روس کا شمال مغربی شہر سینٹ پیٹرزبرگ سن 1703 میں تعمیر
کیا گیا تھا۔ سن 1712 سے سن 1918 تک یہ شہر سلطنت روس کا دارالحکومت رہا۔
سنیٹ پیٹرزبرگ شروع سے ہی ایک کثیر المذہبی شہر ہے۔ تاہم یہاں ایک طویل
عرصے تک مسجد موجود نہیں تھی۔
ruvr کی رپورٹ کے مطابق 1880 کے عشرے کے اوائل میں مقامی تاتاری برادری نے
شہر کے حکام کو مسجد کی تعمیر کی اجازت دینے کی درخواست کی تھی۔ اجازت مل
گئی تھی اور مسجد کی تعمیر کے لیے رقوم جمع کئے جانے کی مہم شروع ہوئی تھی۔
سب سے زیادہ رقم امیر بخارا نے دی تھی۔ خیال رہے کہ اس زمانے میں بخارا
سلطنت روس میں شامل تھا۔
|
|
مسجد کے لیے شہر کے مرکز میں جگہ مختص کر دی گئی تھی۔ مسجد کا سنگ بنیاد
رکھے جانے کی تقریب امیر بخارا کے دورہ سینٹ پیٹرزبرگ کے موقع پر دس فروری
سن 1910 کو ہوئی تھی۔
جامع مسجد کی افتتاحی تقریب بائیس فروری 1913 کو روسی شاہی گھرانے کی تین
سوویں سالگرہ کے موقع پر ہوئی تھی۔ تاہم مسجد کی اندرونی سجاوٹ کا کام مزید
سات سال جاری رہا تھا۔
|
|
یہ مسجد وسطی ایشیائی طرز معماری کے مطابق تعمیر کی گئی۔ اس کی لمبائی
پینتالیس میٹر ہے اور چوڑائی بتیس میٹر۔ مسجد کا برج انچاس میٹر ہے اور
دونوں مینار اڑتالیس اڑتالیس میٹر بلند ہیں۔
مسجد شہر سینٹ پیٹرزبرگ کے جس علاقے میں واقع ہے اس کو بیسویں صدی کے پہلے
نصف میں "تاتارستان" کہا جاتا تھا اور مسجد کو "تاتاری مسجد" کیونکہ تاتاری
برادری صدیوں سے شہر کی باوقار ترین برادریوں میں سے ایک تھی جس نے مسجد کی
تعمیر میں بھرپور شرکت کی تھی۔
سوویت دور میں گرجہ گھر اور مساجد بند کئے جانے کا رجحان سامنے آیا تھا اس
لیے سن 1940 سے سن 1956 تک مسجد بند رہی تھی۔ سن 1956 یہ مسجد مقامی دینی
انجمن کے حوالے کر دی گئی۔ سن 1968 میں سینٹ پیٹرزبرگ کی جامع مسجد کو فن
معماری کی یادگار کا درجہ دیا گیا۔
|
|
آج جامع مسجد کے تحت مذہبی اور تعلیمی مرکز قائم ہے جہاں قرآن کی تعلیم دی
جاتی ہے، عربی زبان اور تاتاری زبان سکھائی جاتی ہیں۔
سینٹ پیٹرزبرگ کی جامع مسجد یورپ کی سب سے بڑی مساجد میں شمار ہوتی ہے، اس
میں پانچ ہزار نمازیوں کے لیے جگہ ہے۔ یہ امر سینٹ پیٹرزبرگ کے لیے بہت
اہمیت کا حامل ہے کیونکہ پچھلے برسوں میں یہاں مسلمانوں کی تعداد میں بہت
اضافہ ہوا ہے۔ |