ختم نبوت اسلام کا وہ اساسی
عقیدہ ہے ،جس پر پورے دین کی بنیادہے، قرآن کریم میں ایک سو سے زائد آیات
اوردو صد سے زائد احادیث میں پوری تفصیل سے ختم نبوت کے ہر پہلو کو اجاگر
کیا گیا ہے ،قرن اول سے آج تک امت مسلمہ کا اجماع چلا آرہا ہے ،کہ حضور
اکرم ﷺکے بعد نبوت کا دعویٰ کفر ہے ،بلکہ امام ابوحنیفہ ؒ کا یہ فتویٰ ہے
کہ:’’من طلب منہ علامۃ فقد کفر‘‘ جس نے حضور ﷺ کے بعد کسی مدعی نبوت سے
دلیل طلب کی ،وہ یقیناًکافر ہوگیا،اس سے عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کا اندازہ
لگایاجاسکتاہے۔
سرور کون ومکاں حضرت محمد ﷺ کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں منکرین ختم
نبوت پیدا ہوگئے تھے ، آپ ﷺ کی رحلت کے بعد بھی نبوت کے اس مضبوط قلعہ پر
کئی طالع آزماؤں نے ناکام حملے کئے ،اگر چہ کچھ متنبیوں اور فتنہ پروروں نے
بعض اوقات میں کچھ شوکت ودبدبہ بھی حاصل کرلیا، ہر طرف ان کا چر چا تھا،
مگر رفتہ رفتہ وہ فتنے کمزور پڑتے رہے اور ان کی جگہ نئے فتنے مختلف انداز
سے مگر ایک ہی منشور کے ساتھ جنم لیتے رہے۔
گزشتہ چند صدیوں کے دوران بعض خانہ ساز متنبیوں کو اپنے گروہ بنانے اور
اپنے فاسد اثرات پھیلانے کے خاصے مواقع میسر آئے ،ان میں سے مندرجہ ذیل
چارفتنے دور حاضر میں منکر ین ختم نبوت کی صف اول میں شامل ہیں۔
درزی فتنہ :
اس فتنے کے بانی نشطکین الفارسی المجوسی الدرزی ہے،تمام أنبیاء کے متعلق
کفریہ زبان درازی،ألوہیت سیدناعلی ؓاور حج بیت اﷲ کے انکار کے ساتھ ساتھ
اپنے الگ مصحف کے یہ لوگ قائل ہیں،وہ ان کے یہاں ’’المصحف المستقل بذاتہ‘‘
کے نام سے ایک پوشیدہ صحیفہ ہے۔یہ اسرائیل،لبنان ،اور شام میں آباد
ہیں،فتنہ نصیریہ علویہ اوردرزیہ کا یہاں گٹھ جوڑ ہے،ولید جنبلاط اس وقت اس
فتنے کے روحِ رواں ہے۔
ذِکری فتنہ :
847ھ میں ہندوستان کے اندر سید محمد جونپوری نامی ایک شخص نے مہدویت کا
دعویٰ کیا اور فرقہ مہدویہ کی بنیاد رکھی، اس کی وفات کے بعد اس کے پیرو
کاروں میں سے ایک شخص ملا محمد اٹکی نے 977ھ میں بمقام (سرباز) ظاہر ہوکر
مہدی کا دعویٰ کیا اور پھر کوہ مراد (بلوچستان ،پاکستان)میں چھپ گیا ،کچھ
عرصہ بعد ظاہر ہوا، مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ،اس مذکورہ فتنہ کااحیاء کیا،
اور اس کانام ’’ذکری مذہب‘‘رکھا۔
ذکری فرقہ کی زیادہ تعداد پاکستانی بلوچستان کے جنوبی اضلاع میں آباد ہے
،اس فرقہ کے لوگ ملا محمد اٹکی کو پیغمبر،مہدی اور خاتم المرسلین مانتے ہیں
اور شریعت محمدیہ ﷺ کومنسوخ تصور کرتے ہیں ، اٹکی نے نماز،روزہ کی فرضیت
ختم اورکوہ مرادکو ’’مقام محمود‘‘قرار دیا ،جہاں یہ ہر سال 9ذی الحجہ اور
27رمضان کو بغرض حج وعمرہ جمع ہوتے ہیں ،وہاں صفا،مروہ اور عرفات بھی بنائے
گئے اور ایک چشمہ کو زمزم سمجھا جاتاہے ،ان کا کلمہ ’’لاالہ الا اﷲ نور پاک
نور محمد مھدی رسول اﷲ‘‘ ہے ،نیزیہ فرقہ اٹکی کو تمام انبیاء سے افضل قرار
دیتا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ قرآن میں اٹکی کو روح القدس،روح امین اورامام
مبین قرار دیاگیاہے ۔
بہائی فتنہ:
یہ فتنہ ایران میں پیدا ہوا ،اس کا مؤسس علی محمد باب تھا،وہ مہدی ہونے
اوروحی کا مدعی تھا ، کہتا تھا کہ میرے بعد ایک شخصیت الملقَّب بـ’’من
یظہرہ اﷲ‘‘ظاہر ہوگی ،جب وہ فوت ہو ا،تو اس کی مسند پر صبح ِ ِازل نامی ایک
شخص جانَشیں ہوا، ان کابھائی مرزا حسین علی المعروف بہ (بہا ء اﷲ)نے اعلان
کردیا ،کہ میں ہی وہ شخص ہوں، جس کی باب نے خبردی تھی ،دولت عثمانیہ نے
صبحِ ازل کو قبرص ،اوربہاء اﷲ کوفلسطین کے شہر ’’عکہ‘‘ بھیج دیا ۔
بہائیوں کے نزدیک قرآن منسوخ ہے، انہوں نے اپنا قبلہ بد ل کر بجائے مکہ
کے’’عکہ‘‘بنالیا،یہ لوگ نظریہ وحدت ِادیان کے قائل ہیں ،عکہ کو مقدَّس حرم
مانتے ہیں، ان کی مذہبی کتاب کے پارے 19ہیں ،سال کے مہینے 19اور ہر مہینے
کے 19دن ہیں ۔
قادیانی فتنہ:
قادیانی فتنہ کی بنیاد ، ہندوستان میں فرنگی استعمار نے اپنی ساکھ مضبوط
کرنے ، وحدت اسلامی کو پارہ پارہ کرنے اور جہاد کو ختم کرنے کے لئے اپنے
ایک جانثار غلام احمد قادیانی کے ہاتھوں رکھی ،مرزا غلام احمد 1839-40ء میں
مقام قادیان (تحصیل بٹالہ ،ضلع گورداسپور،مشرقی پنجاب ، بھارت) میں پیدا
ہوا۔
مرزاغلام احمد قادیانی نے بتدریج، مُلھَم،محدث،مأمور من اﷲ ،مہدی ،مثیلِ
مسیح،مسیح ابن مریم،نبی،حاملِ صفات باری تعالی عزوجل اور اس کے علاوہ دیگر
بھی لاتعداد اور متضاددعوے، 1883ء سے 1908ء تک کئے،2مئی 1908ء کو لاہور میں
وبائی ہیضہ سے اس کی ہلاکت ہوئی اور حکیم نوردین اس کا جانشین اول
بنا،3مارچ 1914ء کو نور دین کی وفات کے بعد قادیانی پارٹی دو گروہوں میں
منقسم ہوگئی، قادیان کے اصل مرکز پر مرزا غلام احمد قادیانی کے بیٹے مرزا
محمودنے تسلط جمالیا اور دوسری پارٹی کی سربراہی مرزا محمد علی نے سنبھالی
اور بجائے قادیان کے لاہور کو اس نے اپنا مرکز بنایا ۔
تقسیم ہندوستان کے دوران انہوں نے اپنے آپ کو مسلمانوں سے الگ شمار کرتے
ہوئے اپنی علیحدہ فائل ریڈ کلف کمیشن کے سامنے پیش کی، تاکہ انہیں الگ
ریاست دی جائے ،ناکامی پر انہوں نے چنیوٹ میں ایک مقام کا نام
’’ربوہ‘‘رکھکرعالمی ہیڈکوارٹر بنایا، بعدمیں مرزا کے جانشین دوم مرزامحمود
کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے مرزا ناصر نے قادیانی کے جانشین سوم کا چارج
سنبھالا ۔
/7ستمبر 1974ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کے ہر دو گروہوں کے
خارج از اسلام و خارج از جماعت مسلمین قرار دینے کا دستوری فیصلہ کیا
،پاکستان کے اس فیصلہ سے قبل اسی سال 10اپریل 1974ء کو رابطہ عالم اسلامی
نے مکہ مکرمہ میں قادیانیوں کے کفر کامتفقہ فیصلہصادر کیا تھا۔9جون 1982ء
کو مرزا ناصر کے مرنے کے بعد اس کا چھوٹا بھائی مرزا طاہر اس مسند پر جماعت
کے چوتھے سربراہ کی حیثیت سے متمکن ہوا،قادیانی چونکہ اپنے آپ کو مسلمان
اور مسلمانوں کو غیر مسلم سمجھتے تھے ،اپنے مذہب کی اسلام کے نام سے تبلیغ
کرتے تھے اور طرفہ یہ کہ مسلمانوں کی مخصوص مذہبی اصطلاحات اس خانہ ساز نبی
اور اس کی امت کے لئے استعمال کرتے تھے، اس وجہ سے صدر ضیاء الحق نے
قادیانیوں کی خلافِ اسلام سرگرمیوں کو روکنے کیلئے 26اپریل1984ء کو’’امتناع
قادیانیت آرڈیننس‘‘جاری کیا،،مرزا طاہریکم مئی 1984ء کو پاکستان سے لندن
گیا ، 18اپریل 2003ء کووہیں
مرکر مدفون ہوا۔
قرآن حکیم کی سورہ ٔصف میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ایک بشارت کا ذکر ہے،
کہ میرے بعد ایک نبی تشریف لائیں گے جن کا اسم گرامی ’’احمد‘‘ ﷺہوگا
،قادیانی اس پیشگوئی کامصداق غلام احمد قادیانی کو قرار دیتے ہیں ،اس وجہ
سے وہ اپنے آپ کو’’ احمدی ‘‘اور تمام دنیا کے مسلمانوں کو ’’غیر احمدی
‘‘کہتے ہیں۔
قادیانیوں کے فاسد عقائد میں سے یہ بھی ہے کہ وہ دین مردہ دین ہے ،جس میں
سلسلہ نبوت بند ہو،نیز ان کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام سولی پر لٹکا ئے
گئے ،قادیانیوں کے نزدیک قادیان مکہ مکرمہ کی طرح ارض حرم ہے،اطاعت انگریز
ان کے نزدیک واجب ہے ،جو مسلمان جہاد کے نام پر کسی سے لڑے گا،وہ بغاوت
ہوگی اور وہ غدار ہوگا ،مرزا کے نزدیک تلوار اور بندوق کا جہاد اس و قت
بالکل ختم ہو گیا ہے ۔
حضرت مولانا منظور احمد چینوٹی ؒنے قادیانیت کا تعاقب کرنے کے لئے 1954ء
میں ’’جامعہ احمدیہ ‘‘کے مقابلے میں ’’جامعہ عربیہ‘‘چنیوٹ کی بنیاد رکھی
اور 1970ء میں ’’ادارہ ٔمرکز یہ دعوت وارشاد‘‘قائم کیا ،واشنگٹن میں بھی
ادارۂ دعوت وارشاد چنیوٹ کی ایک شاخ ہے۔اسی مقصدکیلئے حضر ت چنیوٹی نے ختم
نبوت یونیورسٹی کے قیام کا اعلان فرمایا ،جس کا سنگ بنیاد رابطہ عالم
اسلامی کے سیکریٹری جنرل جناب ڈاکٹر عبداﷲ عمر نصیف نے اپنے دست مبارک سے
رکھاتھا۔
اسلامک اکیڈمی مانچسٹریورپین ممالک میں ختم نبوت کے تحفظ کا مرکز ہے، اس کے
نگراں ومشرف علامہ ڈاکٹر خالد محمود ہیں۔
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت:
1953ء کے دوران پاکستان میں ختم نبوت کی ملک گیر تحریک کے بعد اس کا قیام
وجود میں آیا ، پہلے امیر سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ ،جنرل سیکرٹری مولانا
محمد علی جالندھری منتخب ہوئے،مجلس تحفظ ختم نبوت کے اغراض ومقاصد کی روح
رواں عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ اور منکرین ختم نبوت کے مقابل ختم نبوت کی
تبلیغ ہے،بعد میں اس کی صدارت علامہ سید محمد یوسف بنوری ؒ نے فرمائی۔ایک
ہفتہ روزہ ’’ختم نبوت‘‘شائع کیا جاتا ہے۔اندرون ملک کے علاوہ بیرون ملک بھی
لندن میں ان کا دفتر موجود ہے۔عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیربعد میں
حضرت مولانا خواجہ خان محمد مرحو م عرصۂ دراز تک رہے،اب موجودہ امیر حضرت
مولانا عبد المجید لدھیانوی مد ظلہ ہیں۔لٹریچر کے حوالے سے اس میدان میں
حضرت انورشاہ کشمیری ، شہید اسلام مولا نامحمدیوسف لدھیانوی اور مولانا اﷲ
وسایا کے اسمائے گرامی بہت نمایاں ہیں۔
تحریک تحفظ ختم نبوت:
عالمی مجلس احرار اسلام نے 21 - 22جولائی 1934ء کو مونا لاناحبیب الرحمن
لدھیانوی کی سرپرستی میں ختم نبوت کے تحفظ کیلئے قادیان میں پہلی ختم نبوت
کانفرنس کاانعقادکیا،جس کی صدارت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ نے کی
تھی۔عالمی مجلس احرار اسلام کا شعبہ تا حال بھی اس کا م میں متحرک ہے لیکن
اب اس کا نام تحریک تحفظ ختم نبوت ہے ۔
انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ :
مورخہ 17ربیع الاول 1416ھ بمطابق14اگست1995ء بروز سوموار’’انٹر نیشنل ختم
نبوت موومنٹ ‘‘کے قیام کا اعلان کیا گیا۔اس کا مرکزی دفتر لندن میں ہے۔
ان کے ساتھ ساتھ ملکی اور علاقائی سطح پر بھی کئی تنظیمیں یہ کام کررہی
ہیں، ان میں آل انڈیا مجلس تحفظ ختم نبوت دیوبند (انڈیا)مجلس تحفظ ختم نبوت
ڈھاکہ (بنگلہ دیش)انجمن فدایان ختم نبوت ملتان(پاکستان)تحریک پاسبان ختم
نبوت (جرمنی)اورمولانا سہیل باوا کی ختم نبوت اکیڈیمی(انگلینڈ) قابلِ
ذکرہیں۔ |