آج میں پورے یقین کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ انڈیا اور ہمارے ملک پاکستان کی نہ صرف
عدلیہ حکومت سیویل سوسائٹی تو ہے ہی مطلب پرست بلکہ سارے انڈین اور ہم سارے
پاکستانی بھی بےغیرت بے ضمیر اور بے حس ہیں اور اسکی زندہ مثال انڈیا میں رہنے والی
ایک عام گھریلو پاکستانی خاتون نزہت جہاںجو تیس سال پہلے ایک انڈین محمد گلفام نامی
شخص کے ساتھہ قانونی شادی کے بندھن میں بندھ کر سترہ سال کی عمر میں اپنے ماں باپ
بہن بھائی سے الوداع کرکے پاکستان سے اپنے شوہر کے ساتھہ اسکے ملک انڈیا چلی جاتی
ہے جہاں وہ دونوں میاں بیوی اپنی شادی شدہ زندگی کا آغاز کرتے ہیں اور پھر تین بچوں
کے والدین بن جاتے ہیں اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ وہ دونوں دادا دادی اور نانا نانی
کے خوبصورت الفاظ بھی اپنے پوتوں پوتیوں نواسے نواسیوں سے اپنے لیے سننے لگے اور
جنکا سارا محور صرف اور صرف انکے بچے اور بچوں کے بچوں کے گرد ہی گھومتا تھا نزہت
جہاںجوخود شادی کے وقت صرف سترہ سال کی بچی تھی صرف ایک بار اپنے شوہر کے ساتھ اپنے
والدین اور بہن بھائ سے ملنے اپنے ملک پاکستان گئ کیونکہ اسکا سب کچھ تو انڈیا میں
ہی تھا اسکے شوہر نے شادی کے بعد اپنی بیوی کے پاسپورٹ رینیول کے لیے پاکستانی ہائ
کمیشن میں اپلائی کیا جہاں انکو یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا کہ کیونکہ نزہت جہاں نے
انڈین سٹیزن سے شادی کی ہے تو اسکا پاسپورٹ رینیونہیں ہوسکتا ہے اور انکو کہا کہ وہ
اپنی بیوی کو انڈین سٹیزن شپ دلوایں اور اسطرح نزہت جہاں کا پاکستانی پاسپورٹ بعد
میں اکسپایرکرگیا انہوں نے انڈین سٹیزن شپ کے لیے سارے ڈوکومینٹ انڈین ہوم منسٹری
میں جمع کرواے جہاں پر بعد میں ہوم منسٹری آفیشلز نے انہیں یہ بتایا کہ انکی فائل
کھوچکی ہے اور اسطور انکی انڈین سٹیزن شپ کا کیس ہوم منسٹری میں ابھی تک پینڈنگ ہے۔
کارگل کی جنگ کے بعد دہلی پولیس نے نزہت جہاں کو الیگل غیرملکی قرار دیکر انکے خلاف
مقدمہ درج کرلیا اور پھر اس گھریلو خاتون کو جیل بھیج دیا لیکن کچھہ دنوں میں بیل
پر انکو رہائ ملی اور پھر وہ اپنے شوہر اور اپنے بچوں کے درمیان واپس آگئ لیکن وہ
رہائ بھی عارضی تھی پاسپورٹ آفس نے وجہ یہ بتائ کہ انکے پاس ویلیڈ پاسپورٹ اور نہ
ہی لانگ ٹرم ایکسٹینڈیڈ ویزہ تھا جسکی بنا پر میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ نے انہیں انڈیا
چھوڑنے کا آرڈر دے دیا جسکے خلاف محمد گلفام نے دہلی کورٹ میں اپیل دائر کی اور
وہاں پر بھی جج نے مجسٹریٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا اور انکو چھہ دن کی قید اور
جرمانے کی سزا کے ساتھہ ملک بدری کا حکم سنادیا اور قید کی سزا پوری ہونے کے بعد
انہیںخواتین کے شیلٹر ہوم نرمل چھایا میں بھیج دیا جہاں وہ مرکزی حکومت کے مزید
احکامات کی منتظر ہیں۔ انکے شوہر کے مطابق وہ شیلٹر ہوم تو تہاڑ جیل سے بھی بدتر ہے
پاکستانی ہائ کمیشن کا اپنے ایک سیٹیزن کا پاسپورٹ رینیو نہ کرنا صرف اس وجہ سے کہ
اسکی شادی اسکے والدین نے ایک انڈین سے کردی تھی کیا یہ کوئی جرم تھا اں لوگوں نے
جسکی ہر مذہب سماج اور قانون اجازت دیتا ہے اگر کسی نے کوی مجرمانہ جرم کیا ہے تو
یہانپر وہ مجرم پاکستانی ہائ کمیشن ہے جسنے اپنے ایک شہری کو دوسرے ملک میں بغیر
پاسپورٹ کے رہنے پر مجبور کیا سزا کے حقدار وہ ہیں اور پھر انکے بعد دوسرے سزا کے
حقدار انڈین ہوم منسٹری ہے جنکی غفلت سے نزہت جہاں کے جمع کراے ہوے ڈوکومنٹس کھو
گیے ان حکومتی اداروں کی بے حسی اور مجرمانہ غلطی کی سزا ایک عام گھریلو پاکستانی
خاتون کو جو کہ جیل کا نام سنتے ہی شائد انکی جان چلی گئی ہوگی اسکو انڈیا میں
غیرقانونی طور پر رہنے پر جیل بھیج دیا جاتا ہے جبکہ اسکی تیس سال کی زندگی وہاں پر
اپنا گھر شوہر اور صرف اسکے بچے تھے۔ کیوں کوی عدالت ان حکومتی اداروں کو سزا نہیں
دیتی جنکی بےحسی اور غفلت کی وجہ سے ایک خاندان کو ایک بیوی کو ایک ماں کو ایک دادی
اور نانی کو ان سے دور کیا جارہا ہے کیا یہ انسانیت ہے کیا کوی مذہب معاشرہ ایک
عورت کے ساتھہ کیے اس ناروا سلوک کی اجازت دیتا ہے۔ کہاں ہیں آج وہ سارے انڈیا اور
پاکستان کے لیڈنگ میڈیا گروپس جو صرف اور صرف اپنے تجارتی فائدے کے لیے کچھہ عرصہ
قبل تک امن کی آشا کا پیغام لیکر نکلے تھے وہ کیوں اب خاموش ہیں کہاں ہیں وہ سارے
شاعر اور سول سوسایٹی کے کرتا دھرتا کیوں کوی ایک مشرقی عورت کو اسکے خاندان کے
ساتھ زندگی بسر کرنے کے لیے ابتک نہیں بول رہا ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب انڈین
فلم ویرزارا ریلیز ہوی تھی تو ہر انڈین اور پاکستانی جس جس نے وہ فلم دیکھی تھی وہ
کہا کرتے تھے کہ سچ ہی تو ہے کہ ہم سب ایک ہی جیسے تو ہیں صرف سرحدوں نے ہمارے
درمیان دوریاں کی ہوی ہیں ورنہ تو ساری چیزیں مشترک ہیں بہت سوں کو میں نے فلم کے
دوران روتے بھی دیکھا لیکن وہ صرف اور صرف ایک فلم تھی ایک کہانی تھی جس میں آخر
میں پاکستانی لڑکی اور انڈین لڑکے کو آپس میں ملا دیا جاتا ہے لیکن آج یہ کوی فلم
نہیں کوی کہانی نہیں ایک زندہ حقیقت نزہت جہاں اور محمد گلفام جنہیں ایکدوسرے سے
تیس سال ساتھہ گزارنے کے بعد الگ کیا جارہا ہے اور ہم سب خاموش ہیں نہ ہی کوی پرنٹ
میڈیا اور نہ ہی الیکٹرونک میڈیا نہ ہی حکومتی سطح پر نہ ہی انسانیت کے ٹھیکیداروں
میں سے کوی اس خاندان کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے کسی نے کوی بیان یا کچھہ کیا ہو سب
خاموشی سے یہ تماشا دیکھہ رہے ہیں کہاں ہیں دونوں ممالک کے لیڈران کوی کچھہ نہیں
کریگا ہم سب بے ضمیر بے حس اور بے غیرت ہوچکے ہیں ایک بیٹی ماں اور بہن کو پہلے ہی
ہم امریکا کے حوالے کرچکے ہیں اور اب ایک بیوی کو اپنے شوہر سے اور بچوں کو انکی
ماں سے الگ ہونے کا تماشا دیکھہ رہے ہیں۔
میں کل رات سے جسوقت سے میں نے یہ خبر پاکستانی اخبار میں پڑھی آج شام تک اپنے آپ
سے لڑتا رہا ایک طرف میرا سویا ہوا ضمیر اور بے حسی مجھے یہ کہتے رہے کہ تم صرف ایک
عام انسان ہونہ ہی تمھارا لکھا کسی کی نظروں سے گزریگا نہ ہی تم انہیں جانتے ہو اور
نہ ہی تمھارا انلوگوں سے کوی ناتا ہے پھر تمھیں اس بارے میں لکھنے سے کیا حاصل ہوگا
خاموشی سے صرف پڑھتے اور دیکھتے رہو یہی اس دنیا کی ریت ہے اور آرام سے سوجاو لیکن
دوسرے ہی لمہے مجھے کسی نے جیسے جھنجوڑ سا دیا اور کہنے لگا کہ تمھارا ہے ناتا نزہت
جہاں سے کیونکہ وہ تمہارے ملک پاکستان کی ایک بیٹی ہے تو اس ناطے تم اسکے بھائ ہو
اور اس سے بھی بڑا ناتا تمھارا اسکے ساتھہ اسلام کا ناتا ہے وہ تمھاری اسلامی بہن
بھی ہے کیا ہوا اگر وہ تمھاری سگی خونی رشتہ دار نہیں ایک عورت تو ہے وہ اور عورت
کے لیے تو مذہب اور معاشرے میں ایک اہم رتبہ دیا گیا ہے تمھیں ضرور اسکے حق کے لیے
لکھنا چاہیے چاہے کچھہ ہی لوگ تمھارے لکھے کو پڑھیں شائد انمیں سے اسکو اور آگے
بڑھایں اور شائد تمھاری بات انڈین اور پاکستانی حکومتی عہدیداروں تک پہنچ جاے اور
اس طرح تمھاری اسلامی اور پاکستانی بہن اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھہ انڈیا میں رہ
سکے اور اسطرح میں یہ کالم اس امید پر کے جو کوئی اس کالم کو پڑھے وہ اسے آگے ضرور
دوسروں کے ساتھہ شیر کرے کہ شائد اس طور میرا یہ کالم ایک خاندان کو ٹوٹنے سے بچا
لے ایک بیوی کو اپنے شوہر سے اور ایک ماں کو اپنے بچوں سے ملادے ورنہ وہ عورت اپنی
زندگی میں ہی مردہ ہوجائے گی۔ |