موبائل پہ کال آئی اٹینڈ کرنے پر ایک خوبصورت سی آواز آئی کہ میں فریدہ
خانم بول رہی ہوں ،میرے ذہن کو ایک خوشگوار سا جھٹکا لگا اور بے ساختہ کہا
میڈم میں آپ کا فین ہوں اور آپ کی غزلیں بڑے شوق سے سنتا ہوں ،آگے سے دبی
دبی سی ہنسی سنائی دی اور کہا کہ میں وہ والی فریدہ خانم نہیں ہوں بلکہ
شاعرہ فریدہ خانم ہوں ،اس پر میں نے جواب دیا کہ آپ دونوں میں ایک قدر تو
مشترک ہے کہ آپ غزل لکھتے ہیں اور وہ غزل کو گاتے ہیں۔
فریدہ خانم ایک محبت کرنے والی خاتون ہیں ان سے میرا پہلا تعارف ایک سکول
میں ہوا تھا جن دنوں میں اپنی تنظیم کے زیر اہتمام سکولز میں ورکشاپس اور
سیمینار منعقد کرواتا تھا،اور غالباََ فریدہ بھی کسی ادارے کی جانب سے اس
طرح کی تقاریب کا ارینج کیا کرتی تھی وہیں پر میں نے انہیں اپنا وزٹنگ کارڈ
دیا تھا(آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ تقاریب میں اپنے وزٹنگ کارڈ خواتین میں
تقسیم کرنا میری عادت ہے )۔
جہاں تک بات شاعری کی ہے تو اتنے سینئر لوگوں کی موجودگی میں تبصرہ کیسے کر
سکتا ہوں کیونکہ اس میدان میں ابھی طفل مکتب کی سی حیثیت ہے لیکن کچھ مروت
کا خیال کرتے ہوئے کہنا بھی ضروری خیال کرتا ہوں ۔
منفرد انداز کی شاعری کی کتاب ”مختلف“بہت خوبصورت مجموعہ کلام ہے سادہ،دیدہ
زیب اور جاذب نظر ٹائیٹل قاری کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے فریدہ کا لکھنے کا
اندازنرالا ہے حالات کی بے ثباتی کا اور محبت کا جذبہ ماند پڑجانے کا ذکر
بے ساختہ انداز میں کرتے ہوئے لکھتی ہیں
تارے گننے کے زمانے اب کہاں => < عاشقی کے وہ ترانے اب کہاں
کون مرتا ہے کسی کے واسطے <=> لیلیٰ مجنوں کے فسانے اب کہاں
وہ نہ درےا نہ گہری چاہتیں > = < سوہنی اور ماہی دِوانے اب کہاں
کتاب کے عنوان کی طرح فریدہ خانم کی شاعری بھی سب سے منفرد ہے پڑھنے والے
پر سحر طاری کر دیتی ہے اور قاری خوبصورت مصرعوں کے جادو میں اورنپے تلے
الفاظ کے دریچوں میں گم ہوتا چلا جاتا ہے محبت کے بارے لکھتے ہوئے خانم
کہتی ہے
محبت خدا ہے،خدا ہے محبت <=> زمانے میں سب سے جدا ہے محبت
لگے جس کی جاں کو ،وہ جاں سے بھی جائے > = <ےوں لگتا ہے جیسے بلا ہے محبت
بھٹکنے نہ دے گی کسی کو بھی خانم > = < ہر اک رہ میں رہنما ہے محبت
فریدہ خانم نے اپنے شاعری مجموعے کاانتساب حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ کے
نام کیا ہے”مختلف “کی ہر غزل مختلف ہے ہر مصرعے کا انداز جدا اور منفرد ہے
جیسا کہ وہ اپنی ایک غزل میں لکھتی ہیں
مانگا ربّ سے جدا اور ملا مختلف > = < جیسے ہے میرے دل کی صدا مختلف
جس سے آتی تھی اس کے بدن کی مہک > = < آج گلشن میں ہے وہ ہوا مختلف
کردے مجھ کو ہر غم سے بےگانہ وہ > = < بات ایسی ہی کوئی بتا مختلف
فریدہ خانم حالات پر بھی کڑی نگاہ رکھتی ہیں انہوں نے نامساعد حالات اور
دھماکوں کا ذکر اپنی اس کتاب میں مختلف انداز میں کیا ہے وہ دہشت گردی کا
اور حالات حاضرہ کا ذکر بڑے نپے تلے الفاظ میں کرتے ہوئے لکھتی ہیں
فضا ہے ایسی کہ کوئی نہیں کہیں محفوظ > = < نہ مسجدوں میں نمازی،نہ ہے جبیں
محفوظ
ےہاں پہ ہوتے ہیں ہر روز بم دھماکے ہی > = < ہے کیوں نہیں بھلاےہ میری
سرزمیں محفوظ
ستم کی زد پہ ہے چادر بھی چاردیواری <=> کسی بھی گھر میں نہیں ہے کوئی مکیں
محفوظ
”مختلف“کو مکتبہ روشن خیال نے پبلش کیا ہے کتاب کے خوبصورت سرورق کی طرح اس
کا ہر ورق بھی
اچھا اور معےاری ہے اور اوراق پر لکھے الفاظ کے بارے میں ےہی کہوں گا کہ پر
اثر اشعار قاری کو مبہوت کر دیتے ہیں ،فریدہ خانم نے شاعری کے خارزار میں
قدم رکھ دیا ہے تو ہم اس کے لئے دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ اسے اس میدان
میں ثابت قدم رکھے کیونکہ شاعری صرف ایک شوق کا نام نہیں ہے اس میں جہاں
دنیا کے لئے پیغام ہے وہیں خود کے لئے بھی نئے در وا ہوتے ہیں۔
(30 مئی 2013ء،پنجابی کملیکس میں کتاب کی تقریب پذیرائی میں پڑھا گیا)۔ |