کوٹ ادو کی دو قومی اور چار صوبائی نشتوں پر ہونے والے
الیکشن نے تاریخ رقم کردی۔na 176 پر ن لیگ کے ملک سلطان ہنجرا اورna177 پر
مظفرگڑھ سے تعلق رکھنے والے مزدور رہنما جمشید خان دستی براجمان ہوگئے۔ ملک
سلطان ہنجرا نےex گورنر پنجاب مصطفی کھر کو 10ہزار ووٹوں کی لیڈ سے ہرایا
کھر صاحب نے72370 جبکہ ن کے ونر سلطان ہنجرانے85607 ووٹرز کا اعتماد حاصل
کیا۔ppp جو پچھلے 10سالوں سے na 176پر حکمرانی کرتی ارہی تھی اسکا صفایا
ہوگیا۔pppp کے ارشد عباس کے حصے میں14007 ووٹ ائے اور ضمانت ضبط ہوگئی۔ کھر
نے دھاندلی کے الزامات کی بوچھاڑ کررکھی ہے انہیں کھلے دل سے اپنی شکست
تسلیم کرکے جمہوری اقدار کو مستحکم کرنے کی روایت ڈالنی چاہیے۔ دوسری سیٹna
177 سے جمشید خان دستی نے سابق فارن منسٹر حنا ربانی کھر کے والد اورpppp
کے ر بانی کھر کو 55 ہزار ووٹوں کی لیڈ سے ہرادیا۔یہ نشست ایوبی دور سے
کھروں کی ابائی سیٹ رہی ہے۔ ربانی کھر 3مرتبہ na 177 جبکہ حنا ربانی کھر
پچھلے دو انتخابات میں منتخب ہوئیں۔ جمشید دستی نے ایک طرف ppp کیex فارن
منسٹرحناربانی کھر اور ربانی کھر کو شکست دیکر سب کو انگشت بدنداں کردیا تو
دوسری طرف جمشید دستی نے اسی سیٹ پر ن لیگ کے وڈیرے اور ٹکٹ ہولڈرخالد
گورمانی کا بوریا بستر گول دیا۔ جمشید دستی نے جاگیردارانہ ازم کے صدیوں
پرانے قلعوں کو پاش پاش کردیا۔ کوٹ ادو کی صوبائی نشتوںpp251 کوٹ ادو اورpp
253 پر pppکے ٹکٹ ہولڈرز کو عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ppp کے دونوں
امیدواروں میاں امجد عباس نے 4000 جبکہ چوک منڈا سے ex mpaاحسان نولاٹیہ کو
جوہری شکست نے تازیانہ عبرت بنادیا۔ہنجرا فیملی کے ملک احمد یار ہنجراpp251
اورpp 253 سے مرتضی رحیم کھر بازی لے گئے۔ کوٹ ادو کے عوامی انتخابات میں
تحریک انصاف کے نوزائیدہ امیدوار اشرف رند اینٹی ہنجرا قوت بن کر ابھرے ۔
قائد عوام بھٹو کے متعلق چواین لائی نے کہا تھا وہ ایا اس نے دیکھا اور چھا
گیا۔ اشرف رند بھی حادثاتی طور پر قومی الیکشن میں نمودار ہوا۔ اشرف رند
ماضی میں ucناظم بھی رہ چکے ہیں۔ اشرف رند کسی دور میں ہنجراوں کا قریبی
ترین ساتھی رہا ہے مگر انہی مہربان سرپنچوں کی شفقت سے رندپابند سلاسل بھی
رہا۔اس نے عزم صمیم اور جنون بادہ پیمائی سے قید و بند کی صعوبتوں کا
مقابلہ کیا۔ وہ جیل سے رہا ہوا تو اس نے اینٹی ہنجرا پولیٹکس کا اعلان
کردیا۔ ہنجرا فیملی1985 سے کوٹ ادو کی سیاست پر چھائی ہوئی ہے۔ محسن علی
قریشیex mna نے پہلی مرتبہ ہنجراوں کو للکارنے مقابلہ کرنے اور شکست دینے
کا ایوارڈ حاصل کیا۔ محسن قریشی نے سابقہ دو الیکشن میں ہنجراوں کو ہرا کر
mna شپ جیتی مگر بدقسمتی تو یہ ہے کہ محسن علی قریشی کو2009 میں برین ہیمرج
نے آدبوچا اور وہ پچھلے ساڑھے چار سالوں سے پمز میں بستر علالت پر دراز
ہے۔محسن قریشی کی عدم موجودگی میں اشرف رند ہنجراوں کے سامنے ڈٹ گیا۔یہ
کہنا غلط نہ ہوگا کہ جس مشن کا اغاز محسن قریشی نے کیا تھا اشرف رند تحریک
انصاف کا پھریرہ لہرا کر اسی مشن کو لے کر اگے بڑھ رہا ہے۔2013 میں عمران
خان نے اشرف رند کو صوبائی ٹکٹ جاری کیا تو یار لوگوں نے بھانت بھانت کی
بولیاں بولیں مگر رند نےpp 251 سے دو مرتبہ ایم پی اے منتخب ہونے والے ن
لیگ کے احمد یار ہنجرا mpaکے مقابلے میں الیکشن لڑنے کا تہیہ کرلیا۔ الیکشن
نتائج نے ہنجراوں کو لوہے کے چنے چبوادئیے۔شہری علاقوں کے تمام پولنگ
اسٹیشنز پر اشرف رند نے احمد یار ہنجرا کو پچھاڑ دیا۔ اشرف رند نے34 ہزار
جبکہ ن لیگ کے منتخب mpa احمد یار کے بیلٹ باکس نے 36 ہزار ووٹ برامد کئے۔
اشرف رند اور تحریک انصاف کا موقف ہے کہ وہ الیکشن جیت چکے تھے مگر سرکاری
مشینری نے اسکی جیت کو شکست میں بدل دیا۔ اشرف رند اور مصطفی کھر کے
فرزانوں دیوانوں اور جیالوں نے سنگین احتجاج بھی کیا۔ کوٹ ادو دو دن
ہنگاموں وہم و وسوسوں اور خدشات کی زد میں رہا۔تحریک انصاف کے کارکنوں نے
عدالتی رویوں کے خلاف احتجاج کیا پولیس وین کو اگ لگادی گئی ۔اب معاملہ
ہائی کورٹ اور الیکشن ٹریبونل میں پہنچ چکا ہے وہاں کیا نتیجہ نکلتا ہے
پاکستانی انتخابی تاریخ پر نظر دوڑانے سے نتیجہ بھی نوشتہ دیوار بن کر
سامنے اجاتا ہے۔ اشرف رند اہلیان کوٹ ادو کے لئے کسی نعمت مترقبہ سے کم
نہیں۔ عوام نے اسکی بھرپور پزیرائی کرکے اسکی عوامی خدمات کو داد تحسین پیش
کیا۔36 ہزار ووٹ حاصل کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ اشرف رند سفید پوش طبقات
مظلوموں یتیموں اور نوجوان نسل کی نمائندگی احسن انداز میں کررہا ہے۔ کوٹ
ادو کی سیاسی تاریخ میں اشرف رند کا سیاسی کردارکردار لازم و ملزوم بن چکا
ہے۔ ڈیوڈ گھمن نے صدیاں قبل کہا تھا کہ ایک بہادر ملاح ہی سمندری طوفان کے
بھنور میں پھنسی ہوئی کشتی کو تابہ ساحل بناتا ہے۔ رند نے اسی مقولے کی
روشنی میں جاگیرداروں کا اہنی عزائم سے مقابلہ کیا۔اس نے ہر سوالی کی دامے
درمے سخنے مدد کی اور زندگی کی ساری جمع پونجی بے کس و ناکس ووٹرز پر انڈیل
دی۔ اشرف رند اور منتخب ہونے والے احمد یار ہنجرا کا اولین فریضہ ہے کہ
دونوں اپنی ساری توانائیاں کوٹ ادو کی پسماندگی بیروزگاری اور غربت کے
خاتمے کی خاطر صرف کریں۔ اشرف رند کوٹ ادو کا عمران خان بن چکا ہے اسکا
سیاسی مستقبل روشن اور تابناک ہے۔کوٹ ادو کے عمران خان اشرف رند کو ملنے
والے34 ہزار ووٹ جمہوریت اور غریب و مقہور عوام کی فتح کا پیش خیمہ ہیں۔
جمشید خان دستی کی دو نشتوں پر کامیابی اور اشرف رند کا ہیوی ویٹ ووٹنگ
بیلنس جاگیرداروں اور وڈیروں کی انقلابی شکست کا ائینہ دار ہے۔پاکستانی
تاریخ میں کوئی حکمران جنرل یا ڈکٹیٹر جاگیردارانہ نظام کے استحصال کو ختم
کرنے میں ناکام رہا۔پاکستان کو درپیش تمام مسائل جاگیرداریت اور سرمایہ
داریت کی پیداوار ہیں۔2٪ جاگیرداروں بیوروکریٹوں اور خاکی جرنیلوں کی
ٹرائیکا نے98٪ عوام کے اسلامی انسانی معاشی اور ائینی حقوق و وسائل پر
گدھوں کی طرح تسلط قائم کررکھا ہے۔جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ وقت کی اولین
ضرورت ہے۔ سقراط کا قول ہے جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام ہی لوگوں کو
درپیش تمام مصائب و الام اور طبقاتی تقسیم کا زمہ دار ہے۔جمشید دستی اور
اشرف رند کے جنون و دھنون اور حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد پاکستان کے غریب
طبقات کے لئے مشعل راہ ہے۔خیبر سے کراچی تک کوئٹہ سے سوات تک کیڑے مکوڑوں
کی طرح زندگی گزارنے والے17 کروڑ جس روز بے حسی کے خول سے باہر نکل ائے تو
اسی روز ہر حلقے کا جمشید دستی نوابوں گودوں اور وڈیروں کو حناربانی کھر کی
طرح ایسی شکست سے دوچار کرے گا کہ نام نہ ہوگا داستانوں میں۔ |