ہندوستانی مسلمانوں نے اب تک کوئی سیاسی ایجنڈا طے نہیں کیا

ہندوستانی مسلمانوں نے اب تک کوئی سیاسی ایجنڈا طے نہیں کیا، ان کی سوچ حج کمیٹی اور اردو اکیڈمی تک محدود : ڈاکٹر حسن رضا

مسلمانوں کی بدنصیبی یہی ہے کہ انہوں نے اب تک اپنا کوئی سیاسی ایجنڈا طے نہیں کیا ہے جس میں تمام فرقوں اور تمام طبقوں کو ساتھ لیکر چلنے کی گنجائش ہو۔ ان خیالات کا اظہار کل یہاں ایک پروگرام میں رانچی یونیورسٹی کے سابق صدر شعبہ اردو اور اسلامی اسکالر ڈاکٹر حسن رضا نے کیا ۔انہوں نے کہا کہ جب تک ہم ایسا ایجنڈا یا لائحہ عمل طے نہیں کرتے جس میں غیر مسلموں کے لئے یکساں مواقع اور مساوی اہمیت کی بات ہو اس وقت تک ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کی شراکت صرف ایک انتخابی سیاست کی حیثیت رکھے گی۔ مسلمانوں کو الیکشنی سیاست سے آگے بڑھ کر مستقل طور پر سیاست میں قدم رکھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی ترجیحات صرف حج کمیٹی، اردو اکیڈمی یا اقلیتی کمیشن ہوتی ہیں اس سے مسلمانوں کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہونے والا ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کی سیاسی بے وقعتی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بحیثیت مسلم قوم ہم اپنا وزن پالیسی سازوں پر کتنا ڈال پاتے ہیں کیوں کہ جب تک پالیسی سازوں پر سیاسی وزن نہیں پڑے گا اس وقت تک آپ کے حق میں کوئی پالیسی وضع نہیں کی جاسکتی۔ اسی لئے مسلمانوں کے حق میں آج کوئی خاص پالیسی وضع نہیں کی گئی۔اس کے برعکس دو فیصد والے اپنی تمام باتیں منوالیتے ہیں کیوں کہ ان کا ایجندا طے ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک میں متوسط طبقہ سیاست میں اہم رول ادا کرتا ہے لیکن مسلمانوں کا متوسط طبقہ اس سے کوسوں دور ہے اور اس کی ترجیحات دوسری چیزیں ہیں اور مسلمان اس وقت تک سیاسی وقعت حاصل نہیں کرسکتے جب تک وہ اس میں بھرپور حصہ نہ لیں اور اس کے لئے زمینی سطح پر لیڈر کو تیار کرنا ہوگا۔

’’ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی اور اس کے اسباب‘‘ کے موضوع پر منعقد ہونے اس پروگرام میں جس کی صدارت شعبہ اسلامک اسٹڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ڈائرکٹر پروفیسر اختر الواسع نے کی تھی۔انہوں نے اپنی صدارتی خطاب میں کہا کہ ہندوستان میں سیاست کے ماڈل الگ الگ ہیں اور خصوصاً مسلمانوں کے لئے منفردہیں کیوں کہ ملاپورم کا ماڈل الگ ہے، حیدرآباد کا علاَحدہ ہے اور ان جگہوں پر مسلمان کامیاب بھی ہیں۔ انہوں نے سیاسی اشتراک پر زور ڈالتے ہوئے کہا کہ یہاں بہت سی سیاسی پارٹیاں سیاسی اشتراک کرکے اپنے طبقے کے حقوق کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ ساتھ ان کا ہمارے مسائل میں تھوڑا فرق ہے۔ ان کی لڑائی وقار کی لڑائی ہے جب کہ ہماری لڑائی حقوق تک محدود ہے۔ انہوں نے سیاسی بے وزنی کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ ورون گاندھی کو رہائی ملتی ہے لیکن خالد مجاہد کو قتل کردیا جاتا ہے۔ انہوں نے سیاست میں مقام پیدا کرنے کے لئے سیاسی اورتعلیمی بیداری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اپنے خلاف ووٹ دیتے ہیں۔ ہماری ترجیحات مسلک، ذات، فرقہ ہوتی ہیں اور انتخاب کے وقت یہ چیزیں ہم پر حاوی ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے ناکامی ہمارے مقدر ہوتی ہے۔

ہیومن چین کے صدر انجینئرمحمد اسلم علیگ نے افتتاحی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان آزادی کے بعد کوئی دوسرا سرسید پیدا نہیں کرسکے جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طرز کوئی دوسری یونیورسٹی قائم کرتے۔ آزادی کے بعد آج تک مسلمانوں کا سیاسی استحصال ہوا ہے کیوں کہ مسلمانوں میں سیاسی شعور کی حد درجہ کمی ہے ۔انہوں نے کہاکہ ہم نے اپنا استحصال کرنے کا سیاسی جماعت کو موقع فراہم کیا ہے اور اس بچنے کا واحد طریقہ سیاسی اور سماجی بیداری ہے۔ پیپلز فٹنس کلب کے اطہر کریم قدوائی نے پروگرام کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہم اپنا سیاسی وزن ہندوستان میں پید ا نہیں کرسکتے جب تک کوئی سیاسی پریشر گروپ پیدا نہ کرلیں ۔ یہ اچھی بات ہے کہ اب سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کو پوچھنا شروع کردیا ہے۔پروگرام کے دیگر شرکاء میں نائب امیر جماعت محمد جعفر صاحب، اقبال ملا، مجاہد ناز، ٹائمس آف انڈیا سے وابستہ مدثر عالم ، مسلم مرر کے سید ممتاز احمد ،عبدالقادر شمس ، عابد انوراور دیگر سماجی سرکردہ تعلیمی و سماجی شخصیات موجود تھیں۔ اس پروگرام کا اہتمام پیپلز فٹنس کلب نے کیا تھا۔
Abid Anwar
About the Author: Abid Anwar Read More Articles by Abid Anwar: 132 Articles with 87226 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.