آتش و خوں سے دریچہ زنداں تک

بندہ احقر محمد ناصر خان کی3سال قیدوبند کی داستان۔ کتاب آتش و خوں سے دریچہ زنداں تک کا پیش لفظ
کم ہیں وہ طائر کہ ہیں دام قفس سے بہرہ مند

اللہ کے راستے میں قید ہونے والے جہاں بہت سے انعامات اور آخرت کے درجات پا لیتے ہیں اس کے ساتھ ان قیدیوں کی رہا کروانے پر بھی قرآن و حدیث میں احکامات آئے ہیں۔ اللہ جل جلالہ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں:
''اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں نہیں لڑتے، ان کمزوروں کی خاطر جن میں کچھ مرد ہیں اور کچھ عورتیں ہیں اور کچھ بچے ہیں جو دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو اس بستی سے باہر نکال جس کے رہنے والے ظالم ہیں'' (النساء ٧٥)

معروف مفسر امام محمد المالکی القرطبی رحمہ اللہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ''مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ قیدیوں کو رہا کروائیں، خواہ وہ قتال کے ذریعے ہو یا مال و دولت خرچ کرنے کے ذریعے، پھر
اس کے لیے مال خرچ کرنا زیادہ واجب ہے کیونکہ اموال، جانوں سے کمتر ہیں'' (تفسیر قرطبی)

حضرت عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا:
''جس نے دشمن کے ہاتھوں سے کسی مسلمان قیدی کو فدیہ دے کر چھڑوایا تو میں (محمدۖ) وہی قیدی ہوں'' (طبرانی و مجمع الزوائد)

قیدیوں کے بارے احکامات تو بہت ہیں لیکن ایک وقت تھا مسلمان اللہ کے حکم اور نبی اکرم ۖ کے طریقے کے مطابق اس حکم کو پورا کرتا اور آج چودہ سو سال گزرنے کے بعد یکسر اس کے الٹ ہو رہا ہے ۔اللہ سب مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت فرمائے۔

کسی کے خیال و تصور میں جیلوں کی سلاخیں، ہتھکڑیاں اور بیڑیوں کے انبار، ٹارچر سیل اور عقوبت خانے، تنگ و تاریک کھولیاں، خون آلود دن رات اور سزاؤں کے نت نئے انداز پوشیدہ نہیں رہ سکتے۔ سلاخوں کے پیچھے والی زندگی زندان کی چار دیواری انمٹ نقوش چھوڑتی ہے جس کا بھلانا کسی کے بس میں نہیں، ذہن کے ریکارڈ سے ماضی کا کوئی بیتا ہوا واقعہ محو نہیں ہوتا ہم انہیں اس لیے بھولے رہتے ہیں کہ روزمرہ زندگی کی ہائے ہو میں ان واقعات کو یاد کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی لیکن ذہن کے اس وصف کا عملاً اپنے گزرے ہوئے حالات لکھتے ہوئے ہوا کہ ذہن کے فیتے پر ماضی کے ہر لمحے کا عکس محفوظ موجود ہے۔ شاید غالب نے اسی پر کہا۔
یادِ ماضی عذات ہے یارب
چھین لے مجھ سے کوئی حافظہ میرا

ان بیتے لمحات میں کئی کڑوے سچ بھی ہیں اور کئی مصائب و آلام کے ڈھیر بھی لیکن خوشی و غم ایسی دو حالتیں ہیں کہ ہرجا انسان کا ساتھ نہیں چھوڑتی کوئی انسان دنیا میں ایسا نہیں گزرا کہ اس نے دو حالتوں میں صرف ایک پر اکتفا کیا ہو اور دوسری کی ہوا نہ لگی ہو اسی طرح یاد ماضی میں گذرے کچھ پہلوؤں کا جہاں ظلم و ستم قلمبند کیا وہاں کچھ حالات سے ٹکراتے ہوئے اپنی حس مزاح کے ہاتھوں مجبور ہو کر کچھ حالات بھی لکھے ہیں، شاید قارئین سوچتے ہوں گے کہ جیل کی زندگی میں مزاح کا ذکر تو شہد میں نمک ڈالنے کے مترادف ہے لیکن یہ مزاح کسی حد تک جیل کی سلاختوں سے دھیان ہٹانے کا سبب بنتا رہا۔

کاغذ قلم سے جب دوستی لگائی ١٩ شوال ٣ دسمبر ٢٠٠٤ جمعتہ المبارک کے دن پہلے چار رکعت صلوٰة حاجت پڑھی تو پھر لکھنے کا آغاز ہوا گویا سنت طریقے پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ اللہ کی نصرت مطلوبہ معلومات ایسی قدموں میں آن پڑی جیسے خزاں خوردہ پتوں والے درخت سے پتے جھڑتے ہوئے گرتے ہیں۔ ان احوال کو سمیٹتے سمیٹتے جمعرات ٧ جولائی ٢٠٠٥ آن پڑا جس پر اتمام ہوا۔

اس کتاب میں مختصر وہ حالات بھی لکھ دیئے جو کہ چند دوسرے مجاہدین کے چشم دید تھے اور خاص کر میڈیا پر آنے والے حالات لکھ دیئے جس پر پوری دنیا کے اسلامی ممالک اور انسانی حقوق کے اداروں کے کانوں پر جوں تک بھی نہ رینگی امریکہ نے برطانیہ اور دوسرے صلیبیں اتحادیوں کو ساتھ ملا کر ''کرو سیڈ وار'' کا نعرہ لگاتے ہوئے افغانستان کی امارت اسلامی پر شب خون مارا۔ کارپٹ بمباریاں کرنے کے بعد اپنے تلوے چاٹنے والے شمالی اتحاد کو بھی بے دریغ استعمال کرنے کے ساتھ ان کا تحفظ بھی ان صلیبیوں نے کیا۔ طالبان کی پسپائی کے بعد دل کھول کر معاہدوں کی بدعہدی اور عرب، پاکستانی و دیگر ملکی غیر ملکی مجاہدین طالبان کو گن گن کر شہید کرنے، جیلوں اور عقوبت خانوں میں ڈالنے کا انتظام بھی صلیبیوں کی زیر نگرانی ہوتا رہا۔ دو ستم کے ساتھ طے ہونے والا معاہدہ جو کہ ملا فضل اخند اور طالبان رہنماؤں کی زیر نگرانی ہوا جس کی سیاہی بھی خشک نہ ہو پائی کہ بد عہدی کا مرتکب منافق شمالی اتحاد کی ''گلم جم ملیشیا'' یاجوج ماجوج کی طرح نہتے مجاہدین پر ٹوٹ پڑے۔ مجاہدین پر اس مہذب صدی میں ہونے والے مظالم پر دو ستم کے جد امجد چنگیز خان اور ہلاکو خان کی بد روحیں بھی کانپ اٹھی ہوں گی۔

امارت اسلامی افغانستان کے محافظوں کی شہادتوں اور سلاخوں کے پیچھے دھکیلے جانے والوں کے حالات پر قلم کی سکت بھی ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اگر بے جان قلم کو زبان مل جائے تو اس کے چیخ و پکار سے کلیجے پھٹ جائیں۔

افسوس! بے جان قلم اپنا بھید کس کو سنائے؟

حیف! جس کاغذ پر یہ تحریریں لکھی جائیں یہ اپنا زبان حال کس کو سنائے؟

کون اتنا سخت دل انسان ہوگا کہ بار بار قلم اور کاغذ کی زبان پر انحصار کرے، وہ اپنی چشم بینا کو استعمال کرے یہ تحریریں قلم کے زور اور ہیر پھیر کی نہیں یہ ایسی سنگلاخ حقیقت ہے کہ سخت سے سخت پتھر بھی موم ہو جائیں۔ اس لیے درد دل اور مجاہدین سے انس و الفت رکھنے والے ہی اس حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں جس نے اس میخانے سے جام پئے ہوں وہی جانتا ہے کہ دنیا کے تمام میخانے تو اجاڑنے کے قابل ہیں یہ ایک نقطہ احساس ہے جس کو حاصل ہو جائے۔

اس کتاب کے بارے ہر قسم کا تعاون کرنے والے افراد میں سب کا شکر گزار ہوں اور بھائی آصف سہیل نے اسیر رہتے ہوئے بھی وقتاً فوقتاً معلومات بھیجیں اور قاری ابوبکر صدیق نے اشاعت میں خاص دلچسپی لی ان کا بھی ممنون ہوں۔ دیگر چند افراد کا ذکر نہ کرنا قرین انصاف نہ ہوگا۔ مفتی عاصم الرحمن، وقاص زاہد، محمد سعید، عالم خان، خالد صدیقی، سبحان شاہ، عمران خان، محمد اقبال، جلیل الرحمن، یعقوب شیخوپوری، ہارون سعید، آصف معاویہ، محمد شاہد، نذیر خان مرحوم، سجاد احمد، محمود، چودھری عمران، نصیر احمد، احمد سعید، عبدالرحیم، شاہد مغل جمشید خان، محمد اصغر خان ذکی صاحبان وغیرہ کا مشکور ہوں جو کہ دلچسپی رکھتے تھے۔ اس لیے بندہ احقر کے علاوہ ان سب ساتھیوں کیلئے بھی دعا کے نذرانے پیش کریں۔

حرف آخر، کتاب کا موضوع ''طالبان مجاہدین پر کیا بیتی'' کئی سوالات ذہن میں لاتا ہوگا کیونکہ امارت اسلامیہ افغانستان پر صلیبی یلغار کے وقت قندوز کے محصورین آخری دم تک امریکی اور شمالی اتحاد کی گولہ باری کا ڈت کر مقابلہ کرتے رہے۔ اس لیے طالبان کے سپاہیوں میں بدعہدی کا شکار ہو کر جیلوں میں جانے والے مجاہدین بھی شامل ہیں کتاب کا نام اسی مناسبت سے رکھاآخر میں طویل قید کاٹ کر گھروں کو لوٹنے والوں کیلئے شعر جو علامہ اقبال نے مولانا محمد علی جوہر کیلئے کہا، پیش کرتا ہوں:
ہے اسیری اعتبار افزا جو ہو فطرت بلند
قطرہ نیساں ہے زندان صدف سے ارجمند
ہر کسی کی تربیت کرتی نہیں قدرت مگر
کم ہیں وہ طائر کہ ہیں دام قفس سے بہرہ مند

nasir
About the Author: nasir Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.