کچھ فارغ التحصیل فضلاء کی خدمت میں

دینی مدارس میں تعلیمی سال اپنے اختتام کے قریب ہے اور طالب کیلئے آغاز اور اختتام سال نہایت اہمیت کا حامل ہوتاہے ان دو مواقع پر اگر اس کا حس بیدار ہو اور وہ اپنے اہداف و اغراض کی تعیین اور استحضار کرے تو اس کے دور رس اثرات سے نہ صرف وہ بلکہ پورا معاشرہ مستفید ہوسکتاہے خصوصا فارغ التحصیل ہونے والے حضرات کو اگر اپنی حساس حیثیت اور بھاری ذمہ داریوں کا احساس ہو تو وہ کس قدر مفید ثابت ہوسکتے ہیں اور بصورت دیگریہ کتنا بڑا المیہ ہوتا ہے اہل نظر کو اس کا بخوبی ادراک ہے ۔

بڑی جامعات میں گذشتہ ایک عرصے سے یہ ریت چلی ہے کہ فراغت حاصل کرنے والے طلبہ تمام شرکاء درس کے ایڈیسز کچھ اساتذہ کے تاثرات اور کچھ اپنے کتابی شکل میں شائع کرتے ہیں مجھ سے ساتھیوں نے کچھ لکھنے کیلئے کہا تو میں نے لکھا :
أحمد اﷲ العظیم وأصلی و أسلم علی رسولہ الکریم

میرے عزیز طالب علم ساتھیو !
طالب علمی کے مختلف مراحل طے کرنے کے بعد آج آپ اپنی زندگی کے ایک اہم دوراہے پہ کھڑے ہیں ،آپ کی تعلیم رسمی طور پر پایٔہ تکمیل تک پہنچ گئی اور دستار فضیلت آپ کے سروں پر بندھ گئی، فھنیئاً لکم واَبشرُوا بأحسن ما عند اﷲ تعالی ! اس موقع پہ یقینا آپ کا دل خوشی سے معمور ،آپ کا دماغ فرط افتخار سے مخمور اور آپ کے جذبات واحساسات محو پرواز رفعت ہوں گے، آپ میں سے بہت سوں کو تو اپنے سروں اور کندھوں سے ایک بوجھ سا اترتا محسوس ہوگا، اور وہ اپنے آپ سے یوں سرگوشی کررہے ہوں گے کہ بہت ہوگئی یار، اب آؤ ! ذرا سستایئں، ذرا خوش منظر کائنات کا کھل کر نظارہ کریں، کچھ اس سہانے ماحول اور پر فضا موسم سے محظوظ ہوں، اور اس برسوں کے تھکن وماندگی کے بعد عیش وطرب کے چند لمحے گذار دیں پھر کچھ کریں گے ․․․․․․․اور آپ ہی میں سے یقینا کچھ ایسے بھی ہوں گے جو ہموم وافکار میں گھرے ہوں گے، انہیں یا تو اپنی محرومی اور بے بضاعتی کا احساس سوہان روح بن کرپریشان کر رہا ہوگا ،اور یا پھر فکر معاش اورغم روزگار ان کے اعصاب پر سوار ہوگا، اور وہ اس سوچ میں ہوں گے کہ اب عملی زندگی میں داخل ہورہے ہیں تو کس ذریعہ معاش کو اختیار کیا جائے ،اور نان جویں کیلئے کس راہ کا انتخاب کیا جائے ․․․․․․؟

میرے دوستو ! یقین جانیئے یہی وہ مقام ہے جہاں آپ کی زندگی کی تشکیل جدید ہوتی ہے ،اس موقعہ پہ آپ کی حیات وممات کا فیصلہ ہوتا ہے ،اور یہی وقت آپ کے روشن یا تاریک مستقبل کیلئے فیصلہ کن گھڑی کی حیثیت رکھتا ہے ،آج گویا زمانہ آپ کو خبر دار کر رہا ہے کہ ’’ ـــفیصلہ تیرے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم ‘‘ ۔
لہذا پہلی بات تو یہ یاد رکھو کہ آج آپ عملی زندگی میں قدم رکھ رہے ہیں مگرآپ کی علمی بلکہ تعلیمی زندگی کا خاتمہ نہیں ہونا چاہئے ،آپ کی ’’طالب علمی‘‘ بھلے ختم ہو مگر تعلیم بدستور جاری رہنا چاہئے ،اور جب تک آپ باضابطہ پڑھ سکیں ضرور پڑھیں ،اور اگر آپ کے حالات آپ کو اس کی اجازت نہیں دیتے توکتاب بینی اور کتاب خوانی کی عادت کم از کم نہیں چھو ٹنی چاہیے ۔

دوسری بات یہ کی بعد از فراغت آپ کا پہلا قدم ہی آپ کے مستقبل کا رخ متعین کرے گا ،اس واسطے آپ ’’ پہلا قدم‘‘ خوب سوچ سمجھ کر درست سمت میں اٹھائیں۔ اور مادے کو روح پر، دنیا کو دین پر ترجیح دینے کے خطرناک اقدام سے بچیں؛ کیوں کہ آپ کو مدرسے میں اول وآخر یہی سبق پڑھایا گیا کہ زندگی کے اس دلدل میں آپ کا معیار’’ فاظفر بذات الدین ‘‘ والا ہونا چاہئے ۔

تیسری بات یہ کہ خوب غور وخوض سے اپنے آپ کا جائزہ لیں اور اپنی استعداد اور مزاج کو پرکھ کر اپنے لئے دین کے کسی ایک شعبے کا انتخاب کریں، اور پھر اپنے وسائل ،ذرائع اور صلاحیتوں کو اس کیلئے وقف کردیں، ہر لائن میں قسمت آزمائی کرنے سے آپ ضائع ہو جائیں گے اور آپ کی خدمت سطحی اور غیر مؤثر رہیگی ۔

چوتھی بات یہ کہ تعقل ،سمجھداری ،مشاورت اور عواقب اندیشی کو زاد راہ بنائیں اور تفرد، تشتت ،توغل اور تصنع سے اجتناب کریں اور یاد رکھیں کہ دین کے ساتھ جذباتی وابستگی کافی نہیں،نظری اور نظریاتی رشتہ ہی آپ کے حسن عاقبت کا ضامن بن سکتاہے ۔

پانچویں بات یہ کہ اعمال صالحہ کے التزام اور اخلاق رذیلہ سے بچنے کا اہتمام کریں ؛کیوں کہ علم (دانستن) فی نفسہ کوئی خوبی کی بات نہیں ہے ،مستشرقین بعض دفعہ تحقیق وتدقیق میں مسلمان اہل علم سے بھی آگے نکل جاتے ہیں مگر یہ علم ان کو فائد ہ نہیں دیگا ۔

چھٹی بات یہ کہ معاملات میں خود بھی کوتاہی نہ کریں اور دوسروں سے بھی ناجائز رعایت نہ برتیں کہ معاملات میں ہی انسان کی اصلیت کا پتہ چلتا ہے اور اسمیں بڑے بڑے زہاد وعباد بسا اوقات پھسل جاتے ہیں ۔
ساتویں بات یہ کہ اسلام کے اور امت مسلمہ کے اجتماعی مفاد کو نقصان پہنچانے والا کوئی کام ہر گزنہ کریں۔

آٹھویں بات یہ کہ کسی اﷲ والے سے رابطہ رکھیں، ان سے اصلاحی تعلق جوڑیں ورنہ اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ کے آرزو ہی آرزو میں زندگی گذرجائیگی ۔

نویں بات یہ کہ دین کا صحیح فہم پیدا کرنے کیلئے ہمیشہ فکر مند اور مصروف عمل رہیں، اور اس سے کبھی مستغنی نہ ہوں، طفلانہ تصورات اور روایات ہی سے چمٹے رہنے سے ایک عالم کی شان بہت بلند اور ما وراء ہے، تا ہم شتر بے مہار کیطرح اصول دین اور مسلمات میں عقل کے گھوڑے نہ دوڑائیں بلکہ تحقیق طلب امور کو پہچانیں ،اور صحیح مصرف میں اپنی ذہن اور عقلی صلاحیتیں استعمال میں لائیں، تحقیق وتدبر کیلئے میدان کے انتخاب میں بڑوں بڑوں نے ٹھوکریں کھائیں ہیں اور یہی سے ان کی بے راہ روی کا آغاز ہوا ہے ۔
دسویں بات یہ کہ خود اعتمادی، استقامت اور پختگی سے اپنے مشن پر کار بند رہیں کہ حیات جاودانی مردان باہمت ہی کے قدم چومتی ہے ۔

أسأل اﷲ العظیم أن یوفقنی و ایاکم لما یحب و یرضی ۔ آمین
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 877748 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More