قادیانی دجال کے دجل و فریب سے دنیا بھر کے
انسانوں ، مسلمانوں اور خود قادیانیوں کو آگاہ کرنا عین عبادت ہے أ تاکہ وہ
اس گمراہی اور کفر و ضلالت سے محفوظ رہ سکیں - تاجدار ختم نبوت جناب رسالت
مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عقیدت اور محبت کا تقاضا ہے کہ
ہم ان کی عزت و ناموس کی جان و مال سے حفاظت کریں اور سارق تاج ختم نبوت کا
ہر کہیں تعقب کریں - مبارک ہیں وہ لوگ جنہوں نے قادیانیت کے خلاف جہاد میں
حصہ لیا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت کو امر بنادیا - ایسے
تمام عشاق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دین و دنیا کی بشارتیں ہیں اور
مردود ہیں وہ لوگ جو اس قادیانی دجال کو کسی بھی درجے میں انسان بھی
گردانتے ہیں
قادیانیت کے خلاف جہاد کرنے والے لائق افتخار لوگوں میں محمد طاہر رزاق
صاحب بھی ایک مجاہد اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو قادیانیت کے
خلاف درجن سے زیادہ کتابوں کے مصنف ہیں - انہوں نے قادیانیت کے خلاف اس
جہاد میں اپی عمر عزیز کا ایک حصہ صرف کیا ہے - خدا انہیں یس کی جزا دے -
آمین
زیر نظر کتاب کا نام "دجال قادیان" ہے - محمد ظاہر رزاق نے اپنی اس کتاب
میں جن موضوعات پر قلم اٹھایا ہے ، ان میں مرزا قادیانی کا بچپن ، قادیان
کا بدکردار ، مرزا قادیانی کا حافظہ ، مسٹر گالی گلوچ ، مرزا قادیانی کو
نبی کیوں بنایا گیا؟ ایک منہ دو زبانیں ، مجرم اعتراف کرتا ہے اور اللہ کا
گستاخ مضامین شامل ہیں - پھر وہ ہم سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہم رسول اللہ صلی
الہ علیہ وسلم کے امتی ہیں کہ ایسے دریدہ دہن کی "امت" کو برداشت کررہے ہیں
- آخر میں انہوں نے ختم نبوت کے پاسبانوں کا ذکر کیا ہے ، جنہوں نے اس راہ
میں جہاد کیا اور قادیانیت کے خلاف اپنا کردار بھرپور طریقے سء ادا کیا
محمد طاہر رزاق نے اس کتاب میں تمام حوالے قادیانیوں کی کتاب سے دیئے ہیں -
مرزا قادیانی کی تحریروں سے اس کے بچپن کے احوال بیان کیے گئے ہیں جس سے
ایک ایسے شخص کی تصویر بنتی ہے ، جس کا بچپن کسی پاکیزہ تربیت سے خالی ہو
اور جو شائستگی سے ہمیشہ دور رہا ہوں - "قادیان کا بدکردار" ایک ایسے شخص
کا سراپا بیان کرتا ہے جو طاقتور وائن [شراب] کا رسیا ، افیون کا عادی ،
غیر محرم عورتیں سے ٹانگیں دبوانے والا ، غلیظ گالیاں بکنے والا ، مراق اور
ہسٹریا کا دائمی مریض اور مخبوط الحواس ، نالائق اور ٹیچی ٹیچی ، خیراتی
فرشتوں کے نام رکھ کر اردو ، پنجابی اور انگریزی میں وحی بیان کرنے والا
ایک ایسا شخص نظر آتا ہے ، جو مقدس اور پاکیزہ شخصیات اور وظائف کو تماشہ ،
تمسخر اور مذاق بنانے پر تلا ہوا ہے - جو ہر لحظہ ہذیان ، یا وہ گوئی اور
جھوٹ بکتا ہے اور جو نبوت و رسالت تو کیا ایک اوسط درجے کے شریف انسان کے
معیار پر بھی پورا نہیں اترتا
مرزا قادیانی کا حافظہ" میں محمد ظاہر رزاق نے اس کی کمزور یادداشت اور
حافظہ کی داستان خود اس کی اپنی زبان کی ہے - وہ جو فارسی کا محاورہ ہے نہ
کہ "دروغ گورا حافظ نہ باشد" یہ مکار اور جھوٹا اس کی تصویر ہے - یہ شخص
مسلمانوں کو کافر کہتا ، اپنے مخالفین کو گالیان بکتا ، ان کے بارے میں پیش
گوئیاں کرتا اور لعنت ملامت کرتا ہے جو طاہر صاحب نے اپنے مضمون "مسٹر گالی
گلوچ" میں بے نقاب کیا ہے اور بتایا ہے کہ اسے نبی اس لیے بنایا گیا تاکہ
وہ مسلمانوں کے جذبہ جہاد کو سرد کرسکے - اس میڈ ان انگلینڈ نبی نے
انگریزون کی چاپلوسی اور چمچہ گیری میں جہاد کی تنسیخ اور اس کے کاتمے کا
اعلان کیا مگر اس کی ناکامی دیکھئے کہ اسی دور میں پوری دنیا میں مسلمان
جہاد کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور انہوں نے انگریزی استعماریت کو جزیزہ
برطانیہ میں قید کردیا ہے
مرزا قادیانی ہذیان بکتے ہوئے کبھی خود کو مجدد کہتا ہے ، کبھی مسیح موعود
، کبھی مہدی ، کبھی ظلی نبی ، کبھی بروزی نبی ، کبھی خدا بن جاتا ہے ، کبھی
رسول - یہ شخص جو انسانیت کے معیار پر بھی پورا نہیں اترتا ، ان مقدس مراتب
کا جس قدر بے غیرتی سے استعمال کرتا رہا ہے ، اس پر تو اسے راجپال سے بھی
بدتر سزا دینی چاہیئے تھی تاکہ ایسے کذاب جنم لینا قیامت تک کے لیے بند
ہوجاتے مگر شاید قدرت کو اسے لعنت ملامت کے ذریعے قیامت تک نشان عبرت بنانا
تھا - لہٰٰذا اس پلید اور ننگ انسانیت کی رسی کو دراز رکھا - ایک اور مضمون
میں "مجرم اعتراف جرم کرتا ہے" مصنف نے مرزا قادیانی کے نبوت کے تمام دعووں
کو یکجا کردیا ہے اور بتایا ہے کہ بیرون ملک اور ناواقفان حال کو قادیانی
یہ کہ کر دھوکہ دیتے ہیں کہ قادیانی کسی نبوت کے مدعی نہیں بلکہ وہ اسے
مجدد یا ایک فرقے کا بانی تصور کرتے ہیں - جس طرح دوسرے فرقے ہین - اس طرح
وہ لوگوں کو اپنے دام میں پھانس لیتے ہیں - کبھی عورت کا لالچ دے کر ، کبھی
نوکری اور روزگار کا فریب دے کر - کبھی مالی اعانت اور تعلیمی اخراجات
برداشت کرنے کا جھانسہ دے کر پھنسالیتے ہیں - خود علامہ اقبال کے بھتیجے
اعجاز کو چودھری ظفر اللہ نے سب ججی کا لالچ دے کر قادیانی بنایا - ایسی بے
شمار مثالیں موجود ہیں
طاہر صاحب نے اس کے نبوت کت جھوٹے دعوٰی کو خود اس کی کتابوں سے عیاں کردیا
ہے - یہ بھی کتنے ستم کی بات ہے کہ دنیا میں یہ واحد مدعی نبوت ہے ھو اپنے
دعوٰی کے ساتھ ساتھ اپنے کردار اور قول و فعل میں بھی شرمناک حد تک جھوٹا
اور عیار ہے اور متضاد دعووں سے سادہ لوح لوگوں کو پھانس کر اپنے جال میں
لے آتا ہے
اس بدبخت کا سب سے شرمناک کردار یہ ہے کہ وہ اللہ تعالٰی کے ساتھ بھی
گستاخیاں اور چہلیں کرنے سے باز نہیں آتا - ایک مضمون میں طاہر رزاق صاحب
نے قادیانیوں کی بالخصوص مرزا کی ہذیان گوئی کی وہ ساری بکواس اکٹھی کردی
ہے ، جو کدائے ذو الجلال کے حضور شرمناک گستاخیوں کی صورت میں وہ کرتا رہا
ہے - اسی طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اور دیگر انبیاء کرام
علیہم السلام کے حضور بھی اس گستاخ کی ہرزہ سرائیوں کو اس کتاب میں ان ہی
کی کتب سے بے نقاب کیا گیا ہے - اسلام کے اندر اس فتنہ ارتداد کے بانی مرتد
غلام قادیانی کی سزا رجم اور قتل ہونی چاہیئے تھی - افسوس راجپال تو واصل
جہنم ہوگیا مگر مرتدین کی یہ اولاس انگریز کی چھتر چھاپہ تلے قوت پکڑتی رہی
اور آج کل بین الاقوامی اسلام دشمن قوتیں اور عالمی صیہونیت اس کی مربی اور
پشت پناہ ہے اور وہ پوری دنیا میں کفر و ضلالت پھیلارہے ہیں - یہ اسرائیل
کے ایجنٹ ، ہندو کے گماتشے ، مغربی طاقتوں کے آلہ کار اور پاکستان اور عالم
اسلام کے دشمن نمبر ایک ہیں
اقبال مرحوم نے جن کے قریب و جوار میں قادیانیوں کے گڑھ تھے ، سب سے پہلے
سیاسی ، عمرانی اور تہذیبی سطح پر ان کے خطرناک عزائم کا ادراک کیا اور
انہیں اسلام اور ہندوستان [مراد مسلم ہندوستان جو آج کل پاکستان ہے] کا
غدار قرار دیا - اس لیے کہ قادیانی اسلام کے بنیادی عقیدے ختم نبوت کے سارق
[چور] تھے اور ہندووں ، انگریزوں اور یونینسٹوں کے ساتھ مل کر 1935ء کے
آئین کی آڑ میں مسلم نشستوں پر قبضہ کرکے تحریک پاکستان کو سبوتاژ کرنا
چاہتے تھے - اقبال مرحوم نے اسی بناء پر ان کو کافر قرار دے کر ان کو الگ
اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا جبکہ علماء کرام دینی اور مذہبی حوالے سے ان
کے خلاف مورچہ بند تھے - قادیانی علامہ اقبال مرحوم کے خلاف پراپیگنڈہ کرتے
رہتے ہیں کہ اقبال نے 1935ء میں حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ ،
جو ختم نبوت کے مجاہد اعظم تھے ، کے کہنے پر قادیانیوں کے خلاف سرگرمی
دکھائی - حالانکہ وہ ان کے بارے میں پہلے نرم گوشہ رکھتے تھے - قادیانیوں
کا یہ بیان سراسر جھوٹا ہے
اقبال مرحوم نے 1902ء میں سب سے پہلے قادیانیت پر وار کیا - 1902ء میں
انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں انہوں نے مرزا قادیانی کے دعوٰی نبوت کو
جھٹلاتے ہوئے کہا کہ
اے کہ بعد از تو نبوت شد بہ ہر مفہوم شرک
بزم را روشن ز نور شمع عرفان کردہ
اپنی مرتبہ کتاب "سرور رفتہ" میں صفحہ 30 پر غلام رسول مہر نے ایک نوٹ میں
کہا کہ یہ 1902ء کا کلام ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے لکھنے کی ضرورت مرزا غلام
احمد قادیانی کے دعوٰی بروزیت کی بناء پر ہوئی - یعنی کہتے ہیں کہ تیرے بعد
نبوت کا دعوٰی ہر لحاظ سے شرک فی النبوت ہے - خواہ اس کا مفہوم کوئی ہو -
یعنی ظلی اور بروزی نبوت بھی اس سے باہر نہیں
مئی 1902ء میں مخزن لاہور اور 11 جون 1902ء میں محمد دین فوق کے رسالے پنجہ
فولاد میں قادیانی مذہب کے نتائج کا تجزیہ یوں کیا - یاد رہے کہ یہ قادیان
کی طرف سے بیعت کے جواب میں شعر لکھے
تو جدائی پہ جان دیتا ہے
وصل کی راہ سوچتا ہوں میں
بھائیوں میں بگاڑ ہو جس سے
اس عبادت کو کیا سراہوں میں
مرگ اغیار پر خوشی ہے تجھے
اور آنسو بہا رہا ہوں میں
یاد رہے مرزا قادیانی اپنے مخالفین کی موت کی پیش گوئیاں کرتا رہتا تھا
سال 1903ء میں انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں "فریاد امت" منعقدہ مارچ
1903ء میں اقبال مرحوم نے ایک نظم پڑھی جس کا دوسرا عنوان ابر گہریار تھا -
اس میں انہوں نے یہ شعر پڑھا
مجھ کو انکار نہیں آمد مہدی سے مگر
غیر ممکن ہے کوئی مثل ہو پیدا تیرا
اقبال مرحوم نے اس شعر کے ذریعے مرزا قادیانی کے اس دعوے کو رد کردیا کہ وہ
مثل مسیح علیہ السلام یا مثل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے
سال 1911ء ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر میں انہوں نے قادیانیوں کو ٹھیٹھ
اسلامی سیرت کا نمونہ کہنے کے ساتھ ساتھ انہیں نام نہاد قادیانی فرقہ کہا -
مولانا ظفر علی خان نے اس مقالے کے ترجمے میں"سو کالڈ" نام نہاد کا لفظ
چھوڑدیا جس کو قادیانیوں نے ایکسپلائٹ کیا اور اصل انگریزی مضمون دیکھنے کی
کسی نے زحمت نہ کی - کیونکہ قادیانیوں نے اس مضمون کا انگریزی ورشن مارکیٹ
سے غائب کردیا تھا
سال 1914ء میں اقبال مرحوم نے لکھا کہ قادیانی جماعت نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم کے بعد نبوت کی قائل ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے
رموز بے خودی 1915ء میں شائع ہوئی - اقبال مرحوم نے عقیدہ ختم نبوت کا
واشگاف اعلان کیا
پس خدا بر ما شریعت ختم کرد
بر رسول ما رسالت ختم کرد
لا نبی بعدی ز احسان خدا ست
پردۃ ناموس دین مصطفٰی است
حق تعالٰی نقش ہر دعوٰی شکست
تا ابد اسلام را شیرازہ بست
اقبال مرحوم نے 1916ء میں ایک بیان میں کہا
جو شخص نبی اکرام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی ایسے نبی کا قائل ہو جس کا
انکار مستلزم کفر ہو تو وہ خارج از اسلام ہوگا - اگر قادیانی جماعت کا بھی
یہی عقیدہ ہے تو وہ بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے
جون 1933ء میں اقبال مرحوم نے کشمیر میں قادیانیوں کی سازشوں کے بارے میں
بیان دیا کہ "آخر میں مسلمانان کشمیر سے استدعا کرتا ہوں کہ وہ ان تحریکوں
سے خبردار رہیں جو ان کے خلاف کام کررہی ہیں اور اپنے درمیان اتحاد و اتفاق
پیدا کریں" [7 جون 1933ء ، اقبال نامہ ، حصہ اول] ملاحظہ فرمائیں
جون 20 ، 1933ء کو اقبال مرحوم نے کشمیر میں قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں کی
بناء پر کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استغفٰی دے دیا
اکتوبر 12 ، 1933ء میں اقبال مرحوم نے قادیانی اہل قلم جن میں ڈاکٹر مرزا
یعقوب بیگ پیش پیش تھے ، کی سازشوں کے خلاف بیان دیا اور کشمیر کمیٹی کے
عہدہ صدارت کی پیشکش کو فریب قرار دیا اور کہا کہ میری سمجھ میں نہیں آتا
کہ ان حالات کے پیش نظر ایک مسلمان کسی ایسی تحریک میں شامل ہوسکتا ہے جس
کا اصل مقصد غیر فرقہ واری کی ہلکی سی آڑ میں کسی مخصوص جماعت کا پراپیگنڈہ
کرنا ہے [حرف اقبال 204] ملاحظہ فرمائیں
فروری 9 ، 1934ء کو اقبال مرحوم نعیم الحق وکیل پٹنہ کو لکھتے ہیں
جس مقدمے کی پیروی کے لیے میں نے آپ سے درحواست کی تھی ، اس کی پیروی
چودھری ظفر اللہ کریں گے - چودھری ظفر اللہ خان کیونکر اور کس کی دعوت پر
وہاں جارہے ہیں ، مجھے معلوم نہیں - شاید کشمیر کانفرنس کے بعض لوگ ابھی تک
قادیانیوں سے خفیہ تعلقات رکھتے ہیں [اقبال نامہ 435] ملاحظہ فرمائیں
اقبال مرحوم نے ضرب کلیم میں اپنی نظم جہاد میں قادیانیوں پر تنقید کی
فتوٰی ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے
دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر
ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر
حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ ، یورپ سے درگزر
دوسری "نظم نبوت" میں لکھتے ہیں
وہ نبوت ہیں مسلماں کے لیے برگ حشیش
جس نبوت میں نہیں قوت و شوکت کا پیام
ایک "نظم امامت" میں لکھتے ہیں
فتنہ ملت بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلمان کو سلاطین کا پرستار کرے
انگریز کی قادیانیوں کی چاکری پر لکھتے ہیں
ہو اگر قوت فرعون کی در پردہ مرید
قوم کے حق میں ہے لعنت وہ کلیم اللہی
محکوم کے الہام سے اللہ بچائے
غارت گر اقوام ہے وہ صورت چنگیز
اگست 7 ، 1936ء کو اقبال مرحوم لکھتے ہیں "الحمد للہ کہ اب قادیانی فتنہ
پنجاب میں رفتہ رفتہ کم ہورہا ہے
پس چہ باید کرد 1936ء میں شائع ہوئی - اقبال مرحوم لکھتے ہیں
عصر من پیغمبرے ہم آفرید
آنکہ در قرآن بغیر از خود ندید
شیخ او مرد فرنگی را مرید
گرچہ گوید از مقام بایزید
گفت دیں را رونق ز محکومی است
زندگانی از خودی محرومہ است
دولت اغیار را رحمت شمرد
رقص ہا گرد کلیسا کرد و مرد
سال 1973ء میں قادیانی مذہب از پروفیسر الیاس برنی ، موصول ہونے پر اقبال
مرحوم نے لکھا: "قادیانی تحریک یا یوں کہئے کہ بانی تحریک کا دعوٰی مسئلہ
بروز پر مبنی ہے - مسئلہ بروز کی تحقیق تاریخی لحاظ سے از بس ضروری ہے -
جہاں تک مجھے معلوم ہے ، یہ مسئلہ عجمی مسلمانوں کی ایجاد ہے اور اصل اس کی
آرین ہے - نبوت کا سامی تخیل اس سے بہت ارفع و اعلٰی ہے - میری ناقص رائے
میں اس مسئلہ کی تاریخی تحقیق قادیانیت کا خاتمہ کردے گی
ہماری اس تحریر سے واضح ہوگیا ہوگا کہ اقبال نے کسی اضطراری کیفیت میں
قادیانیوں کے خلاف مہم جوئی نہیں کی تھی بلکہ ایک پورے تسلسل کے ساتھ 1902ء
سے اپنی وفات تک قادیانیت کے خلاف جہاد کیا - علمائے عظام نے دینی اور
مذہبی محاذ پر اور اقبال مرحوم نے عمرانی ، تہذیبی ، اور سیاسی محاذ پر اس
کفرستان پر پیہم حملے کیے اور 1935ء میں تحریک پاکستان جو مسلمانوں کی
برصغیر میں آزادی کی آخری کوشش تھی ، کو سبوتاژ کرنے کی قادیانیوں کوششوں
کی وجہ سے کھل کر انہیں اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا تاکہ وہ مسلمانوں کی
نشستوں پر منتخب ہوکر مسلمانوں کو ہندو اور انگریز کا غلام نہ بنادیں -
برصغیر میں قادیانی ریاست کی تشکیل کے لیے قادیانیوں نے کبھی پنجاب ، کبھی
کشمیر اور کبھی بلوچستان کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا جنہیں بندگان خدا
نے ناکام بنادیا
اقبال مرحوم کے نزدیک قادیانی - - - اسلام اور پاکستان کے غدار ہیں - یہ
بھارت کے ایٹمی دھماکوں پر ایک دوسرے کو مبارک بادیں دیتے ہیں اور پاکستان
کے ایٹمی دھماکوں کے خلاف بھارت کی حمایت کرتے ہیں اور اسے امن کے لیے خطرہ
قرار دیتے ہیں
گزشتہ دنوں "قادیانیت کے کرتوت" کے نام سے روزنامہ امت کراچی میں میرا کالم
شائع ہوا - جو نقیب ختم نبوت ملتان میں بھی شائع ہوا - یہ دیباچہ اس وقت تک
مکمل نہیں ہوگا جب تک اس میں میں اپنا کالم شائع نہ کردوں - تو وہ نزر
قارئین ہے
امت مسلمہ سے جذبہ جہاد کو ختم کرنے اور مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ
کرنے کے لیے انگریز استعماریت نے برصغیر بالخصوص پنجاب میں قادیانیت کا
چرمناک پودا کاشت کیا جو مسلمانوں کے لیے برگ حشیش سے بھی زیادہ زہرناک اور
افسوس ناک ثابت ہوا ہے - یہ مسلمانوں کے سینے کا ناسور ہے جو گزشتہ ایک صدی
سے فتنہ در فتنہ پھیل رہا ہے - انگریز کی غلامی کو مرغوب بنانے کی رومانیت
اس کا بنیادی وظیفہ رہا ہے - ختم نبوت کے چور جسے اقبال مرحوم نے شرک فی
النبوت قرار دیا ، ایک ایسے بدبخت ، ہذیان گو ، جنس پرست اور غلیظ انسان کو
نبی ، مجدد اور مسیح موعود کے طور پر پیش کرتے رہے جو اپنی اخلاقی باختگی
کے سبب انسان کہلانے کا بھی مستحق نہیں تھا - انگریز کی ٹوہ چاٹنے والا یہ
شخص اور اس کی کافر امت شروع سے ہی مسلمانوں کو کافر قرار دیتی ہے اور ان
کے خلاف سازشیں بنتی نظر آتی ہے - اسی لیے اقبال مرحوم نے اسے غیر مسلم
اقلیت قرار دینے کا اعلان کیا تاکہ عام مسلمان ان سے دھوکہ نا کھائیں اور
یہ مسلمانوں کے اندر نقب نہ لگاسکیں
مرزا بشیر الدین محمود جو قادیانیوں کا دوسرا خلیفہ تھا ، ایک بہت بڑا
سازشی ذہن تھا - اس نے کشمیر کمیٹی کی آڑ میں اور کشمیری مسلمانوں کی آزادی
کے پردے میں قادیانی مبلغ بھیجے اور انگریز کی ملی بھگت سے کشمیر کو
قادیانی ریاست میں تبدیل کرنے کا کھیل کھیلتا رہا - وہ کشمیر کمیٹی کی
کاروائیوں کا منجر تھا اور کشمیر کی آزادی کے لیے ہونے والی کوششوں سے
انگریز کو آگاہ رکھتا - علامہ اقبال مرحوم اور کشھ دوسرے لوگوں نے اسی لیے
اس کشمیر کمیٹی سے علیحدگی اختیار کرلی اور اس بدبخت کو اس کی صدارت سے
مستغفٰی ہونا پڑا - قادیانیوں کی فرمانبرداری کے صلے میں چودھری ظفر اللہ
کے ذریعے پنجاب میں قادیانیت کو منظم کیا - ظفر اللہ نے اور دوسرے بااثر
قادیانیوں نے مسلمانوں نوجوانوں کو نوکریوں ، عورتوں اور دولت کا لالچ دے
کر قادیانیت کی طرف راغب کیا - خود شیخ اعجاز احمد جو علامہ اقبال مرحوم کے
سگے بھتیجے تھے ، ظفر اللہ کی طرف سے سب ججی کے لالچ میں آکر قادیانی ہوگئے
- خاندان اقبال میں یہ واحد روسیا تھا جس نے اپنے مقدر میں قادیانیت کی ذلت
لکھی - جبکہ اس کے باپ ، بیٹوں اور بیٹیوں نے قادیانیت کو دھتکار دیا
قادیانیت نے سر فضل حسین اور چودھری ظفر اللہ کے توسط سے یونینسٹ پارٹی اور
مسلم لیگ میں گھس کر 1935ء کے دستور کے تحت ہونے والے انتخابات میں مسلم
نشستوں پر قادیانی امیدوار کھڑے کرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ یہ قادیانی مسلم
نشستوں پر منتخب ہوکر اور مسلم عوام کے نمائندے بن کر قیام پاکستان کے
مطالبے کو سبوتاژ کر سکیں اور انگریز کی غلامی کو رحمت قرار دے کر برصغیر
کی تقسیم کو ناکام بنادیں - علامہ اقبال مرحوم نے 1935ء سے جب شد و مد سے
قادیانیوں کو کافر اور غیر مسلم اور امت اسلامیہ سے اخراج کا جو مطالبہ کیا
، اس کے پیچھے ان کی تحریک پاکستان کو ناکام بنانے کی سازش کو توڑنا تھا -
چناچہ قیام پاکستان کے بعد جب انہیں غیر مسلم قرار دیا گیا تو یہ بھی اقبال
مرحوم کے ہی خواب کی تعمیر تھی - کیونکہ برصغیر کے تمام علماء متفقہ طور پر
انہیں غیر مسلم اور کافر قرار دے چکے تھے - خود قادیانی بھی اپنی تحریروں
میں مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں - صرف وہ مسلمانوں میں نقب لگانے کے لیے
چولے پر چولا بدلتے رہتے ہیں - کتنی ظریفی ہہ کہ وہ تو مسلمانوں کو کافر
سمجھیں - مسلم قائدین اور عوام کے جنازوں میں شرکت نہ کریں - (چودھری ظفر
اللہ نے وزیر خارجہ ہوتے ہوئے بھی قائد اعظم کی نماز جنازہ میں شرکت نہیں
کی تھی) مگر چاہیں کہ انہیں مسلمانوں سے الگ نہ کیا جائے - ختم نبوت کی ان
بھونڈی اور ناکارہ تاویلات جھوت اور فریب کاری کا
پلندہ ہیں - اقبال مرحوم کے بقول
اے کہ بعد از تو نبوت شد بہ ہر مفہوم شرک
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا خفی ، جلی ، بروزی ، ظلی ،
مہدویت ، مسیح موعود اور مجددیت کا دعوٰی کفر و زندقہ کے سوا کچھ نہیں
رکھتا جبکہ اس کا مدعی قادیانی کذاب جیسا جھوٹا ، جنس پرست ، انگریز کے
تلوے چاٹنے والا ، اخلاق باختہ انسان ہو - یہ امت مسلمہ میں نفاق کا فتنہ
تھا جو ذلیل و رسوا ہوا
غلام قادیانی کی امت کاذبہ نے بلوچستان میں بھی اپنی مرکزیت قائم کرنے کی
کاشش کی مگر کشمیر اور پنجاب کی طرح یہاں بھی وہ زلیل و خوار ہوئی - ان کی
پاکستان دشمنی یوں تو ان کے ہر اقدام سے واضح ہے تاہم ان کے چند بیانات
ملاحظہ ہوں
"میں قبل ازیں بتاچکا ہوں کہ ہم ہندوستان کی تقسیم پر رضامند ہعئے تو خوشی
سے نہیں بلکہ مجبوری سے اور ہم کوشش کریں گے کہ کسی نہ کسی طرح پھر متحد
ہوجائے" (الفضل 16 مئی 1947ء ، خطبہ مرزا محمود) ملاحظہ کریں ثبوت کے لیے
ہم نے یہ بات پہلے بھی کئی بار کہی ہے اور اب بھی کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک
پاکستان کا بننا اصولآ غلط ہے (الفضل 12 ، 13 اپریل 1947ء) ملاحظہ کریں
ثبوت کے لیے
ممکن ہے عارضی طور پر کچھ افتراق (علیحدگی) ہو اور کچھ وقت کے لیے دونوں
قومیں (ہندو و مسلم) جدا جدا رہیں مگر یہ حالت عارضی ہوگی اور ہمیں کوشش
کرنی چاہیے کہ جلد دور ہوجائے - بہرحال ہم چاہتے ہیں اکھنڈ ہندوستان بنے
(الفضل 17 مئی 1947ء) ملاحظہ کریں ثبوت کے لیے
قادیانی خود مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں - مرزا محمود لکھتا ہے
کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے ، خواہ انہوں نے
حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہیں سنا ، وہ کافر اور دائرہن اسلام سے خارج
ہیں (آئینہ صداقت 35 - قادیانیوں کی کتاب) ملاحظہ کریں ثبوت کے لیے
قادیانیت سے بیزاری کے بارے میں علامہ اقبال مرحوم لکھتے ہیں
ذاتی طور پر میں اس تحریک سے اس وقت بیزار ہوا جب ایک نئی نبوت - - - بانی
اسلام کی نبوت سے اعلٰی تر نبوت - - - کا دعوٰی کیا گیا اور تمام مسلمانوں
کو کافر قرار دیا گیا - بعد میں یہ بیزاری بغاوت کی حد تک پہنچ گئی جب میں
نے تحریک کے ایک رکن کو اپنے کانوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق
نازیبا کلمات کہتے سنا (اقبال اور احمدیت 59 ، بی - اے ڈار) ملاحظہ فرمائیں
مندرجہ بالا اقتباسات سے یہ بات واضح ہے کہ یہ گستاخان نبوت کافر اور
پاکستان دشمن ہیں اور اکھنڈ بھارت کے منصوبے پر عمل کررے ہیں لٰہذا ان کا
وجود پاکستان میں ناقابل برداشت ہے اور وہ پاکستان میں بیٹھ کر اور پاکستان
سے باہر آئین پاکستان کو اس لیے ختم کرنے کے درپے ہیں کہ اس میں انہیں کافر
اور غیر مسلم قرار دیا گیا ہے اور یہ آئین پاکستان میں ان کے لیے کوئی
گنجائش نہیں رکھتا - مرزا طاہر نے موجودہ عدلیہ ، انتظامیہ اور صدر لغاری
کے تنازعے میں قادیانیت کے اس مذموم مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی کہ کس
طرح یہ بحران شدید ہو ، آئین معطل ہوجائے اور قادیانیوں کو کھل کھیلنے کا
موقع مل جائے - مگر خدا نے انہیں ننگا کرکے ان کے مقاصد ناکام بنادیے -
مشہور قادیانی سائنس دان عبد السلام نے بھی پاکستان دشمنی میں پاکستان کے
ایٹمی پلانٹ کے راز حکومت امریکہ کوپہنچائے جس پر جنرل ضیاءالحق نے کہا کہ
"اس کتیا کے بچے کو کبھی میرے سامنے نہ لانا - یہ امریکہ ، برطانیہ اور
یہودیوں کا گماتشہ ہے" اور اس لیے اسے نوبل انعام دے دیا گیا
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب شہید اسلام صدر جنرل محمد ضیاءالحق امریکہ
تسریف لے گئے اور انہوں نے کہا کہ پاکستان کوئی ایٹم بم نہیں بنارہا - ہم
تو پر امن مقاصد کے لیے ایٹمی پراجیکٹ پر کام کررہے ہیں تو امریکیوں نے غصے
میں آکر جنرل ضیاءالحق کو ایک کمرے میں جانے کو کہا جہان کہوٹہ کے ایٹمی
پلانٹ کا ماڈل رکھا ہوا تھا - جب جنرل ضیاءالحق اس کمرے میں داخل ہورہے تھے
تو دوسرے دروازے سے نکلتے ہوئے جنرل ضیاءالحق نے ڈاکٹر عبد السلام کو دیکھ
لیا تھا
عالمی تحریک تحفظ کے ممتاز راہنما ضحرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے بھی
15 جون 1998ء کے رازنامہ جنگ لاہور میں ایک بیان میں کہا کہ صدر ایوب خان
مرحوم کی خواہش تھی کہ پاکستان ایٹمی طاقت بن جائے - چناچہ انہوں نے وفاقی
وزیر قانون شیخ خورشید کے بھائی منیر احمد خان کی سربراہی میں ایٹمی کمیشن
تشکیل دیا مگر ڈاکٹر عبد السلام کے یہ شاگرد تھے - چناچہ ان دونوں کی وجہ
سے اس سمت میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی - یہ دونوں امریکہ اور برطانیہ کو
پاکستان کی ان سرگرمیون سے باکبر رکھتے رہے - سن 1971ء کے بعد جب ذوالفقار
علی بھٹو اقتدار پر آئے تو انہوں نے ایٹمی طاقت بننے کا فیصلہ کیا - چناچہ
ڈاکٹر عبدالقدیر کو اس منصوبے پر کام سونپا گیا - ان کے خلاف بھی ڈاکٹر عبد
السلام اور ڈاکٹر منیر احمد خان سازشیں کرتے رہے جنہیں جنرل ضیاءالحق نا
ناکام بنایا - جب تک ڈاکٹر عبد السلام زندہ رہا ، پاکستان ایٹمی طاقت نہ بن
سکا - اس مردود کے واصل جہنم ہونے کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر کی سربراہی میں
پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا - یوں قادیانیون کی پاکستان کے خلاف یہ سازش بھی
ناکام ہوئی - ذوالفقار علی بھٹو کا یہ اعزاز ہے کہ انہوں نے پاکستان میں
ایٹمی توانائی کا آغاز کیا اور انہوں نے ہی قادیانیوں کو سیاسی مصلحت کے
تحت ہی سہی ، اقلیت قرار دے کر اس فتنہ کا گھیرا تنگ کردیا
ہر قادیانی جہاں بھی بیٹھا ہے ، وہ کافر اور غدار ہے - پاکستان اور اسلام
کا دشمن ہے - رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا گستاخ ہے لٰہذا انہیں تمام
اہم کلیدی مناصب سے فورا الگ کردیا جائے - ان پر کڑی نظر رکھی جائے تاکہ ان
کی سازشوں کو ناکام بنایا جاسکے اور اگر ممکن ہو تو انہیں آہستہ آہستہ
پاکستان سے نکال دیا جائے - اس لیے کہ ہمارے ایمان اور پاکستان کی سلامتی
کا یہ تقاضہ ہے - پاکستان کے خلاف سازشوں میں عیسائیوں ، ہندوؤں اور
یہودیوں کے ایجنٹ ہیں - ان کو پالنا اور ان سےصرف نظر خودکشی کا راستہ ہے -
حکومت پاکستان کو فوری طور پر ایسے اقدامات کرنے چاہئیں کہ ان کے گرد گھیرا
تنگ ہوتا چلا جائے - یہ ہمارے ایمان اور ملک کی سلامتی کا تقاضا ہے - ان سے
ہر رعایت خود سے دشمنی کے مترادف ہے
ملک کے حساس اور مالیاتی اداروں میں جہاں قادیانی گھس کر سازشیں کررہے ہیں
، وہاں خوشی اس بات کی ہے کہ وہاں قادیانیت کے خلاف بھی کئی مجاہد صف آراء
ہیں - محمد طاہر رزاق ان ہی سرفروشان اسلام میں سے ایک ہیں - محمد متین
خالد اور محمد سلیم ساقی بھی انہی یں شامل ہیں - میں اس بات پر ناز کرسکتا
ہوں کہ مجھ جیسے حقیر اور بے مایہ شخص کو انہوں نے اعزاز بکشا کہ میں ان کی
کتاب کا دیباچہ لکھوں - میں نے شیخ اعجاز اھمد کی "مظلوم اقبال" اور
قادیانی مشینری ، شیخ عبدالماجد کی زہرناک تحریروں پہ تنقید کی جس پر
قادیانی میرے خلاف محاذ آرائی کررہے ہیں - میں اس مہم بازی کا مکمل جواب
اپنی زیر تصنیف کتاب "قادیانی کذاب" میں دوں گا - اس کے لکھنے میں بعض میری
نجی مشکلات حارج ہیں ، مگر میں اپنے فرض سے غافل نہیں - عبد المجید ساجد
خان صاحب بھی میری تحریک پر مسکت جواب دے چکے ہیں - انشاء اللہ یہ سلسلہ
جاری رہے گا - "غلامان محمد صلی اللہ علیہ وسلم" کسی چور اچکے کو تاج ختم
نبوت چھیننے کی اجازت نہیں دیں گے - کاش مسلمان فرقہ پرستیوں کی حصار سے
نکل کر ایک دوسرے کے خلاف الجھنے کے بجائے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کے ان گستاخوں کو لگام ڈالیں اور آپس کی فرقہ بندیوں میں توانائی
ضائع کرنے کے بجائے متحد ہوکر اسلام اور پاکستان کے ان غداروں کا محاصرہ
کریں |