رات کاڈیڑھ بجا ہوا تھامگر شہر کی آوارہ سڑکیں ابھی تک
جاگ رہی تھیں ۔زمین کی متحرک روشنیاں آسمان کی ٹمٹماتی روشنیوں کو مات دے
رہی تھیں۔ہر طرف رونق تھی ۔بازار مست تھے۔ہوٹلز میں مڈنائٹ ڈنر عروج پر
تھا۔منچلوں کی ٹولیاں سڑکوں پر طوفان اٹھا ئے پھر رہی تھیں۔قہقہے ہی قہقہے
تھے۔زندگی ہی زندگی تھی۔KFC سے باہر نکلتے ہوئے اس نے ایک نظر اس زندگی اور
ہنگامے کو دیکھا،پھر اپنے دوستوں کی جانب جو اب ڈگی کھولے ویل شوز نکال رہے
تھے تاکہ مین روڈ پر گاڑیوں کا تعاقب کر سکیں۔
”اے ہیرو کیچ“۔۔۔اس کے دوست نے چلا کر ایک جوتا اس کی طرف پھینکا ۔۔وہ چونک
سا گیا۔
”آج پھر تیرا میرا مقابلہ۔۔۔شرط کے ساتھ“۔۔۔اس کا ایک دوست جوتا کستا اس کے
سامنے آکر بولا تو قہقہوں کا ایک طوفان اٹھ گیا۔
”ہیرو سے مقابلہ۔۔۔پھر گنجا ہونے کا ارادہ ہے کیا“۔۔۔
”پچھلا مقابلہ بال لے گیا تھا اس دفعہ ہڈیاں ٹوٹیں گی“۔۔۔۔اس کے دوست بلند
آواز سے مذاق اڑا رہے تھے۔اس نے بھی قہقہوں میں ساتھ دینے کی کوشش کی مگر
اس کا قہقہہ اتنا کھوکھلا تھا کہ وہ خود ہی خوفزدہ سا ہو گیا۔مگر شاید کسی
نے نوٹ نہیں کیا۔وہ اپنے گروپ کا ہیرو تھا۔ہر مستی ،ہر شرارت،ہر ہنگامے کا
ہیرو۔لوگ کہتے تھے ہیرو زندگی کا دوسرا نام ہے۔اسے ہنسنے کیلئے ،قہقہے
لگانے کیلئے ہر پل سے خوشی کشید کرنے کیلئے کبھی کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں
کرنا پڑتا تھا۔اسے لوگوں میںمقبول ہونے کے سارے گر آتے تھے۔ہر محفل کی جان
تھا۔ہوسٹل سے فرار ہو کر مڈ نائٹ ایڈونچر میں شامل ہونا اس کے بائیں ہاتھ
کا کھیل تھا۔مگر آج سب غلط ہو رہا تھا۔اس نے خود کو مصروف کر نے کی ،خود کو
متوجہ کرنے کی پوری کوشش کر ڈالی۔ مگر وہ جتنا زیادہ شور کرتا اس کے اندر
کا سناٹا اور گھٹن اور زیادہ ہو نے لگتی۔وہ بلند آواز میں آوازیں کستا تو
دل میں باز گشت ہوتی جیسے آوازیں اس کے دل کی دیواروں سے سر ٹکرا رہی
ہیں۔اس کے اندر سناٹا سا بھر ا جا رہا تھا۔اس کا دم اس ہنگامے میں گھٹنے
لگاتو وہ سر جھٹک کر اٹھ کھڑا ہوا۔
”ارے کدھر“۔۔۔اس کے دوست حیران ہو کر بولے
”ہوسٹل“۔۔۔
”ابھی سے۔۔۔ابھی تو دو ہی بجے ہیں“۔۔۔
”ہاں یار۔۔۔تھک گیا ہوں“۔۔۔۔
”تیری طبیعت ٹھیک ہے نا“۔۔۔وہ پریشان سے ہو گئے
”ہاں بس یونہی ۔۔صبح ملتے ہیں“۔۔۔۔
”ہم بھی ساتھ چلتے ہیں“۔۔۔۔وہ جانے کو تیار ہونے لگے پر اس کی بے چینی بڑھ
گئی ۔وہ زندگی میں پہلی بار تنہا رہنا چاہتا تھا۔
”تم لوگ انجوائے کرو میں چلا جاﺅں گا“۔۔۔۔
”نہیں ہیرو۔۔۔۔تیرے بغیر مزہ نہیں آئے گا۔۔۔ساتھ چلتے ہیں“۔۔۔۔
”نہیں میں اکیلا چلا جاﺅں گا“۔۔۔اس کے لہجے میں کچھ عجیب سی کرختگی تھی ،اس
کے دوست حیران سے ہوگئے۔
”حیدر تجھے ڈراپ کر دے گا۔۔۔چل حیدر جا“۔۔۔
”نہیں میں خود چلا جاﺅں گا۔۔۔۔پلیز۔۔۔صبح ملتے ہیں“۔۔۔۔وہ جواب سنے بغیر چل
دیا اور دوست حیران نظروں سے اسے دیکھتے رہ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سڑ کیں اسی طرح جاگ رہی تھیں۔زندگی متحرک تھی۔اس کے اندر اتنا سناٹا تھا کہ
سب شور اس میں جذب ہو چکا تھا۔اسے نہ تیز ہارن سنائی دے رہے تھے نہ آتے
جاتے لوگوں کے قہقہے اور نہ ہی بغیر سائلنسر موٹر سائیکلوں کی دلخراش
بریکیں۔اس کے نزدیک مال روڈ بانجھ تھی۔جہاں صرف وہ تھا یا کوئی کھنکھناتی
ہنسی۔اس ہنسی کے تصور سے ہی اسکے لب مسکرانے لگے۔سناٹے میں کوئی مدہم سی
گھنٹی بجنے لگی۔اس نے خود کو سوچوں کے منجدھار میں چھوڑ دیا۔اس کے لب
مسکراتے رہے۔شرارت سے چمکتی آنکھیں ،موتی سے دانت اور کھنکتی ہنسی اس کے
گرد ہالا کرنے لگی۔
”ہر بات پر مذاق۔۔۔ہر بات پر ہنسی“۔۔۔۔
”کیوں تمہیں میری ہنسی کا بل آتا ہے“۔۔۔کھنکتی ہنسی
اس کے لبوں پر مسکراہٹ اتنی گہری ہوئی کہ آنکھیں تک چمکنے لگیں۔اس نے اپنا
دایاںہاتھ اپنے بالوں میں ڈال کر سر جھٹکا ۔اس کے گھنے بالوں میں اسکا ہاتھ
ڈوب سا گیا۔اسے خود پر ہنسی آنے لگی۔کیا دھوپ چھاﺅں ہے؟وہ خود پر ہنسنے
لگا۔شہر کی سڑکوں سے بے پرواہ، وہ ہنستا چلا گیا۔اگر کوئی اسے یوں خود سے
ہنستا دیکھتا تو پاگل سمجھ بیٹھتا۔
”اے دھوپ میں نا ٹہلا کرو۔۔۔۔وقت پر کھایا کرو۔۔۔تمہارے پاﺅں کتنے بڑے بڑے
ہیں“۔۔۔۔بے معنی جملے اور کھنکتی ہنسی۔۔وہ اس ہنسی کے تصور میں کھو سا
گیا۔دل میں عجیب سی خواہش جاگی کہ کاش یہ ہنسی مجسم ہو جائے اور وہ اسے چھو
لے، اسے چوم لے،اسے اپنی بانہوں میں اتنی زور سے بھینچے کہ وہ اس کے اندر
بہت اندر اسکی روح تک اتر جائے اور ہمیشہ اس کے اندر کھنکتی رہے۔اس کا وجود
بن جائے۔
”کچھ دیر بیٹھو“۔۔۔۔
”نہیں تم ہی بیٹھو“۔۔۔
”کچھ دیر رک نہیں سکتی“۔۔۔
”تمہارے ساتھ تو ہر گز نہیں“۔۔۔۔۔پھر ہنسی ،کھنکتی ہنسی، گونجتی بجتی پلٹتی
ہنسی
کیوں©؟ میرے ساتھ کیوں نہیں۔جانے کہاں سے ایک کسک سی اٹھی اور وہ پھر سے بے
چین ہو گیا۔
”مجھے تم پر غصہ آرہا ہے“۔۔۔
”مجھے کون سا تم پر پیار آتا ہے۔۔غصہ ہی آتا ہے“۔۔۔۔۔
”ہمیشہ الٹا ہی بولنا“۔۔۔۔مگر جواب میں وہی ہنسی گہری خاموشی اور ہنسی۔
خواہش زور پکڑنے لگی۔وہ بے کل ہوگیا۔کیا کروں ؟دایاں ہاتھ گھنے بالوں میں
کھو گیا۔خواہش کسک بن گئی۔کسک درد اور درد نے سناٹا اوڑھ لیا۔
یکدم بہت سی تھکن اس کے اندر اتر آئی۔وہ سڑک کے کنارے لگے بینچ پر بیٹھ
گیا۔پھر جانے کیسے وہ ہنسی مجسم ہو گئی،اس کے ساتھ آبیٹھی۔اس کا دل زور زور
سے دھڑکنے لگا،اتنی زور سے کہ اسے محسوس ہوا کہ اس کی دھڑکنوں کا شور ہر
طرف سنائی دے رہا ہو۔ایک آگ سی انگلیوں سے ہوتی بدن میں پھیلنے لگی اور ایک
عجیب سی وحدت نے ہونٹوں کو دہکا ڈالا۔ایک سنسنی سی پورے وجود میں پھیل
گئی۔اس نے اس کو چھونے کیلئے ہاتھ بڑھایا تویکدم مجسم تحلیل ہوگیا اور وہ
ہنسی چاروں طرف پھیل گئی۔اب وہاں سناٹا تھا یا اس کے دل کی دھڑکن ۔اس کا
پورا وجود دہک رہا تھا۔وہ اٹھا اور پاگلوں کی طرح بھاگتا رہا۔۔۔بھاگتا رہا
یہاں تک کہ یونیورسٹی کی دیوار پھلانگ کر ہوسٹل کی کھڑکی سے کمرے کے اندر
آگیا مگر کمرہ خالی نہ تھا۔اس کا دوست نجانے کب کا آکر سو چکا تھا۔گھڑیال
نے دور کہیں چار بجائے اور اس نے خود کو بستر پر گرا دیا اور اپنی بے ترتیب
دھڑکنوں کو سنتا اپنی ہی آگ میں جلتا جانے کب سو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روز کی طرح آج بھی وہ نہ چاہتے ہوئے وقت سے پہلے یونیورسٹی پہنچ گیا۔سارے
دوستوں سے بچتا بچاتا اس کے ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیوں پر جا بیٹھا۔
”اوئے ہیرو۔۔۔۔کیا حال ہے؟؟؟“۔۔۔اسکے دوست اسے ڈھونڈتے ادر آنکلے۔
”زبر دست۔۔۔مجھے کیا ہونا ہے؟؟“۔۔۔
”کل بڑا پریشان کیا ہمیں۔۔“۔۔
”ادھر کیوں بیٹھ جاتا ہے۔۔۔۔۔سخت بری جگہ ہے۔۔۔۔ہر پروفیسر کو ادھر ہی سے
گزرنا ہوتا ہے“۔۔۔۔
”بڑی اچھی ،ہوا دار جگہ ہے“۔۔۔
”ہوا وہاں بھی ہے،چل اٹھ یہاں سے“۔۔۔۔
وہ نہ چاہتے ہوئے بھی وہاں سے اٹھ گیا۔مگر دل ایک دم خالی سا ہو گیاتھا۔وہ
سیڑھیوں سے دور جا رہا تھامگر اس کا دل تو وہیں بیٹھا تھا۔اس کی سماعتیں ےو
نہی سیڑھیوں پر دھڑی تھیں ۔اس کی حس تو اسی مقام پر منتظر تھیں۔بس ایک
جھلک۔۔۔۔بس ایک پل کو۔۔۔۔بس ایک لمحے کو۔۔۔۔وہ اس ہنسی کو سننا چاہتا
تھا۔دل میں رہ رہ کر ہوک سی اٹھتی رہی اور اس کا بایاں بازو سن سا ہوتا
جاتا تھا۔وہ گم سم تھا۔پھر سناٹا ۔جانے کتنے بہانے بنا کر وہ واپس اس جگہ
آگیا۔
اسے اس جگہ سے عشق ہو گیا تھا۔یہی وہ پہلی جگہ تھی جہاں اس نے اس ہنسی کو
کھنکھتے سنا تھا،ساون کی بارش کی طرح برستے دیکھا تھا،سورج کی کرن کی طرح
روشنی بکھیرتی وہ ہنسی اس کے اندر اتر گئی تھی۔
اس نے دیوار سے ٹیک لگائی اور آنکھیں بند کر لیں۔چمکتی آنکھیں،موتی سے دانت
اور کھنکھتی ہنسی ۔سکون سے کسک،کسک سے درد اور درد سے سناٹا۔۔۔وہ اپنے اندر
کتنے دور سہہ رہا تھا کہ وہی ہنسی بہت پاس سے سنائی دی۔
”سونے کیلئے نہایت نا معقول جگہ ہے“۔۔۔
”جی ہاں“۔۔۔۔۔اس نے آنکھیں کھول دیں۔
”چلو بچے کلاس میں جاکر یوگا کرو“۔۔۔۔کھنکھتی ہنسی۔
وہ جواب دینا دینا چاہتا تھا کہ وہ آتے ہوئے پروفیسر سے بات کرتے کرتے چلی
گئی۔
”سر صبح سے آپ کے روم کے چکر لگا رہی ہوں۔۔۔۔سر اسائنمنٹ“۔۔۔۔اس کی آواز
مدھم پڑ گئی۔۔۔مگر ہنسی ہر طرف بکھری تھی اور وہ بس اس چند گھڑی کی ملاقات
اور ہنسی کی سوغات سمیٹے لوٹ آیا۔اب وہ دور بیٹھا تھا ہر اس جگہ جہاں سے وہ
اسے آتے جاتے ہنستے دیکھ سکتا تھا۔اور یہاں تک کہ وہ واپس چلی گئی اور وہ
بھی تھکے ٹوٹے قدموں سے لوٹ آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حاصل؟؟کیا ہوگیا اسے؟؟کتاب ،لفظ لفظ اجنبی تھے۔۔۔۔وہ صفحے پلٹتے پلٹتے
نڈھال ہوگیا تو اس پر سر رکھ دیا۔ہر وقت دل میں کسک ،درد اور سناٹا اس کی
تو ہنسی ہی اڑ گئی تھی۔دوست الگ پریشان تھے ۔وہ اسے خوش رکھنے کی کوشش کرتے
،اپنے ساتھ رکھنا چاہتے مگر وہ بدک سا جاتا،اپنے قہقہوں کا کھوکھلا پن
نمایاں ہونے سے ڈرنے لگا تھا۔مڈ نائٹ ایڈوینچر اڑ گئے تھے۔متحرک زندگی کا
واحد مرکز ایک وہ تھی بلکہ وہ بھی نہی صرف اسکی ہنسی۔ ´
ہوسٹل کے کمرے میں اندھیرا کیے وہ تنہا لیٹا تھا کہ وہ چھم سے چلی آئی۔
”اے تمہارے پاﺅن کتنے بڑے بڑے ہیں۔۔۔جوتا خریدنا پرابلم ہوتا ہوگا
نا“۔۔۔۔۔۔
”تم جوتے کے ڈبے پر تسمے تو نہیں باندھ لیتے“۔۔۔۔
وہ بے ارادہ اپنے پاﺅں تکنے لگا۔اس نے تو کبھی اپنے پاﺅں دھیان دیکھے بھی
نہ تھے،اتنے بڑے تو نہیں ہیں۔۔۔۔۔اس نے خود کلامی کی۔وہ خود کو دھیان سے
دیکھنے لگا۔اتنے بڑے پاﺅں تو شاید بہت سے لوگوں کے ہوں گے بلکہ اس سے بڑے
بھی۔مگر میرے ہاتھ بہت بڑے ہیں۔اس نے اپنی فراخ ہتھیلی اور لمبی انگلیوں کو
دیکھتے ہوئے سوچا اور خود ہی مسکرا دیا۔اور وہ ہنس دی۔اسکی ہنسی اس کے کمرے
میں پھیل گئی۔اس کی دیواروں سے ٹکرانے لگی۔اسکی ہوا میں مہکنے لگی۔اس کی
کتابوں سے لپٹ گئی۔اس کے تکیے میں گھس گئی۔اس کے تن میں آگ سی چلنے لگی۔وہ
اس ہنسی کو مقید کرنا چاہتا تھا۔وہ اسے اہپنے بازو ¾وں میں بھینچ دینا
چاہتا تھا۔اپنے دہکتے ہونٹوں سے پی لینا چاہتا تھا۔پر وہ شریر ہنسی بس اس
کے گرد تھی،بکھری بکھری مگر وہ اسے چھو نہیں سکتا تھا۔اس نے بڑی عجیب سی
حرکت کی۔ہوا میں گونجتی اس آواز کو اپنی مٹھی میں پکڑ لیا اور اپنے لب اپنے
ہی ہاتھ پر رکھ دیئے۔یہاں تک کہ اسکا جسم کپکپا نے لگا۔وہ وحشت زدہ ہو سا
ہوکر اٹھا اور اس کمرے سے باہر نکل گیااور اس وقت تک اس کمرے میں نہیں آیا
جب تک اس کا دوست واپس نہیں آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کسی سے کچھ کہہ نہیں سکتا تھا۔کہتا بھی کیا کہ اٹھارہ سال کے لڑ کے کو
ایک پچیس سال کی لڑکی کی ہنسی سے عشق ہوگیا ہے۔وہ اسکی آنکھیں ،چہرہ،باتیں
،سب بھول جاتا ہے مگر اسکی ہنسی سے لپٹ جانا چاہتا ہے۔وہ صرف یہ چاہتا ہے
کہ وہ اس کے ساتھ بیٹھے ،اس سے ساری دنیا کی باتیں کرے،قرن گزر جائیں،صدیاں
بیت جائیں اور وہ اسی طرح بیٹھے رہیں،یہاں تک کہ کوئی بات ان کہی نہ
رہے،کوئی چیز ادھوری نہ رہے۔کوئی کسک،کوئی خلا،کوئی سناٹا نہ رہے۔ہر بات
ختم ہو جائے اور وہ یونہی بیٹھے رہیںاور آخر کار وہ اسکی ہنسی سے لپٹ کر سو
جائے۔۔مگر وہ اس کے ساتھ بیٹھی رہے۔۔۔اس کے بالوںمیں اپنی انگلیوں سے کنگھی
کرتی رہے اور یہاں تک کہ سب ختم ہو جائے۔۔دنیا مٹ جائے مگر پھر بھی وہ
یونہی بیٹھے رہیں اور امر ہو جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”ماما میں باہر جانا چاہتا ہوں“۔۔۔۔۔
”کہاں باہر اور کیوں“۔۔۔۔
”کہیں بھی۔۔۔کسی بھی جگہ بس یہاں سے دور۔۔۔پڑھنے کیلئے جلد از جلد“۔۔۔۔
”ہوا کیا ہے؟؟۔۔۔گریجوایشن تو کمپلیٹ کرلو“۔۔۔۔
”باہر جا کر کر لوں گا۔۔۔یہاں سے نہیں۔۔۔۔بس کچھ کریں“۔۔۔
”تمہارے پاپا سے بات کروں گی کہ وہ تمہیں انگلینڈ ہی بلوالیں۔۔۔۔پر جانو،
وجہ تو ہو“۔۔۔۔
”بس میرا یہاں دل نہیں لگتا۔۔۔۔مجھے باہر جانا ہے“۔۔۔۔
”اوکے۔۔۔تم فکر نہ کرو“۔۔۔۔
وہ اپنے آپ سے خوفزدہ تھا۔۔وہ بھاگ جانا چاہتا تھا۔۔۔اس میں کھونے کا حوصلہ
نہیں تھا۔وہ ایک دفعہ پہلے بھی کھو چکا تھا۔عشق اس کی مٹی سے اسے ملا
تھا۔سولہ سال کی عمر میں وہ ایک عشق کر چکا تھا۔ایک بیس سال کی لڑکی کے
ساتھ۔اور کھو چکا تھا۔بہت رویا تھا۔۔وہ بلک بلک کر رویا تھا۔بہت حوصلے سے
سنبھالا تھاخود کو ۔اس نے اس پل خود سے وعدہ کیا تھا کہ اب بس یہی اول و
آخر ہے کوئی اور نہیں۔۔۔۔۔کوئی بھی نہیں۔اس نے ہر یاد کو سنبھال کر
رکھاتھا۔ہر چیز کو محفوظ کر لیا تھا تاکہ وقت کی گرد اسے زچ نہ پہنچا
سکے۔مگر اب وہ خوفزدہ ہو گیا تھا۔اس ہنسی سے جو اس کے حواس پر چھا چکی
تھی۔وہ لاکھ چاہتا مگر وہ اس کی ہر یاد پر گرد دال دیتی۔وہ ان کتابوں ان
سوکھے پھولوں کو دیکھتا تاکہ وہ گزرے ماضی کو یاد رکھ سکے۔مگر وہ ہنسی اسے
کسی نقطے پر رکنے نہیں دیتی تھی۔وہی کوریڈور،وہی سیڑھیاں ،وہی رستے جن پر
وہ ماضی کے نشان یاد رکھتا تھا۔اس ہنسی سے بھرے تھے۔وہ اسے اداس نہیں ہونے
دیتی تھی۔اسے تنہا نہیں رہنے دیتی تھی۔اس سے لپٹ لپٹ جاتی تھی وہ اس قید
میں رہنا بھی چاہتا تھا اور خوفزدہ بھی تھا ۔اپنا وعدہ ٹوٹنے سے خوفزدہ
تھا۔اپنی قسمت سے خوفزدہ تھا وہ پھر سے کھونے کا حوصلہ نہیں رکھتا تاھ۔وہ
بھاگ جانا چاہتا تھا وہ فرار چاہتا تھا ہر اس جگہ سے جہاں جہاں وہ ہنسی بسی
تھی اور وہ کامیاب ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”کہاں تھے تم۔۔۔نظر ہی نہیں آئے“۔۔۔۔۔
“گھر گیا تھا،کچھ کام تھے“۔۔۔کھنکھتی ہنسی
”تم نے کیا کام کرنے تھے؟“۔۔۔۔
”میں انگلینڈ جا رہا ہوں“۔۔۔۔۔برستی ہنسی
”اچھا“۔۔۔۔۔کھکھلاتی ہنسی
”مذاق نہیں کر رہا۔۔۔میں واقعی انگلینڈ جا رہا ہوں،وہیں پر گریجوایشن کروں
گا،واپس نہیں آﺅں گا“۔۔۔
”ہاں ہاںضرور۔۔۔۔اوکے تم جہاز سے ہاتھ ہلانا میں تمہیں یہاں کھڑے ہوکر خدا
حافظ کروں گی“۔۔۔۔۔گونجتی پلٹتی بکھرتی ہنسی
اس کے دل کو ٹھیس لگی۔
”سنا ماہا ،یہ انگلینڈ جا ریا ہے“۔۔۔۔اس نے اپنی دوست کو مخاطب کیا
”کیا واقعی؟ہائے میں تمہیں کتنا مس کروں گی“۔۔۔۔مگر ادھی گہری خاموشی
تھی۔اس کے اندر سناٹا سا اتر گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”تم آج کل بہت چھٹیاں کر رہے ہو،بری بات“۔۔۔
”میری سیٹ کنفرم ہو گئی ہے ،میں کل صبح کی فلائٹ سے جا رہا ہوں۔۔۔”اب تم جی
کھول کر ہنسنا“۔۔۔۔گہری چپ
”اب تو میں کبھی واپس نہیںآﺅں گا“۔۔۔۔گہری چپ
”تم سچ مچ جا رہے ہو“۔۔۔۔
”ہاں۔۔۔دیکھو یہ ٹکٹیں ہیں۔۔۔کیوں؟“۔۔۔۔وہ اس کی ہنسی کا منتظر تھا
”تم م۔۔تم پہلے بتاتے تو میں کوئی گفٹ ہی خرید لیتی“۔۔۔
”تم کیا دیتی مجھے“۔۔۔وہ ہنسی کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔جانے کیوں دل ایک دم
بہت زور زور سے دھڑکنے لگا تھا۔۔۔۔۔مگر ہنسی نہیں تھی۔
”تمہیں کیا چاہیے؟“۔۔۔۔اس کی آواز ہنسی بغیر کتنی اجنبی تھی۔اس میں کیسی
نمی سی تھی۔۔۔وہ پہلو بدل کر رہ گیا۔
”تمہاری ہنسی۔۔۔مجھے بہت اچھی لگتی ہے“۔۔۔۔۔جانے کیسے اس کے منہ سے نکل گیا
اور فضا میں ایک گیلی سی ہنسی بکھر گئی مگر یہ ہنسی بھی کتنی اجنبی تھی۔پر
تم ایک بالکل اجنبی ہنسی ہو۔۔
”یہاں بیٹھو میں ابھی آئی“۔۔۔۔۔
وہ چلی گئی مگر ہوا میں گونجتی پلٹتی برستی ہنسی نہیں تھی۔نمی سی تھی۔اسے
اپنے اندر حبس سا محسوس ہوا۔سب کچھ کھو دینے کا احساس اتنا اذیت ناک تھا کہ
اس کے ہونٹ اس کے دانتوں کے شکنجے میں نیلے پڑ گئے۔اس کا بایاں ہاتھ بالکل
بے جان ہو گیا۔وہ سامنے کی طرف جھکتا چلا گیا۔جانے کتنے لمحوں بعد وہ
آئی۔۔۔بے آواز۔۔۔اس نے ایک کاغذ اسکی طرف بڑھا دیا۔۔۔
”اسے انگلینڈ جاکر کھولنا۔۔۔۔اپنا بہت خیال رکھنا۔۔۔۔۔کھانا وقت پر
کھانا۔۔مجھے یاد رکھو گے؟“۔۔۔۔
اس نے کوئی جواب نہ دیا۔۔اس کا دل تو دھڑکنا ہی بھول گیا تھا اور لفظ کہاں
یاد رہتے وہ منتظر کھڑی رہی اور پھر خدا حافظ کہہ کر جانے لگی۔
”سنو۔۔۔۔۔ایک بار ہنس دو“۔۔۔۔
اس نے مر کر دیکھا اور خاموشی سے چلی گئی۔اس کے پیچھے بوجھل خاموشی تھی۔مگر
اس نے مر نہیں دیکھا۔وہ بھی نڈھال قدموں سے چلا آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلائٹ دو گھنٹے لیٹ تھی۔وہ لاﺅنج میںمنتظر تھا۔اس کے اندر درد ،کسک اور
سناتے کا کھیل جاری تھا ۔مگر جانے کیوں آج اتنی بے چینی ،اتنی بے کلی سی
کیوں تھی۔اس کا دل پھٹا جاتا تھا۔وہ ایک پل بھی بیٹھ نہیں پا رہا تھا۔اس نے
یونہی بے مقصد جیبیں ٹٹولیں تو ایک کاغذ کا ٹکڑا ا کے ہاتھ میں آگیا۔
”اسے انگلینڈ جاکر کھولنا“۔۔۔۔باز گشت سنائی دی
پر اس سے انتظار نہ ہو سکا اور کھول ہی لیا۔
”میری ساری ہنسی تمہارے نام۔۔۔۔بس تمہارے نام“۔۔۔۔۔۔
تحریر سے ایک نم آلودہ گیلی کھوکھلی ہنسی بکھر گئی۔
یکدم جیسے سب کچھ روشن ہوتا چلا گیا۔اس کی آنکھیں ان کی سطح کبھی نم نہیں
ہوتی تھی۔ان میں سرخ ڈورے اور سوجھے پپوٹے تو نہیں ہوتے تھے۔ اس کے لبوں پر
کبھی ایسی نم آلودہ ماتمی ہنسی نہیں تھی۔اس کے قدموں میں کبھی ایسی تھکن تو
نہیں تھی۔اس کے لفظوں میں کبھی ایسی تپش تو نہیں تھی۔اور اس کے پلٹ جانے
میں کبھی ایسی خاموشی تو نہیںتھی۔۔۔۔۔تو۔۔۔۔۔
وہ دیوانہ وار بھاگا۔۔۔ایئر پورٹ کا کوریڈور،لاﺅنج پارکنگ اس کے جوتوں کی
آواز سے گونجتے رہ گئے۔جانے کیسے وہ یونیورسٹی پہنچا۔۔۔دیوانہ واربھاگتا اس
کے ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیوں تک آیا اور ان پر گھنٹوں کے بل جھکتا چلا گیا۔وہاں
پھر سے وہی ہنسی تھی۔۔گونجتی۔۔۔پلٹتی ہنسی۔وہ اس تلاش میں بھاگا ۔۔۔پر وہ
کہیں نہیں تھی۔بس اس کی ہنسی بکھری تھی۔ہر کمرے ،ہر دیوار سے اس کی بازگشت
سنائی دیتی تھی۔پر وہ نہ ملی۔وہ تھک ہار کر سیڑھیوں پر بیٹھ گیا۔سامنے سے
ماہا آتی نظر آئی ۔اسے دیکھ کر بھاگ کر اسکے پاس آئی،مگر اسکا چہرہ متورم
تھا۔آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔اس کے لب کپکپا رہے تھے۔اس کا دل کسی نے مٹھی
میں جکڑ لیا۔۔پوچھنے سے پہلے وہ کہہ رہی تھی۔
”جانے کیوں؟کل رات۔۔۔۔اس نے خود کشی کر لی۔۔۔۔وہ مر گئی۔۔۔۔وہ ایسی تو نہی
تھی۔۔۔وہ تو بہت مضبوط لڑکی تھی۔۔۔۔ہر وقت ہنسنے والی ۔۔۔خوش رہنے
والی۔۔۔۔جانے کیوں؟ ۔۔۔۔اس نے۔۔۔۔مجھے تو آج یہاں آکر پتہ چلا ہے۔۔۔۔۔میں
جا رہی ہوں۔۔۔۔تم چلو گے اس کے گھر؟“۔۔۔۔۔
وہ جانے کیا کہہ رہی تھی۔۔وہ تو کچھ سن ہی نہیں پا رہا تھا۔۔۔
”میری ہنسی تمہارے نام۔۔۔۔۔۔۔بس تمہارے نام“۔۔۔۔۔
اس کی ہنسی ابھی تک سیڑھیوں پر گونج رہی تھی،بکھر رہی تھی۔۔۔اس سے لپٹ رہی
تھی۔۔۔مگر وہ خوفزدہ کہیں نہیں تھی۔۔۔۔کہیں بھی نہیں۔۔۔۔۔
وہ دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔۔۔پھر نا جانے کیسے وہ ہنسی مجسم ہوکر اس
کے ساتھ آبیٹھی۔۔۔وہ بالکل اس کے جیسی تھی۔۔۔۔پر اس نے چھوا نہیں ۔۔۔مبادا
وہ تحلیل ہو جائے۔۔۔وہ تو اسکے ساتھ بیٹھنا چاہتا تھا۔یہاں تک کہ قرن،صدیاں
گزر جائیں۔۔۔اور کوئی بات ان کہی نہ رہے۔۔۔۔کوئی چیز ادھوری نہ رہے۔۔۔اوروہ
یونہی ساتھ بیٹھے رہیں۔۔۔۔بیٹھے رہیں۔۔۔۔یہاں تک کہ سب ختم ہو جائے اور وہ
یونہی بیٹھے بیٹھے امر ہو جائیں۔ |