الیکشن اللہ کے فضل و کرم سے
مکمل ہوگئے اور عوام نے جس ہستی کو اپنے لیا چنا ہے وہ ہستی کسی تعارف کی
محتا ج نہیں۔ مخالفین نے انہیں کرپشن میں ملوث کیا تو کہیں پر سونامی میں
بہانے کے دعوے کیے مگر عوام نے جوفیصلہ کررکھا تھا اس کو نہ تو ڈرایا
جاسکتا تھا اور نہ ہی بدلا جاسکتا تھا۔عوام نے جس کو وزیراعظم کی کرسی پر
بیٹھانا تھا اس کا فیصلہ آج ہوگیا۔ جی ہاںجو کل ایک نئی تاریخ رقم کرنے
جارہا ہے اور ملک کا تیسرا بار وزیراعظم بن کر ملک اور عوام کی خدمت کرے
گا۔وہ ہستی میاں نواز شریف کی ہے ۔ جن کا دل عوام کی خدمت سے سرشار ہے۔ جو
سیاست کو عبادت سمجھ کر کرتاہے۔ جن میں اسلام کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا
ہے۔ مخالفین تو مخالفت کرتے رہتے ہیں مگر عوام جانتی ہے کہ میاں نواز شریف
کا دل ان کے ساتھ دھڑکتا ہے۔
نواز شریف 25 دسمبر1949میں لاہور میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد کا نام میاں
محمد شریف ہے ۔ میاں شریف ایک ہمدرد اور مخلص انسان تھے اور پیشے کے
اعتبارسے وہ ایک صنعتکار تھے جو1947 میںانڈیاسے ہجرت کر کے پاکستان آئے
تھے۔میاں صاحب نے ابتدائی تعلیم سینٹ انتھونی ہائی اسکول سے حاصل کی اس کے
بعد گورنمنٹ کالج لاہور میںزیرتعلیم رہے اور پھر جامعہ پنجاب میں شعبہ
قانون میں تعلیم حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اپنے خاندانی کاروبار
سے منسلک ہوگئے۔میاںنواز شریف کی شادی کلثوم نواز سے ہوئی ۔ ان کی اولاد
میں تین بچے مریم نواز، حسن نواز اور حسین نوازہیں۔میاں نوازشریف کے چھوٹے
بھائی شہباز شریف بھی سیاستدان ہیں اور وہ دو بار پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ رہ
چکے ہیں۔ان کے ایک بھائی عباس شریف بھی ایک بار ایم این اے رہ چکے تھے۔
نواز شریف نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز پنجاب حکومت میں بطور وزیرِ خزانہ سے
شروع کیااسکے بعد میں وہ صوبے کے وزیرِ اعلیٰ بھی بنے۔بطور وزیرِ خزانہ
میاں نواز شریف نے ایسی معاشی پالیسیاں متعارف کرائیں جن سے صوبے کی مالی
خوشحالی میں بہت اضافہ ہوا۔اس کے بعد نواز شریف کو پنجاب کا وزیرِ اعلی
نامزد کیا گیا۔ اس کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں انہوں نے اکثریت حاصل
کی اورمسلسل دوسری باروزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔
1990 میں وہ پیپلز پارٹی کو شکست دے کر وزیراعظم منتخب ہوئے۔ وزارتِ عظمیٰ
کے پہلے دور میںنواز شریف نے ملک گیر سطح پر متعدد ترقیاتی منصوبوں کا آغاز
کیا۔ان کے اقتدار کے دوران اسمبلی سے شریعت بِل منظور کیا گیا تھا۔نواز
شریف نے متعدد سرکاری اداروں کو نجکاری کی لیے پیش کیا ۔اس دوران ترقیاتی
منصوبوں اور صنعت کاری میں سندھ اور بلوچستان کو نظر انداز کرنے کا الزام
عائد کر کے پی پی پی اور ایم کیو ایم نے انہیں سخت تنقید کا ہدف بنایا۔
نواز شریف کو پہلی بار1993میں اس وقت ایوانِ اقتدار سے باہر نکلنا پڑا جب
بطور وزیراعظم ان کے صدر غلام اسحاق خان سے تعلقات نہایت ہی کشیدہ صورت
اختیار کرگئے تھے۔ جس کی وجہ سے ان کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑااورساتھ
ساتھ غلام اسحاق کو بھی صدارت کی کرسی چھوڑنا پڑی ۔
1997میں نواز شریف ایک بار پھر وزیرِ اعظم بنے جس کے بعد انہوں نے متعدد
آئینی ترامیم کیں۔ اس دور میں توہین عدالت کے نوٹس پر ان کا سپریم کورٹ کے
چیف جسٹس کے ساتھ تنازعہ کھڑا ہوا اور بلاآخر کارانہیں فارغ ہونا پڑا۔یہ
نواز شریف کا دوسرا دورِ حکومت تھا جب ہندوستان نے ایٹمی دھماکے کیے تواس
کے جواب میں معتدد قوتوں کے روکنے کے باوجود پاکستان نے بھی ایٹمی دھماکے
کردیے۔ ان دھماکوں کے نتیجے میں انہیں خاصی مقبولیت حاصل ہوئی۔ تاہم اسی
دوران ان کا آرمی چیف پرویز مشرف کے ساتھ کارگل کے معاملے پر تنازعہ ہوگیا
جو ان دونوں کے درمیان شدت اختیار کرتا چلا گیا اور آخر کار بارہ
اکتوبر1999کو فوج نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیااورنواز شریف کو
گرفتار کر کے ان پر ہائی جیکنگ اور دہشت گردی کا مقدمہ قائم کیا گیا
اورانسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت نے انہیں عمر قید کی سزا سنادی۔بعد میں
سعودی عرب کی مداخلت پر ان کی سزا معاف کر کے اہلِ خانہ سمیت سعودی عرب جلا
وطن کردیا۔
بینظیر بھٹو کی وطن واپسی کے تقریباً ایک ماہ بعد نومبر2007 میں نواز شریف
وطن واپس لوٹ آئے۔ 2008 کے عام انتخابات کے نتیجے میں ان کی جماعت نے قومی
اسمبلی کی ایک چوتھائی نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور وفاق اور پنجاب میں
پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت قائم کی ۔ چیف جسٹس کی بحالی کے لیے
لانگ مارچ کیا اور پھر انہیں بحال کرایا۔ مشرف دور میں برطرف کیے گئے سپریم
کورٹ کے ججوں کی بحالی اور آصف زرداری کی بطور صدارتی امیدوار نامزدگی پر
دونوں جماعتوں میں اختلافات پیدا ہوئے۔جس کے بعد نواز شریف کی جماعت نے
وفاق کی مخلوط اتحادی حکومت سے علیحدگی اختیار کی اور بطور اپوزیشن سامنے
آئی۔
2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن مرکز میں سب سے بڑی اور واضح اکثریت کے
ساتھ جماعت بن کر سامنے آئی ہے ۔پنجاب میں بھی مکمل کنٹرول کرلیا ہے اور
پنجاب میں بھی باآسانی حکومت بنائے گی۔ خیبر پختونخواہ، سندھ اور بلوچستان
میں بھی ن لیگ نے اپنی حیثیت کو تسلم کرایا ہے اور یہ سارے کا سارا کریڈٹ
نواز شریف کی ہستی کو جاتا ہے جس نے ان لوگوں کے منہ کو بند کردیے جو کہہ
رہے تھے کہ ن لیگ ختم ہوگئی ہے۔
نواز شریف کی حکومت بننے جارہی ہے اور ہمیں امید ہے کہ پچھلے پندرہ سالوں
کا ازالہ اب ہوگا اور میاں برادران ملک کو ترقی کی راہ پرڈالیں گے۔ عوام سے
کیے گئے وعدے پورے کریں گے۔ سرکاری ملازمین جن کا گلہ ہے کہ نواز شریف کی
حکومت ہمارے حق میں بہتر فیصلے نہیں کرتی ان کو بھی اس بار یہ ثابت کرکے
دکھائیں گے کہ نواز شریف کسی کا حق نہیں رکھتا اور عوام کا نوکر بن کر ان
کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ |