1970اور2013کے عام الیکشن کا موازنہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ان میں کئی
لحاظ سے یکسانیت ہے ۔پنجاب کی بالا دستی پر مشتمل مرکز اور صوبوں میں
حکمران اپوزیشن جماعتیں پاکستان کی وحدت پر اثر انداز ہوں گی۔1970کے الیکشن
جو پاکستان کی مشکل تاریخ کے شفاف ترین الیکشن تھے ا س الیکشن میں ووٹرز نے
بنیادی طور پر علیحدگی کے لئے ووٹ دیئے تھے جہاں عوامی لیگ مشرقی پاکستان
میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی لیکن مغربی پاکستان میں اسے کوئی نشست
نہیں ملی جبکہ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت بن کر سامنے
آئی تاہم مشرقی پاکستان میں وہ کوئی بھی نشست حاصل نہیں کرسکی تھی یہ
الیکشن کا نتیجہ پاکستان کی تقسیم اور بنگلہ دیش کی تخلیق کی صورت میں پیش
آیا۔الیکشن2013سے پہلے مختلف سیاسی جماعتوں نے قومی جماعت ہونے کے دعوے کیے
لیکن الیکشن کے بعد کے نتائج نے تمام سیاسی جماعتوں کے دعوے غلط ثابت کیے
اور کوئی بھی سیاسی جماعت آج قومی جماعت نہیں بن سکی۔ملک کے چاروں صوبوں
میں مختلف جماعتوں کو اکثریت ملی اور کوئی بھی جماعت قومی جماعت نہ بن
سکی۔جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم زبانوں اور علاقوں میں تقسیم
ہوچکی ہے جو کہ پاکستان کے لئے اچھا شگون نہیں ہے اور یہ کمزور پاکستان کو
ظاہر کرتا ہے اب تمام سیاسی جماعتوں کے لئے یہ ایک اچھا موقع ہے کہ وہ اپنے
صوبے کو ایک بہترین ماڈل بناکر عوام کے سامنے پیش کرسکیں کیونکہ عوام اب
زبانوں اور علاقائی بنیادوں پر ووٹ نہیں ڈالیں گے۔بلکہ اگلے الیکشن میں ووٹ
اسے ملے گا جو بہترین کارکردگی دکھائے گا ۔پاکستانی عوام باشعور ہوگئے ہیں
اب دعوؤں اور وعدوں کے زمانے گزرگئے۔مخلوط حکومت ہمیشہ کمزور ہوتی ہے جس سے
ملک بھی کمزور ہوتا ہے جبکہ قومی جماعت ہی ایک مضبوط حکومت ہوتی ہے اور اس
سے ملک بھی مضبوط ہوتا ہے جو کہ ملک کے لئے بہت ضروری ہے ۔
ماضی میں بھی ہمارے ملک میں قومی جماعتیں ہوتی تھیں جن کی اکثریت چاروں
صوبوں میں ہوتی تھیں جن کے دورِ حکومت میں ترقیاتی کام ہوئے چاروں صوبوں
میں حکومت بنانے والے جماعت ہی قومی جماعت کہلائے گی جس سے ملک مضبوط ہوگا
اور ملک میں خوشحالی آئے گی جو ملک کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھے گی
جس میں سب سے بڑا مسئلہ توانائی کا بحران ،دہشتگردی اور انتہاپسندی ہے جسے
ایک مضبوط حکومت ہی ختم کرسکتی ہے۔ |