Un-Civilzed Society

(Yasir Pirzada, )

تقریباً پندرہ سولہ سال پہلے شاہدرہ ٹاؤن میں ایک چالیس سالہ عورت پراسرار طور پر اپنے گھر میں قتل کر دی گئی۔ میں اس وقت کرائم رپورٹر ہوا کرتا تھا اس لئے میں نے اس خبر کا follow up کیا اور آخر کار جب اس قتل کا معمہ حل ہو گیا تو علاقے کے تھانیدار نے کمال مہربانی سے کام لیتے ہوئے (نہ جانے کیا سوچ کر) صرف مجھے ملزم سے ملنے کی اجازت دی جو انیس بیس سال کا ایک نوجوان تھا۔ اس نوجوان نے اعتراف کیا کہ وہ مقتولہ کی سوتیلی بیٹی کو پسند کرتا تھا اور وہ لڑکی بھی اس سے محبت کرتی تھی لیکن لڑکی کی سوتیلی ماں ان کی شادی میں رکاوٹ تھی چنانچہ لڑکے اور لڑکی نے مل کر اس عورت کو قتل کر ڈالا۔ ”محبت کی یہ الم ناک داستان“ سن کر قریب تھا کہ میں فرط جذبات سے مغلوب ہو کر لڑکے کا ماتھا چوم لیتا لیکن پھر میں نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور ہولے سے لڑکے کی کمر پر ہاتھ پھیر کر کہا کہ ”یار! یہ کام کرتے ہوئے تمہیں ڈر نہیں لگا؟“ جواب دینے کی بجائے لڑکے کے منہ سے ایک چیخ نکلی اور میں نے گھبرا کر اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا۔ تھانیدار نے، جو پاس ہی ایک کرسی پر بیٹھا یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا، کمال بے نیازی سے کہا” جناب! اس بے چارے کی کمر کو ہاتھ نہ لگائیں!“ میں نے حیران ہو کر پوچھا ”کیوں؟“ تھانیدار نے اسی اطمینان سے جواب دیا” اصل میں سچ اگلوانے کے لئے اس کی قمیض اتروا کر اس کی کمر پر سوٹے(ڈنڈے) لگائے ہیں… شاید اسی لئے اتنا چیخ رہا ہے…الو دا پٹھا!!!“یہ واقعہ سنانے کے بعد اگر میں آپ سے یہ پوچھوں کہ وہ کون سا ملک ہے جہاں ملزموں یا مشتبہ لوگوں کو پکڑ کر اس حد تک تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ انہیں کیڑے مکوڑوں سے بھرے کسی صندوق میں بند کر دیا جائے یا ان کا سر بار بار دیوار پر مارنے کے لئے ایک خاص قسم کا کالر استعمال کیا جائے یا انہیں برہنہ رکھا جائے یا انہیں تکلیف دہ حالت میں مسلسل کھڑا رکھا جائے یا انہیں کسی تختے پر باندھ کر ان کے چہرے پر اس طریقے سے مسلسل پانی بہایا جاتا رہے کہ انہیں ڈوبنے کا احساس ہونے لگے اور پھر طرہ یہ کہ اگر ثابت بھی ہو جائے کہ دوران تفتیش سیکورٹی اہلکاروں نے اس قسم کا بیہمانہ تشدد کیا تھا تو بھی ان کے خلاف کسی قسم کی کوئی کاروائی نہ کی جاسکے…تو لا محالہ آپ کا دھیان پاکستان ٹائپ کسی ایسے ملک کی طرف جائے گا جہاں اتنی کھلی چھٹی ہو کہ شخصی آزادی کا کوئی تصور نہ ہو، قانون کی حکمرانی محض کتابوں تک محدود ہو اور ملک پر کوئی فوجی ڈکٹیٹر قابض ہو…لیکن حیرت انگیز طور پر ایسا کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ اس ملک کا نام پاکستان نہیں بلکہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہے!!!

امریکہ کے محکمہ انصاف نے حال ہی میں چار یاد داشتیں (کمپوزر صاحب یادداشتوں کو داشتائیں نہ لکھ دیں)جاری کی ہیں جن میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ 9/11 کے بعد امریکی صدر جارج بش نے اوپر بیان کئے گئے تفتیشی طریقوں کی منظوری دی تھی جو CIA کے اہلکار مشتبہ افراد پر آزما سکتے تھے۔ موجودہ صدر باراک اوبامہ (جن کے نام میں ہمارے بعض تجزیہ نگار”حسین“ لگاتے ہوئے خوشی سے پھولے نہیں سماتے) نے ایسے کسی بھی CIA کے اہلکار کے خلاف کاروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس نے تفتیش کے دوران ان طریقوں سے کام لیا تھا۔

کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ایک خبر اور ملاحظہ فرما لیں کہ دسمبر 2004 سے جون 2008 تک امریکہ نے افغانستان کے لئے جو ہتھیار خریدے تھے ان میں سے ایک تہائی سے زیادہ ہتھیار ”گم“ ہو چکے ہیں اور ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ CNN نے ایک امریکی سرکاری ادارے کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ تقریباً 87,000 ہتھیار ایسے ہیں جن کا کوئی ریکارڈ نہیں اور بظاہر ایسا لگتا ہے جیسے یہ ہتھیار ”گم“ ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ 135,000 ہتھیار مزید ایسے ہیں جو امریکہ نے اکیس دیگر ممالک سے خریدے تھے اور ان کا بھی کہیں ”اندراج “نہیں ہے۔

ان تمام باتوں سے کچھ نتائج بآسانی اخذ کئے جا سکتے ہیں، پہلا یہ کہ دوران تفتیش تشدد صرف ہمارا ہی نہیں بلکہ امریکہ کا بھی طرہ امتیاز ہے لہٰذا ہر وقت اپنے ملک کی مذمت کرنے اور امریکہ کی مثالیں دینے میں احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ دوسرا، امریکی صدر اور سیاسی جماعتیں وغیرہ بھی اسی طرح CIA سے دبتی ہیں جیسے ہمارے ہاں حکومتیں اسٹیبلشمنٹ سے دبتی ہیں۔ تیسرا، جس طرح امریکیوں نے افغانستان میں ہتھیار ”گم “ کئے ہیں، اس سے ان کے قابلیت اور پروفیشنلزم کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے اگر امریکی فوج کا یہ حال ہے کہ وہ افغانستان میں لاکھوں کی تعداد میں ہتھیار یوں گم کر دیتی ہے جیسے سکول کے بچے روزانہ اپنی پنسلیں گم کرتے ہیں تو پھر اس جنگ کی تمام تر ناکامی بھی امریکیوں کے کھاتے میں جانی چاہئے۔

ان تمام باتوں سے قطع نظر ،ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اگر ان تفتیشی طریقوں کا اطلاق، جن کی اجازت بش نے دی تھی، خود بش پر کیا جاتا تو وہ بھی 9/11 سے لے کر لاہور میں مناواں پولیس ٹریننگ سکول تک تمام حملوں کی ذمہ داری قبول کر لیتا!!! اس موقع پر ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے جو اس قدر پرانا ہے کہ اب تو اس کی داڑھی بھی سفید ہو چکی ہے اور اتنا گھس چکا ہے کہ مدت سے اخبار میں بچوں کے صفحوں پر چھپنا بھی بند ہو چکا ہے، اس لطیفے کی ”پنچ لائن“ کچھ یوں ہے کہ ایک ہاتھی دوڑتا ہوا آ رہا ہے اور زور زور سے چلا رہا ہے کہ ”میں چوہا ہوں…میں چوہا ہوں۔“ کسی نے پوچھا کہ ہاتھی ایسے کیوں چلا رہا ہے تو جواب ملا کہ ”پاکستانی پولیس اس سے اعتراف جرم کروا رہی ہے۔“میرا خیال ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ہر وقت اپنی مذمت کرنا بند کریں اور ان نام نہاد معاشروں پر بھی نظر ڈالیں جو دنیا کی نظروں میں نہایت کامیابی کے ساتھ اپنا سیکولر اور لبرل امیج بنائے ہوئے ہیں ۔ در حقیقت اندر سے یہ معاشرے اس قدر کھوکھلے ہیں کہ لاکھوں کی تعداد میں ہتھیار گم کرنے کے باوجود وہاں کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور تفتیش کے لئے تشدد آمیز طریقے اپنانے کو سرکاری اجازت حاصل ہوتی ہے… ایسے معاشروں کو میں Un-Civilzed Society کہتا ہوں!!!

(This article is permitted by the author to publish here)

Yasir Pirzada
About the Author: Yasir Pirzada Read More Articles by Yasir Pirzada: 30 Articles with 60752 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.