پاکستان پیپلزپارٹی کے ایک رہنما جناب پروفیسر این ڈی خان
صاحب کا فرمانا ہے کہ پنجاب میں کسی بڑے آدمی کو ابھی تک ڈینگی بخار نے
نہیں پکڑا- ادھر راجہ ریاض بھی ڈینگی وائرس کو پنجاب حکومت کا شاخسانہ قرار
دے رہے ہیں- دونوں رہنما اس طرح کی لایعنی اور بے سری باتیں کر کے معلوم
نہیں کس کو خوش کر رہے ہوتے ہیں-غالبا وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے عوام کی
عقل شاید گھاس چرنے گئی ہے یا پھر وہ نمبر بنانے کے چکر میں رہتے ہیں کہ
چلو اس بہانہ سے وزیراعلی پنجاب کو اپنے غم وغصہ اور نااہلی کا نشانہ بنا
سکیں- وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ پنجاب کا نام بار بار لیں گے تو اس سے تعصبات
میں اضافہ ہوگا- ہم جانتے ہیں یہ پاکستان پیپلزپارٹی تعصبات والی پارٹی
نہیں ہے- ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس کے خمیر میں تعصبات کا مادہ نہیں ہے لیکن
کیا کریں کہ اس پارٹی کے اکثر افراد بار بار پنجاب کا نام اس طرح سے لیتے
ہیں کہ تعصبات کی بدبو ابھر کر سامنے آ جاتی ہے- ایک صاحب بڑے فخر اور
کروفر سے پنجاب حکومت کو تخت لاہور کہتے ہیں- وہ ہمارے لیے محترم ہیں لیکن
وہ الفاظ کو اس طرح استعمال کرتے ہیں جیسے ان کو الفاظ کے اثرات کا علم ہی
نہیں ہے جیسے وہ جانتے ہی نہیں کہ کلام کا بھی اثر ہوتا ہے اور لہجہ اور
اتار چڑھاﺅ کا بھی اثر ہوتا ہے-وہ ایک پڑھے لکھے انسان ہیں لیکن جوش خطابت
میں وہ اتنی وکالت کر جاتے ہیں کہ ان کو اپنے کلام کے اثرات کاعلم ہی نہیں
ہوتا کہ ان کے کلام سے تعصبات کو ہوا ملتی ہے وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ
ان کا کلام دونوں طرف لگنے سنگین اثرات مرتب کر رہا ہوتا ہے-ایک طرف
توسندھیوں اور بلوچوں اور پختونوں کو تمسخر کا موقع فراہم کرتا ہے تو دوسری
طرف پنجابی جو ایک غیر متعصب علاقہ ہے ان کے دلوں میں تعصبات کا تخم بویا
جا رہا ہوتا ہے- جس طرح سندھی اور بلوچی ‘پنجابیوں کے خلاف تعصبات رکھتے
ہیں-اگر اسی طرح پنجابیوں نے بھی تعصبات کا مظاہرہ شروع کر دیا تو اندھیر
ہی مچ جائے گا- اس لیے دین دنیا سب کی بھلائی اسی میں ہے زبانوں اور قوموں
کے تعصبات سے باہر نکلا جائے- مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ پختونوں میں
پنجاب کے بارے تعصبات میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن بلوچوں کے تعصبات میں
اضافہ ہوا ہے- ہم یہاں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہئے کہ اس وقت کون زیادتی کر
رہا ہے- یقینا بلوچوں کو شکایات ہوں گی اور ان کی جائز شکایات کو دور کرنا
ریاست کو ذمہ داری ہے- ہم نے ان کی شکایات کو دور نہیں کیا بلکہ اسی طرح
ڈنڈا چلانے کی کوشش کی جیسے پنجاب کے مظلوم عوام کے ساتھ بیورو کریسی کا
رویہ ہوتا ہے- اب بلوچوں کو کون سمجھائے کہ بیورو کریسی جو ظلم وستم پنجاب
کے عوام کے ساتھ روا رکھتی ہے اس ظلم کے عشر عشیر کا بھی آپ کو سامنا نہیں
ہے-آپ کو قبائلی معاشرہ میں انصاف کا حصول جلد ہو جاتا ہے- کوئی سردار پیسے
لیکر کسی دوسرے کی حمایت نہیں کرتا لیکن یہاں پیسے لیکر بے گناہوں کو
مقدمات میں پھنسوا دیا جاتا ہے اور گنہگاروں کو پیسے لیکر چھوڑ دیا جاتا ہے-
یہاں غریبوں اور مظلوموں کی عورتوں کی عزتیں تک محفوظ نہیں ہوتیں- یہ مفلس
اور غریب لوگ جب کوئٹہ اور دیگر بلوچستان کے علاقوں میں محنت مزدوری کیلئے
جاتے ہیں تو بلوچ لوگ ان مظلوموں کو مار دیتے ہیں قتل کر دیتے ہیں-
اغواءبرائے تاوان کرتے ہیں- یہ لوگ تو آپ کے مہان ہیں اور مہمانوں کی
میزبانی کرنا بلوچ روایات کا حصہ ہے لیکن یہ کیسی میزبانی ہے یہ کیسی
روایات ہیں- یہ سب کیا دھرا تعصبات کا ہی ہے- یہ تعصبات بڑھتے رہے اور اب
بھی بڑھائے جا رہے ہیں- اس لیے تمام پاکستانی حضرات سے گزارش ہے بلکہ دست
بستہ التماس ہے کہ الفاظ اور لہجوں کو قابو میں رکھیں اور خدا کا نام بھی
حودی سے نہ لیں- رئیس امراہوی نے کہا تھا
خدا کا نام خودی نہ لو خدا کیلئے
بار بار طنزیہ انداز میں پنجاب پنجاب کرنے سے پنجابیوں کے تعصبات بھی
بھڑکیں گے- ابھی تک سندھ اور بلوچستان سے پنجابیوں کی بے شمار لاشیں آ چکی
ہیں لیکن خدا کا شکر ہے کہ پنجاب میں دوسرے صوبوں کے خلاف تعصبات کا اظہار
نہیں کیاگیا یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کیلئے تعصبات
زہر قاتل ثابت ہو سکتے ہیں-
وقتی طور پر تخت لاہور جسے جملے کسنے سے شاید پی پی پی کی اعلی قیادت خوش
ہوتی ہو لیکن شاید اس کو احساس نہیں کہ اس کا ووٹ بنک پنجاب میں یا خیبر
پختونخوا میں لسانی یا نسلی بنیاد پر نہیں ہے لیکن اس طرح کی بیہودہ نعرہ
بازی پی پی پی کو فائدہ کی بجائے نقصان کا باعث ہو سکتی ہے-یہی صاحب کبھی
کبھی کلام الہی کھول کر بھی بیٹھ جاتے ہیں اور دیکھیں کہ کیا وہ قرآن سے
بھی کچھ ایسی باتیں نکال سکتے ہیں جہاں یہ درس دیا جاتا ہو کہ انسانوں کے
درمیان تعصبات پیدا کئے جائیں- ایسی غیر ذمہ دارانہ گفتگو کی جائے جس سے
انسان دوسرے انسانوں سے نفرت کرنے لگ جائیں-
باقی رہ گئی پی پی پی کے راہنماﺅں کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کی بات تو اس
بارے اتنا ہی عرض کرتا ہے کہ یہ لوگ پی پی پی کے نادان دوست ہیں جن سے عقل
مند دشمن بہتر ہوتا ہے- ایک مثال سے بات مواضع کرتا ہوں کہ ہمارے گاﺅں میں
ایک بابا جی ہوا کرتے تھے- ایسی باتیں بنا کر کرتے تھے کہ لوگوں کے لاجواب
کر دیتے ہیں حتی کہ گاﺅں کے میراثی بھی ان سے کنی کتراتے تھے اور جس پکڈنڈی
سے وہ آ رہے ہوتے تھے- میراثی لوگ وہ پکڈنڈی چھوڑ کر دوسری طرف چلے جاتے
تھے- جملے کسنے میں وہ استاد تھے اور بڑے بڑوں کے چھکے چھڑا دیتے تھے- ایک
دن میں نے ان سے ہمت کر کے پوچھا کہ بابا جی ایک بات بتائیں کہ یہ اسطرح سے
آپ جواب دیتے ہیں یہ کس طرح سے ہوتا ہے- انہوں نے ایک گر کی بات مجھے بتائی
کہ میں کوئی ھیز نہیں کرتا میں بس اس انتظار میں رہتا ہوں کہ اگلے نے کیا
غلطی کی اور کہاں اس کی بات میں کمزوری ہے- میں صرف اسی انتظار میں رہتا
ہوں- جب مجھے موقع مل جاتا ہے تو بات کردیتا ہوں-دراصل لوگ خود موقع دیتے
ہیں اور جگہ بناتے ہیں-
اب این ڈی خان اور راجہ ریاض لایعنی گفتگو کر کے لوگوں کو موقع دے رہے ہیں
کہ ان کا مذاق بنایا جائے- اب این ڈی خان سے کوئی پوچھے کہ کیا ڈینگی وائرس
کا مچھر کاٹنے سے پہلے آدمیوں کا بنک بیلنس اور ڈگریاں چیک کرتا ہے- اسی
طرح راجہ ریاض سے بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر ڈینگی اسلام آباد تک پہنچ
گیا تو پھر وزیراعظم اور صدر کو اپنے استعفے دے دینے چاہئیں اور سندھ میں
تو ڈینگی پہنچ ہی چکا ہے- اب کیا قائم علی شاہ صاحب کو حکومت سے علیحدگی
اختیار کر لینی چاہئے-
ویسے یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ لوگ مر رہے ہیں اور پی پی پی کے لوگ اپنی
سیاست کے چولہے میں پھونکیں ار کر راکھ اڑا رہے ہیں اور یہ طے شدہ بات ہے
کہ جس چولہے میں پھونک ماری جاتی ہے اس کی راکھ سب سے پہلے اسی کے سر میں
پڑتی ہے جو اس میں پھونکیں مار رہا ہوتا ہے- کچھ خدا کا خوف کریں- یہ ڈینگی
کسی کو بھی ہو سکتا ہے- گورنر پنجاب کو بھی یہ مچھر کاٹ سکتا ہے اور اگر اس
مچھر نے راجہ ریاض یا گورنر پنجاب کو کاٹ لیا تو پھر کیا این ڈی خان کہہ
سکیں گے کہ پنجاب میں ڈینگی مچھر نے کسی بڑے آدمی کو نہیں کاٹا- خدا کی
لاٹھی سے ڈرنا چاہئے- مفلسوں کے زخموں پر اگر مرہم نہیں رکھ سکتے تو کم
ازکم اس طرح کے بیہودہ بیانات سے جن کے پیارے مر گئے ہیں ان کے زخموں پر
نمک پاشی نہ کریں- |