ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل دو
قسم کے ہیں ایک تو وہ جو ان پر مسلط کئے جاتے ہیں دوسرے وہ جو ہم خود اپنے
لئے پیدا کررہے ہیں بلکہ اس میں اضافہ بھی کررہے ہیں۔ ہندوستان میں مسلمان
دو قسم کے ہیں (لسانی اعتبارسے) ایک تو وہ جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے
(ان میں کچھ جانتے ہیں فی زمانہ زیادہ تر نہیں جانتے ہیں) دوسرے وہ جن کی
مادری زبان اردو ہے اور یہی بھاری تعداد میں ہیں۔ ہم یہاں اردو زبان کا ذکر
صرف مادری زبان اور مذہبی تعلیم کے تعلق کی بناء پر کررہے ہیں کیونکہ مذہبی
تعلیم کا اپنی مادری زبان میں حصول آسان ہی نہیں ضروری ہے۔ عیسائیت کی
تبلیغ و فروغ دنیا بھر میں یوں ہورہا ہے کہ عیسائی مبلغ جس ملک میں جاتے
ہیں عیسائیت کی تبلیغ اسی علاقہ کی زبان میں کرتے ہیں۔ علاقائی زبان میں
مذہبی کتابیں تقسیم کی جاتی ہیں ہم نے عرب ممالک میں ایسے عیسائی دیکھے ہیں
جن کی مادری زبان عربی ہے لیکن وہ عیسائی ہیں ’’گاڈ GOD‘‘ کی جگہ رب کہتے
ہیں چرچ میں عبادات عربی میں بھی ہوجاتی ہیں اس طرح عیسائیت سے ان کا رشتہ
اٹوٹ ہوتا ہے وہ مذہبی احکام سمجھتے ہیں۔
ہندوستانی مسلمانوں میں جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے وہ لوگ تو اپنی زبان
میں اسلامی احکام قرآن کا ترجمہ و نظام شریعت پڑھ لیتے ہیں ان کی زبان کے
رسم الخط میں قرآن حکیم و مذہبی دعائیں نماز کے کلمات اوردعائیں وغیرہ ہیں
وہ اپنے مذہب سے جڑے ہیں۔ دوسری طرف اردو والے کسی زبان کے ماہر نہیں
ہوپاتے ۔ عربی رسم الخط میں قرآن ناظرہ پڑھ تو لیتے ہیں لیکن صحت کا بھروسہ
نہیں ان کا انگریزی، ہندی یا علاقائی زبان میں ان کی دسترس ایسی نہیں ہوتی
ہے کہ مذہبی نظام، احکام یا شرع شریعت پوری طرح سمجھ سکیں ان کے مذہبی
معلومات و خیالات کمزور ہوتے ہیں۔ شرع اور احکام سے ناواقف ہونے کے سبب
آسانی سے گمراہ ہوجاتے ہیں جس کے نتائج خطرناک ہوتے ہیں۔ اس کا نتیجہ صرف
اور صرف گمراہی ہوتی ہے۔
آگے بڑھنے سے قبل ممتاز بزرگ شاعر گلزار دہلوی کی ایک بات پڑھ لیں جو انہوں
نے جدہ میں (غالباً 2000ء میں کہی تھی۔ انہوں نے مسلمانوں کی اردو سے دوری
اور مسلمان بچوں کے اردو نہ پڑھنے پر کہا کہ ماضی میں مسلمان بچے اردو
جانتے تھے ۔ مذہبی کتب گھر میں ہوتی تھیں وہ پڑھتے تھے مذہب سے قریب ہوتے
تھے جو نسل اردو نہیں پڑھ رہی ہے وہ مذہب سے دور ہے۔ مسلمانوں میں غیر
مسلموں سے شادی کا رواج یانماز و روزے سے لاپرواہی بڑھ رہی ہے۔ وقت کے ساتھ
اور بڑھے گی۔ آج 13سال بعد گلزار دہلوی کی باتیں زیادہ سچ لگ رہی ہیں! آج
سے 20تا30برس قبل کوئی مسلمان لڑکا یا لڑکی کسی غیر مسلم سے شادی کر بھی
لیتا تو اس کو چھپایا جاتا تھا آج ہماری بے غیرتی کا یہ حال ہے کہ چند سال
قبل حیدرآباد کے ایک ممتاز شاعر(جو وفات پاچکے ہیں) اپنے بیٹے کی غیر مسلم
لڑکی سے شادی کی تقریب یا استقبالیہ طمطراق سے منعقد کی تھی لڑکی نے اسلام
قبول نہیں کیا تھا شاعر کے دوست اور اکابرین نے جوش و خروش سے حصہ لیا!
المیہ یہ ہے کہ آج کل کے نوجوان ہی نہیں ان کے والدین تک مذہب سے ناواقف
ہیں کسی نے سمجھادیا کہ ’’تم اپنے مذہب پر رہو وہ اپنے مذہب پر رہے۔ شادی
کے لئے مذہب کی تبدیلی شرط نہیں ہے‘‘۔ یہ سب اس واسطے ہے کہ ہماری مسلمانی
عبادات تک محدود رہ گئی ہے۔ ہمارے نزدیک اسلام ایک نظام حیات یا طرز زندگی
نہیں رہا ہے۔ بلکہ نماز، روزوں، زکوٰۃاور حج پابندی سے ادا کرنے والے لوگوں
کو ان عبادات کی فرضیت، ضرورت و اہمیت کا علم نہیں ہے۔ مذہبی لٹریچر ہندی،
علاقائی زبانوں انگریزی میں طبع شدہ کم انٹرنیٹ پر زیادہ ہے لیکن جنوب میں
ہندی پر دسترس نہیں ہے۔ انگریزی سمجھ لینے کی استطاعت نہیں ہے اردو تو
اجنبی زبان ہے اردو مادری زبان والوں کو علاقائی زبان بھی نہیں آتی ہے۔ اب
مذہب کو وہ کیسے پڑھیں اور سمجھیں؟ اس کا نتیجہ سب ہی پر ظاہر ہے۔
اسلام میں حقوق العباد کی جو اہمیت ہے آج وہ متاع گم گشتہ بن چکی ہے وجہ
حقوق العباد کے بارے میں علم ہی نہیں ہے کیونکہ پڑھا ہی نہیں ہے۔ اس لئے
ماں باپ کے حقوق کی ادائی کے معاملے میں وہ لاپرواہ ہیں۔ مسلم معاشرہ اس سے
بگڑ رہا ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ اسلامی تہذیب ختم ہورہی ہے۔ ہم یہ نہیں
کہتے کہ اردو کے عروج کے دور میں سارے ہی نوجوان اور بچے دین سے واقف رہتے
تھے اور اس پر عمل کرتے تھے لیکن ماحول ایسا تھا کہ اگر کوئی کسی بھی وجہ
سے برائی کرتا تو جو واقف رہتا وہ اس کو سمجھاتا اس کی اصلاح کرتا لیکن اب
ہر طرف خاطی ہیں مصلح بہت کم ہیں۔ جب لوگ اردو پڑھتے تھے تو ہر گھر میں
قرآن مجید کا ترجمہ احادیث اشرعی احکام کی کتابیں ہوتی تھیں۔ الحسنات، نور،
حریم اور بتول جیسے رسالے گھروں میں پابندی سے آتے تھے پڑھے جاتے تھے اب
ایک تو پڑھنے یا مطالعہ کی جگہ ٹی وی نے لے لی ہے ٹی وی پر اسلام کہاں؟ ہے
تو قوالیوں اور دیگر چیزوں تک محدود ہے۔
ہم سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کو تو بڑی شدت سے برابھلا کہتے ہیں لیکن
ہمارے معاشرہ میں کئی چھوٹے چھوٹے سلمان رشدی زور شور سے خباثت کو فروغ دے
رہے ہیں لیکن ہم کو احساس نہیں ہے۔ مذہبی احکامات و عقائد مقدس مقامات اور
مذہبی رسوم و فرائض کی زور شور سے توہین کی جارہی ہے اور ہم کو احساس نہیں
ہے ان دریدہ دہنوں کی تائید کرنے والے دو قسم کے لوگ ہیں ایک تو وہ ہیں جو
واقف نہیں ہیں کہ کوئی بات کیوں بری ہے (مذہب کا علم نہیں ہے پڑھتے تو اردو
میں پڑھتے سیاہ بختی سے اردو پڑھتی نہیں ہے بڑے ناموں سے مرعوب ہیں۔ اس لئے
لا علمی اور جہالت کی وجہ سے اصل بات کا پتہ نہیں ہے۔ پتہ چل بھی جائے تو
بڑے لوگوں کی مخالفت کی ہمت نہیں ہے۔ دوسرے وہ ہیں جو خود مذہبی طور پر نہ
صرف گمراہ ہیں بلکہ مذہب بیزار ہیں اس قسم کی باتوں سے وہ اہل اقتدار کی
نظروں میں آجاتے ہیں۔ حکومت کا رویہ یہ ہے کہ مسلمان کی 99فیصد تعداد سلمان
رشدی کو ملحد ملعون اور دین سے منحرف مانتی ہے اس لئے وہ سب 99فیصد بنیاد
پرست ہیں۔ جو ایک فیصد رشدی معلون کی حمایت کرتے ہیں وہ روشن خیال موڈرن
اور لبرل ہیں اور حکومت ان کی پذیرائی کرتی ہے۔ کسی کو گیان پیٹھ ایوارڈ
ملتا ہے تو کوئی پدم بھوشم اسی لئے مذہب بے زاری کا فروغ ہے۔ کسی شاعر کے
نزدیک مسجد جاکر نماز پڑھنے کے برابر ثواب کسی روتے ہوئے بچے کو بہلانے
ہنسانے میں ہے شاعر صاحب خود غیر مسلم بیوی کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں تو
ان کا مذہب سے تعلق ظاہر ہے لیکن جس پیمانے پر اس دین بیزار کی مذمت ہونی
چاہئے تھی وہ نہیں ہوئی۔ ہاں حمایت میں خاصہ شور اٹھا۔
چند اور واقعات کا ذکر بغیر ناموں کے ضروری ہے۔ ہم نام لکھ کر کسی کو بدنام
کرنا نہیں چاہتے ہے۔ اس لئے صرف واقعات رقم کررہے ہیں کہ اس قسم کے واقعات
کا اعادہ نہ ہو۔
فروری 2010ء میں خواجہ بندہ نوازؒ کے شہر گلبرگہ میں اس تقریب میں حیدرآباد
کے عمائدین بھی شریک تھے۔ ایک صاحب جو دو جامعات میں صدر شعبہ اردو رہ چکے
ہیں ادیب نقاد افسانہ نگار دانشور اور پتہ نہیں کیا کیا ہیں؟ ایک مقامی
ادیب (جو پستہ قدہیں) اور سماجی کارکن بھی ہیں اور اچھے انسان ہیں کو خراج
تحسین پیش کرتے ہوئے ان کو حضرت علی جیسا یا مثل قرار دیا۔ یہ صریحاً دین
سے ناواقفیت اور جہالت ہے کہ ایک دنیا دار انسان کو نعوذ باﷲ سید نا علیؓ
جیسے جلیل القدر صحابی عم زاد اور داماد رسولؐ اور خلیفہ اسلام سے تشبیہ دی
جائے حیرت تو یہ ہے کہ شیعہ حضرات بھی خاموش رہے۔ صدر شعبہ صاحب کے خلاف
کوئی مقامی اخبار بھی لکھتا نہیں ہے۔ اردو اخبارات خبروں مراسلوں کی اشاعت
میں بددیانتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ دینی معاملہ بھی دنیاوی مصلحتوں کے شکار
نظر آتے ہیں۔ ایک مرحوم پروفیسر اور ادیب و شاعر اور قدیم ادبی رسالے کے
ایڈیٹر کے گھر روز محفل جمتی تھی جس میں شریک سب اہل قلم اصحاب ہوتے تھے
ایک افسانہ نگار اور جوخودساختہ دانشور ہیں اپنی دہریت اور اسلام دشمنی پر
نازاں ہیں برملا کہا (نفل کفر کفر نہ باشد) ’’آپ کے رسول ؐاﷲ سے بھی غلطیاں
ہوئی ہیں‘‘(نعوذ بااﷲ)۔ ہم کو یہ بات ایک معتبر شریک محفل سے معلوم ہوئی
تھی۔سب بڑے لوگ خاموش رہے حالانکہ اہانت رسول کا مجرم قابل گردن زدنی ہے۔
خاموشی کی وجہ سے یہ تھی کہ کچھ کہتے تو بنیادپرست کہلاتے۔
حیدرآباد کے ایک ممتاز روزنامہ کے ادبی صفحات کے مرتب ایک ممتاز شاعر ہیں
اپنے 31؍جنوری 2013ء کے شمارے میں میلاد اور نعت کے سالانہ جلسوں کی مخالفت
کرتے ہوئے مندرجہ ذیل مصرعے چھاپ دئیے (جو ہم کو 100فیصد تویاد نہیں الفاظ
ادھر ہوں تو ہوں لیکن کچھ یوں ہیں۔
’’یادنبی کے یہ جلسے کیوں کرتے ہو سالانہ
کب تک یہ قصیدہ خوانی ہے کام کرو کچھ مردانہ‘‘
ہم باوجود وہابی ہونے کے اس ہرزہ سرائی و بدگوئی پر لعنت بھیجتے ہیں۔ نبی
کی قصیدہ خوانی پر معترض کو پتہ نہ ہوگا کہ اﷲ نے اپنے رسول ؐ سے کہا ہے
’’ہم نے آپؐ کے ذکر کو بلند کیا ‘‘۔
وہ آسمانی صحیفے جو منسوخ ہوچکے ان کا بھی احترام لازمی ہے۔ آسمانی صحیفے
اﷲ کا کلام ہیں۔ اﷲ کے احترام کی طرح ہی ان کا احترام لازم ہے۔ وضو صرف
عبادت کے لئے کیا جاتا ہے۔ دنیاوی کتابوں کو چھونے کے لئے وضو کا ذکر غیر
ضروری ہے ایک ممتاز مزاح نگار جو عالمی شہرت کے مالک ہیں۔ اپنے ایک ساتھی
مزاح نگار کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کتابوں کی لکھائی چھپائی کی توصیف
کرتے ہوئے آسمانی صحیفوں کی توہین کی ہے جو طنزو مزاح کے ایک قدیم رسالے
میں اہتمام سے شائع کی گئی اسی مزاح کے رسالے کے اگلے شمارے (مئی) میں ان
مزاح نگار نے (جن پر خاص نمبر شائع ہوا تھا) مدیر رسالہ کی تحسین کرتے ہوئے
’’مکہ المکرمہ اور حج‘‘ کا احترام بھول گئے اور حیدرآباد کو نعوذباﷲ طنز و
مزاح کا مکہ اور مزاح نگاروں کی عالمی کانفرنس میں شرکت کو ’’حج ظرافت‘‘
لکھ دیا۔ راقم الحروف نے کئی مستند عالموں سے اس تعلق سے استفسار کیا تو
علماء نے بتایا (جن کا تعلق مونگیر، ندوہ اور دیوبند سے رہا تھا) یہ خرافات
توہین و اہانت اسلام ہے‘‘ لیکن ان پر تنقید مصلحتوں کی وجہ سے شائع نہیں
ہوسکتی ہے۔لیکن سلمان رشدی کے قبیل کے لکھنے والے آزادہیں اور کہتے ہیں
اردو میں یہ مستعمل ہے۔
طلاق، خلع ، نکاح کے بارے میں مسلمانوں جیسے نام کے دانشور کھلم کھلا شرعی
احکام کی تکذیب و توہین کرتے ہیں۔ غلط و مطالب اخذ کرتے ہیں۔ ایسی باتوں کا
زور پاکستان میں بھی بہت ہے۔ عربی کا ترجمہ مولویوں نے غلط کیا ہے۔ یہ ہمت
افزائی قابل مذمت ہے۔ |