی اداروں کی جانب سے کیے جانے والے سروے
رپورٹس نے اس بات کو ظاہر کیا کہ ملک کی اکثریت جمہوریت کے نظام سے نالاں
ہے اور نظام خلافت کی خواہشمند ہے۔ اس سروے رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے
بعد جمہوریت پسند حلقوں میںتشویش دیکھنے میں آئی، اورپورے ملک میں ذرائع
ابلاغ کی مشینری کو اربوں روپے لگا کر متحرک کیا گیا کہ لوگوں کو اس بات پر
قائل کیا جائے کہ وہ ووٹ نہ دے کر الیکشن کا عملی بائیکاٹ کرنے کے بجائے
اپنا حق ضرور استعمال کریں، الیکشن والے دن ملک کے اکثر پولنگ اسٹیشنوں پر
بم دھماکے ہوئے، فائرنگ ہوئی لوگوں کا خون گرا لیکن الیکٹرانک میڈیا نے اس
کی تمام خبروں کودبائے رکھا اور ہر خبر نامے میں یہی تاثر دیا کہ ہر کوئی
ووٹ دینے نکلا ہوا ہے۔ تخریب کاری کے واقعات کو چھپائے رکھنے کا مقصد بھی
یہی تھا کہ کہیں لوگ خوفزدہ ہوکر ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نکلنے کے لیے
گھبرا نہ جائیں۔
بہرحال لوگوں نے دہشت گردوں کی دھمکیوں، کشیدگی، گرمی کی شدت اور ہر طرح کے
خوف و خطرات کے باوجودہمت کی اور ایک نئی امید کے ساتھ ووٹ ڈالنے نکلے۔
گھنٹوں گرمی میں کھڑے ہو کر اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ ملکی تاریخ کا
ایک بڑا ٹرن آوٹ دیکھنے میں آیا۔ خدا خدا کر کے الیکشن کا عمل مکمل ہوا۔
الیکشن کمیشن کے بڑے بڑے دعووں کے باوجو د انتخابات کا عمل شفاف نہ ہو
سکا۔سندھ سمیت ملک کے بعض دیگر شہروں میں بھی سرعام دھاندلی ہوئی، کچھ
جماعتیں انتخابی عمل سے الگ بھی ہوئیں۔ اب تمام کمی بیشی کے باوجود پاکستان
مسلم لیگ(ن) نے بڑی تعداد میں قومی اسمبلی کے لیے سیٹیں لے کر واضح برتری
حاصل کی، جبکہ پاکستان تحریک انصاف جو نئے پاکستان کا نعرہ لے کر اٹھی تھی
اور اس نے نوجوان طبقے کو علمی طور پر انتخاب میں حصہ لینے کے لیے لائے
حیرت انگیزقومی اسمبلی اور خیبرپختوں خواہ کی صوبائی اسمبلی بھاری تعداد
میں ووٹوں کے ساتھ اپنی قوت کو سامنے لائی، انہی فاتح جماعتوں کے اراکین
آگے جا کر صوبائی اور قومی اسمبلی میں حکومت بنائیں گے۔اس الیکشن میں عوام
نے گزشتہ الیکشن میں اپنی کی جانے والی غلطیوں کا کفارہ ادا کرتے ہوئے سابق
حکومتی جماعتوں عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کو پیچھے چھوڑ
دیا اور نئے لوگوں کا انتخاب کیا۔
ایسے تمام سیاستدان جو برے انجام سے دوچار ہو کر مسترد ہونے کے بجائے عوام
کے ووٹ سے منتخب ہوئے ہیں، میں عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے فاتح امید واروں
سے چند گزارشات کروں گا کہ جو وعدے آپ نے اپنے انتخابی منشور اور انتخابی
مہم کے دوران عوام سے جو وعدے کیے ہیں وہ پورے کریں، وگرنہ اگر اس حکومت نے
بھی عوام سےسابقہ حکومت جیسا سلوک کیا تو تو اگلی بار لوگوں کو انتخابات کے
عمل میں شامل کرنے کے لیے یہ بھی اعلانات ہوں گے کہ جو ووٹ بھی دینے آئے
گا،اس کو فلاں انعام دیا جائے گااور فلاں مرعات سے نوازا جائے گا۔ عوام
موجودہ حکومت سے جو توقعات وابستہ کیے ہوئے ہے۔ انہیں ضرور پورا کیا جائے۔
سابقہ حکومت سے نالاں عوام خطرات کے باوجود اس لیے گھروں سے نکلی ہے کہ
انہیں ملک کے طورو عرض میں بدامنی، دہشت گردی اور ظلم سے نجات ملے۔ عوام نے
تپتی دھوپ میں گھنٹوں کھڑے ہوکر آپ کو ووٹ کے ذریعے حکومتی ایوانوں میں لیے
لایا ہے کہ انہیں راشن اور سی این جی کے لیے لائنوں میں لگنے سے نجات مل
جائے۔ الیکشن سے قبل عوام نے ہڑتالوں، کاروبار و ٹرانسپورٹ کی بندش کو اس
لیے برداشت کیا ہے کہ آئندہ انہیں ان بحرانوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ سابقہ
حکومت کے دور میںمحب وطن پاکستانی بھارت سے ایک طرفہ دوستی اور امریکہ
غلامی کو قبول کرتے ہوئے اس کی خطے میں غیر ضروری مداخلت کے بھی شاکی نظر
آئے ہیں۔ نئی حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک کی نظریاتی و جغرافیائی سر حدوں کو
محفوظ بنانے کے لیے بھارت سے تمام تصفیہ طلب معاملات کو حل کرے اور امریکی
مداخلت کو پاکستان کی پالیسیوں سے ختم کیا جائے۔نیز لوٹی گئی ملکی دولت کو
واپس لایا جائے اور ملک کو بیرونی قرضوں کے جھکڑ سے نکالا ئے۔
تحریر کے شروع میں ایک سروے کا تذکرہ کیا تھا۔ پاکستانی عوام کی ایک بھاری
اکثریت ملک کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتی ہے۔
سابقہ حکومتوں نے ملکی آئین سے رفتہ رفتہ تمام اسلامی قوانین کو خارج کر
دیا ہے۔ ماضی میںحکمرانوںکے سیکولر نظریات کے ردعمل نے ایسے عناصر کو بھی
پیدا کیا ہے جو شدت پسندی پر اتر آئے ہیں اور گزشتہ 5 سالوں میں انہوں نے
پاکستان کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے اور ملک کو عدم استحکام کی جانب دھکیل
کر شعوری یا غیر شعوری طور پر پاکستان دشمن ممالک کے ناپاک عزائم کو کامیاب
کیا ہے۔ ایسے عناصر کی شدت پسندانہ کاروائیوں کو ختم کرنے اور پاکستانی
عوام کی دیرینہ خواہشتات کو پورا کرتے ہوئے موجودہ حکومت کو چاہئے کہ وہ
پاکستان کو حقیقی معنوں میںایک اسلامی فلاحی ریاست بنائیں۔ وگرنہ عوام بار
بار بھیڑچال چلتے ہوئے انتخابات اور جمہوریت کے خوشنما نعروں کے دھوکے میں
بھی نہ آئیں، پھر شاید عوام کبھی کسی حکمران پر اعتماد نہ کرسکیں۔ پھر عدم
اعتماد،افلاس ، بدامنی ، بے روزگاری ایک ایسا ٹرن آوٹ کا سبب بنے گی جو
حکومتیں بنانے نہیں بلکہ ان کو گرانے کے لیے ہو گا۔ |