مریم ثمر
۱۱ مئی 2013کا ہونے والا الیکشن اپنے پیچھے بہت سے سوالیہ نشان چھوڑ گیا،
جن کے جوابات ابھی تک تلاش کئے جا رہے ہیں ،محترم جناب جسٹس فخرالدین جی
ابراہیم صاحب کی قیادت میں ہونے والے الیکشن پر اس بات کی کسی حد تک امید
تھی کہ الیکشن صاف شفاف اور ہر قسم کی دھاندلی سے پاک ہونگے،مگر افسوس سے
کہنا پڑتا ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہو سکا، ایک تو میڈیا نے سب سے پہلے خبر
دینے کی دوڑمیں جلد بازی کا شاندار مظاہرہ کیا ،ہر طرف ایک ہی آواز سنائی
دینے لگی کہ سب سے پہلے ہم نتیجہ آپ تک پہنچا رہے ہیں ،ہر طرف ایک ہی راگ
آلاپا جا رہا تھا ،اس آگے بڑھنے کی دوڑ کا فائدہ صرف میڈیا کو ہی ہوتا ہے
ان کی ریٹینگ میں اضافہ ہوتا ہے اور پھر ان کو اشتہارات ملتے ہیں یوں ان کی
کمائی کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے ،اس میں عوام کا کیا فائدہ اور عوام کو اس سے
کیا غرض ہے ،پاکستانی عوام کی تو یہ دعا اور تمنا تھی کہ الیکشن خیرو عافیت
کے ساتھ اختتام پزیر ہو جائیں ،اور وطنِ عزیز کا کاروان ترقی کی منازل طے
کرنا شروع کر دے ۔الیکشن سے قبل ہی اس الیکشن کو خونی الیکشن قرار دیا گیا
تھا ،اوربظاہر ایسا دیکھائی بھی دے رہا تھا ،اس لئے کہ الیکشن سے قبل پشاور
میں بم دھماکے اور گولی چلنے کے اکا دکا واقعات ہوئے ۔۔وہ تو اﷲ کا شکر ہے
کہ زیادہ خون خرابہ نہیں ہوا ،مگر پھر بھی جن قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا وہ
قابل افسوس اور قابل مذمت ہے ۔پاکستان کی عوام کے حوصلے اور ہمت کی داد
دینی پڑتی ہے کہ کس طرح اس قوم نے حالات اور موسم کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حق
رائے دہی کا استعمال کیا ۔
اور یوں الیکشن تو ہو گئے مگرجیسے جیسے وقت گزرا یہ احساس شدید ہوتا گیا کہ
الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے ۔پھر اس کی حقیقت اس وقت عیاں ہوئی جب ثبوت
سامنے آنے لگے ،فرض شناس پولیس آفیسر سے لے کر ،محترم استاد کا درجہ پانے
تک ،ملک وقوم کی خدمت کے جزبہ سے سرشارامیدوار سے لے کر ،پریزائیڈنگ افسران
تک ۔سب ہی اس میں ملوث پائے گئے، بہت سے علاقوں میں پولنگ وقت پر شروع ہی
نہیں ہوئی ۔اور جہاں ہوئی وہاں دھاندلی کے اعلی سے اعلی ریکارڈ قائم
ہوئے۔کراچی میں خاص طور سے وسیع پیمانے پر دھاندلی کی شکایات منظر عام پر
آئیں،اس سلسلے میں مبینہ طور پر ایم کیو ایم کو بطور خاص ذ مے دارٹہرایا جا
رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ کراچی کے بعض حلقوں میں دوبارہ سے پولنگ کا عمل ہوا
ان میں خاص طور سے کراچی کے حلقہ این اے 250 اور پی ایس 113 کا حلقہ شامل
ہے۔ اب ان دونوں حلقوں سے پاکستان تحریک انصاف کے عارف علوی اور ثمرعلی خان
کامیاب قرار پائے ہیں ۔
ووٹ قوم کی امانت ہے ۔ووٹ کا ایک تقدس ہے جسے یوں بے دردی سے پامال کیا گیا
کہ حیرت اور دکھ ہو تا ہے ،یہ حقیقت ہے کہ بہت سے پولنگ اسٹیشن پر کمال کی
دھاندلی کی گئی، سامان کی ترسیل سے لے کر ووٹ کاسٹ کرنے ،اور پھر نتائیج کے
آجانے تک الیکشن کی تمام سرگرمیوں کو یرغمال بنائے رکھا ،اگرچہ اب الیکشن
کمیشن کی ہدایت پر مختلف حلقوں میں پولنگ کا سلسلہ دوبارہ سے جاری ہے ، کچھ
پولنگ اسٹیشن پر دوبارہ ہونے والی گنتی نے بھی نتائیج کو تبدیل کر دیا ہے
۔اس الیکشن میں2اہم حادثات بھی رونما ہوئے ایک پاکستان تحریک انصاف کے
عمران خان صاحب کا لفٹ سے گرنا ،دوسرا سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے
بیٹے کا الیکشن سے ایک روز قبل اغوا۔۔جن کو چند دن قبل بازیاب بھی کروا لیا
گیا ہے ۔پتہ نہیں اس واقعہ میں کتنی حقیقت اور سچائی ہے ،مگر جو بھی ہے ان
حادثات کے نتیجہ میں کوئی بھی ہمدردی کے ووٹ حاصل نہ کر سکا ،حیر ت تو اس
بات کی بھی ہے کی پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے بیٹے کے اغوا پر سال
سے بھی زیادہ ہو گیا ہے ان کے بارے میں آج تک کوئی اطلاع سامنے نہیں آسکی
،جبکہ علی حیدر گیلانی اغوا کے بعد بازیاب بھی ہو گئے۔۔عوام نے اس کے
باوجود پورے گیلانی خاندان کو سیاسی میدان سے ہی کلین بولڈ کر دیا۔ عوام
کافی باشعور ہو چکی ہے اور سیاسی چالوں کو کسی حد تک سمجھنے بھی لگ گئی ہے
،جبھی تو پنجاب سے پی پی پی کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے صفایا ہو گیاہے،اب
تو ایسا لگ رہا ہے کہ بھٹو کی پارٹی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان
کے ساتھ ہی دفن ہوتی جا رہی ہے ،اس کی وجہ ان کی حکومت کی ناقص کارکردگی
،غلط پالیساں ، عیاشیاں،ملکی اور عوامی مسائل کو حل کرنے میں ناکامی ہے-
عمران خان کے پاس ایک اچھا موقع تھا کہ وہ اس الیکشن میں اس سے بھی زیادہ
سیٹیں حا صل کر تے ،مگر انہوں نے جس انداز میں اپنے مخالفین کو مخاطب کیا
وہ ان کے ووٹ بنک کو بڑھانے کی بجائے کم کرنے کا باعث بنا ،پھر ان کے گرنے
کی وجہ سے بھی ان کے ووٹ بنک پر اثر پڑا ۔ان کا عوام سے ویسا رابطہ نہ ہو
سکا جیسا کہ آخری دنوں میں ہونا چاہیے تھا ،خیر اب ان کو خیبر پختوننخوا
میں حکومت کرنے کا سنہری موقع مل رہاہے اوریہ ایک خوش آئیند بات ہے کہ نئی
قیادت اور نئی پارٹیاں ابھر کر سامناآرہی ہیں ۔۔پرانے چہرے ماضی کا حصہ
بنتے جا رہے ہیں ،یقینا عوام کو اب اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ کون آتا ہے
اور کون جاتا ہے ، اب عوام کو اپنے مسائل کا حل درکار ہے ، دیکھنا یہ ہے کہ
پاکستان کو کرپشن اور دہشت گردی کے بھنور سے کون کتنی جلدی نکالتا ہے۔ |