ضبط و ترتیب:عابد محمود عزّام
خاندانی پسِ منظر
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے والد کا نام ابوسفیان بن حرب اور والدہ کا نام ہندہ
تھا۔ ظہور اسلام سے قبل ابوسفیان کا شمار روسائے عرب میں ہوتا تھا۔ فتح مکہ کے بعد
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عام معافی کا اعلان کیا تو ابوسفیان، ہندہ اور
ان کے تمام خاندان نے اسلام قبول کیا۔ ہجرت مدینہ سے تقریباً 15 برس پیشتر مکہ میں
آپ کی پیدائش ہوئی۔ اعلان نبوت کے وقت آپ کی عمر کوئی چار برس کے قریب تھی۔ جب
اسلام لائے تو زندگی کی 25 بہاریں دیکھ چکے تھے۔
فتح مکہ کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے
گھر کو بیت الامن قرار دیا اور ان کے بیٹے معاویہ رضی اللہ عنہ کو کاتب وحی مقرر
کیا۔ اس کے علاوہ بیرون ملک سے آئے ہوئے لوگوں اور ملاقاتیوں کی مہمان نوازی اور
دیکھ بھال کا کام بھی آپ رضی اللہ عنہ کے سپرد تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
نے آپ رضی اللہ عنہ کے بھائی یزید بن ابوسفیان کو شام کے محاذ پر بھیجا تو معاویہ
بھی ان کے ہمراہ تھے۔ عہد فاروقی میں دمشق کا حاکم مقرر کیا گیا۔ رومیوں کے خلاف
جنگوں میں سے قیساریہ کی جنگ آپ کی قیادت میں لڑی گئی، جس میں 80 ہزار رومی قتل
ہوئے تھے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے آپ کو دمشق،اردن اور فلسطین تینوں صوبوں کا والی
مقرر کیا اور اس پورے علاقہ کو شام کا نام دیا گیا۔آپ کا شمار عرب کے چار نامور
مدبرین میں ہوتا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کادور حکومت چوبیس سال پر محیط ہے۔ ان کا دور
حکومت ایک کامیاب دور تھا، ان کے زمانے میں کوئی علاقہ سطلنت اسلامیہ سے خارج نہیں
ہوا، بلکہ اسلامی سلطنت کا رقبہ وسیع تر ہوتا چلا گیا۔
اموی خلافت
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے اندوہناک واقعہ شہادت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ
کے ہاتھ پر بیعت خلافت ہوئی تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے (جو اس وقت ملک شام کے
امیر تھے) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے قاتلانِ عثمان سے قصاص لینے کامطالبہ کیا۔
اسلامی سلطنت کا اتحاد
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اہل کوفہ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی بیعت
کرلی، لیکن حضرت حسن رضی اللہ عنہ امت مسلمہ کو خونریزی سے بچانے کے لیے امیر
معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دست بردار ہوگئے۔ آپ کے اعلان دست برداری کے بعد
661ءمیں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کا اعلان کیا۔
استحکام سلطنت کے لیے اقدامات
خوارج کا مقابلہ
مخالفین بنو امیہ میں سب سے زیادہ منظم اور خطرناک گروہ خوارج کا تھا۔ امیر معاویہ
رضی اللہ عنہ کے تخت نشین ہونے کے فوراً بعد 661ءمیں ایک خارجی فسردہ بن نوفل نے
کوفہ کے قریب علم بغاوت بلند کیا۔ سرکاری افواج بھی ان سے شکست کھاگئیں۔ حضرت امیر
معاویہ رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں خوارج کی سرگرمیوں کے تدارک کے لیے حضرت مغیرہ بن
شعبہ رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا۔ مغیرہ رضی اللہ عنہ مسلسل ایک برس تک ان کے خلاف
برسرپیکار رہے۔ مغیرہ رضی اللہ عنہ کی زبردست کوششوں کے نتیجہ کے طور پر خوارج کو
دوبارہ سر اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی اور ان کے راہنما مارے گئے۔ کوفہ کے بعد خوارج کا
دوسرا مرکز بصرہ تھا۔ بصرہ کے خوارج کی سرکوبی کر کے تمام عراق میں امن و امان قائم
کر دیا۔
بغاوتوں کی روک تھام
661ءمیں بلخ ،بخارا ،ہرات اور بادغیس کے حکمرانوں نے اموی اقتدار کے خلاف بغاوت کر
دی۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں اطاعت قبول کرنے پر مجبور کردیا۔ 663ءمیں
کابل کے حکمران نے بغاوت کردی تو عبدالرحمن بن سمرہ اس بغاوت کو فرو کرنے پر مامور
ہوئے۔ انہوں نے بخارا سے لے کر غزنہ اور کابل تک کے تمام علاقے کو اموی احاطہ
اقتدار میں دوبارہ شامل کر لیا۔
سندھ پر حملہ
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں سندھ پر دو طرفہ حملہ کیا گیا۔ ایک مہم
مہلب کی کمان میں اور دوسری بلوچستان سے منذر کی زیر سرکردگی روانہ کی گئی۔ مہلب
کابل، قندھار، فتح کرتا ہوا سرزمین سندھ میں داخل ہوا۔ دوسری طرف منذر مکران کا
علاقہ فتح کرتا ہوا قلات کی طرف آگے بڑھا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے کئی ایک مہمات
روانہ کی گئیں، جو کامیاب ہو کر واپس لوٹیں۔
ترکستان کی فتوحات
اگرچہ عبیداللہ ابن زیاد کے زمانہ میں ترکستان کی فتح کے لیے کئی ایک کامیاب مہمات
روانہ کی گئی تھیں، لیکن سعید بن عثمان کی ولایت کوفہ کے زمانہ میں ترکستان پر
باقاعدہ لشکر کشی کی گئی۔ سعید دریا جیحوں پار کرکے اہل سغد کے پایہ تخت تک
جاپہنچے۔ ایک لاکھ بیس ہزار فوج مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے نکل پڑی۔ بخارا میں
دونوں افواج کے درمیان زبردست جنگ ہوئی اور ملکہ صلح کرنے پر مجبور ہوئی۔ بخارا پر
قبضہ کے بعد اسلامی لشکر نے سمرقند کا محاصرہ کر لیا۔ اہل سمرقند نے کچھ عرصہ تو
مزاحمت کی لیکن بالآخر سات لاکھ درہم سالانہ کے وعدہ پر صلح کر لی۔ سمرقند کے بعد
ترمذ کا علاقہ بھی فتح کر لیا گیا۔ اس طرح ترکستان کا بیشتر حصہ اموی سلطنت کا جزو
بنا۔
شمالی افریقہ کی فتوحات
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ان علاقائی فتوحات میں مزید توسیع کی
گئی۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ شمالی افریقا کے گورنر تھے۔ آپ نے عقبہ بن نافع
اور معاویہ بن خدیج کو شمالی افریقا کی فتح کے لیے نامزد کیا۔ 661ءمیں عقبہ نے
شمالی افریقا پر فوج کشی کرکے طرابلس، تونس اور الجزائر کے علاقوں پر قبضہ کر لیا
اور اس کے بعد بوزانہ اور زناطہ تک اپنے حلقہ اقتدار کو وسیع کیا۔ 663ءمیں سوڈان پر
لشکر کشی کی گئی اور اس کے کثیر حصہ پر قبضہ کر لیا گیا۔
قسطنطنیہ پر حملہ
رومی حملوں کی روک تھام کے لیے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بالآخر بازنطینی
حکومت کے دارالحکومت قسطنطنیہ کی تسخیر کا باقاعدہ منصوبہ بنایا۔ آپ کے اس منصوبہ
کی اطلاع جب مکہ و مدینہ تک پہنچی تو اکابر صحابہ نے بھی اس میں شمولیت کے لیے
آمادگی کا اظہار کیا۔ اس مہم میں ابوایوب انصاری، عبداللہ ابن عمر اور عبداللہ ابن
عباس، عبداللہ بن زبیر جیسے مقتدر صحابی بھی شریک ہوئے۔ فوج کی کمان امیر معاویہ
رضی اللہ عنہ کے بیٹے یزید کے ہاتھ میں تھی۔ محاصرہ کے دوران شہر کی بلند فصیل سے
مسلمانوں پر آگ کے گولے برسائے گئے جس کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت جانی نقصان اٹھانا
پڑا۔ یہ حملہ اگرچہ ناکام رہا، لیکن رومیوں پر اس قدر خوف طاری رہا کہ آئندہ کئی
برسوں تک انہوں نے مسلمانوں کے خلاف کوئی جارحانہ کاروائی نہ کی۔ اس محاصرہ کے
دوران مشہور صحابی ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ وفات پا گئے۔ مسلمانوں نے آپ کو شہر
کی فصیل کے نیچے لے جاکر دفن کر دیا۔
جزائر روڈس اور ارواڈ کی فتح
شامی علاقہ کے تحفظ کے نقطہ نظر سے جزائر روم کی فتح ضروری تھی۔ چنانچہ اس مقصد کی
خاطر اس سے پیشتر جزیرہ قبرص فتح کیا جا چکا تھا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے
اپنے زمانہ میں ایک قدم مزید آگے بڑھا کر جزیرہ روڈس پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد 54ھ
میں جزیرہ ارواڈ پر قبضہ ہوا۔
نظام حکومت اور انتظامی اصلاحات
جہاں تک نظم و نسق کا تعلق ہے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کی کافی حد
تک اصلاح کرکے حکومت کو استحکام بخشا اور فوجی اور دیگر اصلاحات سے ملک کو بیرونی
حملوں سے تحفظ دیا۔ ان کے نظام حکومت کا خاکہ درج ذیل ہے:
خلیفہ کے اختیارات میں اضافہ
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے انیس سالہ دور حکومت میں ملک سے بدامنی اور
خانہ جنگی دور کرکے ایک مضبوط حکومت قائم کی، جو داخلی انتشار اور خارجی حملوں کا
مقابلہ کر سکتی تھی۔ اس حکومت کی بنیاد خلیفہ کے وسیع اختیارات پر تھی۔ انہوں نے
مضبوط مرکزی حکومت قائم کی، جو خدا کے سوا کسی کے سامنے جوابدہ نہ تھی۔ مجلس شوریٰ
کا وجود قائم تھا اور اس میں عرب کے معروف مدبّر عمرو بن العاص، مغیرہ بن شعبہ،
زیاد بن ابی سفیان اور دیگر اکابرین امور سلطنت میں شامل تھے۔
صوبائی نظام
ملکی تقسیم اور صوبائی حد بندی کا نظام تقریباًً وہی رہا جو حضرت عمر فاروق رضی
اللہ عنہ کے زمانہ میں تھا۔ ہر صوبے کے لیے الگ گورنر تھا جسے والی کہتے تھے۔ حضرت
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں صوبوں میں مکمل امن و امان قائم رہا۔
فوجی نظام
بنو امیہ مکہ کے فوجی قائدین میں سے تھے۔ اس لیے عہد امیر معاویہ رضی اللہ عنہ میں
فوج کی تنظیم کی طرف خصوصی توجہ دی گئی۔ اس کا ڈھانچہ عہد فاروقی کے خطوط پر قائم
رہا۔ فوج کے دو حصے تھے جنہیں گرمائی اور سرمائی علی الترتیب صافیہ اور شاتیہ کہتے
تھے۔ فوج کی تنخواہ اور بھرتی کے نظام کی اور زیادہ اصلاح کی گئی۔ غیر ملکی حملہ
آوروں کے خلاف ملکی دفاع کے لیے نئی نئی چھاؤنیاں اور شہر آباد کیے گئے۔ دوران جنگ
تلواروں، تیروں اور دیگر رائج الوقت اسلحہ کے علاوہ، قلعہ شکن آلات کا عام استعمال
ہوتا تھا۔ جس کے ذریعہ بڑے بڑے قلعوں کی فصیلوں میں شگاف کر دیا جاتا تھا۔ امیر
معاویہ رضی اللہ عنہ نے فوج کی تنظیم اس طرح کی کہ ڈسپلن اور استعداد کے لحاظ سے یہ
دنیا کی صف اول کی افواج کی ہم پلہ بن گئی۔
بحریہ کی تشکیل
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا عظیم اور شاندار کارنامہ اسلامی بحریہ کی تشکیل
ہے۔ منصب خلافت سنبھالنے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے سب سے زیادہ توجہ بحریہ کی ترقی
پر صرف کی۔ عہد عثمانی میں 500 جنگی بحری جہاز موجود تھے، جن کے ذریعے قبرص کا
جزیرہ فتح ہوا تھا۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس بحری بیڑے کو مزید مستحکم بنایا
اور مصر و شام کے ساحلی مقامات پر جہاز سازی کے کارخانے قائم کیے گئے۔ بحری فوج کا
سپہ سالار علیحدہ مقرر کیا گیا۔ جسے امیرالبحر کہتے تھے۔ اس عہد میں خبادہ بن ابی
امیر اور عبداللہ بن قیس اس عہدہ پر فائز رہے۔
پولیس
ملک کے اندرونی نظام اور امن و امان کے قیام کے لیے محکمہ پولیس کو باقاعدہ منظم
کیا گیا۔ عراق میں بالخصوص پولیس کا بڑا زبردست انتظام تھا۔ شہر کوفہ میں 40 ہزار
پولیس کے سپاہی موجود تھے۔ ملک کے اندر ایک سرے سے دوسرے سرے تک مکمل امن و امان
تھا۔ مشتبہ لوگوں کے نام رجسٹر میں درج تھے۔
دیوان البرید
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے خبر رسانی اور ڈاک کی ترسیل کے لیے برید کے نام سے
مستقل محکمہ قائم کیا۔ اس کام کے لیے ہر منزل پر تازہ دم گھوڑے ہر وقت موجود رہتے،
جو ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ڈاک پہنچاتے اور اس طرح حکومت ملکی حالات سے
اچھی طرح باخبر رہتی۔
دیوان الخاتم
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے دیوان خاتم کے نام سے ایک محکمہ قائم کیا، جس کے ذمہ
تمام حکومتی محکموں کا ریکارڈ کی نقلیں رکھنا اور خطوط کو سربمہر کرکے متعلقین تک
پہنچانا تھا۔
نئے شہروں کی تعمیر
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فوجی ضروریات کی بنا پر نئی نئی چھاؤنیاں تعمیر
کیں اور برباد شدہ شہروں کو دوبارہ آباد کیا۔ واسط اور قیروان کی چھاؤنیاں بعد میں
بڑے بڑے شہروں کی شکل اختیار کر گئیں۔ ارواڈ کے جزیرہ میں مسلمانوں کو آباد کیا اسی
طرح انطاکیہ میں ایک مسلم نو آبادی قائم کی۔
رفاہ عامہ کے کام
زندگی میں کوئی شعبہ ایسا نہ تھا جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی اصلاحات سے متاثر
نہ ہوا ہو۔ خوشحالی اور زراعت کی ترقی کے لیے آبپاشی کے نظام کی طرف خصوصی توجہ دی
گئی۔ مدینہ کے قرب و جوار میں متعدد نہریں کھدوائی گئیں، جن سے اناج اور پھلوں کی
پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ نہر معقل جو بصرہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے
زمانہ میں کھودی گئی تھی، کو دوبارہ کھدوا کر آبپاشی کے قابل بنایا گیا۔ نئے شہروں
میں لوگوں کے دینی فرائض کی بجا آوری کے لیے مسجدیں تعمیر کی گئیں۔
غیر مسلموں سے حسن سلوک
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں غیر مسلموں کے ساتھ برتاؤ کے لیے کچھ
طریقے مقرر کیے گئے تھے، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں بدستور جاری رکھا۔ تمام
وعدے جو ان سے کیے جاتے ان کو پورا کیا جاتا۔ ان کی جان و مال عزت و آبرو محفوظ
تھی۔ انہیں عبادت اور اجتماع کی آزادی تھی۔
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکمت عملی
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شخصیت مجموعہ صفات تھی۔ عربی سوانحی اور تاریخی
ادب میں شاید ہی کوئی کتاب ایسی ہو جس میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی نرمی، ضبط
اور تحمل کی صفات کو خراج عقیدت پیش نہ کیا گیا ہو۔ ان کی حکمت عملی کی سب سے
نمایاں خصوصیت حلم تھی۔ ان کا یہ وصف تاریخی مسلمات میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ بے جا
و بے وقت سختی کے قائل نہ تھے۔ مخالفین اور معترضین کی نکتہ چینی کا خندہ پیشانی سے
جواب دیتے۔ اس معاملہ میں انہوں نے اپنے طرز عمل کی یوں وضاحت کی ہے:
”جہاں میرا کوڑا کام کرتا ہے، وہاں میں تلوار کام میں نہیں لاتا اور جہاں زبان کام
دیتی ہے، وہاں کوڑا کام میں نہیں لاتا۔ اگر میرے اور لوگوں کے درمیان بال برابر بھی
رشتہ قائم ہو تو میں اس کو نہیں توڑتا۔ جب لوگ اس کو کھینچتے ہیں تو میں ڈھیل دے
دیتا ہوں اور جب وہ ڈھیل دیتے ہیں تو میں کھینچ لیتا ہوں۔“
انہوں نے مختلف عرب قبائل مثلاً یمنی اور عدنانیوں میں اس طرح توازن قائم رکھا کہ
ان کی قبائلی عصبیتیں دبی رہیں اور انہیں دونوں قبیلوں کا عملی تعاون حاصل رہا۔ اس
سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ایک مدبر حکمران اور دوراندیش سیاستدان تھے۔
سیرت و کردار
حضرت امیر معاویہ کا شمار اپنے زمانہ کے پانچ بڑے سیاستدانوں میں کیا جاتا ہے۔ ایک
بار انہوں نے خود کہا کہ میں نے بہ نسبت زیاد کی تلوار کے اپنی زبان سے کہیں زیادہ
ہمنوا اور حامی پیدا کیے۔ ان میں لوگوں کو متاثر کرنے کی بے پناہ صلاحیتیں موجود
تھیں۔ اگرچہ وہ خلفائے راشدین کی خصوصیات کے حامل نہ تھے لیکن وہ ایک اعلی درجہ کے
حکمران ضرور تھے۔ تدبر و رائے اور سیاست دانی میں روسائے عرب میں سے کوئی بھی ان کا
ہم پلہ نہ تھا۔ فصاحت و بلاغت میں بھی وہ یکتا تھے۔ اس کے علاوہ وہ ایک بہترین خطیب
بھی تھے۔ خوردونوش، رہائش، لباس اور عادات و اطوار میں شاہانہ طرز زندگی گزارتے
تھے۔ درباریوں، شاعروں، دوستوں اور حاجت مندوں خواہ وہ دشمن ہی کیوں نہ ہو خسروانہ
عنایات سے نوازتے۔ رعایا کے کمزور سے کمزور اور غریب سے غریب آدمی کے حالات سے
باخبر رہتے تھے۔ مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کی شکایات سنتے اور وہیں ان کی تکالیف کا
ازالہ کا حکم صادر فرماتے۔ اہل دربار پر بھی یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ وہ لوگ جو
ان تک نہیں پہنچ سکتے ان کی ضروریات کو امیر تک پہنچانا ان کا ذمہ ہے۔
ایک فوجی ماہر کی حیثیت سے ان کا مقام بہت بلند تھا۔ رومیوں کے خلاف کامیاب فتوحات
ان کی اس صفت کی شاہد ہیں۔ سب سے بڑھ کر جو چیز ان کو ہمعصر حکمرانوں سے ممتاز اور
نمایاں کرتی ہے وہ ان کی سیاست دانی، معاملہ فہمی اور تدبر ہے۔ آپ کی سیاست ہمیشہ
کامیاب رہی ان ہی اوصاف اور کارہائے نمایاں کی بدولت انہوں نے ایک مضبوط اموی حکومت
کی بنیاد رکھی۔
یزید کی جانشینی
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے 50 ھ میں پہلی بار امیر معاویہ رضی اللہ عنہکے سامنے
یزید کو ولی عہد مقرر کرنے کی تجویز پیش کی اور کہا کہ:
”عثمان کی شہادت کے بعد سے مسلمانوں میں جو اختلاف اور خونریزی قائم ہوئی ہے وہ آپ
کی نگاہوں کے سامنے ہے۔ اس لیے میری رائے میں یزید کی ولی عہدی کی بیعت لے کر اسے
جانشین بنا دینا چاہیے، تاکہ جب آپ کا وقت آخر آئے تو مسلمانوں کے لیے ایک سہارا
اور جانشین موجود ہو اور ان میں خونریزی اور فتنہ و فساد پیدا نہ ہو۔“
وفات
22رجب المرجب 60ھ میں کاتب وحی، جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،
فاتح شام و قبرص اور 19سال تک 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے والے حضرت امیر
معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ 78 سال کی عمر میں دمشق میں فوت ہوئے اور وہیں دفن
ہوئے۔ رضی اللہ عنہ و ارضاہ۔ آپ نے تجہیز و تکفین کے بارے میں وصیت کی کہ رسول اللہ
کے کرتہ مبارک کا کفن پہنایا جائے اور آپ کے ناخن مبارک اور موئے مبارک کو منہ اور
آنکھوں پر رکھ دیا جائے۔
حضر ت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی نمایاں خصوصیات
حضر ت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وہ خوش نصیب انسان ہیں جن کو جلیل القدر
صحابی ہونے کے ساتھ کاتب وحی اور پہلے اسلامی بحری بیڑے کے امیر ہونے کا اعزاز بھی
حاصل ہے اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے
کئی دفعہ دعائیں اور بشارتیں نکلیں۔ آپ رضی تعالی عنہ کی بہن حضرت سیدہ ام حبیبہ
رضی اللہ تعالی عنہا کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ اور ام
المومنین ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔
آ پ نے 19 سال تک 64 لاکھ مربع میل یعنی آدھی دنیا پر حکومت کی۔ تاریخ اسلام کے
روشن اوراق آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے کردار و کارناموں اور فضائل ومناقب سے بھرے
پڑے ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں
حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل جاتا ہے۔
حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا کہ ”اللہ تعالی قیامت کے دن معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو اس طرح اٹھائیں گے
کہ ان پر نور ایمان کی چادر ہو گی''کنزالاعمال'' ایک موقع پر حضرت امیر معاویہ رضی
اللہ تعالی عنہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”اے اللہ
معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ہدایت دینے والا، ہدایت پر قا ئم رہنے والا اور لوگوں
کے لیے ذریعہ ہدایت بنا۔“ ( جا مع ترمذی)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا کہ ”معاویہ رضی اللہ
تعالی عنہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہ میری امت میں سب سے زیادہ بردبار اور
سخی ہیں۔“ (تطہیرالجنان)۔ حضرت امیر معاویہ رضی تعالی عنہ سروقد، لحیم وشحیم، رنگ
گورا، چہرہ کتابی،آنکھیں موٹی گھنی داڑھی، وضع قطع، چال ڈھال میں بظاہر شان وشوکت
اورتمکنت، مگر مزاج اور طبیعت میں زہد و تواضع، فرونتی، حلم برد باری اور چہرہ سے
ذہانت اور فطانت مترشح تھی۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جب اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو
حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مبارکبا د دی اور ''مرحبا۔۔۔۔۔۔'' فرمایا
''(البدایہ والنہایہ)'' حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چوں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ
تعالی عنہ کے سابقہ حالات زندگی اور ان کی صلاحیت و قابلیت سے آگاہ تھے اس لیے
انہیں خا ص قرب سے نوازا۔ فتح مکہ کے بعد آپ رضی اللہ تعالی عنہ حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے ساتھ ہی رہے اور تمام غزوات میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت
و معیت میں بھرپور حصہ لیا۔
قرآن مجید کی حفاظت میں ایک اہم سبب ''کتابت وحی'' ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین پر مشتمل ایک جماعت مقرر
کر رکھی تھی جو کہ '' کاتب وحی '' تھے ان میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا
چھٹا نمبر تھا۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ ”حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو کا تب وحی بنایا تھا اورآپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کو کاتب وحی بناتے تھے جو ذی عدالت اور امانت دار ہوتا
تھا۔“ (ازالتہ الخفا ازشاہ ولی اللہ)
حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وہ خوش قسمت انسان ہیں جن کو کتابت وحی کے ساتھ
ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطوط تحر یر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔
علامہ اکبر نجیب آبادی'' تاریخ اسلام'' میں رقمطراز ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے اپنے باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کی خاطر مدرات اور ان کے قیام وطعام کا
انتظام واہتمام بھی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد کر دیا تھا۔ حضورصلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد خلیفہ اوّل سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کے دور میں آپ نے مانعین زکوة، منکرین ختم نبوت، جھوٹے مدعیان نبوت اور
مرتدین کے فتنوں کے خلاف بھرپور حصہ لیا اور کئی کارنامے سر انجام دیے۔
خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں جو فتوحات
ہوئیں اس میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا نمایاں حصہ اور کردار ہے۔ جنگ یرموک
میں آپ بڑی بہادری اور دلیری کے ساتھ لڑے، غرضیکہ آپ کا پورا خاندان جنگ میں حصہ لے
رہا تھا۔
خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں سیدنا حضرت
امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جہاد وفتوحات میں مصروف رہے اور آپ نے رومیوں کو
شکست فاش دیتے ہوئے طرابلس، الشام، عموریہ، شمشاط، ملطیہ، انطاکیہ، طرطوس، ارواڑ،
روڈس اور صقلیہ کو حدود نصرانیت سے نکال کر اسلامی سلطنت میں داخل کردیے۔ 28ہجری
میں آپ پوری شان وشوکت، تیاری وطاقت اور اسلامی تاریخ کے پہلے بحری بیڑے کے ساتھ
بحر روم میں اترے، لیکن وہاں کے باشندوں نے مسلمانوں کے ساتھ صلح کرلی۔ لیکن بعد
میں مسلمانوں کو تنگ کرنے اور بدعہدی کرنے پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
پوری بحری طاقت اور عظیم الشان بحری بیڑے کے ساتھ، جس میں تقریباً پانچ سو کے قریب
بحری جہاز شامل تھے قبرص کی طرف روانہ ہوئے اور بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے قبرص کو
فتح کرلیا۔ اس لشکر کے امیروقائد خود امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے آپ کی
قیادت میں اس پہلی بحری لڑائی اور فتح قبرص کے لیے بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام
رضوان اللہ تعالیٰ علیم اجمعین جن میں حضرت ابو ایوب انصاری، حضرت ابوذرغفاری، حضرت
ابودردائ، حضرت عبادہ بن صامت اور حضرت شداد بن اوس سمیت دیگر صحابہ کرام رضوان
اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین شریک ہوئے۔ اس لڑائی میں رومیوں نے بھی بڑے جوش وخروش سے
حصہ لیا، تجربہ کار رومی فوجوں اور بحری لڑائی کے ماہر ہونے کے باوجود اس لڑائی میں
رومیوں کو بد ترین شکست ہوئی اور مسلمانوں کو تاریخی فتح حاصل ہوئی۔
اس جنگ میں حصہ لینے کے لیے شوق شہادت اور جذبہ جہاد سے سرشار صحابہ کرام رضوان
اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین وتابعین دنیا کے گوشہ گوشہ سے دمشق پہنچے، ان میں حضرت
عبداللہ بن عباس، حضرت ابن عمر، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت سیدنا حسین بن علی اور
میزبان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا حضرت ابو ایوب انصاری رضوان اللہ تعالیٰ
علیہم اجمعین اور دیگر مدینہ منورہ سے تشریف لاکر اس لشکر میں شریک ہوئے۔ سیدنا
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور حکومت فتوحات اور غلبہ اسلام کے حوالہ
سے شاندار دور حکومت ہے۔آپ نے خلفائے راشد ین کے تر قیاتی کاموں کو جاری رکھتے ہوئے
اس میں مندرجہ ذیل نئے امور کی داغ بیل ڈال کر اس کو فروغ دیا۔
1۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلا اقامتی ہسپتال دمشق میں
قائم کیا۔
2۔سب سے پہلے اسلامی بحریہ قائم کیا، جہاز سازی کے کارخانے بنائے اور دنیا کی
زبردست رومن بحریہ کو شکست دی۔
3۔آب پاشی اور آب نوشی کے لیے دور اسلامی میں پہلی نہرکھدوائی۔
4۔ ڈاکخانہ کی تنظیم نو کی اور ڈاک کا جدید اور مضبوط نظام قائم کیا۔
5۔ حکومتی احکام پر مہر لگانے اور ہر حکم کی نقل دفتر میں محفوظ رکھنے کا طریقہ
ایجاد کیا۔
6۔ آپ رضی اللہ عنہ سے پہلے خانہ کعبہ پر غلافوں کے اوپر ہی غلاف چڑھائے جاتے تھے،
آپ نے پرانے غلافوں کو اتار کر ہر بار نیا غلاف چڑھانے کا حکم دیا۔
7۔ خط دیوانی ایجاد کیا اور قوم کو الفاظ کی صورت میں لکھنے کا طریقہ پیدا کیا۔
8۔ انتظامیہ کو بلند تر بنایا اور انتظامیہ کو عدلیہ میں مداخلت سے روک دیا۔
9۔ آپ نے دین اخلاق اور قانون کی طرح طب اور علم الجراحت کی تعلیم کا انتظام بھی
کیا۔
10۔ آپ نے بیت المال سے تجارتی قرضے بغیر اشتراک نفع یا سود کے جاری کرکے تجارت
وصنعت کو فروغ دیا اور بین الاقوامی معاہدے کیے۔
11۔ سرحدوں کی حفاظت کے لیے قدیم قلعوں کی مرمت کر کے اور چند نئے قلعے تعمیر کرا
کر ان میں مستقل فوجیں متعین کیں۔
12۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں ہی سب سے پہلے منجنیق کا
استعمال کیا گیا۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آئینہ اخلا ق میں اخلاص، علم وفضل، فقہ
واجتہاد، تقریر وخطابت، غریب پروری، خدمت خلق، مہمان نوازی، مخالفین کے ساتھ حسن
سلوک، فیاضی وسخاوت، اور خوف الہٰی کا عکس نمایاں نظر آتا ہے۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت اور اجماع امت
ربیع الاول 41 ھ، نہر ”دجیل“ کے کنارے واقع موضع ”مسکن“ میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ
نے سیدنا امےر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت سے دستبرداری کا اعلان
کیا۔تاریخ ابن کثیرؒ میں ہے:
”حضرت علی رضی اللہ عنہ کا وقت رحلت قریب تھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن رضی
اللہ عنہ کو وصیت کی: بیٹا معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت قبول کرنے سے انکار نہ
کرنا، ورنہ باہم کشت و خونریزی دیکھو گے۔“ (تاریخ ابن کثیر ج 8 ص 13، ازالة
الخلفاء283، ابن الحدید شیعی ج 2 ص 836)
چناں چہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے والد کی نصیحت پر عمل کیا۔ جب شیعان علی رضی
اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے لڑنے کے لیے زور دیا تو حضرت حسن رضی اللہ
عنہ نے ان سے فرمایا: ”میرے والد مجھ سے فرماچکے ہیں، معاویہ رضی اللہ عنہ ایک دن
خلیفہ ہوکر رہیں گے۔ خواہ ہم کتنی ہی بڑی فوج لے کر ان کے مقابلے میں نکلیں پر یہ
غالب رہیں گے کیوں کہ منشاءخداوندی کو ٹالا نہیں جاسکتا۔
خلیفہ کا پہلا کام
مسند خلافت پر جلوہ افروز ہونے کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے علماءو
اشراف کی مدد سے ایک مجلس شوریٰ بنائی۔ پہلی مجلس میں بغاوتوں پر تبادلہ خیال ہوا
اور یہ طے پایا کہ سب سے پہلا قدم خارجیوں کے خلاف اٹھایا جائے گا کیوں کہ وہ کھلم
کھلا آمادہ بغاوت تھے۔ حضرت مغیرہ بن شیبہ رضی اللہ عنہ اور اپنے بھائی زیاد بن ابی
سفیان رضی اللہ عنہ کی مدد سے آپ رضی اللہ عنہ نے ایک سال کے اندر اندر خارجیوں کا
صفایا کردیا۔ خارجیوں سے لڑائی کے دوران سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے قاتلین
عثمانؓ کو بھی چن چن کر قتل کیا۔ 41ءکے آخر میں بلخ، ہراتاور بادغین کی بغاوتیں بھی
کچلی گئیں۔ 42 ہجری میں جب کابل میں بغاوت اٹھی تو حضرت عبداللہ بن عامر اموی رضی
اللہ عنہ کو روانہ کیا گیا جنہوں نے دشمن کا قلع قمع کردیا۔
اوصاف و کمالات
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مکارم اخلاق کے پیکر تھے اور کیوں نہ ہوتے جب کہ
زبان رسالت نے ان کو مہدی کے لقب سے یاد فرمایا تھا۔ مشہور تابعی بزرگ حضرت قتادہ
رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لوگ اگر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اخلاق و افعال کو
دیکھتے تو بے ساختہ کہہ اٹھتے ”کہ مہدی یہی ہیں، ہادی یہی ہیں۔“ آپ رضی اللہ عنہ کے
محاسن و اخلاق پر تبصرہ کرتے ہوئے عرب نقاد ذکریا نصولی نے لکھا ہے: ”معاویہ رضی
اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معتمد، بڑے ثقہ، ذکی اور عمدہ اخلاق والے
صحابی تھے۔ اسی رتبہ عظیم کی بناءپر وہ اسلام کے بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ اٹھتے
بیٹھتے تھے۔ یہ بے غبار حقیقت ہے کہ تاریخ اسلام میں آپؓ درخشاں شخصیت کے مالک تھے۔
انہوں نے حکومتوں کو ترتیب دی، امتوں کی قیادت اور ملک کی نگہبانی کی۔ ان تمام
باتوں کے باوجود مورخین عرب نے ان کو ان کا صحیح مقام نہیں دیا جس کے وہ مستحق تھے۔
(امیر معاویہ رضی اللہ عنہ، ص 64 از نصولی)۔
زہد و تقویٰ
صاحب اعلام الاسلام لکھتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت امیر معاویہ
رضی اللہ عنہ کی ایمانداری اور ان کے زہد و تقویٰ سے واقف تھے۔ اس لیے ان کی بڑی
قدر کرتے تھے اورکیوں نہ کرتے جب کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا ظاہر و باطن دونوں
یکساں تھے۔ جیسا کہ حضرت قصبیہ بن جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں معاویہ رضی
اللہ عنہ کے ساتھ رہا ہوں، ان کے ساتھ اٹھا بیٹھا ہوں، ان سے بہتر محبوبِ رفیق کسی
کو نہیں پایا اور نہ ظاہر و باطن میں یکساں کسی کو دیکھا۔ (موطا امام، مالک ص 181)
عبادت و ریاضت
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی عبادت و بندگی کا حال پوچھنا ہو تو حضرت عبداللہ
بن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھو، وہ فرماتے ہیں کہ ”معاویہ کی برائی نہ کرو، میں نے
اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ راتوں کو اٹھ کر اللہ کے حضور اپنی پیشانی رگڑتے
ہیں۔“ (ترمذی، ابواب الزہد)۔
حضرت ابو درداءرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”میں نے کسی شخص کی نماز حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کے مشابہ نہیں دیکھی، سوائے معاویہ ابن سفیان کے۔“ (قاموس الاصفام ج 2 ص
142)۔ (المتقی ص 289، تطہیر الجنان ص 42)
خشیتِ الٰہی اور خوفِ آخرت
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ خدا کے خوف اور آخرت کے ڈر سے ہر وقت لرزہ براندام رہتے
تھے۔ بسااوقات روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتی تھیں۔ ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہوجاتی
تھی۔ ترمذی شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حشر و نشر اور
روز آخرت کی باز پرس پر ایک حدیث سنائی۔ جس کا اثر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دل
پر ایسا ہوا کہ وہ زار و قطار رونے لگے۔ ہچکیاں بندھ گئیں، آنسوو ¿کی جھڑی لگ گئی۔
یہاں تک کہ سامعین بھی روپڑے اور سب کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ کچھ دیر کے بعد جب سکون
ہوا تو حضرت امیررضی اللہ عنہ نے قرآن پاک کی آیت تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے:
”جو شخص دنیا اور اس کے ساز و سامان کو چاہتا ہے تو ہم اس کے اعمال کا بدلہ دنیا
میں دے دیتے ہیں اور اس کا کچھ نقصان نہیں ہوتا۔ لیکن آخرت میں ان کا حصہ آگ کے سوا
کچھ نہیں رہ جاتا اور انہوں نے جو کیا وہ برباد ہوجاتا ہے اور جو کام کیے تھے وہ
بیکار ہوجاتے ہیں۔“ (ترمذی، ابواب الزہد)
قرآن سے شغف
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو قرآن پاک سے گہرا لگاﺅ تھا اور کیوں نہ ہوتا جب کہ عہد
رسالت میں آپ رضی اللہ عنہ کا زیادہ تر وقت قرآن حکیم کی کتابت میں صرف ہوا کرتا
تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے کہ ”خدایا! معاویہ کو
قرآن کا علم عطا فرما“ (البدایہ ج 8 ص 140)۔ یہ دعا بارگاہ خداوندی میں قبول ہوئی
اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے قرآن پاک کی کتابت کے لیے جبرائیل امین تشریف لائے
اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم معاویہ کی خدمات
حاصل کریں کہ وہ قرآن کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ (تطہیر الجنان)۔
عمل باالحدیث اور اتباعِ سنت
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ عامل بالحدیث اور پابند سنت تھے اور لوگوں کو بھی یہی
تعلیم دیتے تھے۔ چناں چہ ایک صحابی عبدالرحمن بن سبیل رضی اللہ عنہ کو اس کام پر
مقرر فرمایا تھا کہ وہ لوگوں کو حدیث کی تعلیم دیں اور جب میرے پاس آئیں تو وہ حدیث
مجھے بھی سنائیں۔ (البدایہ والنہایہ ج 8 ص 144)
اسی طرح ایک بار حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ بن شیبہ کو لکھا کہ آپ نے نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کی زبان سے جو کچھ سنا ہے اس سے مجھے مطلع فرمائیں ،تو انہوں نے
لکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فضول خرچی اور سوال کی کثرت سے منع فرمایا
ہے۔ یہ شغف تھا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا حدیث کے ساتھ کہ آپ رضی اللہ عنہ
دوسروں سے حدیثیں پوچھتے، پھر اس پر عمل کرتے اور دوسروں کو بھی عمل کی تعلیم دیتے۔
ایک بار بعض روسا کو دیکھا کہ وہ چیتے کی کھال پر بیٹھے ہیں تو فرمایا کہ حضور صلی
اللہ علیہ وسلم نے چیتے کی کھال پر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔ (بخاری شریف)
حلم و برد باری
ہمیں آپ رضی اللہ عنہ کے اعمال و افعال میں حلم و کرم اور بردباری کے اوصاف نہایت
ممتاز نظر آتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں۔ معاویة حلم امتی
”میری امت میں معاویہ بڑی حلیم و کریم ہیں۔“ ایک موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ
عنہ نے فرمایا : ”معاویہ کی عیب جوئی سے مجھے باز رکھو، وہ ایسا حلیم و بردبار شخص
ہے کہ غصے کے عالم میں بھی ہنستا رہتا ہے۔“ (ازالة الخفاءج 2 ص 75، اعلام الاسلام ص
229)
خود معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے متعلق فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک غصہ پی جانے سے کوئی
چیز لذیذ نہیں۔ یہ بھی فرماتے کہ مجھے شرم آتی ہے کہ کسی کا گناہ کا میرے وصف حلم
سے بڑھ جائے۔
سخاوت و فیاضی
لبنان کا مورخ ابو عمر النصر لکھتا ہے کہ سخاوت و فیاضی میں آپ رضی اللہ عنہ کا ہم
پلہ کوئی نہ تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے خزانے کے دروازے دشمنوں اور دوستوں دونوں کے
لیے یکساں طور پر کھلے رہتے۔ دادو دہش اور انعام و اکرام کے ذریعے آپ لوگوں کے دل
جیت لیتے اور اس کے ذریعے بغاوتوں کو دور کرنے اور لوگوں کو مملکت کا فرماں بردار
بنانے میں مدد لیتے۔ (معاویہؓ بن ابی سفیانؓ ص 157)
سادگی و انکساری
شروع شروع میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بڑی شان کے ساتھ رہتے۔ دروازے پر دربان
ہوتا۔ زرق لباس پہنتے اور شاندار گھوڑے پر سواری کرتے لیکن یہ سب کچھ عزت نفس کے
لیے نہ تھا، رومیوں کو مرعوب کرنے کے لیے تھا۔ چناں چہ آپ رضی اللہ عنہ کی بعد کی
زندگی، جب آپ رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے، فقیر کی تمکنت اور امیر کی مسکنت کا نمونہ
نظر آتی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ عوام کی جھڑمٹ میں بیٹھتے اور ان کی فریادیں سنتے۔
دسترخوان پر امیر غریب سب یکساں طور پر شامل ہوتے اور آپ رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ
کھانا تناول فرماتے۔( النحری ص 940، مروج الذہب ج 4 ص 423)
معمولی خچر پر سواری کرتے اور پھٹا ہوا کپڑا پہنتے، بازاروں میں گھومتے۔ امام
اوزاعیؒ کے شیخ امام یونس بن میرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے امیر معاویہ
رضی اللہ عنہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ خچر پر سوار تھے اور ان کا غلام ان کے
پیچھے بیٹھا ہوا تھا اور اس وقت ان کے جسم پر جو کرتا تھا اس کا گریبان پھٹا ہوا
تھا۔ (کتاب الزہد امام ا حجر بن حنبل)
فہم و تدبر
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ گوناگوں صفات کے حامل تھے۔ اعلیٰ درجہ کے سیاست دان اور
بہترین مدبر۔ آپ رضی اللہ عنہ کی ذہانت و فراست کی تعریف خود نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے کی تھی اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کو مخاطب
کرکے فرمایا تھا کہ تم لوگ معاویہ کو اپنے مشوروں میں شریک کرلیا کرو۔ اپنے معاملوں
میں ان کو گواہ بنالیا کرو، وہ قوی امین مضبوط امانت دار ہیں اس کے بعد خود ایک
معاملہ پر ان سے مشورہ لیا اور ان کی ذہانت کی تعریف کی (ذکر ابن حجر وقال رجالہ
ثقات مع اختلان فی البعض)۔ (تاریخ الخلفاءص 228) |