صوفیاے کرام کی تعلیمات نے ہر دور میں انسانی اقدار کی تعمیر و تصحیح اور قلوب کے
تزکیہ و تطہیر کا فریضہ انجام دیا؛خانقاہیں اور زاویے ہمیشہ انسان سازی کے مراکز
رہے ہیں۔دورِ صحابہ و تابعین کے بعد ان ہی خدا شناس نفوسِ قدسیہ نے اسلام کی عملی
تصویر دنیا کے سامنے پیش کی اور مختلف علاقوں میں روحانی انقلاب برپا کیے، جن کے
اثرات آج بھی دنیا کے گوشے گوشے میں پائے جاتے ہیں؛ جن کی ہر ہر ادا نے باشندگان و
والیانِ کفرستان کو اسلام سے قریب بھی کیااور متاثربھی۔ان کے دامن سے جو وابستہ ہوا
وہ حسنِ اخلاق و صالح کردار جیسے اوصاف سے متصف ہوا؛ان کی مجالس کے حاضر باش خوف و
خشیتِ الٰہی سے لرزاں اور قول و فعل میں یک ساں ہوتے؛ ان کے ملفوظات و تعلیمات
سسکتی ہوئی انسانیت کے لیے پیامِ حیات، تنزل پذیر اعلیٰ اقدار کے لیے نسخۂ
کیمیاہے۔ان اولیا و صوفیہ میں سلطان الہند معین الحق والدین خواجۂ خواجگاں حسن
سیجزی المعروف حضور خواجہ غریب نواز رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ ایک نمایا بلکہ قائدانہ
مقام رکھتے ہیں۔ ذیل میں ان کے چمنستانِ ملفوظات سے تعلیماتِ غریب نواز کی عطر کشید
کرکے مشامِ فکر و عمل کو معطر و معنبر کرنے ایک کوشش کی جاتی ہے۔
شریعت و طریقت:آج کے دورمیں جاہل پیروں اور خام صوفیہ نے دین میں جو فتنہ پھیلا
رکھا ہے اس سے ہر ذی علم واقف ہے۔ اپنی ڈوبتی کشتی کو بچانے کے لیے جب کوئی تدبیر
کام نہیں آتی تو یہ کہہ کر اپنی طبیعت کی چلادیتے ہیں کہ ’’اس کام کی اگرچہ شریعت
میں اجازت نہیں مگر طریقت میں جائز ہے۔‘‘ اس قسم کی باتوں سے یہ تاثر دینے کی کوشش
کی جاتی ہے کہ شریعت و طریقت دو الگ الگ راہیں ہیں۔مگر اہلِ معرفت کے قافلہ سالار
حضور غریب نواز کے مطابق احکامِ شریعت کی بجاآوری کے بغیر منزلِ طریقت و معرفت تک
رسائی ممکن نہیں۔چناں چہ فرماتے ہیں:
’’راہِ شریعت پر چلنے والوں کا شروع یہ ہے کہ جب لوگ شریعت میں ثابت قدم ہوجاتے ہیں
اور شریعت کے تمام فرمان بجالاتے ہیں اور ان کے بجالانے میں ذرہ بھر تجاوز نہیں
کرتے تو اکثر وہ دوسرے مرتبے پر پہنچتے ہیں جسے طریقت کہتے ہیں۔اس کے بعد جب بمعہ
شرائط طریقت میں ثابت ہوتے ہیں اورتمام احکامِ شریعت کے کم و کاست بجالاتے ہیں تو
معرفت کے درجے کو پہنچ جاتے ہیں۔‘‘ (ملفوظاتِ غریب نواز یعنی ’’دلیل
العارفین‘‘،مرتب:خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اوشی علیہ الرحمہ،مشمولہ ہشت
بہشت،ص۵۶،مطبوعہ دہلی)
نماز کی اہمیت اور تاکید: نماز افضل العبادات اور افتخارِ عبدیت ہے۔اولیا و صلحاے
امت نے ہمیشہ نماز کی پابندی کی اور اپنے معتقدین کو اس کی تاکید بھی کی۔حضورغریب
نواز بڑے دل نشیں اور مشفقانہ انداز میں فرماتے ہیں:
’’اے درویش! نماز دین کا رکن ہے۔اور رکن ستون ہوتا ہے۔ پس جب ستون قائم ہوگا تو گھر
بھی قائم ہوگا۔ جب ستون نکل جائے گا تو چھت فوراً گِر پڑے گی۔ چوں کہ اسلام اور دین
کے لیے نماز بمنزلہ ستون ہے۔ جب نماز کے اندر فرض،سنت، رکوع اور سجود میں خلل آئے
گا تو حقیقت اسلام اور دین وغیرہ خراب ہوجائیں گے۔‘‘ (ایضاً ص۵۸)
اسی طرح درج ذیل ملفوظ سے وہ حضرات سبق حاصل کریں جو بلا عذرِ شرعی نماز کی ادائیگی
میں کوتاہی کرتے ہیں ۔حضور غریب نوازنماز کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے والوں پر
اظہارافسوس کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’وہ کیسے مسلمان ہیں جو نماز وقت پر ادا نہیں کرتے اور اس قدر دیر کرتے ہیں کہ وقت
گزر جاتا ہے۔ ان کی مسلمانی پر بیس ہزار افسوس! جو اﷲ تعالیٰ کی بندگی میں کوتاہی
کرتے ہیں۔‘‘ (ایضاً ص۵۹)
جھوٹ پر وعید: جھوٹ برائیوں اور تباہیوں کی جڑ ہے احادیث میں اسے بری خصلت سے یاد
کیا گیا ہے اور اس پر سخت وعیدیں بھی وارد ہوئیں۔تعلیماتِ صوفیہ بھی قرآن واحادیث
سے ماخوذ ہیں اس لیے ان کے یہاں بھی جھوٹ جیسی بُری خصلت سے بچنے کی تاکید ملتی ہے۔
حضور غریب نواز فرماتے ہیں:
’’جس نے جھوٹی قسم کھائی گویا اس نے اپنے خاندان کو ویران کیا۔اس گھر سے برکت
اُٹھائی جاتی ہے۔‘‘(ایضاً ص۶۱)
علما و مشایخ سے محبت: دورِ حاضر میں جو طبقہ سب سے زیادہ علما سے بدگمان ہے وہ
جعلی، جاہل پیروں اور خام صوفیہ کے دامِ فریب کا شکار ہے۔توہینِ علما و مشایخ کے
مرتکب حضرات حضور غریب نواز کا یہ ارشاد بار بار دل کی آنکھوں سے پڑھیں:
’’اگر کوئی شخص علما کی طرف(عقیدت سے) دیکھے تو اﷲ تعالیٰ ایک فرشتہ پیدا کرتا ہے
جو قیامت تک اس کے لیے بخشش مانگتا رہتا ہے…… جس دل میں علما و مشایخ کی محبت ہو ،
ہزار سال کی عبادت اس کے نامۂ اعمال میں لکھی جاتی ہے اگر وہ اسی اثنا میں مر جائے
تو اسے علما کا درجہ ملتا ہے اور اسی مقام کا نام علیین ہوتا ہے۔‘‘(ایضاًص۷۱)
تکبر و خود پسندی کی مذمت: راہِ سلوک کے راہی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ریا و تکبر ،
خود پسندی و خود نمائی سے بچے؛ دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھنے کی بجائے ان کی
خوبیوں پر نظر کرے تاکہ حسد و کینہ کے جراثیم اس کے اعمال کو کھوکھلا نہ کردے۔آج
مسلم معاشرے میں یہ وبا عام سے عام تر ہوچکی ہے حتیٰ کہ اہلِ علم خواص بھی(الا
ماشاء اﷲ!) اس سے محفوظ نہیں۔حضور غریب نواز فرماتے ہیں:
’’اہلِ سلوک کے مذہب میں کسی پر تعجب کرنا بھی گناہ ہے۔ پھر فرمایا کہ گناہ سے بھی
بدتر،کیوں کہ گناہ سے ایک مرتبہ توبہ کی جاتی ہے اور طاعت سے ہزار مرتبہ۔ یعنی خود
پسندی (تکبر) سخت گناہ ہے۔‘‘ (ایضاً ص ۸۹)
مسلمان کو ایذا دینا: صوفیۂ کرام اخلاق و مروت کے پیکر ہوتے ہیں۔ وہ سایہ دار شجرِ
مثمرہ کے اوصاف کے حامل ہوتے ہیں جو پتھر بھی کھاتے ہیں مگر پھل دیتے ہیں،ٹھنڈی
ٹھنڈی چھاؤں سے آرام بھی دیتے ہیں۔ ولایت اور قربِ خدا وندی کی اعلیٰ منازل پر فائز
ہونے کے باوجود پھل دار ٹہنی کی طرح خلوص و انکساری سے جھکے ہوتے ہیں۔اپنے کردار و
عمل اور اقوال کے ذریعے وہ ان اعلیٰ اوصاف کی تبلیغ بھی کرتے ہیں۔آج مسلم معاشرے
میں چین و سکون ، اتحاد و اتفاق اور صلح و مروت کے معاملات کی اشد ضرورت ہے تاکہ
حقوق العباد کی تلفی کا سلسلہ بند ہو اور مسلم معاشرہ پھر سے مثالی صالح معاشرہ بن
جائے، حضور غریب نواز فرماتے ہیں:
’’ مسلمان بھائی کو ستانا کبیرہ گناہ ہے۔اس میں خدا اور رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وسلم دونوں ناراض ہوتے ہیں۔‘‘ (ایضاً ص۶۶)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
’’گناہ تمہیں اتنا نقصان نہیں پہنچاسکتا جتنا مسلمان بھائی کو خوار کرنا اور اس کی
بے عزتی کرنا۔‘‘(ص۹۲)
جعلی پیروں کے لیے تازیانۂ عبرت: درج ذیل اقتباس وہ افراد بغور پڑھیں جو اپنی
پارسائی اور ولایت و کرامت کے فرضی و خود ساختہ واقعات کی تشہیراپنے مریدوں اور
عقیدت مندوں کے ذریعے کرواتے ہیں تاکہ ان کا حلقۂ مریدی بڑھے، جیب گرم ہو اور عیش و
عشرت حاصل ہو۔مادی منفعت کی لالچ میں کی جانے والی اس مذموم حرکت کا قلع قمع حضور
غریب نواز کے اس ارشاد گرامی سے ہو جاتاہے:
’’ ندیوں میں بہتا ہوا پانی شور کرتا ہے لیکن جب سمندر میں جا گرتا ہے تو پھر آواز
بند ہوجاتی ہے۔ اسی طرح جب عاشق کو معشوق کا وصال ہوجاتا ہے تو عاشق واویلا نہیں
کرتا۔‘‘(ایضاً ص۹۳)
اللّٰہ و رسول کے لیے دوستی اور دشمنی: تعلیماتِ صوفیہ کا نچھوڑ اور مرکز و محور
یہی ہے کہ جو کرے اﷲ کی رضا اور مصطفی جانِ رحمت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خوش
نودی کے لیے کرے۔ انسان جب شریعت و طبیعت کی کشمکش میں مبتلا ہوتو شریعت کو مقدم
رکھے۔دنیاوی تعلقات ومراسم و محبت کو اﷲ و رسول (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)
کے لیے قائم کرے۔اﷲ و رسول ہی کے لیے دوستی کرے اور انہیں کے لیے دشمنی بھی۔حضور
غریب نواز فرماتے ہیں:
’’محبت(حقیقی) میں صادق وہ ہے کہ والد اور خویش و اقربا سے قطع تعلق کرکے خدا و
رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے تعلق پیدا کرے۔پس محب وہ شخص ہے کہ کلامِ الٰہی کے
حکم پر چلے اور دوستیِ حق میں صادق ہو۔‘‘(ایضاً ص ۱۰۱)
حضور غریب نواز کے مذکورہ قول کی مزید تشریح امامِ اہلِ سنت امام احمد رضاقادری
محدث بریلوی کے اس اقتباس سے ہوتی ہے:
’’ایمان کے حقیقی و واقعی ہونے کو دوباتیں ضرور ہیں،محمدرسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وسلم کی تعظیم اور محمدرسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت کو تمام جہان پر
تقدیم۔تو اس کی آزمائش کا یہ صریح طریقہ ہے کہ تم کو جن لوگوں سے کیسی ہی
تعظیم،کتنی ہی عقیدت،کتنی ہی دوستی، کیسی ہی محبت کا علاقہ(تعلق)ہو،جیسے تمہارے ماں
باپ،تمہارے استاد،تمہارے پیر،تمہاری اولاد،تمہارے بھائی،تمہارے احباب،تمہارے
بڑے،تمہارے اصحاب،تمہارے مولوی،تمہارے مفتی،تمہارے واعظ وغیرہ کسے باشد،جب وہ
محمدرسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کریں اصلاً تمہارے قلب
میں ان کی عظمت ،ان کی محبت کا نام و نشا ن نہ رہے،فوراً ان سے الگ ہوجاؤ،ان کو
دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دو،ان کی صورت،ان کے نام سے نفرت کھاؤ،پھر نہ تم
اپنے رشتے،علاقے(تعلق)،دوستی،الفت کا پاس کرو،نہ اس کی مولویت،مشیخت،بزرگی،فضیلت کو
خطرے میں لاؤ کہ آخر جو کچھ تھا محمدرسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہی کی غلامی
کی بنا پر تھاجب یہ شخص ان ہی کی شان میں گستاخ ہوا پھر ہمیں اس سے کیا علاقہ
رہا؟‘‘ (تمہید ایمان،از امام احمد رضاؔ محدث بریلوی،ص۴،۵)
دورِ حاضر میں اگر تعلیماتِ صوفیہ کو مشعلِ راہ بنایا جائے تو یقینا مصائب کے بادل
چھٹ سکتے ہیں۔ قومِ مسلم کی عظمتِ رفتہ بحال ہوسکتی ہے۔ بلا شبہ عرس و نیاز و فاتحہ
اور جشنِ ولادت وغیرہ شرعی حدود میں جائز و مستحب ہیں اور یہ سب بزرگانِ دین سے
اظہارِ عقیدت و محبت کے مروجہ مقبول و مشہور اعمال ہیں۔مگر آج ضرورت ہے کہ ان کی
کرامات کے ذکر کے ساتھ ساتھ ان کی استقامت ، تعلیمات و ارشادات کو عوام کے سامنے
لایا جائے تاکہ گم راہی و بد عملی کا خاتمہ ہو اور دنیا ان کے حالات و افکار سے
روشنی اور درسِ عمل حاصل کرے۔ |