پاکستان کے عام انتخابات حسب
روایت رہے ، ماسوائے اس تبدیلی کےساتھ کہ بیس سال قبل مسلم لیگ (ن) نے جاگ
پنجابی جاگ کا نعرہ لگایا ، جس کا پھل انھیں پنجاب سے مل گیا اور پنجاب
حکومت کےساتھ وفاق میں بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی ۔پنجابی عوام نے
مسلم لیگ (ن) کو نمائندہ جماعت بنا کر دنیا کے سامنے پیش کردیا ۔سندھ میں
دیہی علاقوں کی سندھی عوام کی نمائندہ جماعت پیپلز پارٹی اور توقع کےمطابق
سندھ شہری علاقوں کی نمائندہ جماعت متحدہ قومی موومنٹ بھی اس بار کامیاب
رہی ۔بلوچستان میں جس قسم کی افراتفری اور انتشار ہے وہ اب بھی قائم رہی
اور ہر مکتبہ فکر کو حسب سابق کامیابی ملی ۔تبدیلی اگر کہیں نظر آئی تو صرف
خیبر پختونخوا میں ، جہاں بڑے بڑے برج الٹ دئے گئے ۔پختون قوم کے حوالے سے
یہ بات مسلمہ ہے کہ انھوں نے ہمیشہ کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دئے ہیں
۔پختون قوم نے ہمیشہ سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماضی کی روایات کو
قائم رکھا اور جس جماعت نے ان کے مسائل حل نہیں کئے انھیں مسند اقتدار سے
اٹھا کر باہر پھینک دیا۔گزشتہ بیس سال کا ایک عمومی سطح کا جائزہ لیا جائے
کہ 1993میں پی پی پی، 1997 مسلم لیگ (ن)،2002متحدہ مجلس عمل ،2008 عوامی
نیشنل پارٹی اور اب 2013 میں پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی نے ثابت کیا
ہے کہ پختون قوم سیاسی بلوغت کی انتہا درجے کی سوچ رکھتی ہے۔لیکن اس کا یہ
مطلب نہیں ہے کہ پاکستان کی دوسری سیاسی جماعتوں کی کارکردگی درست نہیں رہی
۔مسلم لیگ (ن) اگر مسلسل پنجاب میں کامیاب ہے تو مخالفیں نے اس کی اپنی
تئیں وجوہات بھی بیان کی ہیں ، سندھ میں پی پی پی اور ایم کیو ایم کے
درمیاں سندھی بولنے والے سندھی اور اردو بولنے والے سندھیوں کی واضح تفریق
کسی سے پوشیدہ نہیں ہے،مذہبی جماعتوں کو اس بار بھی عوام نے مسترد کیا ہے
کیونکہ ان کے قول و فعل میں ہمیشہ تضاد رہا ، فرقہ واریت یا مسلک کی بنیاد
پر ووٹ نہ ملنے کی روایت ، اطمینان بخش ہے کیونکہ یہ صورتحال گروہی تقسیم
کی طرح بڑھے گی تو پاکستان میں مذہبی ، مسلکی خانہ جنگیوں کو دنیا کی کوئی
طاقت نہیں روک سکتی ۔ووٹ کے ٹرن آﺅٹ کی سب سے اہم وجہ صرف میڈیا ہے جس نے
عوام میں شعور پیدا کیا ، سوشل میڈیا نے اپر کلاس کے لوگوں کو متحرک کرکے
گھروں سے باہر نکالا اور عوامی مسائل میں جن جماعتوں نے عوام کو ریلیف نہیں
پہنچایا انھیں سائیڈ میں کر دیا۔پختون عوام نے تاریخ کی بد ترین دہشت گردی
کا سامنا کیا۔ لاکھوں افراد کو اپنے ملک میں ہی ہجرت کرنا پڑی،قومیت کے نام
پر سیاست کرنے والوں نے پختون قوم کے نام پر ڈالروں سے اپنے ذاتی خزانے بھر
لئے،مختلف قومیتوں کو کراچی میں لڑایا ، انتہا پسندی کی سپورٹ کی اور جب
خود پر یہ عناصر حملہ آور ہوئے تو اختلافات بھلا کر انتخابات کےلئے صلح
کرلی ، لیکن جیسے ہی انتخابات میں من پسند نتائج نہیں ملے ، پریس کانفرنس
کرکے الزامات کی بوچھاڑ شروع کردی ۔سندھ میںلسانیت کے نام پر امیدوار کھڑے
کئے ، پھر کراچی اور حیدرآباد کے علاوہ تمام امیدواروں کو غیر مشروط بیٹھا
دیا ، اگلے دن پھر کراچی اور حیدرآباد سے بھی تین صوبائی اور قومی کے علاوہ
تمام نشستوں پر اپنے امیدواروں کو پی پی پی کے حق میں دستبردار کرا دیا۔اگر
یہی عمل کرنا تھا تو ایم کیو ایم کےلئے بھی کیا جاسکتا تھا ، کہ جب نائن
زیرو جاکر اپنی غلطیوں کی معافی مانگ رہے تھے اور مستقبل میں آنے والے
خطرات کےلئے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر مضبوط اتحاد کے جھوٹے دعوے کئے جا رہے
تھے ، اگر اس مرحلے پر کراچی اور حیدرآباد میں اپنے امیدواران کو غیر مشروط
بیٹھانا ہی تھا تو ایم کیو ایم کےلئے بیٹھا دیتے ، کیونکہ کراچی اور
حیدرآباد میں پختون عوام ، مہاجروں کےساتھ رہتی ہے ، ماضی میں پیدا ہونے
والی کدروتوں کو ختم کرنے کا سنہری موقع تھا اس سے باہمی بھائی چارے اور
لسانی محاذ آرائی کا بھی خاتمہ ہوتا ، لیکن اے این پی نے ایک بار پھر جلد
بازی کا مظاہرہ کیا ۔ تاہم اطمینان بخش عمل یہ ہے کہ کراچی کی پختون عوام
بھی خیبر پختونخوا کی عوام کی طرح باشعور ہوتی جا رہی ہے اور اپنا اچھا
بُرا سمجھنے لگی ہے۔اس لئے موجودہ انتخابات اے این پی کےلئے خیبر پختونخوا
کی طرح نوشتہ دیوار ثابت ہوئے۔لاکھوں سلام ہے پختون عوام پر ، کہ اتنے نا
مساعد حالات میں بھی گھروں سے باہر نکلے ،اور طویل لائنوں میں گھنٹوں کھڑے
ہوکر اس ڈر کے باوجود ووٹ ڈالا کہ کسی وقت بھی دہماکہ ہوسکتا ہے۔سوات کے
عظیم پختونوں کو سرخ سلام کہ انھوں نے اپنی عظمت کو ثابت کیا کہ پختون ایک
بہادر قوم ہے اور حالات چاہیے کتنے بھی ناسازگار ہوجائیں انھیں کوئی خوفزدہ
نہیں کرسکتا ۔سلام ہے اُن خواتین پر جنھوں نے بڑھ چڑھ کر ووٹ ڈالے ،پاکستان
کی تاریخ میں پہلی بار ایسے علاقوں سے ووٹ ڈالے گئے جہاں کی خواتین کو علم
ہی نہیں تھا کہ ووٹ کیسے ڈالا جاتا ، یہاں تک کہ انھیں سمجھانے کےلئے
پرائیڈنگ آفیسر کو بھی مشکلات کا سامنا تھا تو امیدواروں کو بھی ، اس لئے
سیاسی جماعتوں کی خواتیں پولنگ ایجنٹوں نے اپنے من پسند امیدوار کےلئے بیلٹ
پیپر پولنگ اسٹیشن سے باہر لے جاکر خواتیں ووٹرز کو بھی دکھائے کہ ووٹ کہاں
اور کیسے دینا ہے۔ پختونوں نے ایک تاریخ رقم کردی ہے۔بلکہ پختون تو ہمیشہ
تاریخ رقم کرتے ہیں ۔اسی لئے تو امریکہ اور اس کے اتحادی ان کی قوت ،اتحاد
اور سیاسی بلوغت سے خائف رہتے ہیں ۔افغانستان ہو یا پاکستان یا دنیا کا
کوئی بھی خطہ ، پختون اپنی روایات کا امین رہا ہے ۔ اس موقع پر پنجاب کی
نمائندہ جماعت مسلم لیگ (ن) سے بھی یہی اپیل ہے کہ دیگر صوبوں کی عوام کو
ماضی کی طرح تنہا کرنے کے بجائے یکساں سلوک رکھے ، تحریک انصاف متوقع طور
پر خیبر پختونخوا میں حکومت بنا نے جا رہی ہے ان سے بھی یہی درخواست ہے کہ
وہ پختون قوم کو مایوس نہ کریں اگر انھوں نے بھی وہی رویہ اپنایا جو ماضی
میں دوسری جماعتیں اپناتی رہی ہیں تو پھر ان کا حشر بھی یاد رکھے ، سندھ
میں ایم کیو ایم کی واضح برتری بھی ظاہر کر رہی ہے کہ سندھ حکومت ان کی
جھولی میں ایک بار پھر آرہی ہے ۔اس موقع پر ان سے بھی دردمندانہ اپیل ہے کہ
پختون قوم کو محبت دیں ان کے مسائل بھی حل کریں ، پوری دنیا میں سب سے
زیادہ سے پختون کراچی میں ہیں ، جہاں ہر قبیلے اورذات سے تعلق رکھنے والا
پختون رہتا ہے ، جو مقامی بھی ہے اور غیر مقامی بھی ، ماضی میں اے این پی
ہمیشہ کراچی کے لاکھوں پختونوں کو موچی اور نائی سے زیادہ نہیں سمجھتی تھی
۔ ایسا نہیں ہے یہاں ہر قبیلے کا چھوٹا ، بڑا اور ہر ذات کا امیر و غریب ،
جاہل اور پڑھا لکھا ، مزدور اور کاروباری طبقہ رہتا ہے۔انھیں اپنے قریب
کریں اور ماضی کی سازشوں کو ناکام بنادیں۔پختون قوم اپنی سیاسی بلوغت کے
حوالے سے ناقابل شکست قوم ہے ، انھیں دیوار سے کوئی نہیں لگا سکتا ۔امید ہے
کہ تمام صوبوں کی نمائندہ جماعتیں اپنی عوام کے ساتھ برابری کے ساتھ سلوک
رواں رکھے گی۔لسانیت کے بجائے امت واحدہ اور پاکستانی قومیت کے فروغ کےلئے
کوششیں کریں گی ۔ ایک نئے اور بہتر پاکستان کےلئے ضروری ہے کہ ہم سب ایک
دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم کریں ۔ذاتی مفادات کے بجائے قومی مفاد کو ترجیح دیں
۔خیبر پختونخوا کی عوام ایک عظیم مثال اور مشعل راہ ہے جس پر چل کر ہی نیا
پاکستان کامیاب ہوگا۔ دنیا بھر میں رہنے والی پختون قوم صرف محبت اور احسن
سلوک کی متقاضی ہوتی ہے ۔ انھیں پیار سے اپنا بنا لو ، دیکھ لو کہ بم
دہماکے انھیں خوفزدہ نہیں کرسکے تو کسی کی سازشیں کیا کریں گی۔پیار سے جہنم
بھی جانے کو تیار ہیں ، طاقت سے کوئی جنت بھی نہیں لے جاسکتا۔ |