نرسنگ وہ شعبہ ہے جو کسی بھی مریض کے زخموں پر مرہم رکھنے اور اس کی صحت کی
بحالی میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں یہ ابھی تک
اپنے حقیقی مقام سے بہت دور نظر آتا ہے۔ عالمی سطح پر نرسنگ کے لئے جو
معیارات مقرر کئے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک نرس کو زیادہ سے
زیادہ چار مریضوں پر تعینات کیا جا سکتا ہے۔ جب کہ پاکستان میں ایسے ہسپتال
بھی موجود ہیں جہاں ایک وقت میں اسٹاف نرس یا چارج نرس کہلانے والا نرسنگ
اسٹاف بیک وقت پچاس سے زائد مریضوں کی دیکھ بھال کر رہا ہوتا ہے۔ سرکاری
ذرائع کی جانب سے سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک بھر کے
سرکاری ہسپتالوں میں پچاس ہزار سے زائد نرسوں کی کمی کا سامنا ہے۔ دوسری
جانب سرکاری ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ وقتا فوقتاً نرسوں کی خالی آسامیوں
پر تقرریاں کی جاتی رہی ہیں اس کے باوجود اسٹاف کی کمی کا مسئلہ پھر تھوڑے
عرصے بعد ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔ اس حوالے سے نرسنگ ایسوسی ایشن اور مختلف
نرنسگ فیڈریشنوں کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں نرسنگ
اسٹاف کو کام تو زیادہ کرنا پڑتا ہے لیکن انہیں دی جانے والی سہولیات نہ
ہونے کے برابر ہیں۔ ایک نرس کو اگر ایک وقت میں پچاس مریض اٹینڈ کرنے ہوں
تو ایک انسان ہونے کے ناطے یہ اس کے لئے ممکن نہیں ہوتا اس پر بھی مشکل یہ
ہے کہ جن ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کے لئے تو وارڈ میں دو گھنٹے گزارنا شرط ہوں
وہاں نرسز صبح اور شام کی شفٹ میں چھ گھنٹے اور رات کی شفٹ میں بارہ گھنٹے
تک کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایسے میں ناصرف مریضوں کو مناسب توجہ نہیں
دی جا سکتی جو کہ مریضوں کے لواحقین کے غصے اور بعض اوقات ان کی جانب سے
جسمانی تشدد تک کا سبب بن جاتا ہے بلکہ یہ خود نرسنگ کے شعبے سے بھی زیادتی
کے مترادف ہے۔
وفاقی ادارہ صحت کے زیر اہتمام ایک سرکاری ہسپتال میں گیارہ سال سے کام
کرنے والے ایک میل نرس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مختلف سوالوں کے جواب
دیتے ہوئے کہا کہ نرسنگ کا شعبہ عام طور پر میڈیکل پروفیشن کا حصہ سمجھا
جاتا ہے حالانکہ یہ بالکل ایک الگ نوعیت کا شعبہ ہے جس کی ذمہ داریاں عملی
طور پر بعض اوقات ڈاکٹروں سے بھی بڑھ کر ہوتی ہیں۔ گیارہوں گریڈ میں چارج
نرس کے طور پر بھرتی ہونے والا نرسنگ اسٹاف چھ ہزار سے کچھ زائد تنخواہ سے
اپنی ملازمت شروع کرتا ہے جب کہ اسے طے شدہ عالمی معیار سے کہیں زیادہ
مریضوں کی دیکھ بھال کرنی ہوتی ہے جس سے نہ تو مریضوں کو صحیح طرح سے دیکھا
جانا ممکن ہوتا ہے اور نہ ہی یہ اسٹاف کے لئے باسہولت ہوتا ہے۔ اس اضافی
کام کے بوجھ٬ قلیل سہولیات اور دیگر مسائل کی وجہ سے سرکاری ہسپتالوں میں
ذیادہ تر نرسز صرف تجربہ حاصل کرنے کے لئے ملازمت اختیار کرتے ہیں اور
جونہی انہیں کسی بہتر جگہ ملازمت دستیاب ہوتی ہے وہ فوراً سرکاری ملازمت
چھوڑ کر نجی اداروں یا بیرون ملک کا رخ کرتے ہیں۔ نرسنگ کا شعبہ جس کے آغاز
کا سہرا ایک مسلمان نرس رفیدہ السلاح کے سر جاتا ہے سے معنون پروفیشن آج
پاکستان میں اپنے جائز مقام کا متمنی ہونے کے ساتھ اس بات کا بھی خواہاں ہے
کہ اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد بھی خلوص نیت کے ساتھ کام کریں اور ان
کے حوالے سے عام افراد میں جو شکایات پائی جاتی ہیں انہیں دور کرنے کے لئے
بھی کوششیں کریں۔ یقیناً یہی بارہ مئی کے عالمی یوم نرسنگ کا پیغام ہے جسے
اپنانے اور اس پر اپنے اپنے دائروں میں عمل کرنے کی ضرورت ہے دیکھنا یہ ہے
کہ اس پیشے سے وابستہ تقاضوں کو نبھانے میں نرسنگ اسٹاف پہل کرتا ہے یا
حکومت انہیں سہولیات فراہم کر کے سہولتوں کے حوالے سے موجود شکایات کا
سدباب کرتی ہے۔ بہر حال کوشش جہاں سے بھی ہو یہ ایک حقیقت ہے کہ اس شعبے کو
اس کا حقیقی مقام دلوانے کے لئے دونوں جانب سے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ |