امام الحرم شیخ سُبَیل کا سانحۂ ارتحال

18دسمبر کو بعد نماز عصر مسجد حرام کا منظر نہایت عجیب وغریب تھا ، معہد الحرم المکی کے طلبہ ،اساتذہ ،حرم کے ائمہ ،مؤذنین ، خطباء ،سعودی شہزادے ،با شندگان مکۃ المکرمہ ،مدینہ منورہ،جدہ ،ریاض ،طائف ،دمام ،بریدہ، قصیم اور عالم عرب کے اطراف واکناف سے آئے ہوئے علماء، مشایخ اور سرکاری وفود ،نیز ساتوں بر اعظم کے معتمرین وزائرین آج اس شخصیت کا جنازہ لئے جارہے تھے ،جنھوں نے ۴۲ برس سے زائد اسی حرم میں ہزاروں مسلمانوں کے جنازے پڑھائے تھے ،لاکھوں کی امامت کرائی تھی اور کروڑوں کے اذھان کو اپنے معتدل ،پرکشش اور رقت انگیز خطبات سے معطّر ومنوّر کیاتھا ،جونصف صدی سے روئے زمین پر سب سے قدیم ترین، مقدس ترین اور افضل ترین خانۂ خدا کے ساتھ یک جان دوقالب کے مانند تھا، میری ان سے ملاقات تھی ، بہت بڑے سخی ،علم دوست ، غریب پرور اور مہمان نواز تھے ،جب بھی انہیں دیکھا عر بی چوغے ہی میں دیکھا ،آج بھی ان کا جسدِ مبارک ان کے اسی چوغے میں لِپٹا ہو اتھا ،ٹھاٹھے مارتے ہوئے سمندر میں ادب واحترام کی وجہ سے دھکم پیل نہ شور وغل تھا ، وقار ،سکون اور طمانیت کا تلاطم خیز بحرِزخار دیکھکر پردۂ خیال پر یہ شعر باربارنمایاں ہورہاتھا:
کہہ رہاہے شور دریاسے سمندرکا سکون جس کا جتنا ظرف ہے وہ اتناہی خاموش ہے
جلاؤ گھیراؤ ،آہ وبکاء ،گریہ وزاری کا نام ونشان نہیں تھا ،بس سب کا وِرد زبان تھا: ﴿اِنّا ﷲ وَاِنا اِلیہِ َراجِعون﴾ ۔کاش ہمارے یہاں کے مسلمان بھی غمی خوشی میں اغیار کے بجائے اپنے دینی وروحانی مراکز حرمین شریفین اور مسجد اقصی کو فالو کریں ، جس میں ان کو قلبی اطمینان ،فکری ونظریاتی استقامت اور دنیا وآخرت کی کامیابی نصیب ہوگی ۔

شیخ محمد بن عبد اﷲ السبیل ۱۹۲۴ کو قصیم میں پیدا ہوئے تھے ، ابتدائی بنیادی تعلیم اور تحفیظ وتجوید کے مراحل 14 سا ل کی عمر میں طے کیے،علوم عالیہ کیلئے بلاد ِعرب کے مختلف اور دور دراز شہروں کے اسفار کئے ، تفسیر ،حدیث، فقہ ، عر بی ادب اور علم القراء ا ت میں پائے کے مشایخ سے کسب فیض کیا ، بچپن سے فراغت تک جہاں جہاں رہے اوقات نماز میں اذان دینے کی ذمہ داری خودلیتے ،اخلاص اور عشق ومحبت سے معمور قلب وجگر سے جب ان کی آواز اٹھتی تو سنائی کے حدود تک وہ خطہ بقعۂ نور بن جاتا، اسی لئے برسوں تک حرم میں امام وخطیب رہنے کے باوجود اپنے تمام تر قریبی لوگوں میں وہ مؤذن صاحب سے مشہورتھے ۔

1953 سے 1965 تک سعودی عرب کے مشہور شہربُریدہ کے المعہد العلمی کے نگراں وروح رواں رہے ،1965 سے 1985 تک مسجد حرام کے امام وخطیب اور شعبۂ دینیات ومدرسین کے سربراہ رہے ، 81 میں ترقی کرکے دونوں حرموں مکہ ومدینہ کے معاملات کے مسؤل یعنی شاہی فرمان کے مطابق رئیس شؤن الحرمین الشرفین بنائے گئے ، انتظامی امور کے ساتھ ساتھ حرم مکی کی ایک دونمازوں کی امامت اور مہینے میں ایک دومرتبہ امامت وخطابت جمعہ کے فرائض بھی انجام دیتے ۔

مسجد نبوی میں شیخ علی الحذیفی ،اور مسجد حرام میں شیخ شُریم، شیخ سدیس کی طرح شیخ سبیل کے ایک صاحبزادے شیخ عمر سبیل نے بھی کافی شہرت پائی تھی ،مگر روڈ حادثے میں وہ آج سے دس بارہ سال قبل وفات پاگئے تھے ۔

شاہ فیصل ،شاہ خالد، شاہ فہد اور موجودہ شاہ عبداﷲ چار بادشاہ ہوں کے ادوار میں وہ امام الحرم اور امام المسلمین رہے ،ان ادوار میں یہاں حرم پر قبضے اور بعض ممالک کے حجاج کی طرف سے تقدس حرم سے ناموافق حالات بھی پیش آئے مگر ان کی بصیرت ،دانشمندی اور معاملہ فہمی نے ہمیشہ ان نامساعد حالات میں بھی انہیں سرخ رُوکیا۔

وہ اسلامی عربی علوم کے ساتھ ساتھ عصر حاضرکے ضروری علم بھی رکھتے تھے ،متعدد تصنیفات بھی کی ہیں ، ان کی خطبات ِحرم پر مشتمل دیوان الخُطَب دنیابھر کے ائمہ وخطباء میں مشہور ہے ، 88سال کی عمر میں 17 دسمبر 2012 ء کو ان کا انتقال ہوا ،حرم میں چالیس سال سے زائد انہوں نے امت اور انسانیت کی فلاح وبہبود کیلئے رو رو کر جودعائیں کیں ہیں ،اﷲ تعالی انہیں سب سے پہلے ان کے حق میں وہ قبول فرمائیں ، انہیں کروٹ کروٹ جنت الفردوس نصیب فرمائیں اور ان کے پسماندگان وجمیع مسلمانوں کو صبر وتحمل عطا فرمائیں ۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 817009 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More