یوں تو یہ بڑا زبردست محاورہ ہے کہ انسان کا ہاتھ ہمیشہ اُوپر ہونا
چاہئے۔یعنی انسان کوشش کرے کہ اُس کا ہاتھ لینے والا نہ بنے بلکہ دینے والا
ہاتھ ہو۔اب اگر کوئی انسان سلامت اور توانا ہونے کے باوجود بھی اُس کا ہاتھ
دینے والے کے بجائے لینے والا ہو تو اس کے کئی وجوہات ہوسکتے ہیں۔(۱)ممکن
ہے وہ ہڈ حرام قسم کا انسان ہو(۲)ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے کا عادی
ہو(۳)زمین یا ضمیر فروخت کرنے والا ہو(۴) یا کوئی مصیبت اُس پر آن پڑی ہو۔(۵)کسی
نے اُس کا حق غصب کیا ہو یا حاصل شدہ آمدنی سے عیاشی کرتا ہو۔اس طرح کے لوگ
ہمیشہ کسی کے دست نگر میں رہتے ہیں اور اُن کی کوئی عزت نہیں ہوتی ہے
بشرطیکہ وہ واقعی مجبور نہ ہوں،البتہ مجبوری بادشاہ کو بھی فقیر بنادیتی
ہے۔اب وہ دور بھی گزرگیا ہے کہ کوئی کسی کو مفت میںکچھ عنایت کرے جب تک
کوئی مطلب یا مفاد وابستہ نہ ہو۔اگر کوئی ٹھیکہ دار کسی مزدور کو کچھ دیتا
ہے تو وہ اُس کے عوض اُس انسان سے آٹھ گھنٹے مشقت لیتا ہے وہ فقط اپنی
دیاڑی یا ماہانہ اجرت کا حقدار ہوتا ہے۔جبکہ ٹھیکہ دار لاکھوں ،کروڑو روپے
ٹھیکے کی نوعیت کے حساب سے حاصل کرتا ہے اس حصے میں مزدور کا کوئی حق نہیں
ہوتا ہے۔اس طرح اگر کوئی کسی کارخانے میں کام کرتا ہے تو وہ بھی اجرت کا
حقدار ہوتا ہے نہ کہ کارخانے کا حصہ دار۔اگر کو ئی سرکاری ملازم ہو تو وہ
اپنی قابلیت کے اعتبار سے تنخواہ سرکار سے حاصل کرتا ہے اور ملازمت سے فارغ
ہونے کے بعد بھی اُنہیں سرکار پنشن سے نوازتی ہے لیکن وہ اُس ادارے کا مالک
یا حصہ دار نہیں ہوسکتا ہے۔اگر کوئی ہڈ حرام اور زیادہ خرچ کرنے والا ہو تو
وہ پریشان حال ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لئے بھی پریشانی کا باعث بن
سکتا ہے۔اگر کوئی زمین یا ضمیر فروش ہو تو اُس کے چاندی کے دن بہت مختصر
ہوتے ہیں،ضمیر فروشوں کو یہ نظر نہیں آتا ہے کہ دھرتی ماں کا سودا ہو یا
دھرتی ماں کے بیٹوں، بہو بیٹیوں کا سودا ہو وہ بلا جھجک سودا کر ہی
ڈالتاہے۔تاریخ بھری پڑی ہے ایسے ضمیر فروشوں کی وجہ سے نسلیں تباہ و برباد
ہوچکی ہیں۔چونکہ ضمیر فروشوں لوگوں کی یہ ریت رہی ہے کہ وہ خریدار کو خود
ڈھونڈ نکالتے ہیں کہ ہم ہیں نا بکنے والے اور سب کچھ بھیجنے والے۔ اس طرح
کے سودے بازی سے ملک، علاقہ اور قوم کا ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔اگر کسی
نے اُس کا حق غصب کیا ہوا ہے تو وہ اُسے اپنا حق لینے کے لئے یا اُس سے جان
چھڑانے کے لئے بھی ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے یہ انسان کی فطرت بھی
ہے بدلہ نکالنے کا ۔اگر کوئی انسان کسی کو خود اپنے سر پہ چھڑہائے کہ میں
خود اپنے سر کی حفاظت نہیں کرسکتا تم آکر میرے سر کی حفاظت کرلینا اور بعد
میں یہ کہے کہ اس نے میرا حق چھینا ہے یہ بھی تذبزب والی بات ہے۔اگر خدا
نخواست کوئی مصیبت آن پڑی ہو تو پراکندہ ہونے کی بجائے زیادہ محنت اور صبر
سے کام لینا چاہئے نہ کہ اپنی جوتی سر پہ رکھ کر تماشا بنا پھرے۔بات ہوری
تھی کہ اس دور میں کوئی کسی کو بلا وجہ نہیں نوازتا ہے یا نوازنے والے
حالات اور ضرورت کی بجا آوری کرنے والا یہ جانتا ہے کہ یہ انسان زمین اور
ضمیر فروش ہے یا وہ اس طرح لالچ د ے کر اپنے مفادات کے حصول کی راہ ہموار
کر لیتا ہے۔اب حال کی مثال لے لیں۔امریکن یہاں آکر ہم سے پوچھتے ہیں کہ
تمہیں کیا چاہئے ؟؟ اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ممبروں،وزراءسے بھی یہ
پوچھا کہ تمہیں کیا چاہئے اور ہمارے ممبران اور وزراءنے حاتم تائی بابا سے
مانگ بھی لیا کہ ہمیں آئینی صوبہ چاہئے۔اور بعض قوم پرستوں سے بھی تفصیلی
ملاقاتیں ہوئیں ۔اُنہوں نے کیا مانگا نہیں معلوم یا میں نابلد رہا ،لیکن
امریکنوں کا بیان مقامی آخبار میں چھپ چکا تھا کہ قوم پرستوں سے ملاقات
مفید رہی۔ ظاہر ہے امریکن امریکن ہے وہی بات بغیر مفاد کے کون کسی کا
پوچھتا ہے۔حیر ت اس بات کی ہے کہ ہمارے بعض ذمہ داران جو خود حکومت کا حصہ
ہیں نے بھی اُن قوم پرستوں کے خلاف بیان دیا کہ اب یہ امریکنوں سے مانگتے
ہیں۔ جب کہ خود بھی انہوں نے امریکنوں سے مانگا ہے اور امریکن حکومتی
سرپرستی یعنی سرکار نے خود یہاں بحفاظت پہنچایا ہے۔پھر حکومت کا یہ کہنا کہ
قوم پرستوں نے اب امریکہ سے مانگنا شروع کردیا چہ معنی دارد؟جب کہ ملک عزیز
میں مسلط ماضی حال کے حکمران ہڈ حرام ہیں من و سلویٰ کی تلاش میں لگے رہتے
ہیں،انتائی پر تعیش زندگی بس کرنے کے عادی بھی ہیں جبکہ زمین اور ضمیر
فروشی تو ان کے بڑے پن کا مظاہرہ ہے۔ہمارے ملک کے حکمرانوں کا یہی وطیرہ
رہا ہے کہ غریب عوام کے مسائل میں جتنا بھی اضافہ ہو ان حکمرانوں کو فقط
اپنی پر تعیش معاملات کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ماہرین نفسیات کا یہ کہنا ہے کہ
بگاڑ کی شروعات ابتدا سے ہوتی ہیں۔اور ہمارے معاشرے میںبیماری کا اُس وقت
پتہ چلتا ہے کہ وہ سر چڑھ کر بولے خواہ وہ جسمانی بیماری ہو، روحانی بیماری
ہو، معاشی بیماری ہو، سیاسی بیماری جس زاویئے کی بھی بیماری ہو جب وہ
ہنگامی صورت حال اختیار نہ کرے تب تک ہم مدحوشی کی دنیا میں مگن رہتے
ہیں۔یہان یہ بتاتا چلوں کہ پاکستان ہو یا گلگت بلتستان،زرعی،آبی ،قدرتی
وسائل کے ساتھ جغرافیائی حوالے سے ایک اہم ترین خطہ حاصل ہوا ہے۔خدا نے وہ
کچھ ہمیں عطا فرمایا ہے جن کی یہاں کے باسیوں کو ضرورت ہے بلکہ یہ کہنا بے
جا نہ ہوگا کہ ہماری ضرورت سے بھی کہیں زیادہ خدا نے ہمیں عطا فرمایا ہے۔بس
بات اتنی سی ہے کہ ان نعمات الٰہی سے ہم نے منصفانہ طور پر استفادہ حاصل
کرنا ہے۔اگر ہم نے اپنے مفادات کے حصول میں اوروں کی حق تلفی کریں گے تو
یاد رکھیں خدا بندے کو ضرور ڈھیل دیتا ہے مگر وقت آنے پر خدا اپنی رسی کو
اس طرح کھینچتا ہے کہ پل بھر سانس لینے کو بھی موقع میسر نہیں ہوگا۔ہمیں
خدا توفیق عطا فرمائے کہ ہم فقط اپنے حصے پر ہی اکتفا کریں۔ تاکہ اس دھرتی
میں بسنے والے سب انسان خوشحال زندگی بسر کرسکیں اور دیگر لوگوں کی غلامی
سے بھی نجات مل سکے۔(آمین) |