قیمتی مجسمہ ....عوام پاکستان

عرصہ دراز پہلے کی بات ہے کہ ایک بادشاہ کو قیمتی نوادرات جمع کرنے کا بہت شوق تھا۔ اور جب کبھی کوئی شخص اسے کسی قسم کے قیمتی نوادرات پیش کرتا تو وہ اسے بھی بہت سا انعام و اکرام دیتا۔ ایک مرتبہ بادشاہ کو کسی نے تین مجسمے دیئے۔ تینوں بالکل ایک جیسے تھے۔ تینوں بہت خوبصورت بھی تھے ۔بادشاہ بہت پریشان ہوا کیونکہ ان میں کوئی بھی فرق نہ تھا بادشاہ ان کی حقیقت معلوم کرنا چاہتا تھا۔بادشاہ نے ملک کے ذہین لوگوں کو بلوایا اور ان تینوں مجسموں کے فرق کے بارے میں پوچھا۔ بہت سے لوگوں نے اپنی اپنی کوشش کی لیکن کوئی بھی بادشاہ کو مطمئن نہ کرسکا کیونکہ کوئی بھی فرق بتانے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ بالآخرایک بوڑھا شخص بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا اور تینوں مجسموں میں فرق بتانے کی اجازت چاہی۔ اجازت ملنے پر اس نے پانی منگوایا اور پہلے مجسمے کے کان میں ڈالا۔تو بادشاہ سمیت سب درباری یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ مجسمے کے دوسرے کان سے پانی باہر نکل آیا۔جب اس نے دوسرے مجسمے کے کان میں پانی ڈالا تو اس کے منہ سے پانی باہر نکلنے لگا اور جب تیسرے مجسمے کے کان میں پانی ڈالا تو پانی بالکل بھی باہر نہ آیا۔اب بوڑھے آدمی نے بادشاہ کو تینوں کی حقیقت بتائی۔ کہ جس مجسمے کے کان سے پانی باہر نکلا تو وہ ایسے لوگوں اور کمیونٹی کی نمائندگی کرتا ہے جو ایک کان سے سنتے ہیں اور دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں۔ دوسرا مجسمہ ان لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے جو بات کو سنتے ہیں اور پھر منہ سے نکال دیتے ہیں ۔ یعنی پیٹ کے ہلکے یا بھانڈ قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ اور تیسرا مجسمہ ان لوگوں کی مثال ہے جو بات کو سن کر اسے سمجھتے ہیں اور پھر اس میں سے اپنے لئے نصیحت اور فائدے کی بات کو سوچ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیںاور یہ نہایت ہی قیمتی مجسمہ ہے۔

یہ تینوں مجسمے دراصل پاکستانی عوام و حکمرانوں کی عکاسی کرتے ہیں پہلے نمبر کامجسمہ جو کہ نہایت ہی فضول فارمیٹ و اہمیت کا حامل ہے وہ ہمارے ارباب اقتدار اور حکمران پارٹی کی تصویر کشی کرتا ہے کہ ان پرکسی بھی بات کا اثر نہیں ہوتا ان کے سامنے رونا گڑگڑانا آہ و بکا کرنا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے کیونکہ ان کے بقول اللہ تعالی نے دو کان دیئے ہی اس لئے ہیں کہ عوام کی بات(اگر کبھی وہ بولتی ہے تو)کوایک کان سے سنو اور دوسری سے نکال دو یعنی سنتے ضرور ہیں لیکن اسے فضول اور بے فائدہ سمجھ کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں

دوسرے مجسمے کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ہر پارٹی نے سننے اور بولنے کیلئے مخصوص بندے رکھے ہوئے ہیں جو دن کو رات اور رات کو دن بنانا اچھی طرح جانتے ہیں اور ایسے ڈھٹائی اور بے شرمی سے جھوٹ کو پیش کرتے ہیںکہ نہ جاننے والے کو سچ مانے بنا چارہ نہیں رہتا۔ فیصل رضا عابدی۔ بابراعوان۔ رحمان ملک۔ نوید قمر۔ پرویز اشرف۔رانا ثناءاللہ احسن اقبال۔ قمرالزمان کائرہ شرمیلافاروقی وغیرہ وغیرہ ۔ یہ دونوں قسم کے لوگ در حقیقت مجسموں کی طرح بے حس بے جان و بے اثر ہوتے ہیں ان پر کسی بھی بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی بے جان اجسام کی مانند کسی بات کو ہضم کرسکتے ہیں بس بڑ بڑ ہانکتے رہتے ہیں ۔ کیونکہ ان کو پیسے بھی صرف اسی بات کے ملتے ہیں اور جو سب سے زیادہ جھوٹ بولتا ہے اس کی ریٹنگ بھی زیادہ ہوتی ہے

جبکہ تیسری قسم جو کہ نہایت ہی قیمتی واعلی النسل ہے کہ بات کو سن کر اسے اپنے اندر سمو لیتے ہیں جذب کرلیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اس کا رد عمل کسی اچھائی کا شاخسانہ ہو یا کم ازکم کسی کی دل آزاری تو نہ ہو۔ کسی غلط بات کو صحیح اور صحیح بات کو غلط ثابت کرنے کی کوشش میں اپنا سب کچھ دین ایمان داﺅ پر تو نہیں لگاتے۔یہ تو بیچارے باتیں سن کر سوچ و بچار کرتے ہیں اور اپنے فائدے کی کوئی بات اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کی ایسی قسمت کہاں! یہ واقعی قیمتی لوگ(مجسمے) ہیں حکمرانوں کیلئے ارباب اقتدار کیلئے کہ سن کر ان سنی بھی نہیں کرتے اور سن کر ڈھنڈورا بھی نہیں پیٹتے بلکہ کوئی نتیجہ کوئی مفاد اخذ کرنے تک پھر کوئی دوسری بات سن لیتے ہیں اور اس کی ٹوہ میں لگ جاتے ہیں لیکن ڈھاک کے تین پاٹ کے مترادف کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ جی ہاں! یہ قیمتی مجسمے پاکستانی عوام ہیں بے چاری عوام سب کو سنتی ہے سمجھتی ہے اور سہتی ہے لیکن منہ سے کچھ نہیں پھوٹتی ۔اور الیکشن کے نتائج نے بھی یہ بات واضح کردی ہے کہ نصیحت سنتے سنتے نصیحت کر بھی دیتے ہیں اور وہ بھی ایسی کہ متاثرہ زمین چاٹنے پر مجبور ہوجائیں-

تو جناب قارئین ہوئی نہ قیمتی ۔ جیو پاکستانی عوام۔ حکمرانوں کا بھی یہی نعرہ ہے۔ پاکستانی عوام دنیا کی بہترین عوام ہے ۔

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211664 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More