گجرات کے علاقے منگووال میں
پڑھنے والے بچوں کو والدین نے ہفتہ کی صبح تیار کرایا ۔ ناشتہ کرایا ان کو
وردیاں پہنائیں۔ اس امید کے ساتھ ان کو سکول وین میں بٹھا کر سکول بھیج دیا۔
کہ ان کے یہ پھول سے بچے سکول میں آج کے دن کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد
دوپہر کو گھر واپس آجائیں گے۔ تاہم کسی بھی بچے کے والدین نے وہم و گمان
میں بھی نہ تھا کہ ان کا بچہ اب گھر میں زندہ واپس نہیں آئے گا۔ اگر کسی
ماں کو اس کا پہلے سے علم ہوتا تو وہ اپنے بچے کو کسی بھی صورت میں اس وین
میں سکول نہ جانے دیتی۔ساڑھے سات بجے کے قریب وین نے بچوں کو گھروں سے لیا۔
اور سرگودھا روڈ پر جناح پبلک سکول منگووال کی طرف روانہ ہوگئی۔ ابھی وہ
سکول سے ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر تھی کہ وین میں موجود بچوں نے ڈرائیور کی
توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ انکل گاڑی سے بد بو آرہی ہے۔ مگر ڈرائیور نے
بچوں کو جھڑک دیا اور کہا آرام سے بیٹھو ورنہ اتار دیا جائے گا۔ بچے خاموش
ہوگئے اسی اثناء میں سلنڈر کا سرکٹ شارٹ ہوا اورگیس کو آگ لگ گئی۔ جس کے
نتیجے میں سلنڈر دھماکے سے پھٹ گیا۔ اوردیکھتے ہی دیکھتے آگ نے وین کو اپنی
لپیٹ میں ن لے لیا۔ اس وین میں سوار پانچ سال سے آٹھ سال کے بچے جل کر
کوئلہ بن گئے۔ بچے مدد کیلئے پکار رہے تھے مگر آگ کے شعلوں کی وجہ سے کوئی
بھی ان کے نزدیک نہ جا سکا۔ ڈرائیور فرار ہوگیا۔ وین میں موجود ایک خاتون
ٹیچر اور بیس بچے جاں بحق ہوگئے۔ یہ بچے آپس میں رشتہ دار تھے اور ان میں
ایک ہی گھر کے دو بھائی اور ایک اور گھر کے دو بھائی اور ایک بہن شامل ہے۔
ایک کمسن بچی کی ماں نے بتایا کہ اس کی بیٹی آج سکول نہ جانے کی ضد کررہی
تھی اس کو زبردستی سکول بھیجا ۔ اور وہ ہمیشہ کیلئے جدا ہوگئی۔ معلوم ہوا
ہے کہ ڈرائیور نے سکول کے جنریٹر کیلئے ایک گیلن میں پٹرول بھی رکھا ہوا
تھا۔ گجرات کے عزیز بھٹی ہسپتال میں المناک منظر تھا ۔ واقعہ کی اطلاع ملتے
ہی شہریوں کی بڑی تعداد ، ڈی پی او گجرات، سیشن جج گجرات اور پولیس موقع پر
پہنچ گئی۔ تمام آنکھیں اشکبار تھیں۔ کمسن بچوں کے والدین دھاڑیں مار مار کر
رو رہے تھے۔ کوئی کہہ رہا تھا اس کے چار بچے مر گئے ہیں کوئی کہہ رہا تھا
اس کا اکلوتا بیٹا جدائی کا غم دے گیا ہے۔ نعشیں اس قدر ناقابل شناخت تھیں
کہ ان کے قد کاٹھ کے حوالے سے ان کے والدین کے حوالے کیا گیا۔ کہا گیا ہے
گجرات میں ویگن میں گیس سلنڈر پھٹنے کا یہ چوتھا واقعہ ہے ہر واقعہ کے بعد
ضلعی انتظامیہ اور حکومت کی طرف سے اعلان کیا جاتا ہے کہ مسافر ویگنوں میں
سلنڈر رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اب تو ہر ویگن میں سلنڈر ہے۔ اس
سانحہ میں خاتون سکول ٹیچر نے بہادری سے کام لیا کہ اگر چہ اس کے کپڑوں کو
آگ نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا ۔ اس نے بچوں کو جلتی ہوئی وین سے باہر
پھینکا یوں جو بچے زخمی ہوئے ہیں وہ زندہ بچ گئے۔ حکومت نے پبلک ٹرانسپورٹ
میں پٹرول کا استعمال کم کرنے کیلئے سی این جی کو فروٖغ دیا۔ ٹرانسپورٹ
مالکان نے پٹرول مہنگا ہونے اور آئے روز شارٹ ہونے کی وجہ سے اپنی گاڑیوں
کو سی این جی پر کرا لیا۔ شروع میں سی این جی کی قیمت پٹرول اور ڈیزل سے کم
تھی۔ پھر ان دونوں کی قیمتوں کو برابر لا یا گیا سپریم کورٹ نے نوٹس لیا تو
قیمتیں پھر کم کی گئیں۔ سرمایہ بچانے کیلئے گاڑیوں کو سی این جی پر کرایا
گیا۔ اس سے سرمایہ تو وقتی طور پر بچ گیا مگر گاڑیاں اور انسانی جانیں غیر
محفوظ ہو گئیں۔ صرف گجرات کے علاقے منگووال کے سکول کی وین ہی اس حادثہ کا
شکار نہیں ہوئی اس سے پہلے بھی درجنوں مسافر ویگنوں اور دیگر ٹرانسپورٹ میں
گیس سلنڈر دھماکے ہو چکے ہیں جن میں سینکڑوں مسافر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو
چکے ہیں۔ مسافر گاڑیوں میں سی این جی گیس سلنڈر چلتے پھرتے بم ہیں۔ سکولوں
کے بچے ہوں یا دوسرے مسافر ان حادثوں سے زیادہ تر غریب یا ملازم پیشہ افراد
ہی متاثر ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان مسافر گاڑیوں میں سکول جانے والے بھی وہی بچے
سفر کرتے ہیں جن کے والدین غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں
عام مسافر بھی وہی سفر کرتے ہیں جو غریب اور کم آمدنی والے ہوتے ہیں۔
سرکاری ملازمین اور کاروباری افراد بھی وہی سفر کرتے ہں۔ جن کی تنخواہیں کم
ہوتی ہیں۔ اور جن کی آدنی محدود ہوتی ہیں۔ امیر خود بھی اپنی گاڑیوں میں
سفر کرتے ہیں اور ان کے بچے بھی اپنی گاڑیوں میں سکول جاتے ہیں۔ اوگر
قوانین کے مطابق ہر پانچ سال بعد گیس سلنڈر کا فٹنس سرٹیفکیٹ حاصل کرنا
لازمی ہے۔ اکثر گاڑیوں میں پرانے سلنڈر رکھے ہوئے ہیں۔ زنگ آلود سلنڈر رکھے
ہوئے ہیں۔ ان سے لیکج معمول بن چکا ہے۔ پانچ سے چھ سال پرانی گاڑیوں میں
لگے سی این جی سیلنڈر موسمی حالات اور دھلائی کے باعث زنگ آلود ہو گئے ۔
گیس پریشر برداشت نہیں کرسکتے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق سی این جی اور ایل
پی جی سیلنڈر کئی پرانی گا ڑیوں میں پچاس فیصد تک ناکارہ ہوچکے ہیں۔ یہ
رپورٹ ملتان سے تھی۔ اب رحیم یار خان کی رپورٹ یہ ہے کہ ضلع رحیم یار خان
میں سکول ویگنوں اور رکشوں میں لگے غیر معیاری ایل پی جی اور سی این جی
سیلنڈر شہریوں اور معصوم طلباء کیلئے خطرہ بن گئے ہیں۔ اس حادثہ پر اب ملک
کی سیاسی اور مذہبی شخصیات اظہار افسوس کررہی ہیں۔ نگران وزیر اعظم میر
ہزار خان کھوسو نے گجرات میں سکول وین حادثے میں معصوم بچوں کی جانوں کے
ضیاع پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ حادثہ پوری قوم کیلئے
انتہائی دکھ کا باعث ہے۔ نگران وزیر اعظم نے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ
ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو حادثے میں زخمی ہونے والے بچوں
کو بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ نواز شریف ، شہازشریف، منور
حسن لیاقت بلوچ نے بھی افسوس کا اظہار کیا۔ شریف برادران کہتے ہیں کہ
ویگنوں ، بسوں اور دیگر پبلک ٹرانسپورٹ میں گیس سلنڈر طے شدہ معیار کے
مطابق نصب کیے جائیں۔ جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ پبلک
ٹرانسپورٹ سے گیس سلنڈر فوری طور پر اتروائے جائیں۔ قائد ملت جعفریہ
پاکستان اور ملی یکجہتی کونسل کے قائم مقام سربراہ علامہ ساجد علی نقوی کا
سانحہ گجرات میں سکول بچوں کو گیس سلنڈر کے باعث پیش آنے والے حادثہ پر دلی
افسوس کا اظہار کیا ہے ۔علامہ ساجد علی نقوی نے کہا کہ آئے روز پبلک
ٹرانسپورٹ میں گیس سلنڈر پھٹنے کے واقعات ہو رہے ہیں۔ انہوں نے حکومت سے
مطالبہ کیا کہ وہ غیر معیاری سلنڈر استعمال کرنے والوں کے خلاف کاروائی کرے۔
راجن پور سے رپورٹ ہے کہ گیس سلنڈر کی غیرقانونی ری فلنگ عروج پر ہے۔ کسی
بھی وقت حادثہ رونما ہونے کا خدشہ لگا رہتا ہے۔ مسلم لیگ ن ملتان کے رہنما
مشتاق شاہ نے گجرات سانحہ کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے ذمہ داروں کے تعین کا
مطالبہ کیا ہے۔ چوہدری شجاعت ، چوہدری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی نے بھی
سکول بچوں کی شہادت پر گہرے غم کا اظہار کیا پرویز الٰہی تو متاثرہ
خاندانوں کے گھر بھی گئے۔ یوں تو اس دلخراش سانحہ پر گجرات میں فضا سوگوار
رہی تاہم ہر پاکستانی اس سانحہ پر سوگوار تھا۔ جس نے بھی اس کے بارے میں
سنا یا پڑھا اس کا دل ضرور پسیج گیا۔ ہم اس وقت تو اس سانحہ پر افسوس اور
غم کا اظہار کر رہے ہیں مگر ہم نے اپنی ذمہ داری ادا نہ کرکے اس سانحہ کو
وقوع پذیر ہونے کا پورا پورا موقع فراہم کیا ہے۔ شریف برادران پنجاب کے بلا
شرکت غیرے پانچ سال تک حکمران رہے۔ ان کے اس دور صوبائی حکومت میں متعدد
گاڑیوں میں گیس سلنڈر دھماکے ہو چکے ہیں۔ انہوں نے ان سانحات کے سد باب
کیلئے نمایاں اقدام نہیں کیا۔ اب وہ افسوس کا اظہار بھی کررہے ہیں اور غیر
معیاری گیس سلنڈر استعمال کرنے والوں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ بھی کر رہے
ہیں۔ دیگر صوبائی حکومتوں نے بھی اس بارے کوئی اقدامات نہیں کیے۔ جب بھی
کوئی گیس سلنڈر دھماکہ ہوتا ہے ۔ حکومت بھی الرٹ ہوجاتی ہے ۔ سیاستدان
افسوس کے بیانات جاری کرتے ہیں۔ انتظامیہ حرکت میں آجاتی ہے۔ کچھ دنوں کے
بعد معاملات ٹھنڈے ہو جاتے ہیں پھر وہی کہانی شروع ہو جایا کرتی ہے۔ اب
گجرات کے سکول کی وین میں سی این جی سلنڈر پھٹنے کے بعد انتظامیہ حرکت میں
آگئی ہے۔ آئی جی پنجاب نے فوری آپریشن کا حکم دے دیا ہے ان کے حکم پر ملک
بھر میں غیر معیاری اور ناقص سلنڈر استعمال کرنے والوں کے خلاف اور گیس کی
غیر قانونی ری فلنگ کرنے والوں کے خلاف آپریش کیا جارہا ہے۔ مختلف شہروں
میں سی این جی سلنڈر اور ان کے فٹنس سرٹیفکیٹ چیک کیے جارہے ہیں۔ اگرا
قوانین کے مطابق ہر پانچ سال بعد سی این جی سلنڈر کا فٹنس سرٹیفکیٹ حاصل
کرنا ضروری ہے یہاں تو اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی۔ سی این جی
ایسوسی ایشن کہتی ہے کہ سکول وین حادثہ سلنڈر پھٹنے سے نہیں پٹرول کین میں
آگ لگنے سے پیش آیا۔ اس سانحہ میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب بچے بار بار
کہہ رہے تھے کہ گاڑی سے بد بو آ رہی ہے تو ڈرائیور نے اس کو چیک کیوں نہیں
کیا ۔ یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہم بچوں کی باتوں پر توجہ نہیں دیتے۔ ہم
یہ کہہ کر ان کی باتوں کو نظر انداز کردیا کرتے ہیں کہ بچے ہیں نا ان کو
کیا سمجھ۔ یہی کچھ اس وین ڈرائیور نے کیا ۔ بچوں نے گاڑی سے بد بو آنے کی
شکایت کی تو ان کو اتارنے کی دھمکی دے کر خاموش کرادیا۔ اس سے ہمیں یہ سبق
بھی ملتا ہے کہ بچوں کی ہر بات نظر انداز کرنے والی نہیں ہوتی ان کی کچھ
باتیں قابل توجہ بھی ہوتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس سانحہ کا ذمہ دار کون ہے
وہ ڈرائیور جو گاڑی چلا رہا تھا۔ سی این جی اسٹیشن کا عملہ جس نے اس میں
گیس بھری۔ سکول مالکان جن کی یہ گاڑی تھی۔ وہ بچے جو اس میں سوار تھے یا
کوئی اور ۔ مسافروں کی سہولت کیلئے شروع کیا گیا یہ اقدام اب خطر ناک ثابت
ہو چکا ہے۔ اس سانحہ میں ہروہ شخص ذمہ دار ہے جس نے اس سلسلہ میں اپنی ذمہ
داری ادا نہیں کی اور ہر وہ ادارہ ذمہ دار ہے جو اس جیسے سانحات روکنے کا
مجاز ہے۔ اب کب تک یہ چلتے پھرتے بم پھٹتے رہیں گے اور بے گناہ شہری اس کی
لپیٹ میں آتے رہیں گے۔ گجرات سانحہ میں جو بچے شہید ہوئے ہیں ان کے والدین
سے جاکر پوچھیے کہ ان پر کیا گزر رہی ہے۔ موت کا وقت اور جگہ اور وجہ سب
مقرر ہیں۔ نعش قابل شناخت ہو توشکل دیکھ کر والدین کو اطمینان آجاتا ہے کہ
آخری لمحات میں دیدا ر کر لیا تھا۔ اب جن کی میتیں قابل شناخت بھی نہ رہی
ہوں اندازے سے نعشیں والدین لے کر گئے ہوں ۔ ان کے دلوں پر کیا گزر گئی
ہوگی اس کا اندازہ کوئی اور نہیں لگا سکتا۔ کہتے ہیں بچے ساجھے ہوتے ہیں۔
یہ سب پاکستانیوں کے بچے تھے۔ پورا پاکستان ہی سوگوار ہوگیا ۔ سی این جی
سلنڈر ایک طرف انسانی جانوں کے دشمن ہیں دوسری طرف انجنوں کی تباہی کا باعث
بھی ہیں۔ سی این جی کے استعمال سے گاڑیوں کے انجن جلد ناکارہ ہو جاتے ہیں۔
سی این جی سلنڈر کے فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے ان سانحات کا سدباب ہونا
ہوتا تو ہو چکا ہوتا۔ یہ سرٹیفکیٹ کس طرح جاری کیے جاتے ہیں اس کا انکشاف
بھی اخبارات نے کر دیا ہے۔ مسافروں کو اب ان چلتے پھرتے بموں کے حوالے نہ
کیا جائے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں گیس کے استعمال پر مکمل پابندی لگا دی جائے۔
تمام گاڑیوں میں نصب سی این جی اور ایل پی جی سلنڈر اتار لیے جائیں۔ اس کے
متبادل میں پٹرول اور ڈیزل کی بلا تعطل فراہمی یقینی بنائی جائے اور اس کی
قیمتیں بھی کم رکھی جائیں ۔ کہیں ایسا نہ ہو مسافر ایک نئی مصیبت میں
گرفتار ہو جائیں۔ رکشے بھی گیس پر چلائے جارہے ہیں۔ان پر بھی پابندی لگا دی
جائے۔ کسی اور سانحہ کا انتظار کرنے کی بجائے آج کے بعد کوئی اور سانحہ
ہونے دینے کا عزم کر نا چاہیے۔ حکومتیں اور محکمے ابھی سے ایسے اقدامات
کریں کہ پھر ایسا کوئی حادثہ نہ ہو ۔ یہ بھی سچ ہے کہ سانحات کو روکنا
انسان کے بس کی بات نہیں ۔ تاہم انسان کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا تو
حق ہے۔ اور جن حادثات کا سامان ہم خود فراہم کرتے ہیں ان کو روکنا تو ہماری
ہی ذمہ داری بنتی ہے۔ اس سانحہ کے تمام ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کی جائے۔
یہ سطور لکھنے تک کسی نے متاثرہ خاندانوں کی امداد کا اعلان نہیں کیا تاکہ
ان کے دکھ اور غم کوکم کیا جا سکے۔ شاید نگرانوں کو اس کا اختیار نہیں۔
پبلک ٹرانسپورٹ گیس پر چلانے پر مکمل پابندی لگا کر مسافروں کو ان چلتے
پھرتے بموں سے ہمیشہ کیلئے محفوظ بنایا جائے۔ ویسے بھی اس سی این جی نے
عوام کو خواری کے سوا دیا ہی کیا ہے۔ اس کی بندش سے عوام جو جس اذیت ناک
خواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس سے بہتر ہے کہ اس کو ٹرانسپورٹ سے ختم ہی
کر دیا جائے۔ نگران وزیراعلیٰ متاثرین کے پاس گئے ان کو امدادی چیک دیے۔
مسلم لیگ ن کی طرف سے مریم نواز گئیں۔ |