زندگی کے نشیب و فراز میں آج زندگیاں الجھتی جا رہی ہیں،
ملک کے چپہ چپہ پر زندگی کے مشکلات کا رجحان بڑھتا ہی جا رہا ہے، جو ملکی
مفاد کے لئے تشویش کا باعث ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کے روک تھام کے لئے غور و
خوض ہونا لازمی ہے۔تہذیب جدید میں سکہ رائج الوقت کے طور پر لفظ ” حقیقت
پسندی، یا عملیت پسندی کے نام پر بد ترین مظالم و انسانی حقوق کی پامالی
اور نا انصافیوں کو جائز اور حلال کر لیاجا رہاہے۔اس کا عملی مظاہرہ دنیا
بھر کے علاوہ پاکستان میں بھی عروج پرہے۔جمہوریت اور انسانی حقوق کے
دعویدار اپنے مفادات کے لئے ہر اصول طاق پر رکھ کر کہتے ہیں کہ یہ واقفیت
پسندی ہے یعنی کے” مفاہمت کی سیاست“جس میں تاجروں اور سیاست دانوں کی ترقی
و خوشحالی پنہا ہوتی ہے مگر عوام کے مسائل کسی بھی طرح حل نہیں ہوتے۔ہم جو
امریکہ ، امریکہ کرتے نظر آتے ہیں ان میں بھی کہاں انصاف ہے۔عراق، سوڈان سے
کیا انصاف کیا گیا،ان کا صرف ایک مفاد یا ایجنڈا ہے اپنے لئے مارکیٹ تلاش
کرنا وہ جو بھی پورا کرے وہ ان کاہے۔اقوامِ متحدہ سمیت سارے عالم کے ڈھونگی
انسانیت کے ساتھ جس بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں آپ ان کی جھلک شام میں
دیکھ سکتے ہیں جہاں تھوڑی سی آبادی کے ملک میں لگ بھگ آٹھ ماہ میں ایک لاکھ
افراد ہلاک و زخمی ہوگئے جب کہ یہاں بیان بازیاں ہی ہوتی رہتی ہیں۔پوری
دنیا میں ایسے واقعات پر چپ کا روزہ رکھ لیا جاتاہے۔خیر ہمارا موضوع تو
ہمارے اپنے ملک میں ہو رہے بے چینی سے متعلق ہے اس لئے یہاں ہی رہتے ہیں
اور اپنے ہی لوگوں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
اب چونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں (میڈیا کے بقول کچھ دھاندلی کے)
تاریخی انتخابات ہو چکے ہیں اور اس انتخاب میں بالآخر دو مرتبہ کے سابق
وزیراعظم (ن) لیگ نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے ہیں۔اور عنقریب موصوف عنان
اقتدار سنبھالنے والے ہیں۔اقتدار میں آنے سے قبل ان کی پارٹی نے عوام سے بے
تحاشہ وعدے وعید کیئے تھے جس کا ان کے حلف اُٹھانے کے بعد سے وفا کرنے کا
عمل شروع کرنا لازمی ہوگا۔کیونکہ عوام نے انہیں صرف اقتدار کا وقت پورا
کرنے کے لئے نہیں بلکہ عوامی مسائل کے حل کے لئے چُناہے۔اور یہ اُمید کی جا
رہی ہے کہ وہ اپنے اِن وعدوں کی تکمیل میں مکمل دیانتداری برتیں گے۔اور جلد
از جلد لازمی مسائل کو حل کرنے کی جستجو بھی کریں گے۔اس ملک کے عوام کو تو
(ا) سے لیکر (ی) تک مسائل ہی مسائل درپیش ہیں۔مگر فی الفور جو لازمی مسائل
ہیں ان میں سب سے پہلے لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، بےروزگاری، امن و امان اور
کرپشن فوری حل طلب ہیں۔جن پر نئی حکومت کو اپنی اوّلین ترجیح میں حل کرنا
لازمی ہوگاکیونکہ عوام اسی انتظار میں ہے کہ نواز شریف وزیراعظم بنیں گے
اور مسائل کے انبار کو ختم کر دیں گے لیکن حقیقت میں یہ اتنا آسان کام نہیں
ہے البتہ کوششیں رنگ ضرور لاتی ہیں اگر خلوص اور لگن شامل ہوں تو دنیا میں
کوئی بھی کام نا ممکن نہیں ہوتا۔
ان دنوں ہماری عوام مہنگائی سے تو پریشان ہیں ہی ساتھ ہی بدعنوانی سے بھی
سخت نالاں ہیں۔ویسے بھی کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جب بدعنوانی ، مظالم اور
حق انصاف میسر نہ ہوں تو انقلاب آہی جاتاہے۔اور عوام نے شیر کو لاکر انقلاب
نہیں تو اپنے مسائل کو حل کرنے کا سہرا ان کے سر ضرور ڈال دیاہے ۔اس ملک
میں مسائل کا ایک نہ ختم ہونے والا سیلاب فراوانی سے دستیاب ہے جس پر بہت
تندہی سے لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ باری باری عوام کو اپنے
مسائل سے چھٹکارا ملتارہے۔ٓج ملک میں صرف سیاسی حالات ہی خراب نہیں ہیں
بلکہ سماجی حالات کا تجزیہ کچھ اچھا نہیں ہے ،وہ تو سیاسی حالات سے بھی
زیادہ خراب ہیں۔جس کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرور ت لاحق ہوگئی ہے۔حقیقت یہ
ہے کہ جرائم کو روکنے کے لئے سخت ترین قوانین کی ضرورت ہے یہاں تک کہ
عدالتوں کو موت کی سزا سے بھی گریز نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ ہمارے یہاں
جرائم کی شرح بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔یہاں کے لوگوں میں وہ کون سے بدترین قسم
کے محرکات ہیں جن کی وجہ سے جرائم وجود میں آتے ہیں ، ان محرکات پر غور
کرنا ہوگا، محرکات کا پتہ لگانا ہوگا اور اس کی روشنی میں اقدامات کرنے
ہوںگے۔مجموعی اعتبار سے ماحول کو سمجھنا ضروری ہے۔معاشرے میں عموماً تکرار
تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ کے درمیان ہوتی ہے، گھٹیا مجرمانہ سوچ اور
اعلیٰ و ارفع سوچ کے درمیان ہوتی ہے۔تعلیم یافتہ کی سوچ میں بلندی، شائستگی
اور تہذیبی جھلک محسوس ہوتی ہے جبکہ جاہل کی سوچ بالکل ناکارہ،پست، گھٹیا
اور مجرمانہ ہوتی ہے۔ان میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی جہالت کو دوسروں
کو دکھانا اپنی شان اور ذہانت سمجھتے ہیں اور اگر دھوکہ دینا ذہانت کی
بنیاد ہوتی تو یہ چور ، ڈاکو اور لٹیرے سب سے بڑے ذہین سمجھے جاتے۔کیونکہ
ان سے ہر طرح کی سازش تیار کرا کر عمل کرا لیتے ہیں۔اور اپنی سازشی ذہن کو
بہت اعلیٰ سمجھتے ہیں۔یوں اس معاملے پر بھی مثبت حکمتِ عملی کی ضرورت درپیش
ہے تاکہ معاشرے میں سدھار آ سکے۔
موجودہ دور میں اگر گہرائی سے انسانی حقائق کامطالعہ کیاجائے تو چہار جانب
مایوسی کے بادل منڈلاتے نظر آتے ہیں کیونکہ دنیا سے انسانیت مفقود ہوتی جا
رہی ہے۔دنیا جتنی ترقی کرتی جا رہی ہے انسانی مسائل کے رفتار بھی مزید تیز
تر ہوتے جا رہے ہیں، انسان کے چہرے سے خوشی کے مسکان غائب ہو چکے ہیں، لوگ
امن و چین کے لئے ترس رہے ہیں،مہنگائی کا رونا روتے نظر آتے ہیں، نوکری نہ
ہونے کے باعث اچھے خاصے پڑھے لکھے نوجوان مارے مارے پھر رہے ہیں انہیں
نوکری دینے کی حقیقتاً ضرورت ہے وگرنہ یہی نوجوان کبھی کسی گندے ماحول کا
حصہ بن سکتے ہیں کیونکہ یہاں مسائل سے فائدہ اٹھانے والے افراد بے حساب
پائے جاتے ہیں۔عوام کو حکومت نے تو خواب سنہرے دکھائے ہیں مگر کیا وہ عوام
کو اس کی تعبیر دے سکیں گے۔تقریری عمل کچھ اور ہوتا ہے اور عملی عمل اس کے
بالکل برعکس ہوتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ کم از کم چند مسائل کا جن میں
نوکری مہیا کرنے سے لیکر لوڈ شیڈنگ تک کا فوری تدارک کیا جائے تاکہ ہمارے
ملک کے لوگ خوشحالی کی طرف لوٹ سکیں۔اس ملک میں اکثر دیکھاگیا ہے کہ عام
لوگوں تک نوکری کی رسائی نہیں ہوتی ہے۔ہر جماعت اپنے اپنے کارکنوں کو ہی
نوکری دیتا ہوا نظر آتاہے ، اور ووٹ ڈالنے والے لوگوں کے اہلِ خانہ کو
نوکری سے دور کر دیا جاتاہے۔ایسا کیوں ہے؟ یہ تو نہیں معلوم لیکن اس معاملے
کی تہہ تک پہنچ کر نئی حکومت کو نوکریاں عام لوگوں کی پہنچ تک پہنچاناہوگا
تاکہ ہر بندہ خوش و خرم زندگی گزارنے کے قابل ہو سکے۔اختتام اس شعر کے ساتھ
کرنا چاہوں گا اگر سمجھ میں آجائے تو شعر کا حق ادا ہو جائے گا وگرنہ تو
................؟
مسائل بھی باقی ہیں مسائل کی دوا بھی باقی ہے
کئی ہونٹوں پر ابھی حرفِ دعا بھی باقی ہے
پہلے جو بھی ہوا اس کو رکھیں ایک طرف
آج کو، آج کی نظر سے دیکھنا ابھی باقی ہے |