چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے تجویز دی ہے کہ خود ساختہ
بارودی سرنگیں (آئی ای ڈی) امن کے لئے خطرہ ہیں جن پر قابو پانے کے لئے ایک
بین الاقوامی فوم کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ تجویز جنرل ہیڈ کوارٹرز میں
پاک فوج کے زیر اہتمام انٹرنیشنل سمپوزیم برائے انسداد خود ساختہ بارودی
سرنگیں سے خطاب کرتے ہوئے دی۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ عالمی برادری اس
تجویز کی پذیرائی کرے گی۔علاوہ ازیں پاکستان نے بارودی سرنگوں میں انسانی
جانوں کے ضیاع کو روکنے کے لئے کاؤنٹر آئی ای ڈی ٹاسک فورس کے قانون کا
مسودہ قومی اسمبلی سے منظور کروا کر اینٹی نارکوٹکس فورس جیسا ادارہ قائم
کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی مقصد کے تحت پاک فوج کے زیر اہتمام ’’ مشترکہ
کوششوں سے آئی ای ڈی کی شکست‘‘ کاؤنٹر آئی ای ڈی سمپوزیم کا انعقاد کیا گیا
۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خود ساختہ بارودی سرنگیں انسانی جانوں کے زیاں کا
سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ انہیں باآسانی تیار کیا جاسکتا ہے اور کسی بھی چیز
یعنی گھریلو استعمال کے برتن یا کھلونوں میں رکھ کر استعمال کیا جاسکتا ہے
لہٰذا دہشت گردوں کا معصوم لوگوں کو نشانہ بنانے کا یہ سب سے موثر ہتھیار
ثابت ہوئی ہیں ۔ اس مواد کے ذریعے شر پسند عناصر مسلح افواج کے ساتھ ساتھ
معصوم افراد کی جان یا انہیں زخمی کرکے علاقے میں ایک خوف و ہراس کی
صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی تخریبی
سرگرمیوں میں خودساختہ بارودی مواد بھاری تعداد میں استعمال کیا جارہا
ہے۔اس صورتحال نے پاکستان کو مزید خطرات سے دوچار کردیا ہے۔اس میں کوئی شک
نہیں کہ پاکستان میں اس وقت تخریب کاری اور دہشت گردی عروج پر ہے۔ کئی
قوتیں اس کی سلامتی کے درپے ہیں۔ یہ قوتیں مختلف طریقوں سے پاکستان کو
اندرونی طور پر بھی کمزور کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ دشمن کی طرف سے
ایسی سازشوں کی توقع ہر ریاست کو ہوتی ہے اور وہ اس کی پیش بندی بھی کرتی
ہیں مگر جب انہیں میر جعفروں کی مدد حاصل ہوجاتی ہے تو ریاست کو خطرات
دوچند ہوجاتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں یہی کھیل کھیلا جارہا ہے۔ہماری صفوں
میں موجود منافقین دشمن کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف سازشوں کے جال بن رہے ہیں۔
ان کو صرف اپنی ذاتی فوائد کی فکر ہے۔ یعنی ان کے پاس پیسہ بھی ہو اور
اقتدار بھی۔ وہ اپنے علاقے میں راجوں کی طرح زندگی بسر کریں۔ بس یہی وعدہ
غیر ملکی عناصر نے ان سے کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ہی ملک میں
تخریبی ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں اور معصوم بچوں تک کی جانیں لینے کے لئے
کھلونا نما بارود تیار کرکے گلی محلوں اور آبادی کے آس پاس رکھ رہے ہیں۔خاص
طور پر صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بارودی سرنگیں پھٹنے کے واقعات
عام ہیں اور انسان جان لینے کا سب سے بڑا موجب ہیں۔
حال ہی میں بونیر کے علاقے شہوانی میں کھلونا بم پھٹنے کا واقعہ رونما ہوا
جس میں دو بچے اور ایک عورت جاں بحق ہوگئے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک
عورت کو کھیتوں میں کام کے دوران ایک راکٹ کی شکل سے ملتا جھلتا ایک کھلونا
ملا جسے وہ گھر لے آئی۔جیسے ہی بچوں نے اس راکٹ نما کھلونے سے کھیلنا شروع
کیا وہ دھماکے سے پھٹ گیا۔اس سے قبل بھی یہاں کے مختلف علاقوں میں ایسے ہی
کھلونا نما بموں اور باردودی سرنگوں نے معصوم افراد کی جان لے لی۔ صوبہ
بلوچستان میں بھی اس قسم کے افسوسناک واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ بلوچستان کی
آبادی زیادہ نہیں ہے، لیکن یہاں غیر ملکی عناصر شورش کی فضا قائم کرکے اسے
عالمی رنگ دینے میں مصروف ہیں اور اس مقصد کے لئے سازشوں کے جال بن رہے ہیں۔
چھوٹی چھوٹی بستیوں کے درمیان کوئی راستہ نہیں مگر سازش کے تانے بانے ہر
گاؤں اور بستی میں ظاہر کئے جاتے ہیں۔یہاں بھی بارودی سرنگوں کو اگر ان
معصوم افراد کا سب سے بڑا قاتل قراردیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ بارودی
سرنگیں سڑکوں، راستوں ، کھیتوں ، ریگستانوں ، ریل کی پٹریوں، رہائشی علاقوں
، اسکولوں اور دیگر عوامی مقامات پر رکھ دی جاتی ہیں۔ معصوم شہری خاص طور
پر بچے ان کا شکار ہوکر موت کی منہ میں چلے جاتے ہیں یا پھر زندگی بھر کے
لئے معذوری کا طوق گلے میں ڈال لیتے ہیں۔ان مہلک بارودی آلات کی وجہ سے
مقامی باشندوں میں ایک شدید خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔ یہ معصوم متاثرین
جانتے ہوئے بھی کوئی متبادل راستہ نہیں اختیار کرسکتے۔
بارودی سرنگوں کی وجہ سے نہ صرف قیمتی جانیں ضائع ہورہی ہیں بلکہ معیشت پر
بھی اس کے برے اثرات مرتب ہورہے ہیں کیونکہ زمینی کاشت نہیں ہوسکتی، طبی
سہولیات عام طور پر بارودی سرنگوں کے متاثرین پر صرف ہو رہی ہیں اور ملکی
وسائل جن کو تعلیمی ترقی پر استعمال ہونا چاہیے وہ بارودی سرنگوں کی صفائی
میں استعمال ہورہے ہیں۔بارودی سرنگوں اور کھلونا بموں میں ہلاک ہونے والے
متاثرین کی تعداد کی تصدیق کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ اسی لیے دور دراز
علاقوں ہونے والے کئی واقعات ذرائع ابلاغ کی طرف سے رپورٹ نہیں ہو پاتے۔
پاکستان کی مسلح افواج خودساختہ بارودی سرنگوں کے واقعات کو کنٹرول کرنے کے
لئے بہت سے اہم اقدامات اٹھارہی ہیں۔ گزشتہ دو ماہ میں پاک فوج نے 76من
دھماکہ خیز مواد پکڑا۔اس کے علاوہ پاک فوج نے ایسے علاقوں جہاں بارودی
سرنگیں بچھائی جانے کا امکان ہے وہاں ان کی تلاش کا ایک باقاعدہ نظام وضع
کیا ہے ۔ بہت سے علاقوں کی ڈی مائننگ کی گئی اور یہ عمل جاری ہے۔ گزشتہ چار
سال کے دوران سب سے زیادہ 79فی صد آئی ای ڈی دھماکے پاکستان میں ہوئے جس
میں سیکورٹی اہلکاروں کے علاوہ بہت سے معصوم شہری اور بچے ہلاک اور زخمی
ہوگئے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ ایسے بموں اور بارودی مواد کی
تیاری کرنے والے اتنے سفاک ہیں کہ انہوں نے بچوں کی جان لینے کے لئے مختلف
رنگ برنگے سفاک کھلونے بنا رکھے ہیں مگر سفاکی کی انتہاء جھاڑ کنڈ کے علاقے
میں اس وقت منظر عام پر آئی جب دہشت گردوں نے مردہ پولیس اہلکار کے پیٹ میں
آئی ای ڈی نصب کرکے اسے اڑا دیا۔ چونکہ یہ مواد عام گھریلواشیاء سے تیار
کیا جاسکتا ہے اس لئے اس کی سفاکی اور تباہی کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
اطلاعات کے مطابق ہر ماہ دنیا میں سات سو کے قریب آئی ای ڈی دھماکے ہوتے
ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان بارودی سرنگوں کو بچھانے اور کھلونا نما
بموں کو رکھنے والے سفاک ملزموں کی اکثریت بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔
وہ لوگ جو ان بارودی سرنگوں کے پھٹنے کی وجہ سے معذور ہوئے ہیں درحقیقت وہ
مر جانے والوں سے بدترحالت میں ہیں۔ اپنے اعضاء کھودینا اور زندگی بھر کے
لیے معذور ہوجانا بلاشبہ برداشت کا ایک کڑوا امتحان ہے۔
اس پس منظر میں پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی جانب سے
باردوی سرنگوں کے خلاف جو عالمی فورم بنانے کی تجویز دی گئی ہے وہ انتہائی
صائب اور بروقت ہے امید ہے دنیا بھر میں اس کی پذیرائی کی جائے گی اور اس
خطرناک مواد سے نجات حاصل کرنے کے لئے تمام عالمی قوتیں اور مشترکہ لائحہ
عمل تیار کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں گی۔ |