مجھے الیکشن سے بچاؤ

ملک خداداد پاکستان میں انتخابات کا موسم جاری ہے۔ اب قبل از انتخابات اور بعد از انتخابات سیاسی تجارت ہوگی۔ نوٹوں کی بوریوں کے منہ کھل جائیں گے۔ دام لگیں گے، ضمیر خریدے جائیں گے۔ خوب مزا آئے گا۔
ہمیں تو موجودہ انتخابی ماحول میں کوئی نئی بات نظر نہیں آرہی۔ وہی وعدے وہی تسلیاں، وہی ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا، وہی تقریری حملے اور تقریری جملے۔ نہ جانے عمران خان اور نواز شریف کی زبانوں کو کیا ہوگیا ہے جو اخلاقیات کا ’’اعلئ و ارفع‘‘ نمونہ پیش کررہی ہیں۔ آخر انتخابات کیوں کرائے جاتے ہیں۔ ہماری سمجھ دانی اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ جب انہی چہروں کو دوبارہ مسند اقتدار پر جلوہ گر ہونا ہے۔ وہی حکومت کی چال، وہی عوام کی تقدیر، تو پھر الیکشن پر اتنا پیسہ لگانے کا فائدہ؟ یہ انتخابات ہوئے یا خرافات؟ اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ الیکشن کیا ہوتا ہے تو ہم کہیں گے کہ ایک خراب حکومت کو ہٹا کے دوسری خراب حکومت کو بٹھانے کا نام الیکشن ہے۔

جب سے انتخابات کا اعلان ہوا ہے حکومت پریشان سی ہے، اپوزیشن ناتوان سی اور پبلک حیران سی۔سیاست کرنا بڑے ’’دل گردے‘‘ کا کام ہے یعنی یہ کام ’’قصاب‘‘ ہی کرسکتا ہے۔ الیکشن کیا آتے ہیں سیاست دانوں کے لئے چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی شروع ہوجاتی ہے۔ آپ کو معلوم ہے امتحان کے زمانے میں اچھے بچے چوبیس گھنٹے پڑھتے رہتے ہیں اسی طرح انتخابات کے زمانے میں ہو نہار سیاست داں چوبیس گھنٹے ’’الیکشن !الیکشن!‘‘کرتے رہتے ہیں کچھ اور کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔جس طرح ایک فلمی ہیرو جو بہت موٹا ہوگیا تھا۔ ڈاکٹر نے اسے چہل قدمی کا مشورہ دیا ۔ اخباری نمائندے سے اس کے یہ مکالمے ہوئے:۔
’’آپ صبح اٹھ کر کیا کرتے ہیں؟‘‘
’’منہ ہاتھ دھوتا ہوں، دانت مانجھتا ہوں پھر چہل قدمی کے لئے باہر نکل جاتا ہوں‘‘
’’پھر دوپہر کو، سہ پہر کو سارا دن کیا کرتے ہیں؟‘‘
’’شام کے وقت چہل قدمی کرکے واپس آتا ہوں۔ کچھ اور کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا‘‘

اصغر خاں ہمارے ملک کے بڑے جیّد سیاست داں ہیں جو عمر بھر سیاست کرتے رہے اور عمر بھر الیکشن ہارتے رہے۔ ممکن ہے ان کے ہارنے کی وجہ یہی ہو کہ الیکشن کے دوران وہ فل ٹائم انتخابی مشقت نہیں کرسکتے ہوں۔ بے چارے تھک جاتے ہوں گے۔ ایسے لیڈروں کے لئے سیاسی نسخہ کیمیا یہ ہے کہ انتخابات کا بائیکاٹ کردیں۔ عزت سادات بھی محفوظ اور چوبیس گھنٹے کی انتخابی مشقت سے بھی بری الذمہ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انتخابات کے بائیکاٹ کا کیا جواز پیش کیا جائے تو عرض ہے کہ عشق اور سیاست، دو ایسے میدان ہیں جہاں جواز موجود نہیں ہوتا تخلیق کرنا پڑتا ہے۔

اصغر خاں ہی کے ہم قسمت اتر پردیش کے ایک پنڈت جی ہیں جو ہر الیکشن میں قطب مینار کی طرح کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایک ہی بات کہتے ہیں کہ:
’’حالات کی دیکھو دھوپ کڑی ہے۔ الیکشن کی افتاد سر پر پڑی ہے۔ دوسری پارٹیوں کی مخالفت بھی بڑی ہے۔ عوام کی دکھتی رگ بھی کھڑی ہے …… مگر دیکھنا اب کی بار میں ضرور جیتوں گا‘‘

اور الیکشن والے دن وہ اوّل نمبر آتے ہیں یعنی ہارنے والوں میں اوّل۔ اخباری نمائندے ان سے پوچھتے ہیں ’’پنڈت جی’ کیا ہوا؟ آپ کے تو بھاگ بہت اچھے تھے‘‘ حیرت اور مایوسی کے عالم میں جواب دیتے:
’’پتہ نہیں میرے بھاگ کہاں بھاگ گئے تھے؟‘‘

الیکشن میں کامیابی کے لئے جلسہ سازی اور تقریر نویسی کی بہت اہمیت ہے۔ بعض مقرر فی البدیہہ تقریر کریں تو تلفط کی غلطیاں ہوتی ہیں۔ لکھی ہوئی کریں تو کتابت کی۔ ہمیں وہ تقریر پسند آتی ہے جس میں جملے بازی کے چھینٹے ہوں اور رعایت لفطی کی پچکاریاں۔ اگرچہ ایک تقریر ہم نے ایسے مقرر کی بھی سنی جو بڑی شیریں اور ملائم گالیاں دیتے اور دشنام طرازی کا انداز سبحان ﷲ۔ معلوم ہوتا منہ سے پھول جھڑ رہے ہیں۔ہمارا جی چاہتا ان پھولوں کو اٹھاکر گل دستہ بنالیں یا اپنے گریبان میں سجالیں۔ سچ ہے کسی کی بد دعائیں بھی شہد آلود ہوتی ہیں اور کسی کی دعائیں بھی کونین کی گولیاں۔ معلوم ہوا مرثیہ گوئی اور غزل گوئی کی طرح دشنام گوئی بھی ایک تخلیقی صلاحیت ہے۔

ہر لیڈر عوام کی کمزورئ حافظہ سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے۔ وہ مستقبل کی باتیں تو بہت کرتا ہے۔ میں الیکشن جیت گیا تو یہ کردوں گا، وہ کردوں گا۔ یہ نہیں بتاتا کہ ماضی میں اس نے کیا کیا ، کیا؟ اگر کوئی لیڈر یہ کہے کہ ’’میرا ماضی بہت خوب صورت تھا‘‘ تو اس سے اس کی مراد ہوتی ہے ’’میں ماضی میں بہت خوب صورت تھا‘‘

موسم بہار، موسم خزاں، موسم سرما، موسم گرما، غرض ہر موسم میں لیڈر عوام سے دور رہتا ہے۔ صرف الیکشن کے موسم میں وہ ان کے قریب آتا ہے اور زیادہ سے زیادہ غریبوں کو اپنے انتخابی جلسے میں جگہ دینے کی کوشش کرتا ہے۔شاعر نے تو کہا تھا:
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو ’’جگا‘‘ دو
لیڈر کہتا ہے:
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو ’’جگہ‘‘ دو

ہمیں وہ لیڈر اچھے نہیں لگتے جن کی عمر کم ہے مگر بوڑھے زیادہ ہیں۔ وہ لیڈر اچھے لگتے ہیں جن کی عمر زیادہ ہے مگر بوڑھے کم ہیں مثلاً پیر پگارا مرحوم بہت اچھے لگتے تھے جن کی عمر بوڑھی تھی مگر وہ خود جوان تھے ۔ جس دن ان کے بوڑھے چہرے پر شادی کادوسرا سہرا بندھا تھا، اس دن ہم نے کہا تھا اب وہ جوان نہیں رہے ’’نوجون‘‘ ہوگئے۔ امریکی مقامی الیکشن میں ہم نے ایک کم عمر خاتون امیدوار دیکھی جس کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے تھا۔ وہ حسین بھی تھی اور ذہین بھی۔ اس نے اپنی تقریر میں کہا تھا:
’’میری عمر 32سال ہے۔ اگر میری نازک بدنی اور چہرے کی معصومیت کو بھی شامل کرلیں تو میری عمر کے دونوں ہندسے پلٹ جائیں گے‘‘

ہم انتخابات کے بارے کوئی پیشین گوئی کرکے پیر پگارا مرحوم کے ہم پلہ بننا نہیں چاہتے۔لیکن ہاں، ایک پیشین گوئی ضرور کرتے ہیں کہ زرداری کا دور حکومت پاکستان کے پارلیمانی حکمرانوں میں سب سے طویل ہوگا۔ ہم تو کہتے ہیں صدرزرداری میں جیسی ’’صلاحیتیں‘‘ ہیں ویسے ان کو ساتھی اور ہم رکاب میسر نہ آسکے۔وہ جو شاعر نے کہا ہے:
ہائے کس اندھے پہ میری ذات کے جوہر کھُلے

ہمیں افسوس ہے کہ فوجی بادشاہ پرویز مشرف موجودہ الیکشن کی برکات سے مستفید نہ ہوسکے اور عوام ان کی ہار یا عدم مقبولیت کا بہ نفس نفیس درشن نہ کرسکے۔ اقتدار کی جو راہ بلکہ شاہراہ صدر مشرف نے اپنائی تھی دیکھئے وہ کہاں جا کر ختم ہوتی ہے۔ وہ اعتدال پسند ہوں نہ ہوں روایت پسند ضرور ہیں جبھی تو ایوب خاں اور ضیاالحق کی روایات کو انہوں نے زندہ رکھا۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ سرکاری ملازم رشوت پر جیتے ہیں۔
بیوپاری ذخیرہ اندوزی پر
ادیب ہوا پر
اور فوجی …… اقتدار پر

خدا نہ کرے مگر ہمیں ڈر ہے کہ یہ انتخابات لہو آمیز ہونے کا ایک بلند ریکارڈ قائم نہ کردیں۔ایمرجنسی الیکشن جو بغیر پلاننگ اور ترمیمات و اصلاحات کے شروع کردئیے گئے۔ ہمیں تو الیکشن کمیشن کے وعدوں کا جنازہ نکلتا محسوس ہورہا ہے۔ انتخابی کلچر کا ایک نیا اور خطرناک شوشہ یہ کہ دہشت گردی انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کا سب سے موثر حربہ ہے۔پہلے لوگ انتخابی جلسوں کا ’’رخ‘‘ کرتے تھے، اب ’’بے رخی‘‘ برتتے ہیں۔الیکشن 2013ء کا ووٹر با آواز خاموشی کہہ رہا ہے ’’مجھے مرنے سے بچاؤ …… یعنی الیکشن سے بچاؤ‘‘
بس یہ کہ انتخاب جاوے ہی جاوے اور …… انقلاب آوے ہی آوے۔
AKHLAQ  AHMED  KHAN
About the Author: AKHLAQ AHMED KHAN Read More Articles by AKHLAQ AHMED KHAN: 4 Articles with 3359 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.