جمہوریت ہی بحال کردیں

سوات میں پاک فوج کی کاروائیاں جاری ہیں۔ ان کاروائیوں کا کیا نتیجہ نکلے کا ابھی اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کیونکہ اس وقت تو سب ایک زبان ہوکر شدت پسندوں کے خلاف بول رہے ہیں ظلم تو یہ ہے کہ آج شدت پسندی کو اسلام سے نتھی کردیا گیا ہے یعنی اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا شدت پسندی بنا دیا گیا ہے اگر ہم تھوڑا سا اپنی آنکھیں کھلی رکھیں تو ہمیں جدید تعیلم یافتہ شدت پسند بھی نظر آجائیں گے، لبرل، سیکولر، عیسائی، یہودی، ہندو اور مغربی اداروں کے تعلیم و تہذیب یافتہ شدت پسند بھی نظر آجائیں گے لیکن وہ لوگ آج کے دور کا ہاٹ فیورٹ موضوع نہیں ہیں اس لیے ان پر کوئی بات نہیں کرتا ہے البتہ اسلامی شدت پسندی پر بات کرنا آج کل آسان ہے اس لیے اس موضوع پر اظہار خیال کرنا سب اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ دیکھیں جو لوگ مجرم ہیں، دہشت گرد ہیں ان کی مذمت بھی ہونی چاہیے اوران کو قرار واقعی سزا بھی ملنی چایئے لیکن اس کی آڑ میں اسلامی قوانین، شریعت اور اسلامی تعلیمات کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔ جب نظام عدل یا اسلامی قوانین کے نفاذ کی بات ہوتی ہے تو مغرب زدہ طبقہ اور پے رول پر پلنے والی نام نہاد تجزیہ نگار “سویرے سویرے“ اس کی مخالفت کرنا شروع کردیتے ہیں۔ سابق صدر جنرل مشرف نے اسلامی قوانین کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ کیا اسلامی نظام نافذ کر کے آدھی قوم کو ٹنڈا کردوں۔ آج کہا جاتا ہے اسلامی قوانین ظالمانہ قوانین ہیں حقوق نسواں کے خلاف ہیں، شخصی آزادی کے خلاف ہیں وغیرہ وغیرہ، بہر حال ہم ان ہی کی بات مان لیتے ہیں کہ نظام عدل یا شرعی نظام کے بجائے چلیں جمہوریت ہی رائج کردیں
جب ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو پتہ نہیں کیوں ہمارے ذہن میں عجیب عجیب سی باتیں آتی ہیں اب دیکھں نہ بھارت بھی ایک جمہوری ملک ہے ہمارے ایک ساتھی کا بھارت جانا ہوا وہاں ان کو ایک بھارتی منسٹر کی دعوت میں بھی جانے کا اتفاق ہوا انہوں نے بتایا کہ “ سلیم بھائی میں تو بڑا تیار ہوکر گیا تھا کہ منسٹر کی دعوت ہے خوب مزے ہونگے لیکن میری حیرانگی کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ وہاں دعوت میں وہی عام چاول روٹی، ترکاری تھی میں نے اپنے میزبان سے پوچھا کہ بھائی یہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ جناب بھارت میں تمام وزارء سادگی سے رہتے ہیں اور دعوتوں میں بے جا اسراف نہیں کرتے کہ ان کو عوام کو جواب دینا ہوتا ہے۔ اسی دوران وہاں لائٹ چلی گئی اور منسٹر صاحب نے وہاں گیس لیمپ جلائے جب پوچھا کہ آپ کے گھر جنریٹر نہیں ہے تو جواب ملا کہ جناب مجھے اسی محلے میں رہنا ہے یہیں سے ووٹ لینے ہیں۔ اگر میں نے جنریٹر لیا تو لوگ کہیں گے کہ ہمارے پاس بجلی نہیں ہے اور تم جنریٹر استعمال کررہے ہو؟“ یہ ہمارے پڑوسی بھارت کا واقعہ ہے تو جناب عالی یہی جمہوریت یہاں رائج کردیں۔

اسی بھارت میں چند سال پیشتر ایک ٹرین کو حادثہ پیش آیا تھا اور کئی قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں تو بھارت کے وزیر ریلوے لال بہادر شاستری نے استعفیٰ دیدیا کہ میری وزارت کے دور میں یہ حادثہ پیش آیا ہے اس لیے میں اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دیتا ہوں ممبئی میں دھماکے ہوئے تو بھارت کے وزیر داخلہ شیوراج پٹیل اور مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ نے استعفے دے دیئے۔ یہ بھی جمہوری نظام کی ایک تصویر ہے۔ آپ یہی جمہوری نظام رائج کردیں ہمیں قبول ہے اور اسی بھارت میں مشہور زمانہ ڈائری اسکینڈل (حوالہ اسکینڈل ) میں اس وقت کے بھارتی صدر نرسہما راؤ کا نام کرپشن کے الزام میں لیا گیا تو انہوں نے بھی استعفیٰ دیدیا تھا۔ کیا یہ روشن خیال طبقہ پاکستان میں کوئی ایسی جمہوری مثال پیش کر سکتا ہے؟

زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ جب امریکی صدر کلنٹن پر مونیکا کے حوالے سے اسکینڈل بنا تھا اور وہ امریکی صدر عدالت میں پیشیاں بھگتا رہا تھا۔ جناب من آپ لوگ یہی جمہوریت نافذ کرلیں اور سنیے محترم قائد اعظم محمد علی جناح بھی جمہوری اقدار پر یقین رکھتے تھے ان کا طرز عمل بھی سامنے رکھیں “کابینہ کا اجلاس جاری تھا، اے ڈی سی نے پوچھا "سر! اجلاس میں چائے سرو کی جائے یا کافی؟" چونک کر سر اٹھایا اور سخت لہجے میں فرمایا "یہ لوگ گھروں سے چائے کافی پی کر نہیں آئیں گے"، اے ڈی سی گھبرا گیا، آپ نے بات جاری رکھی "جس وزیر نے چائے کافی پینی ہو گھر سے پی کر آئے یا پھر گھر واپس جا کر پئے، قوم کا پیسہ قوم کے لئے ہے وزیروں کے لئے نہیں"۔ اس حکم کے بعد جب تک وہ برسرِاقتدار رہے، کابینہ کے اجلاسات میں سادہ پانی کے سوا کچھ سرو نہ کیا گیا۔ کیا یہ دور دوبارہ پاکستان میں لوٹ سکتا ہے؟ کیا یہ جمہوریت بحال ہوسکتی ہے۔؟

جب آپ گورنر جنرل ہاؤس سے نکلتے تھے تو آپ کے ساتھ پولیس کی صرف ایک گاڑی ہوتی تھی جس میں صرف ایک انسپکٹر ہوتا تھا اور وہ بھی غیر مسلم تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب گاندھی قتل ہو چکے تھے اور آپ کی جان کو سخت خطرہ تھا اور اس خطرے کے باوجود آپ بغیر سیکیورٹی کے کھلی ہوا میں سیر کرتے تھے۔ کیا آج کل کے حکمران اس طرز حکمرانی کی مثال پیش کرسکتے ہیں؟ یہ بھی تو جمہوری نظام تھا۔ جمہوریت، جمہوری نظام، جمہوریت پسندی کا راگ الاپنا اور اس کا ڈھول پیٹنا بہت آسان ہے لیکن کیا ہم لوگ واقعی جمہوری رویوں کی مثال پیش کرسکتے ہیں؟ ہمیں کچھ نہیں چاہیے- اگر جمہوریت پرست اور روشن خیال لوگ کہتے ہیں اسلامی شرعی قوانین قابل عمل نہیں ہیں تو ہم ان کی بات مان لیتے ہیں لیکن شرط یہی ہے کہ اصلی جمہوریت یہاں بحال کردیں جمہوریت کے نام پر آمریت، شخصی حکمرانی، قوم کی دولت پر بیرونی دورے کرنا، قوم کی دولت کو بے دریغ لٹانا بند کیا جائے۔ جمہوری نظام میں قانون کا احترام کیا جاتا ہے۔ ہمارے حکمران خود قانون کا احترام سیکھ لیں اور جب سڑکوں پر نکلیں تو لاؤ لشکر کے بجائے قائد اعظم کی طرح اکیلے گاڑی میں سفر کریں- ہمیں یہی جمہوریت دیدیں یقین کریں عوام آپ سے اور کچھ نہیں مانگیں گے
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1473184 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More