پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا ہے کہ فوج منتخب
امیدواروں کی عزت کرتی ہے اور چاہتی ہے کہ ملک میں شفاف انتخابات کے ذریعے
منتخب ہونے والے نمائندے قوم کی بھر پور خدمت کریں۔چیف الیکشن کمشنر جسٹس(ر)
فخر الدین جی ابراہیم نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے
گزشتہ روز ملاقات کی اور انتخابی عمل میں بھر پور تعاون اور قیام امن میں
فوج کی گراں قدر خدمات پر شکریہ ادا کیا۔ آرمی چیف نے چیف الیکشن کمشنر کو
مستقبل میں بھی فوج کی طرف سے بھرپور تعاون کے عزم کا اعادہ کیااور کہا کہ
فوج منتخب اداروں کی عزت کرتی ہے اور چاہتی ہے کہ ملک میں شفاف انتخابات کے
ذریعے منتخب ہونے والے نمائندے قوم کی بھر پور خدمت کریں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انتخابات میں پاک فوج کے کردار نے ہی ان قوتوں کی
حوصلہ شکنی کی جو گیارہ مئی کو خونیں انتخابات بنانا چاہتے تھے۔ جنرل اشفاق
پرویز کیانی نے انتخابات کے دس گیارہ روز قبل یوم شہداءکے موقع پران
قوتوںپر واضح کردیا تھا کہ پاکستان میں انتخابات بروقت ہوں گے اور انہیں
شفاف بنانے کے لئے پاک فوج الیکشن کمیشن کے ساتھ بھرپور تعاون کرے گی۔ جنرل
کیانی کی اس تاریخی تقریر کی بدولت انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں جو
شکوک وشبہات کئے جارہے تھے، فوری طور پر دم توڑ گئے۔ وہ حلقے جو واقعی کسی
نہ کسی طریقے سے ملک کو انتخابات سے دور رکھنے کے متمنی تھے، ان کی حسرتیں
ان کے دل میں ہی رہ گئیں۔ گیارہ مئی کا سورج طلوع ہوا تو پاک فوج نے کئی
علاقوں میں گشت اور حساس پولنگ اسٹیشن پر مانیٹرنگ شروع کردی تھی۔ پاک فوج
کی موجودگی سے لوگوں کو تحفظ کا احساس ہوا اور وہ بلا خوف خطر پولنگ
اسٹیشنوں پر پہنچے اور اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ اسلام آباد، لاہور، راولپنڈی اور
ملک کے دوسرے حصوں میں جہاں جہاں بھی گڑبڑھ کی اطلاعات موصول ہوئیں پاک فوج
بروقت وہاں پہنچی اور معاملات کا کنٹرول سنبھالا۔ جہاں تک کراچی اور حیدر
آباد کا معاملہ ہے تو وہاں بدامنی کوئی نئی بات نہیں۔ وہاں رینجرز اور پاک
فوج تعینات رہی اور جہاں جہاں انہیں پکارا گیا وہاں وہ بروقت پہنچیں۔
یہاں بعض حلقوں کی جانب سے یہ الزام بھی لگایا جارہا ہے کہ بعض گڑ بڑ کے
علاقوں میں فوج موجود نہیں تھی تواس کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ وہاں
پاک فوج کو مدد کے لئے طلب نہیں کیا گیا۔ مگر پھر بھی کراچی میں رینجرز
ہردم چوکس اور تیار رہی۔ جہاں تک پولنگ اسٹیشن کے اندر ہونے والے واقعات کا
معاملہ ہے تو اس سے پاک فوج کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ وہاں الیکشن کمیشن
کے افراد متعین تھے اور متعلقہ پولنگ افسر یا ریٹرنگ آفیسر کے طلب کرنے پر
ہی پاک فوج یا رینجرز کوئی کارروائی کرسکتی تھیں۔ مگر ان کی جانب سے فوج کی
طلبی کے کوئی احکامات موصول نہ ہوئے۔ اس طرح پاک فوج اور اس کی خفیہ
ایجنسیوں نے سماج دشمن عناصر پر کڑی نظر رکھتے ہوئے سازگار فضا قائم کی۔ اس
طرح سوائے اکا دکا واقعات کے، ملک بھر میں امن وامان کی مجموعی صورتحال
اطمینان بخش رہی۔ جس پر پولیس، رینجرز، فوج اور قانون نافذ کرنے والے تمام
ادارے خراج تحسین کے مستحق ہیں۔
اب جبکہ انتخابات کے انعقاد کا کٹھن ترین مرحلہ گزر چکا ہے اور نئی حکومت
بہت جلد ایوان اقتدار میں آنے والی ہے، جنرل کیانی کی جانب سے جمہوریت اور
جمہوری اداروں پر اعتماد اور منتخب نمائندوں کے مینڈیٹ کے احترام کا بیان
انتہائی مثبت ہے اور اپنے اندر یہ دوررس پیغام رکھتا ہے کہ پاک فوج جمہوریت
کو پنپتے ہوا دیکھنے کی متمنی ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی جمہوریت دوستی
کی داستان کوئی نئی نہیں ہے۔ گزشتہ پانچ سال میں انہوں نے ہر موقع پر
جمہوری اداروں کے فروغ کے لئے کام کیا اور منتخب نمائندوں کو حکومت چلانے
کا موقع فراہم کیا۔ کسی ایک موڑ یا مرحلے پر بھی انہوں نے سول حکومت کے
ساتھ کسی بھی محاذ آرائی نہ کی باوجود اس کے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی
حکومت نے سیاسی شہادت حاصل کرنے کے لئے انہیں بھرپور مواقع فراہم کئے۔ مگر
پاک فوج نے کسی بھی مرحلے پر سسٹم کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا۔ اسی حکمت عملی
اور دانش مندی کی بدولت ہی پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ حکومت کا اصل چہرہ بے
نقاب ہوا۔ اس دفعہ ان کے پاس اپنی نااہلی اور بے بسی کاجواز تراشنے کے لئے
کوئی بہانہ نہ تھا اور عوام کی عدالت نے اپنا بھرپور فیصلہ کردیا۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی نے چیف الیکشن کمیشن کے ساتھ ملاقات میں منتخب
نمائندوں کے احترام اورعوامی نمائندوں کے ذریعے عوامی خدمت کی بات کرکے
دراصل فوج کے اس عزم کا اظہار کردیا ہے کہ وہ کسی بھی صورت سیاست اور
جمہوری اداروں میں مداخلت نہیں کرے گی اور اپنی حدود میں رہ کر اپنی پوری
توجہ دفاعی اور پیشہ ورانہ امور کی جانب مرکوز رکھے گی۔ ان کے اس بیان سے
سیاسی قوتوں اور جمہوری اداروں کو ایک نئی قوت ملی ہے البتہ ان حلقوں کی
خوب حوصلہ شکنی ضرور ہوئی ہے جو جمہوری اداروں کو پنپتے ہوئے نہیں دیکھنا
چاہتے ۔ لہٰذا جنرل کیانی کا بیان انتہائی بروقت اور واضح ہے۔ یقینا اس سے
ملک میں انتخابات کے بعد بحرانوں سے نمٹنے میں سیاسی قوتوں میں جس شعور اور
عزم کا اظہار کیا جارہا ہے اسے تقویت ملے گی ۔ |