عام انتخابات 2013 جن کے بارے
میں مختلف چہ مگویہ جاری تھی کہ ہونگے یا نہیں ہونگے بالآخر ہوگئے. یہ ایک
لحاظ سے پاکستانی قوم کی فتح بھی ہے کہ ان انتخابات میں ان قوتوں کو زبردست
شکست کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ
کوزبردستی پاکستان کا جنگ بنائے رکھا .اور اس سلسلے میں پروپیگنڈے اور طاقت
دونوں کا بھرپور استعمال بھی کیا .ان عام انتخابات نے یہ بات ثابت کردی کہ
وہ قوتیں اپنی دعوؤں میں سو فیصد جھوٹے تھے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف
امریکی جنگ نہ کبھی ہماری جنگ تھی اور نا ہی ہو سکے گی .بلکہ سچ یہ ہے کہ
پاکستانی عوام اس جنگ کو اسلام کے خلاف صلیبی جنگ کے طور پر دیکھتی
ہیں.لیکن دوسری جانب یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ان انتخابات نے
پاکستانی سیاستدانوں کا توجہ کئی اہم ملکی اور بین الاقوامی امور سے ہٹائے
رکھا جو کہ کسی بھی طور قوم کے لیئے نیک شگون نہیں ہے . ان امور میں ایک تو
بلوچستان کے علاقے مشکال میں آنے والا زلزلہ تھا جس پر سوائے چند دینی
رفاحی اداروں کے سوا کسی نے توجہ ہی نہیں دی .اور دوسرا پاکستانی جیل میں
ہندوستانی دہشت پر حملہ اور اس کے بعد مقبوضہ کشمیر کے ایک جیل میں قید
پاکستانی قیدی ثناءاللہ پر حملہ اور پھر اسکی شہادت جیسے انتہائی اہم امور
شامل ہیں .
مقبوضہ کشمیر کے کوٹ بلوال جیل میں پاکستانی قیدی پر بیہمانہ حملہ اگر
انتخابات کے عین موقع پر نہ ہوتا تو شائد ہم اسے کچھ نہ کچھ توجہ ضرور دیتے
.چلیں اور اگر کچھ بھی نا ہوتا تو چند ایک مظاہرے تو ضرور ہوتے لیکن آفسوس
سے لکھنا پڑرہاہے کہ انتخابات کا بخار ہمیں اتنا چڑھا ہوا تھا کہ ہم نے
اسکے سوا کسی اور جانب توجہ دینا گوارا بھی نہ کیا . حالانکہ یہ ایک فوری
توجہ طلب کیس تھا کیونکہ اسس پر ایک سوچے سمجھے سازش کے تحت اس وقت حملہ
کیا گیا جب پاکستانی جیل میں قید سزائے موت کا منتظر سربجیت سنگھ پر حملہ
ہوا تھا .یہاں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ اگر معاملہ صرف قیدی پر حملے اور
جوابی حملے کا ہوتا تو پھر یہ مسئلہ اتنا اہم نا ہوتا بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے
کہ ان دونوں قیدیوں کی حثیت میں زمین اور اسمان کا فرق تھا اور وہ یہ کہ
سربجیت سنگھ ایک ہندوستانی دہشت گرد تھا جس نے پاکستان میں بھر پور
دہشتگردانہ کارروائیاں کر رکھی اور بالآخر ہندوستان فرار ہوتے ہوئے پکڑا
گیا . اس کے بعد اس پر کیس چلا اور اسے اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیا
گیا لیکن وہ صفائی پیش کرنے میں ناکام رہا اسکے بعد اسکو سزائے موت ہوئی .اسی
سزائے موت کو نہ صرف سپریم کورٹ نے برقرار رکھا بلکہ صدر پاکستان بھی
سربجیت کی رحم کا اپیل مسترد کرچکا ہے .لیکن اسکے باوجود بھی اسکی رہائی کی
کوششیں جاری رہی جس پر طیش میں آکر ایک پاکستانی قیدی نے حملہ کردیا جس سے
وہ زخمی ہوا اور بالآخر چل بسا .یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ سربجیت سنگھ پر
ہونے والے حملے کا نہ صرف پوری قوم نے مذمت کی تھی بلکہ اسے اسلام اور
پاکستانی اقدار کے بھی خلاف قرار دیا تھا .لیکن بات پھر وہی آجاتی ہے کہ
اگر انڈیا اپنے تسلیم شدہ جاسوس کی رہائی کی کوشش نا کرتی تو پھر یہ بات
یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ پھر اس کے قیدی پر حملہ بھی نا ہوتا .اس سلسلے
میں پاکستانی متعلقہ حکام بھی قابل مذمت ہے جس نے ایک ثابت شدہ دہشت گرد
کقو مہمان بنائے رکھا اور بالآخر یہ واقعہ پیش آیا .
دوسری جانب آگر بات کی جائے پاکستانی قیدی ثناءاللہ پر حملے کی تو اس بات
میں کیا شک ہے کہ وہ ایک چرواہا تھا جو غلطی سے سیالکوٹ کے قریب سرحد پار
کرگیا اور پھر اسے ہندوستانی فورسز نے پکڑ کر زندان مین قید کرڈالا. اور
سربجیت سنگھ پر ہونے والے حملے کو جواز بنا کر ہندوستانی جیل حکام کی ملی
بھگت سے ایک سابق ہندوستانی فوجی جو کہ قید میں اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ
ثناءاللہ پر حملہ آور ہوا .اور یوں وہ بیہمانہ تشدد کے بعد جام شہادت نوش
کرگیا . حالانکہ سربجیت پر ہونے والے حملے کے بعد ہندوستانی حکام کی یہ ذمہ
داری تھی کہ وہ انڈین جیلوں میں قید پاکستانی اور دیگر مسلمان قیدیوں کی
تحفظ کو یقینی بناتے .
بہر حال پہلے جو ہوا سو ہوا اب جب کہ پاکستان میں تبدیلی آچکی ہے اور وہ
بھی میاں محمد نواز شریف کی شکل میں جسکا پہچان ملک میں بہر حال ایک محب
وطن رہنما کو کے طور پر ہے .تو ہم اللہ تعالی سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ
خارجہ پالیسی بناتے وقت بہر حال پاکستانیوں کے جذبات کو ٹھیس نہیں
پہنچایئنگے . گو کہ ان دنوں انکا جھکاؤ ہندوستان کی طرف کچھ زیادہ دکھائی
دے رہا ہے جس پر اہل وطن کا مضطرب ہونا یقینی ہے لیکن ہم پھر بھی یہ امید
رکھتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک سیاسی کھیل کے سوا کچھ نہیں ہوگا اور وہ جانے
والی حکومت یعنی پی.پی.پی کی حکومت کا انجام سامنے رکھتے ہوئے درست سمت میں
سفر جاری رکھیں گے اور تمام بیرونی طاقتوں کے ساتھ برابری کے بنیاد پر
تعلقات استوار رکھیں گے . انشاءاللہ. |