جبر زبردستی اور معاملات میں دھاندلی ہمیشہ سے طاقت اور دولت کی بنیاد پہ
قائم جابر حکومتوں سرداروں جاگیرداروں کا ہتھیار رہی ہے جس کے بل بوتے پر
فرعون صفت ذہن کے لوگ ہرصورت قوموں کے دلوں کی بجائے ذہن و عصاب پہ خوف
اورد ہشت بن کر مسلِط رہے ہیں ایسے لوگ لوٹ مار کر کے قوموں کا خون نچوڑ کر
کسانوں مزدوروں غریبوں کے حق پہ ڈاکہ ڈال کر یتیموں بے واؤں مسکینوں کے
آنسو بیچ کر خدا کی زمین کو صرف اپنا ذاتی حق سمجھ کر بے ایمانی لوٹ مار سے
کمائی گئی دولت سے حکومت اور سرداری کو اپنا حق سمجھنے والے یہ لوگ کبھی
برداشت نہیں کرتے کہ ان کی سرداری اور حکومت پہ کوئی کسی قسم کی آنچ آئے وہ
اس نام نہاد عزت کے لئے ہر حد سے گزر جاتے ہیں تاریخ گواہ ہے بہت سے
فرعونوں نے خود کو خدا سجھ لیا اور طاقت اور دولت کے تکبر میں لوگوں پہ ظلم
کیے یزید نے اپنی طاقت کے نشے میں اپنی جابر حکومت کے گھمنڈ میں اپنی جھوٹی
ذات اور اپنی نام نہاد عزت کے نام پرزبردستی اور دھاندلی کے زور پہ سچ کو
جھوٹ کے سانچے میں ڈھالنے کی پوری کوشش کی اور اپنی جھوٹی سرداری کو بچانے
کے لئے نواسہِ رسول ؐ کو شہید کر دیا اور سمجھ بیٹھا کہ یہ زمین یہ حکومت
صرف اُسی کا حق ہے مگر حسینؑ نے بتا دیا کہ زمین پہ اگر کوئی افضل ہے تو
محض وہ شخص ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ فائد ہ دے اور حکومت کا بھی وہی اہل
ہے جو لوگوں کو نفع دے لیکن جو لوگ اُلٹا قوموں کا حق کھا جائیں ایسا گروہ
سزا کا مستحق ہے وہ ظالم ہے اُس کی بنیاد دھاندلی پہ ہے زبردستی پہ ہے میں
نے فرعون اور یزید کا تذکرہ کیا تو مجھے آج کے حکمران بھی اسی یزید کے
پیروکارنظر آئے اور ساتھ ایسے جاگیردار اور سرمایہ دار بھی نظر آئے جو اپنے
مفاد کے لئے کرپٹ حکومتوں سے مل جایا کرتے ہیں اور حکمران ایسے کہ جنہوں نے
سابقہ سالوں میں اپنی حکومت کی بیناد بھی ظلم زبردستی اور زیادتی اور ہر
معاملے میں دھاندلی پہ رکھی ہے یہ لوگ اپنے خونی پنجے اس دھرتی کے سینے میں
گاڑھ چکے ہیں اوراپنے نوکیلے دانتوں سے اس قوم کی شہ رگ سے مسلسل خون چوس
رہے ہیں اور اِن کے جال آنے والے وقت کے لئے بچھ چکے ہیں تاکہ ہر دَور میں
لوگ ان کے محکوم رہیں مجھے دس مئی سے پہلے کی گئی ڈاکڑ طاہر القادری صاحب
کی بات یاد آتی ہے انہوں نے کہا تھا تبدیلی کا نام لینے والے گیاہ مئی کے
بعد دھاندلی کا رونا روئیں گے آخر وہی ہوا جو ہمیشہ سے دولت اورطاقت میں
نشے میں چُور لوگوں کا نسب العین رہا ہے وہی ہوا جو با اثر افراد کرتے ہیں
کہ اپنی جھوٹی عزت اور طاقت کے غرور میں ہر حد پار کر جاتے ہیں جس کا
اندازہ بھی بعض اوقات لگانا مشکل ہو جاتا ہے یہ انتخابات تو بظاہر شفاف رہے
مگر حقیقت کے پسِ پردہ نام نہاد رہنماؤں اور نمائندوں کی وہی طاقت اور دولت
کا غرور ہی نظر آیاکہ انتخابات میں اگرِ ان کو ووٹ نہ بھی ڈالا جائے تو یہ
اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ ہر صورت کامیاب ہو جائیں اور اپنی جھوٹی عزت کا خود
ساختہ تاج اپنے سر پہ رکھ سکیں عجیب واقعہ ہے صاحب پھر اِنہی لوگوں نے
روایت کو براقرار رکھتے ہوئے اپنے ناخن اس سر زمین کے سینے میں جما رکر
بیٹھے ہیں اور اِس ملک و قوم کے اکھڑتے ہوئے سانسوں کی آخری ہچکیوں کا
انتظار کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں اس روئے زمین پہ سوائے اِن کے کوئی بھی
اِن کی طرح کا بشر نہ ہو کوئی ان کی طرح زندگی نہ گزار سکے کیونکہ اگر سب
آسودہ حال ہو گئے تو اِن کو سردار کون کہے گا بحر حال یہ چوہدری اور کمی کی
بحث ہے لہذا کمی کو اتنی اوقات نہیں دی جائے گی کہ وہ چوہدری کے سامنے
چوہدری کی طرح زندگی بسر کرے جبکہ خدا نے سب انسان برابر پیدا کیے ہیں تم
جیسی مرضیزندگی گزارو پر دوسروں کا حق مت کھاؤ ٹیکس کے نام پر مجبوروں کا
خون مت نچوڑو اگر خود تین وقت کی روٹی کھاتے ہو تو دوسروں کو ایک وقت کی
روٹی تو کھانے دو بھائی کم از کم اور کچھ نہیں تو سانس تو لینے دو سرداری
قائم رکھنے کی روش اس سال بھی برقرار رہی مگر اس الیکشن میں جو ہوا اِس کی
مثال نہیں ملتی اس طرح کھلی آنکھوں میں دھول جھونک دی گئی کہ لوگ آنکھیں
ملتے رہ گئے اور ان کے ووٹوں پہ کسی اور کے نام کی مہرریں لگتیں گئیں اک
جادو جیسا کھیل کھیلا گیا خزانوں کے منہ اعلیٰ عہدیدوں کے سامنے کھول دیئے
گئے دولت کا اک سمندر بہایا گیا پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی دھاندلی کی
گئی میں جب صبح ووٹ ڈالنے کے لئے گیا تو پولنگ اسٹیشن کا رش دیکھ کر حیران
رہ گیا اتنا رش تھا کہ پولنگ اسٹیشن کوئی مسافر ٹرین کا اسٹیشن لگتا تھا
لوگ لائینوں میں ایک دوسرے کو دھکا دے رہے تھے اور گرمی اور دھوپ کی وجہ سے
لوگ اور الیکشن کا عملہ گھبرایا ہوا تھا جو سستی سے کام لے رہا تھا ووٹ
ڈالے جانے کی رفتار ایسی تھی کہ میں سوچ رہا تھا کہ آج شام تک اس پولنگ
اسٹیشن میں موجود لوگ ہی بس اپنا ووٹ ڈال پائیں گے مگر شام میں میں یہ سن
کر حیران رہ گیا کہاتنے کم وقت میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ووٹ ڈالے گئے
اور اکثر کے تو نتیجے بھی شام پانچ بجے سے پہلے آ گئے جس میں اک ایسی پارٹی
جیتتے ہوئے نظر آئی جس کا سر جھکا ہوا تھا اور دوڑ کے دوران ٹانگیں کانپ
رہی تھیں جن کی نظر اپنی سابقہ پانچ سالوں کی کارکردگی پہ تھی اور اِن کو
اندازہ تھا عنقریب لوگوں کے ہاتھ ان کے گریبانوں تک پہنچنے والے ہیں مگر
زبردستی چالاکی دس نمبر دھاندلی کے بل پر آخر یہی جماعت جیت گئی جو سب سے
پیچھے تھی مگر حقیقت میں یہ ہار چکی ہے اور ہار تسلیم بھی کر چکی ہے یہ
عالم ہے کہ ایک نہیں بلکہ کہ ساری پارٹیاں دھاندلی دھاندلی کا شور مچار رہی
ہیں اور جیتنے والی پارٹی چپ ہے آپ خود ہی انصاف کریں کہ کیا جیتنے والے
لوگ اس قابل تھے کہ ان کو دوبارہ سے منتخب کیا جاتا اگر آپ اپنے ضمیر سے یہ
سوال کریں گے تو جواب آئے کہ نہیں یہ عوام کے منتخب نمائندے نہیں ہیں بلکہ
کہ طاقت اور دولت کی بنیاد پہ اک دھاندلی کا پھندا ہے جس کے جال میں پھر
پانچ سالوں کے لئے عوام پھنس چکی ہے رونے والے پھر پانچ سال روئیں گے اور
لُوٹنے والے پھر پانچ سال لُوٹیں گے پانچ سال بعد پھر یہی روش برقرار رہے
گی لیکن آخر اس پریشانی کا حل کیاہے اس کرپشن کا حل کیا ہے کیا یہی جمورت
ہے جس کو فراڈ لوٹ مار دونمبری کی بنیاد کا ٹائٹل دیا گیا ہے کیاعوام بے بس
ہے یا پھر ان کے لئے اللہ نے کوئی راستہ ہی نہیں چھوڑا یا پھر ہم نے اپنے
ہاتھ خود باندھ رکھے ہیں اورا پنی شہ رگ کو کٹتے ہوئے دیکھ رہے ہیں یہ
الیکشن بھی اپنے پیچھے اک سوال چھوڑ گیا یہ سب کچھ آخر کیوں اور آخر کب تک
جبکہ قران کہتا ہے بقول علامہ اقبال کے
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا |