استشراق کا لغوی معنی مشرقی بننا
اور اصطلاح جدید میں استشراق سے مراد مغربی اقوام ان کی زبانوں ، ان کی
تہذیبوں ، آداب ،علوم ، خصائل ، عادات اور ان کے عقائد ونظریات کا مطالعہ
کرناہے۔
نویں او ر دسویں صدی سے قبل جہاں بغداد ، قاہرہ ، مدینہ، کوفہ ، بصرہ میں
علم ودانش اور حکمت ومعرفت کی تاباں کرنیں پھوٹ رہی تھیں ، عین اسی وقت
مغرب جہالت ونادانی کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا، تہذیب وثقافت ،لیاقت
وشائستگی شرافت وانسانیت ، اخلاق وآرائستگی ، جس سے مشرقی معاشرہ معمور تھا،
اس کا تھوڑا سا حصہ یا تو گرجوں میں موجود پادریوں کو ملاتھاجو بز عم خویش
علم وعرفان کے دعوے دار تھے ، یا ان امراء ورؤسا کوجنہوں نے انسانی اقدار
کی کچلی ہوئی لاشوں پر اپنی بلند وبالاعمارتیں تعمیر کی تھیں ، یہی لوگ
اپنی رعایا کے لئے علم اور کتابیں زہر ہلاہل سمجھتے تھے۔ احساس کمتری اور
ظلم واستبداد کی چکی میں پسی ہوئی مغربی اقوام جب مشرقی علوم وفنون کی چکا
چوندروشنی کو دیکھتیں تو ان کے عقل واذہان پر پڑے جہالت کے پردے یکایک
اٹھنے لگتے، آنکھیں علم وعرفان وکمال انسانی کے منابع کی تلاش وجستجو میں
لگ جاتیں ، پس انہوں نے اس گوہر نایاب کو عربوں کے پا س ہی پایا، اور راز
ترقی عربی زبان کو پایا ،اس میں پیہم اور انتھک کوششوں سے کمال حاصل کیا،
ایسے لوگوں کو مستشرقین کے نام سے یاد کیاجاتاہے، عربی زبان اور اسلامی
علوم کے ارتقاء میں ان لوگوں کی ناقابل فراموش خدمات بھی ہیں۔
۱۱۳۰ء میں بشپ ریمانڈ کے زیر سرپرستی طلیطلۃ میں ایک مدرسے کی بنیاد پڑی ،
جس میں عربی کتابوں کو لاطینی زبان میں منتقل کیاجاتاتھا، قلیل عرصے میں
تقریبا چارسو کتابوں کا ترجمہ کیاگیا، جس میں زیادہ تر امام رازی ، ابو
القاسم زہراوی، ابن رشد اور ابن سینا کی کتابیں شامل تھیں ، جو پانچ چھ
صدیوں تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں داخل نصاب رہیں ۔
وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ استشراقیت کے معانی ومفاہیم بدلنے شروع ہوگئے اور
اس کا دائرہ کار عربی اور مشرقی تہذیب وثقافت سے بہرہ وراور مستفید ہونے تک
محدود نہ رہا ،بلکہ اس کا مقصد تجارتی ،استعماری اور دینی تخریب کی تحقیق
وتلاش بن گیا، چنانچہ مستشرقین نے مشرقی علوم کے آثار کی کھوج اور ان کے
آداب کو نشاۃ ثانیہ دینے اور ان کے فنون کو منصہ شہود پر لانے کو اپنا
لائحہ عمل بنادیا، اس غرض سے مخطوطے جمع کیے گئے ، نہایت نفیس اور معیاری
کاغذ کی کتابیں چھاپی گئیں، متون کی دقیق علمی شروحات لکھی گئیں، اسما ء ،
موضوعات اور امکنہ کے اعتبار سے ان کی فہرستیں تیار کی گئیں ، تفسیر ، سیر
،فقہ ، لغت ، ادب، منطق، فلسفہ پر نہایت قابل قدرکام کیا گیا۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی رقم طراز ہیں:
’’ مستشرقین عیسائیوں کی وہ جماعت ہے جو بظاہر غیر جانبدار علمی تحقیق کے
حوالے سے متعارف ہے ، لیکن اگر ان کی سر گرمیوں کا گہری نظر سے مطالعہ کیا
جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے ،کہ مستشرقین کا تبشیری
گروہ سے بڑا گہرا تعلق ہے ، بلکہ کرسچن حکمرانوں کے ساتھ بھی ان کے روابط
بڑے مضبوط ہیں ، آج سے چالیس برس قبل لبنان کے ڈاکٹر عمر فرخ نے بڑی تحقیقی
کتاب لکھی تھی جس کا نام ہے ’’ العلاقۃ بین الاستعمار والتبشیر‘‘ ہے ،اس
میں انہوں نے دلائل کے ساتھ واضح بلکہ ثابت کیا ہے کہ مغربی حکمرانوں کے
ساتھ عیسائی مبلغین (مستشرقین )کا گہرا رابطہ ہے۔ ‘‘
چونکہ مشترقین بنیادی طور پردھریہ ، یہودی اور عیسائی نظریات کے حامل تھے،
لہذا مذہبی بغض وعناد میں آکر ان سے جابجا علمی خیانتوں کا دانستہ ارتکا
بھی ہوگیا، چند مستشرقین کا اختصارً ا ذکر کیا جاتاہے۔
فرانس کے مشہور مستشرقین : ۱-ویٹر : vetter، متوفی ۱۶۶۷، انہوں نے چند
اسلامی کتابیں فرنچ زبان میں منتقل کردی تھیں ، جن میں ابن سینا کی امراض
عقلیہ ، طغرائی کی لامیہ شامل ہے۔
۲۔ sedillot : متوفی ۱۸۳۲ء عربوں کے ہاں یہ علم فلکیات میں ماہر جانے جاتے
تھے، انہوں نے ابن القیم کی کتاب نبذۃ فی الہند کا ترجمہ کرکے چھاپ دیا۔
۳۔ Deparceval: متوفی ۱۸۳۵ء انہوں نے صقلیہ میں مسلمان بادشاہوں کی تاریخ
لکھی ، سبع معلقات ، امثال لقمان اور مقامات حریری کا فرانسیسی میں ترجمہ
کیا۔
جرمن مستشرقین : ۴۔ فریڈگ : متوفی ۱۸۶۱ء بون کالج میں استاذتھے چند کتابوں
کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا، جن میں دیوان حماسہ ابن ندیم کی زبدۃ الطلب فی
تاریخ حلب اور ابن عربشاہ کی فاکھۃ الخلفاء شامل ہے نیزعربی لاطینی میں ۴
جلدوں کی ضخیم لغات مرتب کی ہے۔
۵۔گستاپ فلوجل : متوفی ۱۸۷۰ء نے چند کتابوں کا ترجمہ کیا جن میں کشف الظنون
اور ابن ندیم کی فہرست امام ثعالبی کی مونس الوحید اور قطلوبغاکی طبقات
الخنفیہ شامل ہیں۔
۶۔ ویلیم مویر، متوفی ۱۹۰۵ ء ان کی تالیفات میں حیات النبی ،تاریخ اسلام
اور تاریخ الخلافہ شامل ہیں ، جو ہندستان اور انگلینڈ کے یونیورسٹیوں میں
معتمد مراجع میں شامل ہیں۔
نیز استشراق کے سلسلے میں روجیہ جارودی ، جرجی زیدان ، جبران خلیل جبران ،
پطرس بستانی ، ناصیف یازجی ، ابراہیم یازجی ، محمد اسد اور امریکی محققہ
کیرن آرم اسٹرانگ وغیرہ کے نام بھی سرفہرست ہیں ۔
موجودہ دور میں کینیڈا کی ٹورنٹو یونیورسٹی میں اسلامک ڈپارٹمنٹ کے یہودی
ڈین جناب (جیمس سمتھ James smith ) نے شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین
احمد المدنی رحمۃ اﷲ پر اپنا ڈاکٹر یت (P,H,D ) کا مقالہ لکھاہے، اسلامیات
میں ان کی مہارت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ نارتھ امریکا میں
مسلموں ، غیر مسلموں ، علماء اور میڈیا کو اگر کسی اسلامی موضوع میں مبنی
پر تحقیق بات کی ضرورت پیش آئے تو وہ ان سے رابطہ کرتے ہیں ۔ |