پاکستان کو ناٹو کی افغانستان
میں دہشت گردی کے نام پرشروع کردہ خود ساختہ جنگ میں ناقابل تلافی نقصان
پہنچا ۔ انتہاپسندی شدت پرستی اور دینی منافرت خود کش بمباری اور بم
دھماکوں نے ریاست کے امن و امان کو تہہ بالہ کرڈالا۔ تحریک طالبان پاکستان
نے مشرق سے مغرب تک اور خیبر سے کراچی تک کو خون میں نہلادیا۔ دہشت گردی نے
پاکستانی معیشت قانون و ائین کا تیاپانچہ کردیا۔امریکہ کی اس لاحاصل جنگ
میں پاکستان41 ہزار فوجی جوانوں اور بے گناہ شہریوں کے جنازے اٹھا اٹھا کر
نڈھال ہوچکا ہے۔ حالیہ الیکشن میں ہیوی ویٹ کامیابی حاصل کرنے والے متوقع
وزیراعظم نواز شریف نے طالبان سے مذاکرات کرنے کی ضروت پر نہ صرف زور دیا
بلکہ ن لیگ اور فوجی قیادت نے مولانا سمیع الحق کو زمہ داری سونپی کہ وہ
اپنے اثر و رسوخ کے بل بوتے پر طالبان کو ڈائیلاگ پر امادہ کریں۔ تحریک
انصاف کے منتخب وزیراعلیkpk پرویز خٹک نے بھی جمیت علما اسلام کے سربراہ
مولانا سمیع الحق سے امداد کی درخواست کی۔بی بی سی کی جاری کردہ رپورٹ کے
مطابق جمیعت کے ترجمان نے کہا جب قطر اور فرانس میں یورپی طاقتیں مذاکرات
کرسکتی ہیں تو پھر پاکستان میں کیوں نہیں؟ مولانا سمیع الحق کے ترجمان سید
یوسف شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ نواز شریف اور پرویز خٹک طالبان سے
ڈائیلاگ کے بعد صوبے کو درپیش مسائل حل کرنے کے خواہاں ہیں۔بی بی سی نے
اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ملاعمر سے لیکر طالبان کے ہزاروں نامور کمانڈرز اور
انتہاپسند اکوڑہ خٹک میں مولانا سمیع الحق کے مدرسے دارالعلوم حقانیہ میں
پڑھتے رہے ہیں۔طالبان مولانا سمیع الحق کو اپنا روحانی اور سیاسی باپ مانتے
ہیں۔ مولانا سمیع الحق نے خود بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے شیخی بگھاری
کہ طالبان انہیں اپنا باپ تصور کرتے ہیں۔ انکے ہزاروں شاگرد یہاں سے تربیت
لیکر افغانستان میں جہاد میں حصہ لے رہے ہیں۔75 سالہ مولانا 1988سے اکوڑہ
خٹک میں قائم دارلعلوم حقانیہ کے سربراہ ہیں۔ طالبان کے روحانی مرشد نے
نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بیرونی دباو میں نہ ائیں تو
تمام مسائل کا حل ممکن ہے۔ قبل ازیں الیکشن سے پہلےanp نے ال پارٹیز
کانفرنس میں مولانا فضل الرحمن کے توسط سے طالبان کے ساتھ مفاہمتی و
مذاکراتی ڈائیلاگ کرنے کی کوششیں کی تھیں جو بار اور ثابت نہ ہوسکیں۔ سابق
وزیراعلی اکرم درانی نے زرائع ابلاغ پر واضح کیا کہ جو لوگ فاٹا میں لڑ رہے
ہیں انکی کنجی مولانا فضل الرحمن کے پاس ہے۔ نو دوگیارہ کے بعدپاکستان اور
امریکہ کی پارٹنر شپ پر نظر دوڑائیں تو انتہائی کرب کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے
کہ دس سالوں میں امریکہ نے درجنوں مرتبہ ہماری سلامتی نظریاتی سرحدوں کا
تقدس بار بار پامال کیا۔ امریکہ خود تو طالبان کے ساتھ مذاکرات کرتا ارہا
ہے تاہم جب کبھی پاکستان اور قبائلی عسکریت پسندوں کے مابین مذاکرات کا
اغاز ہوا یا فریقین کے مابین کوئی معاہدہ ہوا تو امریکی ایجنسیوں اوریہو و
ہنود نے اپنے ابلیسی ازہان کی مشرقانہ سازشوں کا جال اس طرح بنا کہ
مذاکراتی عمل کی ڈور ٹوٹ گئی اور معاہدے بھی صد بصحرا ثابت ہوئے۔نواز شریف
اور مولانا سمیع الحق کی کارفرمائیوں سے تحریک طالبان کے ساتھ مستقبل قریب
میں منعقد ہونے والا مذاکراتی عمل امریکی استبدادیت کا نشانہ بن گیا۔
امریکہ کے چند روز قبل شمالی وزیرستان میں داغے جانے والے ڈرون حملے میں
تحریک طالبان کے نائب امیر مولانا ولی الرحمن ہلاک ہوگئے۔وائس اف امریکہ کے
مطابق تحریک طالبان نے نہ صرف ولی الرحمن کی ہلاکت کی تصدیق کردی ہے بلکہ
طالبان نے نئی حکومت کو مذاکرات کی دی جانیوالی پیشکش بھی واپس لینے کا
اعلان کردیا۔تحریک کے ترجمان احسان اﷲ احسان نے بی بی سی کو بتایا کہ منگل
اور بدھ کی درمیانی شپ نائب امیر ولی الرحمن ڈرون شب خون میں ہلاک ہوگئے۔
ولی الرحمن نے ہی منتخب ہونے والی نواز حکومت کو مذاکرات کی پیشکش کی تھی۔
تحریک طالبان نے اپنے نائب امیر مولانا ولی الرحمن کی ہلاکت کا بدلہ لینے
کا اعلان کردیا ہے۔ احسان اﷲ احسان نے پاکستانی اداروں کے کردار کا زکر کیا
لیکن انہوں نے چند روز بعد انے والی نئی حکومت کا زکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک
ایسے ماحول میں جس میں طالبان لیڈرشپ کو نشانہ بنایا جاتا ہے حکومت کے ساتھ
کسی قسم کے مذاکرات کرنا طالبان کے لئے ناقابل قبول ہیں۔اس سال فروری میں
طالبان نے وڈیو پیغام میں دعوت دی تھی کہ اگر نواز شریف مولانا فضل الرحمن
اور جماعت اسلامی کے امیر منور حسن ضمانت دیں تو وہ مذاکراتی میز پر بیٹھنے
کو تیار ہیں۔نواز شریف نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کو
طالبان کی پیشکش کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے۔ہیوی مینڈیٹ کے فوری بعد
نواز شریف نے امن و امان کی خاطر طالبان کے ساتھ مل بیٹھنے کی ضرورت کو
لازم قرار دیا تھا۔ کالعدم تحریک طالبان کو 2009 میں بیت اﷲ محسود کی ڈرون
حملے میں ہلاکت کے بعد ولی الرحمن کی موت سے دوسرا بڑا دھچکہ لگا ہے۔بی بی
سی نے سوال اٹھایا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب اسلام اباد میں نئی منتخب
قیادت حکومت سازی کی جانب بڑھ رہی ہے تو پھر امریکہ کو ڈرون حملے کی ضرورت
کیوں ان پڑی؟ امریکہ کیوں القاعدہ کی بجائے پاکستانی طالبان کو نشانہ
بنارہا ہے؟ اسکا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ امریکی فورسز ن2014 میں کابل سے
راہ فرار اختیار کررہی ہیں۔امریکی فورسز ہر چھوٹے بڑے طالب کو ختم کرنے کے
لئے سرگرداں ہیں۔ مولانا ولی الرحمن کی ہلاکت سے نئی حکومت اور تحریک
طالبان کے مابین دوریاں پیدا ہو گئی ہیں۔نواز شریف اور عساکر پاکستان کو
ڈرون حملوں کے خلاف جرات مندانہ موقف اپنانا چاہیے۔امریکی عزائم کو کچلنے
کی خاطر پاکستان کی دینی پارلیمانی اور سیاسی قیادت کو سیسہ پلائی دیوار کا
کردار ادا کرنا ہوگا۔ طالبان کو دانش مندانہ رول ادا کرکے مذاکرات روک دینے
کے اعلان پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ پاک افغان خطے کو یہود و ہنود اور قابض و
قاتل امریکی اور ناٹو فورسز سے ازاد کروانے کی خاطر نئی حکومت اور طالبان
مذاکرات ناگزیر ہیں۔
|