اگر آپ اردوادب کو دو حصوں میں
تقسیم کرتے ہیں تو ایک حصّہ کو نثر اور ایک کو نظم کہیں گے اب اسی دوسرے
حصّے میں وہ تمام شاعری آ جائے گی جو اردو ادب میں کی گئی ہے لیکن میرے
سامنے جس نظم کا تذکرہ مقصود ہے وہ نہ تو مثنوی ہے نہ قصیدہ نہ مرثیہ اور
نہ غزل بلکہ محمد حسین آزاد کی کوششوں اور حالی کی تخلیقی جودت کا وہ نمونہ
ہے جسے 1874سے با ضابطہ انجمنِ پنجاب کے تحت لکھا جانے لگا اور اس کا نام
نظم ٹھہرا۔
یہ نظمیں موضوعاتی ہوتی تھیں اور یہ غزل سے قطعاً الگ مزاج رکھتی تھیں۔گو
کہ مولوی محمد حسین آزاد کو اس سلسلہ کا بانی کہا جاتا ہے لیکن حالی نے اس
صنف کو جو معیار بخشا اس نے اس صنف کو با وقار کر دیا۔ اس سلسلے میں
پروفیسر گوپی چند نارنگ فرماتے ہیں:
’’جدید اردو شاعری کی حد بندی آزاد اور حالی کے کلام سے ہوتی ہے۔ جدید
شاعری میں آزاد کی اہمیت جتنی تاریخی ہے اتنی ادبی نہیں۔ حالی نظم کے امام
ہیں انھوں نے زبان و بیان کے نئے سانچے بنائے۔‘‘
(ہندوستان کی تحریک آزادی اور اردو شاعری،پروفیسر گوپی چند نارنگ ص۔321
پروفیسر موصوف کا یہ جملہ ان شواہد کی روشنی میں ہے جس کی تابناکی میں آج
تک حالی کی نظمیں ایک خاص نوع سے مرجعِ خلائق ہیں۔
غور کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ کیا اردو ادب میں اس سے قبل اس نوع کی
موضوعاتی نظمیں نہیں لکھی جا رہی تھیں؟بے شک لکھی جا رہی تھیں اور نظیر کا
نام کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہے
کہ جس دور میں نظیر نے یہ نظمیں لکھیں وہ دور سودا اور میر کے نام سے منسوب
ہے اور یہ دونوں وہ شاعر ہیں جنھوں نے 1720یعنی ولی کا دیوان دہلی آنے کے
بعد سے لے کر 1810تک (واضح ہو کہ سودا کا انتقال 1870میں اور میر کا انتقال
1810میں ہوا) صنف شاعری کو بامِ عروج تک پہنچا دیا اور کم از کم نصف صدی تک
جو شاعری کی اس کے اثرات پوری صدی کیا اس کے بعد کی صدی پر بھی بڑے دیر پا
پڑے۔ ایسے میں نظیر کی نظمیں تہذیبی و ثقافتی بنیادوں پر کھڑی ہونے کے
باوجود ایک تحریک کی شکل نہ لے سکیں اور بعد از نظیر اس وراثت کا کوئی
معقول وارث نہیں پیدا ہو سکا۔ جب کہ آزاد اور حالی نے جب اس صنف کی داغ بیل
ڈالی تو ایسا لگا کہ اردو ادب کی زمین بھی زر خیز ہے اور موسم نے بھی اس کا
بھر پور ساتھ دیا۔
کسی بھی صنف کی شروعات ظاہر ہے یکایک نہیں ہو جاتی اور اس کے لیے کچھ خاص
عوامل بھی ہوتے ہیں۔ اردو ادب کی تاریخ پڑھتے وقت آپ نے بھی پڑھا ہوگا کہ
حالی اور آزاد نے جب اس نئی نظم کی شروعات کی تو پورا ہندوستان ایک خاص قسم
کے تہذیبی اور سیاسی انقلاب سے گذر رہا تھا۔1857کا خونی انقلاب رونما ہو
چکا تھا مغلیہ حکومت کا آخری تاجدار دیارِ غیر میں ایڑیاں رگڑ کر مر چکا
تھا ملکہ وکٹوریہ کے نام کا خطبہ پڑھا جا چکا تھا سرسید احمد خاں کے ذریعہ
اٹھائے گئے اقدام سے ملت میں ایک خاص قسم کی تبدیلی رونما ہو رہی تھی پرنٹ
میڈیا نے اپنے بال و پر حاصل کر لیے تھے جدید سائنسی آلات سے لوگ روشناس ہو
رہے تھے تہذیبی تصادم کے پیشِ نظر ایک خاص نکتۂ نظر پروان چڑھ رہا تھا ،
یورپ کے طرز تعلیم کی طرف لوگ راغب ہو رہے تھے ایسے میں یوروپین زبانوں سے
اردو والوں کی دلچسپی بڑھی ظاہر ہے یوروپین اصناف سے بھی رغبت بڑھی
اوریوروپین زبانوں میں نظم ہی ایسی صنف تھی جس کے مزے سے لوگ واقف تھے اسی
لیے اس کی قدر جانی پہچانی صنف نے دھیرے دھیرے اردو والوں پر اپنا تسلط
قائم کرنا شروع کر دیا۔
ایک خاص بات اور ہے جس کی طرف غور کرنا چاہیے وہ یہ کہ اردو شاعری کی مقبول
صنف غزل انگریزی یا دوسری یوروپین زبانوں میں تو تھی نہیں اور جب یوروپین
زبانوں سے اکتساب کی ضرورت پڑی تو نظم اردو شاعری کے مزاج سے قریب معلوم
ہوئی اور اسے قبول کر لیا گیا۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ غزل کا تعلق
ہمیشہ اجتماعیت سے رہا ہے اس میں تشبیہات و استعارات کا استعمال اجتماعیت
کو قائم کرنے کے لیے بھی کیا جاتا رہا ہے جب کہ نظم کا تعلق انفرادی اقدار
سے راست ہوتا ہے غزل کے محبوب کاتعلق لیلیٰ سے بھی ہوتا ہے ہیر رانجھا سے
بھی شیریں فرہاد سے بھی اور نل دمن سے بھی یہاں تک کہ اگر تصوف کا رنگ چڑھ
گیا تو وہی محبوب خدا بھی ہو جاتا ہے اور خدا کے برگزیدہ بندے بھی لیکن نظم
میں محبوب سلمیٰ ہوتی ہے نورا نرس ہوتی ہے اور وہ انفرادیت کے ساتھ مقبول
ہوتی ہے۔ نظم میں ایک خاص بات یہ ہوتی ہے کہ اس کی گیرائی شخصی جذبے سے
مملو ہوتی ہے اس لیے اس کے اندر ایک خاص شخص کے دل کی کیفیات کا تلاطم
موجزن ہوتا ہے۔ یہ تاثرات کو مشتہر کرنے کا وسیلہ بھی ثابت ہوتا ہے اور
عنوان کے پیش نظر ایک خاص قسم کے ربط کا متقاضی بھی ہوتا ہے۔
بہر حال نظم کی شروعات اردو ادب میں ہو گئی اور خوش قسمتی سے اسے اوائل
عمری میں ہی جہاں حالی ملے جنھوں نے مدو جزرِ اسلام لکھ کر انگریزی تہدیب
سے قوم کو قریب لانے کی کوشش کی اور انھیں یہ باور کرایا کہ علم ایسی شئے
ہے جسے حاصل کرنا تمہارا فرض ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے 1857 کے قتلِ عام کے بعد
کی فضا کو ہموار کرنے کی بھی کوشش کی۔
حکومت نے آزادیاں دی ہیں تم کو
9ترقی کی راہیں سراسر کھلی ہیں
=صدائیں یہ ہر سمت سے آ رہی ہیں
کہ راجا سے پرجا تلک سب سکھی ہیں
تسلط ہے ملکوں میں امن و اماں کا
نہیں بند رستہ کسی کارواں کا
کھلی ہیں سفر اور تجارت کی راہیں
نہیں بند صنعت کی حرفت کی راہیں
جو روشن ہیں تحصیلِ حکمت کی راہیں
تو ہموار ہیں کسبِ دولت کی راہیں
نہ گھر میں غنیم اور دشمن کا کھٹکا
نہ باہر ہے قزاق و رہزن کا کھٹکا
حالی کے بعد اسمعیل میرٹھی نے بھی اس صنف کو اپنایا اور سرسید اور حالی سے
گہرے اثرات قبول کیے چونکہ ان کا تعلق شعبۂ تعلیم سے تھا اس لیے انھوں نے
بچوں کے لیے سبق آموز اخلاقی نظمیں لکھیں۔ ان کی نظموں میں منظر نگاری خاص
طور پر ہندوستان کی منظر نگاری کمال کی چیز ہے جس کا قائل ہونا پڑتا ہے۔
’’صبح‘‘ کے عنوان سے ان کی ایک نظم کے چند بند دیکھیں:
میں سب کار بہوار کے ساتھ آئی
میں رفتار گفتار کے ساتھ آئی
میں باجوں کی جھنکار کے ساتھ آئی
میں چڑیوں کی چہکار کے ساتھ آئی
اٹھو سونے والوں کہ میں آ رہی ہوں
ہر اک باغ کو میں نے مہکا دیا ہے
نسیم اور صبا کو بھی لہکا دیا ہے
چمن سرخ پھولوں سے دہکا دیا ہے
مگر نیند نے تم کو بہکا دیا ہے
اٹھو سونے والوں کہ میں آ رہی ہوں
پجاری کو مندر کے میں نے اٹھایا
موذن کو مسجد کے میں نے جگایا
بھٹکتے مسافر کو رستہ بتایا
اندھیرا گھٹایا اجالا بڑھایا
اٹھو سونے والوں کہ میں آ رہی ہوں
مشتِ از خروارے یہ چند مثالیں میں نے اسی لیے دی ہیں کہ اس کی ر وشنی میں
اردو نظم کے ارتقائی خدو خال واضح ہو جائیں۔
اردو نظم کا یہ وہ دور ہے کہ اس دور میں انگریزی نظموں کے بے حد مقبول
ترجمے بھی ہوئے ہیں اس سلسلے میں غلام مولا قلق میرٹھی کا نام اول آتا ہے
اس کے بعد بانکے بہاری لال مولوی اسمعیل میرٹھی وغیرہ نے انگریزی نظموں سے
اردو میں کامیاب ترجمے کر کے نظم کی مثالیں قائم کیں۔ نظم طبا طبائی کا
منظوم ترجمہ ’’گورِ غریباں کے نام سے بے حد مقبول ہو ا جو انھوں نے گیرے کی
مشہور Elegyکا کیا تھا۔
1864میں قلق میرٹھی کا ایک مجموعہ نظم بھی شائع ہوا تھا جس کا نام ’’جواہر
منظوم‘‘ تھا اور وہ غالباً اردو کا پہلا نظم کا مجموعہ قرار پائے گا
حالانکہ وہ تمام نظمیں انگریزی سے ترجمہ کی گئی تھیں۔ میں نے پہلے ذکر کیا
ہے کہ کسی بھی تحریک کی بنیاد ایک دن میں نہیں پڑتی اردو نظم خاص طور پر
جدید نظم کے نام سے جو صنف آج ہمارے سامنے ہے اس کے سلسلے بھی قدیم روایت
اور شاعری سے جڑتے ہیں لیکن اسے با ضابطہ ایک مخصوص صنف کی طرح مشتہر کرنے
میں آزاد اور حالی کا نام لیا جاتا ہے اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ اس صنف
کو ’’جدید نظم‘‘ بھی 1874کے بعد ہی کہا گیا۔
میں نے پہلے اس کا بھی ذکر کر دیا ہے کہ وہ کون سے حالات تھے جن کے پیشِ
نظر ’’جدید نظم‘‘ ایک ضرورت بن کر اردو شاعری کے ایوان میں داخل ہوئی اس
سلسلے میں سرسید رسالہ تہذیب الاخلاق میں رقمطراز ہیں
’’فن شاعری جیسا ہمارے زمانے میں خراب و ناقص ہے اس سے زیادہ کوئی چیز بری
نہ ہوگی مضمون تو بجز عاشقانہ کے اور کچھ نہیں اور وہ بھی نیک جذباتِ
انسانی کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ ان بد جذبات کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ضد
حقیقی تہذیب و اخلاق کے ہیں․․․․․شاعروں کو یہ خیال ہی نہیں کہ فطری جذبات
اور ان کی قدرتی تحریک اور ان کی جبلی حالت کا کس پیرایہ یا کنایہ یا اشارہ
یا تشبیہہ و استعارہ میں بیان کرنا کیا کچھ اثر کرتا ہے۔‘‘
یہ وہ دور تھا کہ سرسید ہی نہیں حالی بھی اور ان جیسے بہت سے لوگ اس کہنہ
روایتی شاعری کے شاکی تھے لہٰذا دیکھتے دیکھتے ایک کارواں بن گیا جس میں
آزاد حالی نظم طبا طبائی سرور جہاں آبادی اسمعیل میرٹھی وغیرہ شامل ہو گئے
اور یہ تحریک چل پڑی۔
مقدمۂ شعر و شاعری میں حالی نے اسی ماحول کے پیش نظر لکھا کہ:
’’اگرچہ شاعری کو سوسائٹی کا مذاقِ فاسد بگاڑتا ہے مگر شاعری جب بگڑجاتی ہے
تو اس کی زہریلی ہوا سوسائٹی کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ اور آخر کار یہ ہوتا
ہے کہ:جھوٹے قصے اور افسانے حقائق واقعیہ سے زیادہ دل چسپ معلوم ہوتے ہیں۔
تاریخ، جغرافیہ، ریاضی اور سائنس سے طبیعتیں بیگانہ ہو جاتی ہیں اور چپکے
ہی چپکے اخلاق ضمیمہ سوسائٹی میں جڑ پکڑ جاتے ہیں اور جب جھوٹ کے اور ہزل و
سخّریت بھی شاعری کے قوام میں داخل ہو جاتی ہے تو قومی اخلاق کو بالکل گھن
لگ جاتا ہے۔‘‘
اسی ماحول سے برگشتہ ہو کر انجمن پنجاب کا قیام عمل میں آیا اور 8مئی
1874کو اس کا پہلا اجلاس منعقد ہوا اور یہ طے کیا گیا کہ 30مئی 1874 کو
باضابطہ ایک ایسا موضوعی مشاعرہ منعقد کیا جائے جس کا عنوان ’’برسات‘‘
ہواور شعرا اسی عنوان کے تحت اس مشاعرے میں شریک ہوں۔ اور جب یہ موضوعی
مشاعرہ حسبِ پروگرام منعقد ہوا تو حالی نے اس سلسلے کی نظم برکھا رت کے
عنوان سے پڑھی۔
وقت گذرتا رہا اور نظم جدید اپنی ڈگر پر رواں دواں رہی راستے میں اسے اقبال
ملے چکبست ملے اکبر ملے اسمعیل میرٹھی ملے سرور جہاں آبادی ملے شبلی ملے
شوق قدوائی ملے اور بے نظیر شاہ بھی ملے اور یہ صنف مختلف ہیئتی تبدیلیوں
کے ساتھ بام عروج کی طرف گامزن رہی کہ یکایک 19ویں صدی کے بعد بیسویں صدی
کے اوائل میں ہی اسے ترقی پسند تحریک کا ساتھ نصیب ہو گیا۔
غور کریں تو سرسید نے جس تحریک کی شروعات 19ویں صدی میں زبان اور سوسائٹی
سے فاسد مادّہ نکالنے کے لیے کیا تھا تقریباً ترقی پسندوں کا نظریہ بھی وہی
تھا یہ الگ بات ہے کہ ان کے پیچھے ایک مضبوط سیاسی قوت بھی جڑی ہوئی تھی۔
بہر حال نظم نے پھر نئی کروٹ لی اور اس نے انگڑائی لے کر اپنے جوان ہونے کا
اعلان کر دیا۔
حالانکہ چاہیے یہ کہ اس موقع پر میں ترقی پسند تحریک کا پس منظر بیان کردوں
لیکن طوالتِ مضمون کے خوف سے بس اتنا کرونگاں کہ 1936 میں برپا اس تحریک کے
پہلے جلسے کے مینی فیسٹو کا ایک حصّہ پیش کرونگا جس سے میری بات کسی حد تک
واضح ہو جائے گی۔
’’ہماری انجمن کا مقصد یہ ہے کہ ادبیات اور فنونِ لطیفہ کو قدامت پرستوں کی
مہلک گرفت سے نجات دلائے اور ان کو عوام کے دکھ سکھ اور جدو جہد کا ترجمان
بنا کر روشن مستقبل کی راہ دکھائے جس کے لیے انسانیت اس دور میں کوشاں
ہے۔‘‘
’’ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستان کا نیا ادب ہماری زندگی کے بنیادی مسائل کو
اپنا موضوع بنائے۔ یہ بھوک، افلاس، سماجی پستی اور غلامی کے مسائل ہیں۔‘‘
میں نے جیسا کہ ذکر کیا اردو نظم کو ترقی پسند تحریک نے بڑے والہانہ انداز
میں قبول کیا اور دیکھتے دیکھتے ہر ترقی پسند شاعر نظم جدید کہنے لگا یا
یوں کہیں کہ وہ ترقی پسند شاعر ہو ہی نہیں سکتا تھا جو نظم نہ کہتا ہو۔ترقی
پسند تحریک کے مینی فیسٹو میں واضح کر دیا گیا تھا کہ ہمارا مقصد عوام کے
دکھ سکھ اور جدو جہد میں اسے تخلیقی سہارا دینا ہے نتیجتاً اب نظم جدید میں
عوامی لب و لہجہ کا رنگ زور پکڑنے لگا اور دیکھتے دیکھتے اس کا تعلق عام
عوام سے راست ہو گیا۔ ترقی پسند تحریک کا اردو نظم پر یہ بڑا احسان تھا۔
ایک بات اور ابھر کر سامنے آئی کہ ادب کا تعلق سماج سے صرف اتنا نہیں کہ وہ
اس سے صرف حظ اٹھائے بلکہ اس سے سماج کا کچھ فائدہ بھی ہونا چاہیے اور ان
خیالات کو نظم کے پیکر میں ڈھالنے کے لیے جو شعرا کمر بستہ ہوئے ان میں فیض
احمد فیض، مجاز، ساحر، کیفی اعظمی مخدوم محی الدین ، عزیز قیسی، وحید اختر
، علی سردار جعفری، سلام مچھلی شہری،جاں نثار اختر ، جذبی، نیاز حیدر،
پرویز شاہدی وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر
شاعری میں سیاست کا رنگ ہم آمیز ہو کر ایک نئے انداز سے سامنے آتاہے مخدوم
اور فیض نے اردو نظم کو اس دور میں بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ فیض کا جب یہ
نیا انداز نظم کی شکل میں ادبی حلقے میں مشتہر ہوا تو لوگ حیرت زدہ رہ گئے۔
چند روز اور مری جان فقط چند ہی روز
ظلم کی چھاؤں میں دم لینے کو مجبور ہیں ہم
اور کچھ دیر ستم سہہ لیں تڑپ لیں رو لیں
اپنے اجداد کی میراث ہے مجبور ہیں ہم
نقشِ فریادی
ا پھر
Oجب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کہ ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے
نقش فریادی
!ہر اس صنف کو جس کی قسمت میں چمکنا مقصود ہوتا ہے شروع ہی میں کچھ ایسے
فنکار نصیب ہو جاتے ہیں جو اپنی تحلیقی جودت سے اس صنف کو زرنگار کر دیتے
ہیں۔ غزل کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ نظم کو بھی اوائل عمری میں ہی جہاں حالی
اور اقبال ملے وہیں مخدوم فیض اور مجاز جیسے شعرا بھی مل گئے۔
مخدوم کی نظم حویلی کے دو بند ملاحظہ ہوں:
ایک بوسیدہ حویلی یعنی فرسودہ سماج
لے رہی ہے نزع کے عالم میں مردوں سے خراج
ہنس رہا ہے زندگی پر اس طرح ماضی کا حال
خندہ زن ہو جس طرح عصمت پہ قحبہ کا جمال
اے خدائے دو جہاں اے وہ جوہر اک دل میں ہے
دیکھ تیرے ہاتھ کا شہکار کس منزل میں ہے
کوڑھ کے دھبّے چھپا سکتا نہیں ملبوسِ دیں
بھوک کے شعلے بجھا سکتا نہیں روح الامیں
ان نظموں نے جہاں فرسودہ روایت کے بھرم توڑے وہیں حقیقت نگاری کے فن سے بھی
شعرا کو آگاہ کیا اور یہ بات طے ہو گئی کہ روایت سے بغاوت نا گزیر ہے جب تک
قدیم عمارت کی بنیاد نہیں کھودی جائے گی نئی عمارت کی تعمیر نا ممکن ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ ترقی پسند شاعری میں صرف اور صرف بھوک اور بیکاری نیز ظلم
وجور کے گیت گائے گئے بلکہ عشق کے سوتے بھی ان نظموں سے پھوٹے مجاز،جذبی،
فیض یا پھر خود مخدوم جو خود سرگرم اشتراکی ہونے کے باوجود اپنا لہجہ
کلاسیکی ہی رکھا۔ ان کا پہلا مجموعہ سرخ سویرا سے ایک نظم کا یہ بند
دیکھیں:
بہے جاتے تھے بیٹھے عشق کے زرّیں سفینے میں
تمناؤں کا طوفاں کروٹیں لیتا تھا سینے میں
جو چھو لیتا میں اس کو وہ نہا لیتا پسینے میں
مئے دو آتشہ کے سے مزے آتے تھے جینے میں
یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے یاد ہے اب بھی
’’سرخ سویرا‘‘
اردو نظم نگاروں کا یہی ایک قافلہ نہیں تھا جو اردو نظم کو حقیقت نگاری کے
بامِ عروج پر لے جا رہا تھا بلکہ اس گروہ کے ساتھ ساتھ ایک اور گروہ بھی
سرگرمِ سفر تھا جسے حلقۂ ارباب ذوق کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس گروہ کی
بنیاد تو نشستوں سے پڑی لیکن 1939میں ہی ’’بزم افسانہ گویاں‘‘ کے نام سے چل
رہی اس بزم کا نام ’’حلقہ اربابِ ذوق‘‘ رکھ دیا گیا اور اب اس نشست میں
افسانہ کے علاوہ دیگر اصناف لکھنے والوں کو بھی بلایا جانے لگا۔ کسی حد تک
آزاد خیالوں کا یہی گروہ اردو ادب کی تاریخ میں حلقہ اربابِ ذوق کے نام سے
مشہور ہوا اور اس گروہ میں شامل بہت سارے شعرا میں چند ایسے بھی شعرا تھے
جنھوں نے نظم کو نئی دنیا میں پہنچا دیا۔ میراجی اس سلسلے کا بہت اہم نام
ہے اس کے علاوہ قیوم نظر اختر الایمان اختر شیرانی اپندر ناتھ اشک احمد
ندیم قاسمی شاد عارفی کو کون نہیں جانتا۔
خوش قسمتی سے ترقی پسند تحریک سے اس گروہ کا نظریاتی اختلاف شروع ہی سے رہا
خوش قسمتی کا لفظ میں نے یوں استعمال کیا کیونکہ ادب میں نظریاتی معرکے جب
بھی ہوئے ہیں ادب کو فروغ ہوا ہے تاریخ ادب اس کا گواہ ہے۔ ویسے بھی ترقی
پسند تحریک نے جہاں اردو ادب کے فروغ میں نمایاں رول ادا کیا وہیں یہ بھی
حقیقت ہے کہ اس تحریک کی جڑیں کہیں نہ کہیں سیاست سے آب و دانہ کشید کرتی
تھیں اور دھیرے دھیرے اس تحریک میں مارکس اور لینن کے نظریات کا تبلیغ کیا
جانے لگا جب کہ حلقہ ارباب ذوق اور بعد میں جدیدیت نے اس کا کھل کر مذاق
اڑایا۔ ترقی پسند تحریک کے زوال کے اہم اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ رفتہ
رفتہ نعرہ بازی بہت حد تک اس تحریک میں دخیل ہو گئی۔
لیکن اس وقت ہمارا موضوع اردو نظم ہے اس لیے اس کے تفصیل میں جانے سے بہتر
ہے کہ ہم نظم پر ذہن مرکوز کریں۔جب کسی ادب میں ادیبوں کی تعداد میں اضافہ
ہونے لگتا ہے تو اس طرح کے نظریاتی اختلاف شروع ہو جاتے ہیں ادیب و شاعر
کبھی بھی کسی بنے بنائے راستے پر مستقل نہیں چلتے ان کے افکار بدلتے رہتے
ہیں اس میں توسیع ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ نئی دنیا کی تلاش میں رہتے ہیں ان
تحریکات و رجحانات کے پیشِ نظر بھی اردو نظم کے کینوس میں بہت حد تک توسیع
ہوئی سیاست کا ادب میں در آنا کوئی حیرت کی بات نہیں ادب چونکہ سماج کے
افعال و کردار نیز افکار کا آئنہ ہوتا ہے اس لیے جب سماج کے افکار بدلتے
ہیں تو ادب پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک سانحہ
بٹوارے کا ہوا جس نے کم از کم اردو ادب کی فضا کو بہت دنوں تک اپنی گرفت
میں رکھا۔ بٹوارے کے خوں چکاں واقعات نے اجتماعیت کے نظریہ کو بے حد نقصان
پہنچایا اور جدیدیت کا نظریہ اردو ادب میں داخل ہو گیا اس نظریہ کے تحت فرد
اپنے آپ میں ایک ایسا کرّہ ثابت ہوا جس کے داخلی سرحدوں کی تلاش ہنوز تشنۂ
تکمیل تھی لہٰذا ایک بہت بڑا طبقہ اپنی ذات کی تلاش میں سرگرداں ہو گیا۔ اس
کے اثرات بھی اردو نظم پر پڑے لیکن یہ دھول دھپّا بہت دنوں تک جاری نہ رہ
سکا اور 70اور 80کے بعد کی نسل نے اپنے ہونے کا احساس دلانا شروع کر دیا۔
ایک اہم بات یہ ہوئی کہ یہ ہمعصر شعرا اپنے آس پاس کی دنیا کو اپنی آنکھوں
سے دیکھ کر اسے ادب کا حصّہ بنانے لگے۔ روایت کا بھوت ان کے سر پر نہ چڑھا
اور نہ ہی کسی نظریہ کی تبلیغ کو انھوں نے اپنا فرض جانا۔ نظم کے نئے شعرا
کی فہرست یوں تو بہت طویل نہیں لیکن پھر بھی بہت سے ناقدوں نے اپنے اپنے
طور پر جو فہرست بنائی ہے اس میں مندرجہ ذیل نام ابھر کر آتے ہیں یہ وہ نام
ہیں جو سردار جعفری اخترالایمان یا میراجی کے بعد کی نسل کے ہیں۔ جیسے
بلراج کومل، محمد علوی شہریار شفیق فاطمہ شعریٰ صلاح الدین پرویز ، ندا
فاضلی، اکمل حیدر آبادی، شفیق تنویر، صہبا وحید ایم کوٹھیاوی راہی، مشتاق
علی شاہد، قاضی سلیم، زبیر رضوی، عتیق اﷲ ، جینت پرمار ، شہناز نبی ، صادق،
تصدق حسین خالد، کمار پاشی وغیرہ۔
70یا80کے بعد کے شعرا نے یا تو اپنے ماحول کے مطابق یا پھر قصداً احتجاج کے
لہجے کو مدھم کیاحالانے یہ امر تخلیق کار کے لیے مہلک بھی ثابت ہوتا ہے
کیونکہ قصداً احتجاج کے لہجے کو دبانا بے حسی کے مترادف بھی قرار پاتا ہے
لیکن ان سب کے باوجود نئی نظم میں زندگی کے تئیں بیزاری نہیں ہے وہ کائنات
سے اپنا رشتہ جوڑتی ہے اور مظاہرِ کائنات سے دل چسپی کا اظہار کرتی ہے ۔
زندگی کے بارے میں اس کا نظریہ صاف ہے کہ وہ اسے با معنی سمجھتی ہے ایک خاص
قسم کا عزم بھی ان نظموں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اپنے آس پاس کے حادثات و
سانحات سے یہ نظمیں اثر قبول کرتی ہیں اور اس پر تبصرہ بھی کرتی ہیں۔
شفیق فاطمہ شعرا کی طویل نظم صدا بہ صحرا کا یہ بند ملاحظہ ہو:
تری رہگذر میں دھڑک اٹھا دلِ زار پھر
نہ کبھی ملے نہ کبھی قرینے سے بات کی
غمِ کائنات کی اوٹ میں نہ بیاں ہوئیں
وہ ادھوری پوری کہانیاں غمِ ذات کی
کہ انھیں سنانے کا اور سننے کا حق نہ تھا
تری رہگذر میں چراغ میرے نیاز کا
جو بھڑک اٹھا بھی تو چھپ کے اوٹ میں کنج کی
تجھے کیا خبر کہ ہوائے دشت کے سیل نے
اسے کتنے زخم عطا کیے اسے کیا دیا
Oسکھی پھر آ گئی رت جھولنے کی گنگنانے کی
سیہ آنکھوں کی تہہ میں بجلیوں کے ڈوب جانے کی
گگن میں رنگ آنچل میں دھنک کے مسکرانے کی
امنگوں کے سبو سے قطرہ قطرہ مئے ٹپکنے کی
گھنیرے گیسوؤں میں ادھ کھلی کلیاں سجانے کی
ٹھیک اسی طرح زبیر رضوی نے بھی اپنی نظموں میں داستانوں اور قصّے کہانیوں
کو نئے سرے سے جدید انداز میں لکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کی ایک نظم
’’عاقبت اندیش بیٹے‘‘ کا نمونہ کافی ہوگا۔
پرانی بات ہے
لیکن یہ انہونی سی لگتی ہے
ہمیشہ ان کے ہونٹوں پر
مقدس آیتوں کا ورد رہتا ہے
ہمیشہ ان کی پیشانی
ریاضت اور عبادت کی نشانی کو لیے
روشن رہا کرتی
وہ پانچوں وقت
مسجد کے مناروں سے اذاں دیتے
وہ میلوں پا پیادہ
تیز دھوپوں میں سفر کرتے
خدا کی برتری اس کی عبادت کے لیے
لوگوں میں جا کر
رات دن تبلیغ کرتے
لوگ ان کو مرحبا کہتے
حکایت ہے
وہ برسوں بعد
جب اپنے گھروں کو لوٹ کر آئے
انھیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی تھی
ان کے بیٹوں نے
انھیں بالکل نہ پہچانا
گھروں کے آنگنوں کی باہمی تقسیم کر لی تھی
مکانوں کے نئے نقشے بنائے تھے
اور ان کی ساری چیزیں وہ
غریبوں اور محتاجوں میں جا کر
بانٹ آئے تھے
آپ نے دیکھا اس نظم کا مضمون یقیناً داستانی ہے لیکن جدید انداز میں اس کی
تخلیق نے ہمعصر حقائق کو جس خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے وہ اپنے آپ میں
نیا بھی ہے اور بھرپور بھی۔
ہمعصر نسل میری مراد موجودہ نظم نگار شعرا سے ہے وہ بھی نظمیں لکھ رہے ہیں
لیکن یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ فکشن کی طرح نظم بھی لکھے تو بہت جا رہے
ہیں لیکن آنے والے وقت میں کیا یہ ہمعصر شعرا اپنا کوئی مخصوص ڈکشن یا
اسلوب قائم کر پائیں گے کیونکہ ایک بات تو طے ہے کہ نظم تعمیر کا فن ہے اور
اس بات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ نظم اپنے عنوان کے ساتھ انصاف کرے اس
میں حشو و زواید کی کوئی گنجائش نہیں بیجا طوالت یا بے حد اختصار بھی نظم
کے لیے نقصان دہ ہے ساتھ ہی اسے ہمیشہ اپنے عہد کے مسائل کا بھی آئینہ رہنا
چاہیے۔ان باتوں کے پیش نظر ہمعصر شعرا اپنا کیا مقام بنائیں گے یہ پردۂ خفا
میں ہے امید کی روشنی ہمارے ساتھ ہے لیکن حالات بہت بہتر نہیں ہیں۔ |