حکومت اکثریت سے نہیں، تدبر سے چلتی ہے۔ سبحان اﷲ! کیا
کہنے۔قبلہ مولانا فضل الرحمان نے اپنی سیاسی تجربے کا نچوڑاور فلسفہ سیاست
کو ایک قول زریں میں سما دیا ہے۔۔مولانا کی سیاسی زندگی پر نظر دوڑائی جائے
تو وہ اس فلسفے کی عملی تصویر نظرآتی ہے۔ تاریخ میں گناہ گار ووٹر عوام نے
مولانا کی علماء کی جماعت کو کبھی بھی الیکشن میں یہ موقع نہ دیا کہ وہ کسی
صوبے یا مرکز میں تن تنہا حکومت سازی کرسکے لیکن مولانا فضل الرحمان اپنے
حسن تدبر اور فہم و فراست کی بدولت ۱۹۸۸ کے بعد بننے والی تین جمہوری
حکومتوں میں اپنا حصہ بقدر جصہ ضرور حاصل کرتے رہے ہیں۔
ان کے تدبر کا ورود مسعود اس وقت شروع ہوا جب بے نظیر بھٹو کی قیادت میں
پیپلز پارٹی اپنے پہلے الیکشن کے لیے میدان میں اتری تھی۔مولانا نے عورت کی
حکمرانی کو سراسر غیراسلامی قرار دیا۔ بعد ازاں ان پر یہ سیاسی الہام ہوا
کہ اسلام میں عورت کی حکمرانی جائز ہے۔ ۱۹۹۳ء میں وہ بے نظیر بھٹو کے ایک
بڑے حمایتی بن کر سامنے آئے۔الیکشن کے بعد انعام میں خارجہ امور کی
پارلیمانی کمیٹی کی سربراہی پائی۔ اس وقت کے اخبارات شاید ہیں کہ اس دوران
موصوف کا زیادہ وقت کفار کی سرزمینوں اورمشرق وسطی کے عربی شیوخ کی معیت
میں گزرا۔
بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں مولانا کے حصے میں پاکستان اور
افغانستان کے درمیان تیل کی ترسیل کے پرمٹوں کے ٹھیکے وافر تعداد میں آئے
جن میں کرپشن کی کئی مبینہ کہانیاں منظرعام پر آئیں۔ مولانا ڈیزل کا لاحقہ
جناب کے نام کا حصہ بن گیا۔بے نظیر بھٹو کی جلا وطنی کے بعد عبوری اپوزیشن
لیڈر کی کرسی پائی۔ مشرف دور میں مولانا کی قیادت میں ایم ایم اے قیادت نے
ایل ایف او کے معاملے پر باجماعت آمر پرویز مشرف کوباجماعت ووٹ دیا ۔ ایم
ایم اے اپوزیشن کی اکثریت جماعت نہیں تھی ،تدبر کام آئی اوراپوزیشن لیڈری
کی دیوی مولانا پر فریفتہ ہو گئی۔
۲۰۰۸ ء کے الیکشن کے بعدمولانا نے یوسف رضاگیلانی کو وزیراعظم بنانے کے لیے
پیپلز پارٹی کو اپنی جماعت کا کندھا فراہم کیا، چونکہ مولانا مفت میں کوئی
کام نہیں کرتے۔ لہذا کشمیرکمیٹی کے چئیرمین بن گئے جہاں وزیر کے برابر
مراعات ملتی رہیں۔یہ منصب بھی ان کے حسن تدبر کا شاہکار تھا۔وہ اسلام آباد
میں ہوتے تو مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ میں ڈھونڈتے، دہلی گئے توشملہ
معائدے میں تلاشتے۔ان کا دہلی میں یہ موقف تھا کہ تنازعے کے حل کے لیے
سیزفائر لاین کومستقل سرحد بنا دیا جائے۔وہ دہلی جاتے تو اپنی جماعت کے
ساتھ کسی جہادی گروہ کے ساتھ وابستگی سے سراسر انکارکرتے،افغانستان میں
طالبان حکومت کے بعدکابل میں ان کی جماعت کے رہنما طالبان کو اپنا نظریاتی
اور دینی حلیف مانتے رہے۔
مشرف دور میں ان کا سیاسی فلسفہ اس وقت اپنی معراج پر نظرآیا جب وہ جلسوں
اور پریس کانفرنسوں میں امریکی پالیسیوں پر گرجتے اور لوگو ں کو بتاتے کہ
امریکہ امت مسلمہ کا سب سے بڑا دشمن ہے۔لیکن رات کی تاریکیوں میں انھی
امریکیوں پر فدا ہوتے ۔وکی لیکس کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد
میں امریکی سفیر کے لیے ایک پرتکلف ضیافت کا اہتمام کیا اور انھیں یہ
واشگاف پیشکش کی تھی کہ پارلیمان میں کسی بھی تبدیلی کے لیے ان کی جماعت کے
ووٹ برائے فروخت حاضر ( 'up for sale' ) ہیں۔ وکی لیکس کے مطابق ۲۰۰۷ء میں
مولانا نے امریکی سفیر سے پاکستان کی وزرات عظمی کے حصول کے لیے درخواست کی
تھی۔مولانا اپنے دورہ بھارت کے دوران مولانا مدنی کے ذریعے امریکی سفارت
خانے تک رسائی کی کوشش بھی کرتے رہے۔جس پر سفارت کار نے جواب دیا کہ :
مولانا کی ساکھ ٹھیک نہیں البتہ مولانا مشرف سے زیادہ روشن خیال ہیں۔
( in reality was more moderate than Musharraf.” )
مولانا ملوکیت کے سخت خلاف ہیں لیکن سیاست میں استثناء کے قائل ہیں۔تبھی
اپنے والد مفتی محمود کے بعدطویل عرصے سے جماعت کی سربراہی اپنے پاس رکھی
ہوئی ہے اس پر مستزاد یہ کہ اسمبلیوں اور سینٹ کی سیٹیں اپنے بھائیوں ،
سالی اور سمدھی کے لیے ہی حلال رہی ہیں۔۔مولانا کے والد مفتی محمود اسلامی
نظام کے نفاذ کے زبر دست داعی تھے جنھوں نے سوشلزم اور سیکولرکی علمبردار
پیپلز پارٹی اور اے این پی(نیپ) کے حلیف بن کر صوبہ سرحد میں حکومت
بنائی۔جنرل ضیاء کے اسلامی مارشل لاء پر بھی اعتماد کیالیکن جب ضیاء الحق
نے سرکاری ملازمین کی تنخواؤ ں سے زکواۃ کٹوتی کاسلسلہ شروع کیا تواس کے
خلاف فتوی جاری کردیا۔حالیہ الیکشن میں مولانا نے عمران خان کو ووٹ دینے کو
حرام قرار دینے کا فتوی جاری کیا تو یہ اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔ بزرگوں کی
سنت کا احیاء ہوا ہے۔
حالیہ الیکشن کے بعد بھی مولانا کا تدبر جوبن پر نظر آیا۔ تنائج آتے ہی
مولانا نے فورا رائے ونڈ فون کھڑکا کر ا خیبر پختون خواہ میں نون لیگ اور
دیگر جماعتوں سے ملک کر حکومت سازی کی پیش کش کردی۔ نون لیگ نے جب ایک
اکشریتی جماعت کے طور پر پی ٹی آئی کا مینڈیٹ مانتے ہوئے نا ں کر دی تو
مولانا ناراض ہو کر پی ٹی آئی پر برس رہے ہیں۔اب نون لیگ نے مرکز اور
بلوچستان میں حکومت سازی پر آمادگی ظاہر کی ہے تو مولانا کی جان میں جان
آئی ہوگی ۔یعنی قومی اسمبلی میں صرف آٹھ سیٹیں رکھنے کے باوجود مولانا
حکومت کا حصہ ہوں گے۔واقعی مولانا! آپ درست فرماتے ہیں۔ حکومت اکثریت سے
نہیں ِ، تدبر سے بنتی ہے۔چلتی ہے۔
( ظفراقبال برطانیہ میں مقیم ایک فری لانس صحافی اور بلاگر ہیں ۔
https://www.zafaronline.net/ ) |