شداد کی بنائی ہوئی شیطانی جنت
تاریخ میں مشہور ہے۔کہا جاتا ہے جب ملک الموت شداد کی روح قبض کرنے کے بعد
بار گاہِ الٰہی میں حاضر ہوا تو اُس سے سوال کیا گیا ؛کیا کسی کی روح قبض
کرتے ہوئے ترس بھی آیا؟جواب دیا کہ دو مواقع پر ترس آیا ،ایک مرتبہ سمندر
میں ڈوبے جہاز کے تختے پر تیرتی ماں کا روح قبض کرنے اور نومولود بچے کو
زندہ چھوڑنے پر ترس آیا تھا اور پھر آج شداد پر کہ اس نے اتنی محنت سے جنت
بنائی مگر ایک نظر دیکھنا بھی نصیب نہ ہوا ۔ ربِ کائنات نے فرمایا !شداد؛
وہی بچہ تھا جس کی پیدائش کے فوراً بعد ماں کی روح قبض کر دی گئی اور اس کو
بچا لیا گیا اور پھر دنیا کی حکمرانی عطا کی۔ مگر طاقت کے اندھے نشے کا
ایسا شکار ہوا کہ اللہ کے مقابلے میں آن کھڑا ہوا۔ قارئین کرام! مشرف کی
سوانح حیات اور’’ وکی پیڈیا‘‘ کسی ایسی خصوصیت واہلیت سے یکسرخالی ہے جس کی
بنا پر اس کو عظیم اسلامی ملک کی فوج کی سپہ سالاری کا حق ہوتا۔اللہ کریم
نے مشرف کو بھی ایک موقع فراہم کیامگر اس کے دماغ میں طاقت کا نشہ بارود بن
کر بھر گیا،جس کو اس نے اسلام ،مسلمانوں اور اللہ کے پاک گھروں پر گراکر
اللہ کے نام کو مٹانے کی کوشش کی۔افغانستان میں اسلامی سلطنت پر بارود
گرانے کے بعد اس کے سرپرست بڑے شیطان اور ساتھی چھوٹے شطونگڑوں نے،اس کو
مشورہ دیا کہ جب تک اللہ کے گھروں سے اللہ اکبر کی صدا آتی رہے گی،تیرے
گندے ذہن میں چھپی ہوئی شیطانی خواہشات کی تکمیل ممکن نہیں۔چونکہ اس نے
اسلام آباد میں قائم اہم مساجد کو ڈھانا شروع کیا ،جب لال مسجد اور جامعہ
حفضہ سے صدا احتجاج بلند ہوئی تو پوری طاغوتی طاقت کے ساتھ اللہ کے گھر پر
چڑھائی کر دی،سینکڑوں معصوم بچیوں،اور بے گناہ افراد کو بے دردی سے شہید
کرنے کے ساتھ اس کے بارودی گولوں اور طاغوتی توپوں نے ھزاروں کی تعداد میں
قرآن پاک بھی شہید کر دیے۔چشم فلک نے یہ سارا منظر دیکھا کہ ایک ایسے ملک
کے دارالحکومت میں جس کا نام ’’ اسلام آباد ہے‘‘ وہاں،حیا باختہ سہونی کتے
تو رہ سکتے ہیں، مساج سینٹر کے نام پر چکلے تو برداشت ہو سکتے ہیں، رنگ
رلیوں کے بازار تو لگ سکتے ہیں ، شراب و شباب کی محفلیں تو سج سکتی ہیں؛
مگر’’ قال اللہ و قال الرسول ‘‘ برداشت نہیں ؛بلکہ وہاں سے اللہ پاک کی
کبریائی کے نغمے گنگنانے والی معصوم سی تتلیوں کا بھی خاتمہ کر دیا گیا ۔یہاں
شیوخ الالسلام بھی موجود تھے،اور مفتیان کرام بھی ،پیرانِ طریقت بھی گدیاں
سجائے بیٹھے تھے اور خطیبانِ عصر بھی اپنے جوہر دکھانے میں مصروف تھے،
مسلمان کہلانے والے لکھاری اور قلم کار بھی یہ منظر دیکھ رہے تھے، اور
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پڑھی لکھی پارلیمنٹ بھی مسلم ممبران سی بھری پڑی
تھی، سول سو سائٹیز اور بار ایسو سی ایشنز بھی مصروف عمل تھیں، مگر کسی
کوہمت نہ ہوئی کہ پاکستانی ہلاکو خان اور وقت کے ابرھہ کے اس جبر کے خلاف
صدا بلند ہوتی،نہ کوئی بھوک ھڑتال ہوئی،نہ کسی اسلام کے دعویدار مذہبی لیڈر
کے کان پہ جوں رینگی، نہ کسی وزیر یا رکن پارلیمنٹ نے استعفیٰ دیا اور نہ
کہیں شٹر ڈاؤن ہوا نہ پیہ جام۔ چیف جسٹس افتخار کے عصاءِ کلیمی نے اس کی
فرعونیت کے طلسم کو تو ڑا،پھر عدالت بھی شاہد کسی نادیدہ قوت کے مہیب سائے
کے خوف کا شکار ہو گئی اور اس پر ھاتھ نہ ڈال سکی،آنے والوں کو ان کی مراد
مل گئی اور مشرف کو گارڈ آف آنر مل گیا ۔ اس طرح وہ اپنے آقاؤں کے دیس
سدھار گیا ،شہیدوں کے وارث اور اسلام کا درد رکھنے والا ایک بے اختیار طبقہ
جس کے دل کے کونے کھدرے میں ایمان کی رمق موجود تھی ، لاچاری اور بے بسی کے
آلم میں مالک حقیقی کے حضور چند آنسو ؤں پر اکتفا کر کے خاموش ہو گیا۔ مشرف
اپنی شیطانی سوچ کو اسلام دشمن طاغوتی طاقت کے سائے میں پروان چڑھانے میں
مصروف تھا کہ اس پر اقتدار کے نشے کا بھوت سوار ہو گیا۔اس کی عقل ماؤف ہو
گئی اور طفل نا سمجھ کی طرح انٹر نٹ پر اپنے نام کو کلک کرنے والے ہر فریبی
ماؤس کو اپنا حواری اور سپورٹر سمجھ بیٹھا ، مشیت ایذدی نے اس کی انا پرستی
کے مست اور بے لگام گھوڑے کو منزلَ انجام کی طرف دھکیل کر کے ایسی چابک
لگائی کہ سیدھا مکافاتِ عمل کے گرداب میں لا کھڑا کیا،اب کل کا ڈکٹیٹر نمبر
ایک آج کا قیدی نمبر ایک ہے،جن عدالتوں کو تالے لگا کر ججوں کو قید کیا تھا
آج ان عدالتوں کے ہرکاروں کے رحم کرم پر ہے۔مشرف کے محل کی دیوار کے گرنے
سے گمان ہوتا ہے کہ لال مسجد اور جامعہ حفظہ کے معصوم شہیدوں کی روحیں
ابابیلوں کی شکل میں وقت کے ابرھہ کا استقبال کرنے اُٹھ کھڑی ہوئی ہیں اور
سرگوشیاں کر رہی ہیں کہ؛
گرا دو غیبی طاقت سے اس دیوارِ نہوست کو۔
بہت سی ان کھلی کلیوں کے مدفن تو اسی دیوار میں ہیں۔
آئندہ کالم میں مشرف کے انجام پر پاک فوج کے ردِ عمل کا جائزہ لیا جائے
گا۔’’ایس زمان گُجر‘‘ |