۲۰۱۳ کے انتخابات سے قبل یہ بات بڑوثوق سے کہی جارہی تھی کہ پاکستان تحریکِ انصاف
مسلم لیگ(ن) کے ووٹوں پر ہاتھ صاف کرے گی لہذا کئی مبصرین کا خیال تھا کہ ان دونوں
جماعتوں کی باہمی چپقلش سے دائیں بازو کا ووٹ تقسیم ہوگا جس کا پی پی پی بھر پور
فائدہ اٹھائے گی اور اپنی ناقص کارکردگی اور غیر مقبو لیت کے باوجود کئی نشستوں پر
کامیابی حاصل کرلے گی۔میاں برادران تحریکِ انصاف سے اتنا خوف زدہ تھے کہ انھوں نے
نوجوانوں کو قابو کرنے کیلئے لیپ ٹیب سکیم اور پیلی ٹیکسی سکیم شروع کی اور اربوں
روپوں کے سرکاری فنڈز سے اپنی انتخابی مہم کا دھواں دار آغاز کر دیا۔ پاکستان تحریکِ
انصاف میاں برادران کو چیلنج کر رہی تھی اور میاں برادران عمران خان کو نشانہ بنائے
ہوئے تھے۔ آصف علی زرداری خاموشی سے یہ سارا کھیل دیکھ رہے تھے ۔ان کی خواہش تھی
مسلم لیگ (ن) اور تحریکِ انصاف میں یہ جنگ اور شدید ہو جائے تا کہ پی پی پی کے
امیدوار وں کی نشستیں زیادہ محفوظ ہو جائیں۔کچھ حلقوں سے یہ آوازیں بھی سنائی دے
رہی تھیں کہ عمران خان کو آصف علی زرداری کی آشیرواد حاصل ہے اور شائد یہی وجہ تھی
کہ میاں برادران عمران خان کو آصف علی زرداری کا بھائی کہہ کر پکارتے تھے ۔مقصد یہی
تھا کہ ان دونوں میں کسی گٹھ جوڑ کو ثابت کیا جاتا ۔ان کا خیال تھا کہ یہ آصف علی
زرداری کی سازش ہے جو انھوں نے مسلم لیگ (ن) کو ہرانے کیلئے کر رکھی ہے۔عمران خان
میاں برادران پر مک مکا کا الزام لگاتے رہتے تھے۔ان کا خیال تھا کہ پی پی پی اور
مسلم لیگ (ن) نے اپنی اپنی باریاں لگا رکھی ہیں اور ان کی ایک دوسرے کی مخالفت ایک
دکھاوے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔یہ دونوں جماعتیں اقتدار کو اپنے گھر میں ہی رکھنا
چاہتی ہیں لیکن پریس میں شورو غوغا بلند کر تی رہتی ہیں تا کہ ووٹر ان کے بارے میں
ہی سوچتے رہیں اور یوں عوامی امنگوں کی حقیقی نمائندہ جماعت کے سامنے آنے کے سارے
امکانات معدوم ہو جائیں۔عمران خان کا کہنا تھا کہ ایک نورا کشتی ہے جو پی پی پی اور
مسلم لیگ (ن) کے درمیان جاری ہے جس سے یہ دونوں قوم کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے
ہیں لیکن تحریکِ انصاف اب ایسا نہیں ہونے دے گی۔ عمران خان کے سارے جلسے اسی نورا
کشتی کا بھانڈا پھوڑنے اور موجودہ سٹیٹسکو کو توڑنے کے عزم کا اظہار تھے۔ اس طرح کے
ذاتی حملے پوری انتخابی مہم میں بڑے واضح تھے ا ور کسی کو کوئی سمجھ نہیں آرہی تھی
کہ اصل میں کون ایک دوسرے کے ساتھ ملا ہوا ہے۔اس بات کا حتمی فیصلہ ووٹر ز کو ۱۱
مئی کو کرنا تھا کہ وہ ا پنا ووٹ کسی جماعت کے پلڑے میں ڈالیں گئے۔ساری جماعتیں
بالکل مطمئن تھیں کہ پاکستانی قوم ان کے ساتھ ہے اور انھیں ہی اپنے مینڈیٹ سے نوازے
گی اور یوں ۱۱ مئی کا سورج ان کیلئے فتح کی نویدبن کر طلوع ہو گا۔
میں ذاتی طور پر پی پی پی کی اس حکمتِ عملی سے متفق نہیں تھا کیونکہ فتح منفی حربوں
سے نہیں بلکہ نظریے کی قوت اور مثبت سوچ کی طاقت سے آیا کرتی ہے۔ووٹوں کی تقسیم کا
نظریہ پرانا ہو چکا ہے اور یہ اس زمانے کی بات ہے جب پی پی پی عوامی مقبولیت کی
بلندیوں پر ہوا کرتی تھی۔جب اپنے پلے ہی کچھ نہیں ہو گا تو پھر مخالفین کے ووٹوں کی
تقسیم بھی کوئی معجزہ نہیں دکھا سکے گی۔ ان انتخابات میں پی پی پی کے ساتھ یہی ہونا
تھا اور یہ نوشتہِ دیوار تھا اب اگر کوئی اس کو پڑھنے کی کوشش نہیں کرتا تو اس میں
نوشتہِ دیوار کی کیا خطا ہے۔میں نے اس بات کا اظہار اپنے کئی دوستوں سے بھی کیا تھا
کہ ووٹوں کی تقسیم کی سوچ ایک غلط حکمتِ عملی ہے جس پر پی پی پی تکیہ کر کے بیٹھی
ہوئی ہے ۔یہ سوچ پی پی پی کو سخت نقصان پہنچائے گی لیکن بدقسمتی سے میرے دوست بھی
میری سوچ کا ساتھ دینے کیلئے تیار نہیں تھے۔وہ بھی آصف علی زرداری کی حکمتِ عملی
اور ان کے منظر نامے کو بدل دینے کی بے پناہ پوشیدہ صلاحیتوں کے معترف تھے۔ وہ یہ
سمجھ رہے تھے کہ پی پی پی اب بھی اسی طرح توانا اور مقبول ہے جیسی وہ بی بی شہید کے
زمانے میں ہوا کرتی تھی۔وہ میری حقیقت پسند انہ سوچ کا ساتھ دینے کیلئے بالکل تیار
نہیں تھے۔ان کی رائے تھی کہ پی پی پی (۸۰) سے نوے (۹۰) سیٹیں جیت جائیگی او ر اپنے
اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دے لے گی۔وہ پی پی پی کی محبت میں زمینی حقائق
کو سمجھنے کیلئے تیار نہیں تھے۔محبت اندھی ہو تی ہے اور حقائق کا سامنا کرنے سے
کتراتی ہے اور یہی معاملہ میرے دوستوں کے ساتھ بھی تھا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ پی پی پی
ان انتخابات میں انتہائی کمزور تھی۔میں اس کی وجوہات کا یہاں ذکر کرنا مناسب نہیں
سمجھتا لیکن سچ یہی ہے کہ پی پی پی اپنی تشکیل کے بعد سے اتنی کمزور،غیر مقبول اور
بے بس کبھی نہیں ہوئی تھی جتنی اب تھی لہذا ان نا مساعد اور حوصلہ شکن حالات میں
مخالفیں کے ووٹوں کی تقسیم سے فتح مندی کے نظریے کی میں کسی بھی صورت میں حمائت
نہیں کر سکتا تھا۔پی پی پی کا ا پنا ایک ووٹ بینک ہے اور پی پی پی نے اسی ووٹ بینک
کی قوت سے سارے انتخابات جیتے تھے۔مخالفین کے ووٹ اگر تقسیم ہوتے ہیں تو وہ اسی
صورت میں ممدو معاون ہوسکتے ہیں جب پی پی پی خو د بھر پور توانائی سے کھڑی ہو۔پی پی
پی تو اپنی ٹانگوں پر کھڑی ہونے کے قابل ہی نہیں رہی تھی لہذا ایسے میں ووٹوں کی
تقسیم کے نظریے سے فتح کی عمارت تعمیر کے خواب دیکھنا احمقوں کی جنت میں ر ہنے کے
مترادف تھا اور پی پی پی کی اعلی قیادت اسی طرح کے رویوں کا اظہار کر رہی تھی جو
پارٹی کیلئے زہرِ قاتل کی حیثیت رکھتے تھے۔دائیں بازو کا ووٹ تو کبھی پی پی پی کو
ملا ہی نہیں لہذا اس ووٹ کی تقسیم ہمارا مسئلہ نہیں تھا بلکہ دائیں بازو کا مسئلہ
تھا اور دائیں بازو کوعلم ہے کہ انھیں اپنے ووٹ بینک کو کیسے استعمال کرنا ہے۔
دائیں بازو کی ہمیشہ سے یہ روائت رہی ہے کہ یہ اس امیدوار کو ووٹ دیتا ہے جس کی جیت
کے واضح امکانات موجود ہوتے ہیں۔۲۰۰۲ میں ایم ایم اے اور مسلم لیگ (ق) کی مثال
ہمارے سامنے ہے۔ عمران خان کے بارے میں یہ تاثر دینا کہ وہ دائیں بازو کا نمائندہ
ہے درست نہیں ہے۔اس کے ساتھ لبرل،ترقی پسند اور ماڈرن سوچ کے حامل افراد ہیں لہذا
انھیں دائیں بازو کا نمائیندہ کہنا بنیادی طور پر غلط ہے ۔عمران خان کے ووٹرز
یونیورسٹیوں اور کالجوں کے وہ پڑھے لکھے نوجوان ہیں جو پاکستان میں قانون،انصاف اور
میرٹ کا نفاذ چاہتے ہیں ،وہ کرپشن غنڈہ گردی اور دھونس دھاندلی سے پاک معاشرہ چاہتے
ہیں۔ان کے ہاں مذہبی شدت پسندی کا کہیں نام و نشان نہیں ہے لہذا وہ دائیں بازو کے
ووٹرنہیں ہیں۔یہ اسی انداز کے ووٹر ہیں جیسے ووٹر ذولفقار علی بھٹو کے ساتھ ہوا
کرتے تھے صرف اس ایک فرق کے ساتھ کہ بھٹو کے ساتھ جو لوگ تھے وہ خستہ حال اور محروم
تھے جب کہ عمران خان کے ساتھی قدرے خوشحال اور آسودہ حال ہیں ۔ان میں غربت کی وہ
کیفیت نہیں ہے جو ذوولفقار علی بھٹو کے ساتھیوں کی تھی لیکن اپنی ترقی پسند سوچ اور
سٹیٹسکو کو ختم کرنے کی خواہش دونوں میں یکساں پائی جاتی ہے ۔ ذولفقار علی بھٹو بھی
معاشرے کو بدلنا چاہتے تھے اور عمران خان بھی تبدیلی کا نعرہ بلند کر رہے ہیں ۔دونوں
اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہیں لہذا عمران خان کو دائیں بازو کے ساتھ نتھی کرنا
مناسب نہیں ہے ۔وہ ایک لبرل قائد ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی فتح کے
باوجود معاشرے کی اغلب اکثریت نے عمران خان کو ووٹ دیا ہے جبکہ پی پی پی بہت پیچھے
رہ گئی ہے ۔وہ بات جس کا میں یہاں ذکر کرنا انتہائی ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ
مسلم لیگ (ن) عمران خان کے ہاتھوں اپنے ووٹ کاٹے جانے کی جو دہائی دے رہی تھی وہ
کسی جگہ پر کسی کو نظر نہیں آئی۔ کوئی ایک حلقہ بھی ایسا نہیں ہے جہاں پر مسلم لیگ
(ن) کا ووٹ بینک کم ہوا ہو یا اس پر اثر پڑا ہوا ہوبلکہ اس پروپیگنڈے کا سب سے
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ عمران خان کے خوف سے ان انتخابات میں مسلم لیگ کا ووٹ بینک کم
ہونے کی بجائے بہت زیادہ بڑھ گیا ہے جس پر سارے غیر جانبدار حلقے حیران و شسدر
ہیں۔یہ معجزہ کیسے رونما ہوا اور اس میں کس کس نے اپنی جادو گری دکھائی پورے
پاکستان میں بحث و مباحثے کا موضوع بنا ہوا ہے۔میڈیا ہر روز کوئی نہ کوئی نیا ثبوت
پیش کر کے ان انتخابات کی شفافیت کو ننگا کر رہا ہے۔میں بھی ذاتی طور پر اسی خیال
کا حامی ہوں کہ اگر عمران خان میاں برادران کے ووٹ کاٹنے اور انھیں کمزور کرنے
کیلئے میدان میں اتارے گئے تھے تو پھر مسلم لیگ (ن )کا ووٹ بینک کیسے بے پناہ بڑھ
گیا؟ ہے کوئی اس سوال کا مدلل جواب دینے والا؟۔ |