دنیا بھر سے ایران کے اقتصادی
رشتے منقطع کرانے کے لئے امریکا اور یورپی ممالک کے دباﺅاور اسرائیلی ہتھ
کنڈوں کے باوجودہندستان نے اس کے ساتھ اپنے رشتوں کو ایک نئی جہت دینے کی
سنجیدہ پہل کی ہے۔ ہند کے وزیر خارجہ سلمان خورشید نے ۳تا۵ مئی تہران کا
دورہ کیا جو اس عزم کا اعلان ہے کہ ہنداپنے قومی اور علاقائی مفادات کی
خاطر ایران کے ساتھ اپنے اقتصادی رشتوں کومستحکم بنیادوں پر وسعت دینا
چاہتا ہے۔اس کے فوراً بعد ایران کے آئل منسٹر رستم قاسمی دہلی آئے ۔گزشتہ
پیر (27مئی) انہوں نے اپنے ہم منصب ویرپا موئلی کے ساتھ ملاقات میں بڑی بہت
پرکشش شرطوں پر ایران کی تیل کی صنعت میں ہند کو سرمایہ کاری کی پیش کش کی
ہے جس کا ہند کے صنعتی اور تجارتی حلقوںمیں خیر مقدم کیا جائیگا۔مسٹر
خورشید کا دورہ تہران سے جمود کی وہ کیفیت ٹوٹی ہے جو ایران کے نیوکلیائی
پروگرام کا بہانا بناکر امریکا کی طرف سے عاید سخت اقتصادی پاپندیوں کی وجہ
سے پیدا ہو گئی تھی۔
اپنے ہم منصب علی اکبر صالحی کے ساتھ مشترکہ کمیشن کی میٹنگ کے دوران وزیر
خارجہ نے مطلع کیا کہ ہند چاہ بہار بندرگاہ کی جدید کاری میں سرمایہ لگانے
پر آمادہ ہے اور وہ یہ کام بلاتاخیر ترجیحی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے۔ اسی
ضمن میں یہ بھی طے کیا گیا ایک سہ فریقی ٹرانزٹ معاہدہ کیا جائیگا جس میں
ہند ،ایران اور افغانستان شامل ہونگے۔ ہندستان کی ترجیح یہ ہوگی کہ
افغانستان سے ناٹو کے انخلاسے پہلے ہی یہ معاہدہ بھی ہوجائے اور چاہ بہار
بندرگاہ کی جدید کاری بھی ہوجائے۔طے ہوا کہ ہندستانی وزارت جہاز رانی کے
اعلا حکام جلد ہی تہران جائیں گے تاکہ اس کام پر مصارف کا تخمینہ لگائیں۔
سردست ہند نے دس کروڑ ڈالر فراہم کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔چاہ بہار کی
جدید کاری اور مجوزہ سہ فریقی راہداری معاہدہ کئی وجوہ سے بہت اہم ہےں ۔
پاکستان نے بلوچستان کا گوادر کا بندرگاہ حال ہی میں ایک چینی کمپنی کے
حوالے کردیا ہے، چنانچہ ہند کے لئے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ اس آبی خطے میں اس
کو چین سے ہم سری حاصل رہے۔چاہ بہار کا فری پورٹ گوادر سے اسی کلومیٹر سے
بھی کم فاصلے پر ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہندستان کو افغانستان کے ترقیاتی
پروجیکٹوں میں دلچسپی ہے۔ اس نے بامیان کے علاقے میں، جو معدنیات سے لبریز
ہے کوئلہ اور خام لوہا تلاش کرنے اور اس کی کانکی کا بھی معاہدہ کیا ہے۔
چنانچہ اس کو افغانستان تک محفوظ راہداری درکار ہے ۔ چاہ بہار سے بامیان تک
900 کلومیٹر تک ایک براڈ گیج ریل لائن بچھانے اور سڑکوں کی تعمیر بھی
منصوبے میں شامل ہےں۔ اس سے اگرچہ ایران کے بنیادی ڈھانچہ کو فروغ حاصل
ہوگا مگربیرونی دنیا سے افغانستان کے صنعتی اور تجارتی رشتوں کے لئے بھی یہ
پروجیکٹ نہایت اہم ہے، اس لئے اس بات کی گنجائش نہیں امریکا اس میں مزاحم
ہوسکتاہے۔
ایران کے ساتھ تعلقات کی استواری کا یہ اقدام اس لئے بھی اہم ہے کہ گزشتہ
سال 12فروری کو نئی دہلی میںاسرائیل کے ایک سفارت کار کی بیوی کی کار کے
باہر ایک بم چپکادئے جانے کا الزام اسرائیل نے ایران کے سر منڈھا تھا اور
دباﺅ میں آکر دہلی پولیس نے ایک ممتازمسلم صحافی کوجو ایران میڈیا کے لئے
کام کرتے تھے، بغیر کسی پختہ ثبوت گرفتار کرلیا تھا۔ حال ہی میں جب ایک
تقریب میں ان کے ساتھ ڈایس پر ہند کی چند اہم شخصیات نظرآئیں تو اسرائیل نے
اس پر احتجاج کیا تھا۔ اسرائیل کی ہرممکن کوشش ہے کہ ہند، ایران تعلقات میں
ناقابل عبور خلیج حائل ہوجائے۔ حالیہ برسوں میں ہند نے اسرائیل کے ساتھ
خصوصاً دفاعی سیکٹر میں رابطے اس حد تک بڑھالئے ہیں کہ وہ ہند پر دباﺅ
ڈالنے کی پوزیشن میں آگیاہے۔ مگر اپنے علاقائی مفادات کے پیش نظر ہند نے اس
دباﺅ کو بھی درکنارکردیا ۔
وزیر خارجہ سلمان خورشید نے ایرانی حکام سے اپنی بات چیت کے دوران ہند
ایران گیس پائپ لائن پروجیکٹ میں بھی دلچسپی کا اعادہ کیا۔ جس پر ایران نے
بلا تاخیر مثبت جواب دیا اور فوراً یہ پیش کش کردی کہ اگر ہند پاکستان کے
راستے پائپ لائن کو محفوظ نہیں سمجھتا تو پھر سمندر کا متبادل راستہ اختیار
کیا جاسکتا ہے۔ اس صورت میں ایران اپنی گیس کی قیمت کم کرنے پر آمادہ ہے
مگر یہ چاہتا ہے گیس خرید کی مجوزہ مقدار میں اضافہ ہو۔ ہند کے لئے یہ گیس
اس لئے اہم ہے اس کا استعمال یوریا تیار کرنے میں کیاجائے گا جس کی اندرون
ملک کمی ہے اور تیس فیصد کے قریب یوریا امپورٹ کرنا پڑتا ہے۔یو پی اے ون
میں جب مسٹر منی شنکر ایر وزیر پیٹرلیم تھے، ایران، پاکستان ہند گیس پائپ
لائن پروجیکٹ پر مذاکرات کافی آگے بڑھ گئے تھے مگر امریکا اس حد تک مزاحم
ہوگیا کہ مسٹر ایر کا قلمدان تبدیل کرنا پڑا اور منصوبہ التوا میں پڑ گیا۔
تاہم پاکستان اور ایران کے درمیان معاہدہ ہوگیا جس کے تحت پائپ لائن
تعمیرکا رسمی افتتاح بھی پاک ایران سرحد پر دونوں ممالک کے صدور نے اسی سال
۱۱ مارچ کوکرلیا۔ دریں اثنا پاکستان نے پائپ لائن کو تحفظ فراہم کرنے کا
ہند کو یقین دلایا ہے۔
چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر 1990ءکی دہائی میںہند کے ہی تعاون سے ہوئی تھی
تاکہ افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک کے لئے اس کو پاکستا ن کا راستہ
مسدود ہونے کے باوجود راہداری مل جائے۔ افغانستان میںخانہ جنگی کے بعد
پاکستان نے اپنی سر زمین سے ہند افغانستان تجارتی راستہ بند کردیا تھا ۔
افغانستان سے اگلے سال کے آخر تک ناٹو فوج کے ہٹ جانے کے بعد ہند کے لئے اس
راستے کی اہمیت بڑھ جائیگی۔بصورت دیگر پاکستان کے راستے چین کو زبردست
بالادستی حاصل ہوجائیگی جس کو امریکا بھی پسند نہیں کریگا۔ اگرچہ اس سہولت
کو آگے توسیع دیکر روس اور وسطی ایشیائی ممالک تک تجارتی راہداری کھولی
جاسکتی ہے مگر فی الحال ترجیح صرف افغانستان کے لئے ہے تاکہ امریکا اس کی
مخالفت نہ کرسکے۔
ہند نے صوبہ بامیان کے حاجی گاک معدنی خطے میں کوئلے اور خام لوہے کی تلاش
اور کان کنی کاجو معاہدہ کیا ہے وہ بھی دونوں ممالک کے لئے اہم ہے۔ یقین
کیا جاتا ہے کہ اس خطے میں ایک ارب اسی کروڑ ٹن خام لوہا موجود ہے جس کی
مالیت ایک لاکھ ستر ہزار ارب روپیہ کے قریب ہے۔ہندستان کو اس خطے سے نکالے
گئے خام مال کا فائدہ اسی صورت میں پہنچ سکے گا جب وہ اس خطے میں انڈسٹریاں
بھی لگائے اور یہاں سے مال باہر لیجانے کا راستہ بھی ہو۔
چاہ بہار فری پورٹ کے پاس ہی ہندستان کا منصوبہ ایران کے ساتھ گیس سے یوریا
بنانے کا ایک مشترکہ پلانٹ لگانے کابھی ہے۔اس سے ہند کی یوریا کی ضرورت
پوری کرنے میں مدد ملیگی۔گزشتہ سال ہند کو ایران سے ۶۱ لاکھ ٹن یوریا
خریدنا پڑا تھا۔ مشترکہ کارخانے سے اس کی دستیابی کفائتی اور یقینی
ہوگی۔ہند ایران میں تیل کی تلاش اور تیل کارخانوں کے قیام میں بھی دلچسپی
رکھتا ہے جس پر ایران بھی آمادہ ہے۔ چنانچہ ایران کے وزیر تیل مسٹر رستم
قاسمی نے بہت ہی پرکشش شرائط پر اس کی پیش کش کی ہے مگر وہ یہ بھی چاہتا کہ
ہند تیل کی خریداری میںکمی کے موجودہ رجحان کو روکے اور اس کی خریداری میں
خاطر خواہ اضافہ کرے جس کے لئے وہ انشورنس کی سہولت بھی دینے پر آمادہ ہے۔
ہند نے امریکی پاپندیوں کی وجہ سے ایران سے تیل کی امپورٹ میں بتدریج کمی
ہے مگر اس نے امریکا کو بتادیا ہے کہ ہند کے بہت سے تیل کارخانے ایسے ہیں
جو صرف ایرانی تیل کے لئے مخصوص ہیں۔ ان کو بند نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ
ہند کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کرلیا گیا تھا جن کو اس پابندی سے چھوٹ
دی گئی ہے۔ ہند نے ایران کے وزیر تیل مسٹر قاسمی کو یقین دلایا ہے کہ ہند
ایران سے برابر تیل خریدتارہے گا۔
وزیر خارجہ کا یہ حالیہ دورہ تہران ہند کی کپڑا صنعت کے لئے بھی وردان ثابت
ہوسکتا ہے۔ بنکوں پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے یہ طے ہوا ہے ایران کو تیل
کی قیمت بارٹر سسٹم سے ادا کی جائیگی ، یعنی مال کے بدلے مال دیا جائیگا۔
اس مفاہمت کے تحت ایران ہند سے جو اشیاءخریدے گا ان میں کپڑا اوراس کی
مصنوعات شامل ہیں۔اسی لئے تہران میں کپڑے کی نمائش لگائی گئی تھی جو کافی
حوصلہ افزا رہی۔
ایران سے ہمارے قدیم خاندانی، علمی، ثقافتی اور دینی رشتے ہیں۔ ایرانی ڈشوں
کے بغیر ہمارا دسترخوان سونا سونا رہتا ہے اور فارسی الفاظ و تراکیب کے
بغیر ہماری زبان بے رس ہوجاتی ہے۔ اس کے ساتھ اپنی توانائی ضرورتوں کی
تکمیل اور تجارت کے فروغ کے لئے یہ نئی پہل اس بات کا اعلان ہے کہ ہند
یورپی سرمایہ دار ممالک کی دھونس دھمکیوںکو در کنار کرکے اپنے قومی مفادات
کی حفاظت کے لئے پر عزم ہے اور اس خطے میں وہ اپنی پوزیشن کو آزادنہ طور پر
مستحکم کرنے میں سنجیدہ ہے۔اس میں شک نہیں کیا جاسکتا کہ اسلامی جمہوریہ
ایران ہند کا قابل بھروسہ دوست ہوسکتا ہے۔ ہند اس وقت جس مضبوط اقتصادی
پوزیشن میںہے اس میں یورپی ممالک کے لئے یہ ممکن نہیں کہ ہند پر ویسی
پابندیاں عاید کردیں جیسی ۴۷۹۱ءمیں نیوکلیائی ٹسٹ کے بعد کردی تھیں۔کیونکہ
اس کی زبردست زد خود یورپی ممالک پر پڑیگی جن کی حالت مندے کے بعد ابھی
سنبھلی نہیں ہے۔ ہندستان نے دنیا کو یہ بتادیا ہے کہ وہ ایران میں تیل کی
تلاش اور نئے کارخانے لگانے میں دلچسپی رکھتا ہے اور ایران کے چنندہ
پروجیکٹوںمیں سرمایہ کاری کے لئے آمادہ ہے۔ ایران کے مشترکہ پروجیکٹوں میں
ہند کی دلچسپی سے یورپی ممالک اور ایران کے دیگر حریف ممالک کو پریشانی
ہوسکتی ہے۔لیکن یہ واضح ر ہے کہ ہند خطے کے سبھی ممالک کے ساتھ یکساں طور
پر اپنے رشتوں کی استواری کا خواہاں ہے۔ چنانچہ ایران سے قبل وزیر خارجہ
سلمان خورشی چین گئے اور ایران کے فوراً بعد سعودی عرب کا دورہ کیا ۔ اب
امریکا کے وزیر خارجہ جان کیری بھی سامرک اہمیت کے امور پر تبادلہ خیال کے
لئے جون میں دہلی آرہے ہےں۔دریں اثنامعروف سفارتکار ایس کے لامبا ہند کے
وزیراعظم کے خصوصی ایلچی کی حیثیت سے پاکستان گئے ہیں تاکہ نامزد وزیر اعظم
نواز شریف سے مذکرات شروع ہوجائیں۔ چین کے وزیر اعظم لی کی چیانگ اور
صدرافغانستان حامد کرزئی کا دورہ ہند بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔
تہران کے فوراً بعد وزیر خارجہ کا دورہ سعودی عرب خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس
سے یہ پیغام صاف ہے کہ کسی ایک ملک سے تعلقات کی استوری کا مطلب یہ نہیں
ہمارے لئے خطے کے کسی دوسرے ملک یا بلاک کی اہمیت کو کم ہوجائیگی۔بدقسمتی
سے اس وقت عالم اسلام منتشر ہے اور سعودی عرب کے مراسم ایران کے ساتھ کشیدہ
ہیں۔ امریکا اور صہیونی لابی کے نیوکلیائی پروپگنڈے کی بدولت ایران کے بعض
پڑوسی عرب ممالک بھی فطری طور سے اندیشہ محسوس کرتے ہیں جس کا اظہار مسٹر
خورشید کے دورہ ریاض کے دوران بھی ہوا۔ ہند اس تشویش کے تئیں پوری طرح حساس
ہے، تاہم خود اس کے دو پڑوسی ممالک نیوکلیائی اسلحہ سے لیس ہیں۔ہند جس طرح
ان دونوں کے ساتھ باہمی مفاد کی بنیاد پر تعلقات کی استواری کے لئے کوشاں
ہے اسی طرح کی کوشش وہ ایران کے ساتھ کررہا ہے اور یہ کوشش کسی دیگر ملک کے
مفادات کے خلاف نہیں۔ ایران سے خطرہ محسوس کرنے والے ممالک کو یہ غور کرنا
چاہئے کہ اسرائیل، امریکا اور یوروپ، جو آج پوری دنیا کو ایران کے خلاف
ورغلارہے ہیں، اجتماعی تباہی کے اسلحہ کا شور مچاکر عراق کو تباہ کرچکے ہیں
۔عراق پر حملہ دراصل اس کے تیل پر قبضہ کرنے کے لئے کیا گیاتھا۔ لیبیا میں
یورپی ممالک کی مداخلت بھی تیل کی خاطر تھی اور ایران کے خلاف امریکا کی
سازشوں کا قدیم سلسلہ بھی تیل کے کنووں سے وابستہ ہے۔ ہمیں کس کی آواز میں
آواز ملانی چاہئے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔وحدت امت کے تقاضے اس کے ماسوا ہیں۔
ہندستان نے ایران کے ساتھ اقتصادی تعاون کی جو پہل کی ہے اس کی زد نہ تو
خطے کے کسی تیسرے ملک پر پڑیگی اور نہ عالمی امن و استحکام پر۔ اس پر کسی
شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔جہاں تک ایران کے نیوکلیائی پروگرام کا تعلق ہے،
اس کی حقیقت یہ ہے توانائی کے سارے روائتی اور غیرروائتی ذرایع پر امریکا
اور یوروپ اپنی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے ہند کے
نیوکلیائی پروگرام پر بھی ہنگامہ کھڑاکیا تھا، البتہ اسرائیل کے اسلحہ کے
ذخیرے سے ان ممالک کو کوئی احتراز نہیں۔ ان مختلف مفادات کے درمیان ہم امید
کرتے ہیں کہ ہندستان کے خارجہ پالیسی ساز ایک ایسا توازن برقرار رکھ سکےں
گے جس میں اس کے مفادات بھی محفوظ رہیں اور خطے میںامن و استحکام اور باہم
اعتماد سازی کو بھی فروغ حاصل ہو۔(ختم) |