نئے سیاسی دور کا آغاز اور عوام کی امیدیں

انتخابات کا نتیجہ آچکا۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز) وفاق اور پنجاب میں اکثریتی پارٹی بن کر ابھری ہے۔عوام کے بھاری مینڈیٹ کی بدولت وفاق اور پنجاب میں اسے حکومت کے ذریعے کسی بیساکھی کی ضرورت نہیں۔ صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کواکثریت ملی اور اسے بھی وہاں اپنی حکومت بنانے کے لئے کسی بڑے جوڑ توڑ کی ضرورت نہیںہے۔ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کو نمایاں سیٹیں ملی ہیں مگر وہ وہاں کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کا دعویٰ اس لئے نہیں کرسکتی کہ وہاں دوسری پارٹیاں جن میں مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور دیگر پارٹیاں شامل ہیں ایک مخلوط حکومت قائم کرسکتی ہیں اور عمران خان کی پارٹی کو اپوزیشن میں بیٹھنے پر مجبور کرسکتی ہیں ۔ اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمن نے جوڑ توڑ کے لئے رابطے بھی شروع کردئیے تھے مگر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے عدم دلچسپی کی بناءپر انہیں سیاسی چالوں میں ناکامی کا سامنا ہے۔ میاں شہباز شریف نے تو دوسرے دن ہی یہ بیان جاری کردیا تھا کہ چونکہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کو زیادہ نشستیں ملی ہیں لہٰذا پہلے حکومت بنانے کا حق ان کو حاصل ہے۔اس طرح مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ایک مثبت اور دانشمندانہ فیصلہ کیا گیا ہے جس کے اس کے سیاسی قد کاٹھ میں بے حد اضافہ ہوگیا ہے۔ اسی طرح نواز شریف نے شوکت خانم میموریل ہسپتال میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی عیادت کرتے ہوئے اپنی پارٹی کی اس سوچ کا اعادہ کیا کہ خیبر پختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف کو حکومت بنانے کا پورا موقع فراہم کیا جائے گا۔عمران خان کی جانب سے بھی مثبت ردعمل کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ اپنے وڈیو خطاب میں انہوں نے کہا کہ بحرانوں سے نکلنے کے لئے نواز شریف سے تعاون کریں گے۔ جہاں تک بلوچستان کا معاملہ ہے وہاں بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) ایک نمایاں پارٹی کے طور پر ابھری ہے اور امکان یہی ہے کہ وہ وہاں مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب بھی ہوجائے گی۔ مبصرین کے مطابق مسلم لیگ (ن) وفاق اور پنجاب کے علاوہ بلوچستان میں بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی کی قیادت کی جانب سے انتخابات جیتنے کے بعد دیگر جماعتوں کو ساتھ لے کر قومی مسائل حل کرنے کا جو موقف اپنایا گیا ہے وہ انتہائی مثبت ہے اور عمران خان کی جانب سے بھی بحرانوں کے حل کے سلسلے میں نواز شریف کا ساتھ دینے کا عندیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان انشاءاللہ بہت جلد بحرانوں کی زد سے نکلنے والا ہے۔ یہاں سیاسی دھینگا مشتی اور اعصاب شکن محاذ آرائی کی بجائے ایک مثبت سیاسی طرز عمل کا آغاز ہونے جارہا ہے۔اس طرح انتخابات کے بعد پاکستان کے ہرشخص اور ہر طبقے کو طمانیت کا احساس ہورہا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ پندرہ سال سے جو بے چینی، عدم تحفظ، لاقانونیت، افراتفری کے بادل چھائے ہوئے ہیں، سیاسی پارٹیوں کے طرز عمل سے ان کے چھٹنے کا واضح امکان ہے۔ میاں نواز شریف نے بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ برابری کی سطح برقرار رکھتے ہوئے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ امریکہ، سعودی عرب، مصر، ترکی، چین اور اقوام متحدہ کی جانب سے بھی میاں نوازشریف کو انتخابات میں کا میابی پر مبارکباد دی گئی ہے۔ امریکہ جس کا کردار پاکستان میں بہت زیادہ سرایت کرچکا ہے اور گزشتہ پندرہ سال سے دہشت گردی کی جنگ اور ڈرون حملوں کے حوالے سے جو کھیل وہ خطے کے ساتھ کھیل رہا ہے، میاں نواز شریف کی حکومت بننے کے بعد اس کی طرز عمل اور پاکستان سے برتاﺅ میں نمایاں تبدیلی کا امکان بھی ہے۔

یہاں پاکستان کے سرکاری اداروںافواج پاکستان، عدلیہ، الیکشن کمیشن، اور نگران حکومت کے کردار کو سراہا جانا بھی ضروری ہے جنہوں نے انتخابات کا بروقت انعقادکروا ملک کو ہیجان کی کیفیت سے باہر نکالا۔خاص طور پر جنرل اشفاق پرویز کیانی کی جانب سے انتخابات کے بروقت انعقاد کا جو بیان آیا تھا، اس نے ان قوتوں کی شدید حوصلہ شکنی کی جو پاکستان میں انتخابات ملتوی کروا کر یہاں آگ اور خون کا کھیل شروع کروانے کے متمنی تھے۔ ان قوتوں نے انتخابات کے روز تخریبی سرگرمیوں کی کوشش کی لیکن افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی جانب سے آنکھیں کھلی رکھنے کا جو مظاہر ہ کیا گیا، وہ واقعی لائق تحسین ہے۔ اسی طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی خراج تحسین کا مستحق ہے کہ انہوں نے انتخابات کو بروقت اور شفاف بنانے کے لئے فول پروف انتظامات کی کوشش کی۔ ماسوائے چند ایک پولنگ اسٹیشن کے ملک بھر میں ووٹنگ کے تمام مراحل بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئے۔ کراچی، حیدرآبادمیں کچھ ایسے واقعات ضرور ہوئے جس سے الیکشن کمیشن کو تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑا مگر بحیثیت مجموعی ملک بھر انتخابی عملے کا کردار انتہائی مثبت رہا۔ الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ جہاں سے دھاندلی کی شکایات موصول ہوئی ہیں ، وہاں تحقیقات کروا کر حقائق کو منظر عام پر لایا جائے۔ اسی طرح جو پارٹیاں اور افراد خوامخواہ دھاندلی کے الزامات لگا کر پاکستان کی اکثریتی پارٹی کے مینڈیٹ پر سوالیہ نشان لگانے کی کوشش کررہے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ الیکشن کمیشن سے رجوع کریں ۔ ان کو ضابطے کے مطابق اپنی شکایات درج کرانے کا پورا حق ہے مگر سڑکوں اور گلیوں میں جنگ و جدل کی فضا قائم کرنا اور معمولات زندگی میں رکاوٹ ڈالنا، انہی کسی بھی طرح سے زیب نہیں دیتا۔

جہاں تک پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی انتخابات میں شکست کا معاملہ ہے تو انہیں اپنے کرموں کا پھل مل گیا۔ انہوں نے گزشتہ پانچ سال کے دوران جو اقدامات کئے، ووٹ کی شکل میں عوام نے اپنے ردعمل کا اظہار کردیا۔ شکست کے بعد دونوں پارٹیوں کی قیادت کی جانب سے بھی بالغ النظری کا مظاہرہ کیا گیا۔ انہوں نے اپنی ناکامی کی وجوہات بھی بیان کیں اور عوام کے فیصلے کو تہہ دل سے قبول بھی کیا۔ اس طرح پاکستان میں بحیثیت مجموعی ایک نئے دور کا آغاز ہونے جارہا ہے۔ امید ہے پاکستان کی نئی قیادت پاکستان، جمہوریت اور عوام کی خوشحالی اور ترقی کے لئے بھرپور اقدامات کرے گی۔ توانائی کا بحران، دہشت گردی، لاقانونیت، کرپشن، بے روزگاری، معاشی بدحالی کے جو ناگ پھن پھیلائے کھڑے ہیں، ان پر قابو پانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرے گی۔ اگر خدانخواستہ وہ ان بحرانوں پر قابو پانے میں ناکام رہتے ہیں تو ان کا انجام بھی گزشتہ حکومت سے مختلف نہ ہوگا ۔

Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 69486 views Columnist/Journalist.. View More