یوپی پولیس کی تحویل میں ۱۸ مئی کو خالد مجاہد کی پراسرار موت؛ اس سے چار
روز قبل ۱۴ مئی کو کشمیری تاجر مشتاق احمدکالو اوراقبال جان کی سات سال
بعدتہاڑ جیل سے رہائی ؛ ۱۷ مئی کو سید لیاقت علی شاہ کی ضمانت
پررہائی؛۱۵مئی کوسہراب الدین اور پرجا پتی مرڈر کیس میں راجستھان بھاجپا
لیڈر گلاب چند کٹاریہ کا نامزد کیا جانا؛ ۲۹ مئی کو آر ایس ایس سے وابستہ
ایک فیچرسروس ’وشو سنواد کیندر‘ بھوپال سے ملزم کٹاریہ کی حمایت میں مضمون
کی اشاعت ،جس میں کہا گیا ہے کہ سہراب الدین دہشت گرد تھا، اس کو مودی کی
پولیس نے نہ مارا ہوتا، تو کوئی عام آدمی، سادھو یا مہاتما کے بھیس میں
ہلاک کر دیتا۔ ۱۶مئی کو کٹاریہ کی نامزدگی پر بھاجپا صدر راج ناتھ سنگھ کا
کچھ اسی انداز میں سی بی آئی پربپھرناجس طرح وہ مالیگاؤں بلاسٹ کیس میں
پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی گرفتاری پرآنجہانی ہیمنت کرکرے پر بپھرے تھے؛اور۲۱مئی
کو فیض آباد میں طارق اور خالد کے وکیل پر قاتلانہ حملہ؛ بظاہریہ سب الگ
الگ واقعات ہیں، مگر ان سب میں ایک ہی فکر و ذہن کارفرما ہے، جس میں یہ
فتور سمایا ہواہے کہ ملک پر صرف اکثریتی فرقہ کا حق ہے، باقی سب کے انسانی
حقوق کی پامالی ان پر جائز ہے۔
خالد مجاہد ، لیاقت علی شاہ، مشتاق احمدکالو، اقبال جان اور سہراب الدین کے
کیسوں میں یکسانیت یہ ہے کہ ان سب پر دہشت گردی کا الزام لگایا گیا۔لیکن
درجنوں دیگر کیسوں کی طرح ان میں بھی الزام ثابت نہیں کئے جاسکے۔ ان کسوں
میں فرق یہ ہے کہ لیاقت، اقبال جان اور مشتاق کالوخوش قسمت رہے کہ قیدخانوں
سے زندہ باہر آگئے، جبکہ خالد مجاہد کو ان کی پراسرار موت نے رہا کرادیا۔
انااﷲ وانا الیہ راجعون۔اور سہراب الدین کو جیل میں ڈالنے کی فارملٹی کی
بھی ضروت نہیں سمجھی گئی ۔ہم نوجوان خالد مجاہد کی وفات پران کے لواحقین سے
تعزیت کرتے ہیں اور ان کے اس انجام کے لئے ذمہ داروں پر ملامت بھیجتے
ہیں۔یہ حال ہی میں چوتھے یا پانچویں زیر سماعت قیدی کی موت ہے ، جس کے بعد
سارے معاملے پر پردہ پڑجاتا ہے اور شاید یہی اس نوایجاد حربہ کا مقصد بھی
ہے۔ بہرحال مذکورہ بالا میں سے ہرواقعہ پوری تفصیل کا طالب ہے مگر یہاں
اختصار کے ساتھ چند کے خاص خاص پہلو ؤں کاذکرکریں گے۔
مشتاق کالو اور اقبال جان
سب سے پہلے ذکر مشتاق احمدکالواور اقبال جان کا، جن کی سات سال کے بعد جیل
سے رہائی کی خبر میڈیا میں دب گئی۔خبر کیا ہے دو نوجوانوں پر ظلم و زیادتی
کی داستان ہے جن کا قصور اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ کشمیر ی ہیں ۔اس آزمائش
میں گرفتاری کے وقت مشتاق کی عمر ۳۵ سال تھی۔ڈیڑھ سال قبل شادی ہوئی تھی
اور پانچ ماہ کا بچہ اس کی بیوی کی گود میں تھا۔ وہ اپنے بچپن کے دوست اور
پنتھر پارٹی کے ورکر اقبال جان کے ساتھ کچھ خریداری کرنے دہلی آیا تھا۔
اسپیشل سیل کی گشتی ٹیم نے ان دونوں کو ۲۷؍ نومبر ۲۰۰۶ء کوپرانی دہلی
اسٹیشن سے متصل کوڑیا پل علاقے سے پکڑلیا ۔ چندروز بعد خبرآئی کہ اسپیشل
سیل نے ایک بڑے دہشت گرد حملے کو ناکام کردیا ہے۔ پولیس نے ان کے قبضے سے
دوکلو آرڈی ایکس اور پانچ لاکھ روپیہ نقد(جو وہ سامان تجارت خریدنے کے لئے
لائے تھے) برآمد دکھایا۔دعوا کیا گیاکہ یہ گرفتاری اس خفیہ اطلاع پر کی گئی
کہ فیصل نام کا ایک دہشت گرد دھماکے کرنے دہلی آرہا ہے۔ کیونکہ پولیس نے
ملزمان کے خلاف سنگین دفعات لگائی تھیں اس لئے مجسٹریٹ نے مقدمہ سیشن
سپردکردیا۔ ملزمان نے اپنی شناخت کے جو دستاویزی ثبوت پیش کئے اور دہلی آنے
کی وجہ بیان کی اس کی تصدیق کی ضرورت نہ پولیس نے سمجھی اورنہ لائق مجسٹریٹ
نے ۔سیشن کورٹ نے استغاثہ کی کہانی کو قبول کرلیا اور سنہ ۲۰۰۹ء میں دونوں
کو عمر قید کی سزا سنادی۔ اقبال جان کو صحت کی خرابی کی وجہ سے کشمیر منتقل
کردیا گیا جب کہ مشتاق تہاڑ جیل میں ہی رہا۔اس دوران اس کی جوتے دوکان تباہ
ہوگئی جس کے لئے خریداری کرنے وہ دہلی آیا تھا۔ اس کی نوعمر بیوی مصائب میں
گرفتار ہوگئی اورقرض کے بوجھ میں دب گئی۔لیکن ان کی خوش قسمتی ہی کہئے کہ ۶
مئی کو جسٹس ایس آر بٹ اور جسٹس ایس پی گرگ پر مشتمل دہلی ہائی کورٹ کی
دورکنی بنچ نے استغاثے کی کہانی کو ناقابل یقین اورفرضی قراردیتے ہوئے ذیلی
عدالت کے فیصلے کو الٹ دیا اور دونوں ملزمان کو باعزت بری کردیا۔
ہائی کورٹ نے پولیس کی تفتیشی رپورٹ کو استدلال کے خلاف ، غیر منطقی اور
پیشہ ورانہ صفائی کے منافی قراردیا اور اس میں بہت سارے داخلی تضادات کی
نشاندہی کی۔ تفتیش کی خامیوں پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ استغاثہ شک و شبہ
سے بالاتر ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا۔ اس بات بھی گرفت کی کہ ملزمان نے
اپنی شناخت کے جو دستاویزی ثبوت پیش کئے تھے نہ ان کی تصدیق کہ اور نہ یہ
واضح کیا کہ اگر یہ خفیہ اطلاع تھی کہ کوئی دہشت گرد فیصل آرہا ہے تو مشتاق
کالو فیصل کیسے باور کرلیا گیا؟ پولیس کے بیان کے مطابق ملزمان نے آرڈی
ایکس دیوبند سے حاصل کیا تھااوردہلی میں ڈلیور کرنا تھا۔ عدالت نے حیرت کا
اظہار کیا ہے کہ اگر پولیس کے یہ بیان سچے ہیں تو پھر اس نے دیوبند میں اس
کے ذریعہ کی جانچ کیوں نہیں کی اور یہ کیوں نہیں متعین کیا کہ دہلی میں وہ
کس کو ڈلیور کیا جانا تھا؟ پبلک کے جو افراد بطور گواہ پیش کئے گئے وہ بھی
مشکوک ہیں۔ ان کے پتے گول مول طریقے سے درج ہیں جن پر پہنچا ہی نہیں
جاسکتا۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ انسپکٹر موہن چند شرما کا کوئی بیان کیس
ریکارڈ میں شامل نہیں حالانکہ وہ اس آپریشن کے سربراہ تھے۔یہ وہی انسپکٹر
شرما ہیں جن کی قیادت میں بدنام زمانہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر ہوا تھا اورجس
میں گولی لگنے سے ان کی موت ہوگئی تھی۔ان حقائق سے ہائی کورٹ اس نتیجے پر
پہنچی کہ پورا کیس فرضی ہے اور ملزمان کو بے قصور ہیں۔
اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ ٹرائل کورٹ نے ان نکات پر گرفت نہیں کی جن
پر ہائی کورٹ میں ہوئی۔ایسا ہرگز نہیں کہ نچلی عدالتوں کے جج صاحبان لائق
نہیں ہوتے۔ لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ عدل اور انصاف کے تقاضوں پر کچھ دوسری
چیزیں حاوی ہوگئی ہیں۔عموماً کچہریوں میں وکلاء نے اورپورے ملک میں میڈیانے
ایسا ماحول بنادیا ہے کہ پولیس جس کسی کو دہشت گردی کے الزام میں پکڑلاتی
ہے، اس کو ملزم نہیں بلکہ پہلے ہی دن سے مجرم گردانا جانے لگتا ہے اور قوم
پرستی کے نام پرفاسد جذبات اورتعصبات کو اتنا ابھارا جاتا ہے کہ عدالت
عالیہ بھی یہ کہہ گزرتی ہے کہ عوامی جذبات کی تسکین کے لئے سزا دینا ضروری
ہے۔لیکن بہر حال ایسے جج بھی ہیں جو فیصلہ صادر کرتے ہوئے وکیل برادری،
پولیس یا میڈیا کی جھپکیوں میں نہیں آتے اور بڑی عرق ریزی سے دودھ کا دودھ
اور پانی کا پانی کردیتے ہیں ۔مثلاً نرودہ پاٹیا کیس میں محترمہ جسٹس
جیوتسنا یاگنک کا فیصلہ ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے جس میں مایابین کوڈنانی
اور بجرنگی وغیرہ کو سخت سزا ئیں سنائی گئی ہیں۔ہائی کورٹ کے نامور ایڈوکیٹ
محمود پراچہ کا یہ کہنابجا ہے کہ عموماً ٹرائل کورٹ میں پیروی میں کوتاہی
کی وجہ سے بھی سزائیں ہوجاتی ہیں۔
سید لیاقت علی شاہ
حزب المجاہدین کے تائب عسکریت پسند سید لیاقت علی شاہ کا معاملہ بالکل تازہ
ہے۔ اس کی تفصیلات قارئین کے ذہنوں میں ہونگیں۔ ۴۵ سالہ شاہ تقریباً بیس
سال قبل عسکریت پسندی کی لہر میں پاکستانی مقبوضہ کشمیر چلا گیا تھا۔ لیکن
اب وہ سرکار کی بازآبادکاری کی پالیسی کے تحت جموں و کشمیر پولیس کی پیشگی
اجازت پر اپنے آبائی وطن سوپور،کشمیر واپسی کے لئے اپنی بیوی اخترالنساء
اور گونگی بہری سوتیلی بیٹی زیبا کے ساتھ پاکستانی پاسپورٹ پر نیپال پہنچا
تھا۔ ۲۰مارچ کو جب وہ سنولی کی سرحدی چوکی عبور کرکے ہندستان میں داخل
ہورہا تھا، روک لیا گیا اور وہاں سے دہلی پولیس کے اسپیشل سیل نے اس کو
اپنی تحویل میں لے لیا۔غنیمت یہ ہے اس کی بیوی اور بیٹی کو نہیں روکا گیا۔
چند روز بعد اسپیشل سیل نے یہ دعوا کیا کہ شاہ دراصل ہولی کے موقع پر کئی
فدائی حملوں کی سازش کوعملی جامہ پہنانے دہلی آرہا تھا۔ اسی دوران پولیس نے
پرانی دہلی کے ایک گیسٹ ہاؤس سے کچھ اسلحہ اور گولا بارود برآمدکیا اور یہ
دعواکیا کہ یہ برآمدگی شاہ سے پوچھ تاچھ کی بنیاد پر ہوئی ۔لیکن معاملہ اس
وقت الجھ گیا جب جموں و کشمیر پولیس نے شاہ کے بیان کی تصدیق کی اور ریاست
کے وزیر اعلا عمر عبداﷲ نے دہلی پولیس کے اس الزام کے خلاف پوری شدت سے
آواز بلند کی۔شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وادی کا ماحول جو پہلے ہی افضل گورو
کی پھانسی کے بعد سے پراگندہ تھا، اس نئے چرکہ کا متحمل نہیں تھا۔ مجبوراً
۲۶ مارچ کو مرکز نے معاملہ این آئی اے کے سپرد کردیا جو تقریباً ڈیڑھ ماہ
کی تفتیش کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی کہ نہ تو اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ شاہ
فدائین حملوں کی سازش کے تحت ہندآرہا تھا اور نہ گیسٹ ہاؤس نے مبینہ طور پر
دستیاب گولہ بارود کا تعلق شاہ سے جوڑا جاسکتا ہے۔یہ معاملہ بعجلت این آئی
اے کے سپرد کیا جانا یقینا ایک مستحسن اقدام ثابت ہوا، ہرچند کہ اس سے یہ
تاثر ملتا ہے مرکزی حکومت اب اس طرح کے معاملات میں پہلے کے مقابلے حساس ہے
مگر اس کی بے حسی اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں مصلحت کوش تساہلی
ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔بہرحال ۱۷ مئی کو عدالت نے شاہ کو ضمانت پر رہا
کردیا ۔مگر رہائی کے بعد وطن واپس پہنچ کر شاہ نے یہ سنسی خیز دعوا کیا ہے
کہ پولیس اس کو فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک کرنے کے ارادے سے شہر سے باہرلے گئی
تھی لیکن عین اس وقت جب گوئی چلائی جانے والی تھی کہیں سے میڈیا کی کوئی
گاڑی آتی ہوئی نظرآ گئی اورپولیس اس کو عجلت میں سیٹ کے نیچے دھکیل کرگاڑی
لے کر فرار ہوگئی۔یہ ایک سنگین الزام ہے جس کی جانچ ہونی چاہئے۔ البتہ اگر
کسی طرح لیاقت کی موت ہوجاتی تو پھر پولیس اس بدنامی سے بچ جاتی کہ ایک بے
قصور کو جھوٹا پھنسایا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دہلی پولیس عدالت میں اپنے دعوے
کو ثابت کرپاتی ہے یا نہیں؟
خالد مجاہد کی موت
اب خالد مجاہد کی موت کا تازہ واقعہ سامنے آیا ہے جو انتہائی سنگین ہے۔گمان
غالب یہ ہے یہ فطری موت نہیں۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کچھ ایسے اشارے ملے ہیں
موت زہرخورانی سے ہوئی ۔ بہرحال یہ ایک زیر سماعت قیدی کی موت نہیں بلکہ
آئینی جمہوریت میں انصاف کی موت ہے، اس بھروسہ اورامید وں کی موت ہے جویوپی
کے مسلم باشندوں نے ملائم سنگھ یادوسے باندھ لی تھیں۔ لیکن اس بدگمانی کی
گنجائش نہیں کہ خالد مجاہد کو سرکاری سازش کے تحت شہید کیا گیا۔ البتہ اس
گمان کی گنجائش ہے کہ ورن گاندھی کو سزا سے بچانے میں سماجوادی کا ہاتھ ہے۔
ورن گاندھی کو ۴ مئی کو یوپی کی ایک عدالت نے اس کیس کوخارج کردیا جو ایک
مسلم اقلیت کے خلاف ایک زہرآلود تقریر کے سلسلے میں ان کے خلاف چل رہا تھا۔
اس خبر کے ساتھ جب یہ خبر آئی کہ سماجوادی سرکار کے اشارے پر حکام نے
شہادتوں کو روک لیا تو بات فوری طور سے سمجھ میں آگئی۔ اس پس پردہ رول کی
ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ یو پی اے سے ڈی ایم کے نکل جانے کے بعد سے
ملائم سنگھ کو بھاجپا لیڈروں میں خوبیاں نظرآنے لگی ہیں۔ اسی لئے مسلم
حلقوں کو یہ بات بہت شاق گزری ۔لیکن اس مہربانی کی ایک دوسری وجہ بھی
ہوسکتی ہے جو زیادہ قرین مصلحت ہے۔غور کیجئے اگر مسلمانوں کے خلاف نفرت
پھیلانے کے معاملہ میں ورن گاندھی کو سزا ہوجاتی تو کیا وہ ہندتووا کے ہیرو
نہ بن جاتے اور یوپی بھاجپا میں جان نہ پڑ جاتی؟دراصل سرکار نے ان کو اسی
لئے سزا نہیں ہونے دی۔ جب ریاست کے ایک سینئر مسلم وزیر نے اس معاملہ کی سی
بی آئی جانچ سے انکار کیا تو گویا یہ تصدیق ہوگئی کہ سماجوادی پارٹی کا اس
میں رول ہے۔ لیکن خالد مجاہد کی ناگہانی موت کے معاملہ میں بد گمانی سیاسی
سادہ لوحی ہے۔ بیشک ہمیں ہرگز یہ خوش فہمی نہیں کہ ملائم سنگھ یادو مسلم
اقلیت کے خلاف ناانصافیوں کو ختم کرانے کے لئے اپنے وعدوں کے ایفاء کا
ارادہ رکھتے ہیں، لیکن وہ سیاست کے ایک شاطر کھلاڑی ہیں اوران سے ایسی
حماقت سرزد نہیں ہوسکتی جس سے مسلم ووٹ، جو انکی وعدہ خلافیوں کی وجہ سے
پہلے ہی بیزار ہوچکا ہے، ان کی پارٹی سے مزید دور ہوجائے۔البتہ یہ سچ ہے کہ
نہ سرکار کی نیت صاف ہے اور نہ انتظامیہ پراس کی گرفت مضبوط ہے۔ نیت درست
ہوتی اورا نتظامیہ پر گرفت مضبوط ہوتی تو اب تک بہت سے مظلوم جیلوں سے رہا
ہوچکے ہوتے اورخالد مجاہد اور طارق قاسمی کے خلاف مقدمہ واپس لینے کی
درخواست بارہ بنکی عدالت سے خارج نہ ہوتی۔
یہ درخواست تعزیرات ہند کی دفعہ ۳۲۱ کے تحت داخل کی گئی۔ اس کے ساتھ نہ تو
حسب ضابطہ ضلع مجسٹریٹ کا حلف نامہ داخل کیا گیا اور نہ یہ صراحت کی گئی کہ
مقدمہ واپس لینا کیوں ضروری ہوا۔چار لائن کی درخواست میں یہ لکھ دینا کافی
نہیں کہ مقدمہ مفادعامہ میں واپس لینے کی اجازت دی جائے۔ اس کے بجائے اگر
درخواست دفعہ (۸)۱۷۳ کے تحت داخل کی جاتی اور ساتھ میں نمیش کمیشن رپورٹ اس
صراحت کے ساتھ داخل ہوتی کہ پولیس کی کاروائی مشکوک ہے، تو درخواست یوں بھک
سے نہ اڑ جاتی اور اس پر عدالت کو غورو خوض کرنا لازم ہوتا۔ مگر ایسا اس
لئے نہیں کیا گیا کہ اس صورت میں ملزم توچھوٹ جاتے مگر پولیس افسران جھوٹا
مقدمہ قائم کرنے کی پاداش میں پکڑے جاتے۔اگرچہ غالب امکان اب بھی یہی ہے کہ
عدالت میں الزام ثابت نہیں ہوسکے گا مگر اس صورت میں ہمارا موجودہ عدالتی
نظام خطاکار افسران کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرتا، حتٰی کہ یہ بھی نہیں
پوچھتا کہ جو آرڈی ایکس اور اسلحہ ملزمان کی تحویل سے برامد دکھایا گیا ہے
وہ کہاں سے آیا تھا؟
ان کیسوں میں کئی باتیں مشترکہ ہیں۔مثلاً ان سب میں انسانی حقوق کی دانستہ
پامالی کا پہلو عیاں ہے اور اس پر انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو متوجہ
کیا جانا چاہئے۔ دوسرے یہ سارے کیس جھوٹے بنائے گئے۔یہ نکتہ غور طلب ہے کہ
پولیس افسران ملک بھر میں دہشت گردی کے الزام میں ایک مخصوص فرقے کے لوگوں
کو بلاجواز و سند کیوں پھنساتے ہیں اور ان کو یہ ڈر کیوں نہیں ہوتا کہ گرفت
بھی ہوسکتی ہے؟ یہ خیال غلط ہے قصور پولیس کا ہے اور یہ ڈھٹائی انسپکٹر
درجہ کے چھوٹے پولیس افسران اپنے طور پر کرگزرتے ہوں۔ یہ سب کچھ ایک سوچی
سمجھی پالیسی کے تحت ہوتا ہے جس کو اعلا ترین سطح پر تحفظ حاصل ہے۔مگر اب
یہ سازش اس حد تک بے نقاب ہو چکی ہے کہ لگتا ہے سیاسی قیادت میں بے حسی میں
کچھ کمی آ رہی ہے، جیسا کی شاہ کے کیس میں دیکھا گیا۔وزیراعلا نے بھی صدا
بلند کی اورمرکزی وزیر داخلہ نے بھی آواز سنی۔ اب یہ بھی اعلان ہوا ہے ملک
بھر سے ایسے کیسوں کی تفصیل منگائی جارہی ہے اور فاسٹ ٹریک عدالتیں قائم
کرنے کی سفارش ریاستی سرکاروں سے کی گئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس پر عمل کس
رفتار سے ہوتا ہے۔ لیکن بہر حال ابھی بھی سرکار ان معاملوں میں پوری طرح
حساس نہیں ہوئی ہے؟ یہ آخر کس کا دباؤ ہے؟
جہاں تک خودہماری قوم کا تعلق ہے تو اس میں استحکام اورسیاسی شعور کی پختگی
کی ضرورت ہے۔ ہمارا ہرردعمل عاجلانہ اورعموماً سطحی و جذباتی ہوتا ہے۔بات
کی تہہ تک پہنچے بغیر اخبار کی سرخی پڑھ کر ہر لیڈر نما شخص کو بیان دینے
کی جلدی ہوتی ہے اور یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ بیان میں سخت سے سخت الفاظ
کا استعمال کرے اور کسی طرح فوٹو کے ساتھ صفحہ اول پر چھپ جائے۔ اس طرح کے
بیانات میں ایک جملہ عام ہے:’’ یہ ہرگز برداشت نہیں ہوگا‘‘لیکن آج تک کوئی
ایسا لیڈرنظر نہیں آیا جو یہ کہہ کر بھول نہ گیا ہو اوربعد میں کچھ
کردکھایا ہو۔ایک سانحہ یہ ہے جب کسی لیڈر پر خود پرآ پڑتی ہے تو دس منٹ کے
لئے بھی روک لئے جانے پر بلبلا اٹھتا ہے اور اس کومسلمانوں کے ساتھ مظالم
کی یاد ستانے لگتی ہے مگر اپنے آرامدہ دفتر میں بیٹھ کر وہ یہ بھول جاتا ہے
کہ وہ خود جس نظام کا حصہ ہے اسی نظام کے تحت سینکڑوں بے قصور برسوں سے
جیلوں میں قید ہیں کچھ فکر ان کی بھی کرلے۔آخری بات یہ کہ ہمیں اپنی قوم کا
مظلوم تو نظرآجاتا ہے، حالانکہ مظلوم مظلوم ہے اور ہمارا دینی مقام یہ ہے
کہ ہرمظلوم کے لئے آواز بلند کریں۔
(ختم) |