اس کا چہرہ جھریوں سے بھرا پڑا تھایوں لگتا جیسے زندگی کے تمام غموں نے مل کر اسے
لوٹا ہے ۔ ۔وہ مجھے اور بھکاریوں سے کافی مختلف لگی تھی بھیک مانگنے پر جب میری
کلاس فیلواسے جھڑکنے لگی تو نہ جانے کیوں مجھے اس بڑھیا پر تر س آیا ۔میں آگے بڑھی،
اُس بوڑھی عور ت کوسہارا دے کر بٹھا یا اوراس کے پاس ہی نیچے بیٹھ گئی تب میری کلاس
فیلوز حیرت سے تکنے لگیں ۔”اسے غریبوں سے محبت ہے ثناء“ نہیں آدھی بھیک ملے گی
ناہاہاہا ۔۔۔۔۔۔۔ساری لڑکیا ں میری اس حرکت پر مذاق اڑا رہی تھیںاور طرح طرح کے
جملوں کے تیر برس رہے تھے میں جانتی تھی کہ میری کلاس فیلوز غریبوں کے پاس سے گزرنا
بھی پسند نہیں کرتیں مگر زندہ ضمیر کو مردہ تو نہیں کیا جا سکتا ۔میں سوچ رہی تھی
کہ آخر ان لوگوں کو غریبوں سے نفرت کیوں ہے ہ بھی تو ہماری طرح انساں ہی ہیں سب کچھ
عطا کیا ہے ہاتھ، پاﺅں ،ناک،کان اور اگر غربت نے رنگ وقد چھین لیا ہے تو کیا ہوا
ہیں تو انسان ہی ناں ۔ اللہ نے اگر انہیں پیسہ نہیں عطا کیا تو ہم بے حس کیوں بن
جائیں ؟بدنِ انسانی کا صحیح سلامت ہونا تو سب سے بڑی نعمت ہے مگر میں انہیں کبھی
بھی نہیں سمجھا سکی تھی کیونکہ انکی آنکھوں پر صرف پیسے کی پٹی بندھی تھی وہ سب
لڑکیا ں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئی تھیں اور والدین بھی ذہن سازی کرنے میں
کامیاب نہ ہو سکے تھے مگر میرے والدین نے ہمیشہ انسانیت سے محبت سکھایا ہے بلا
تفریق خدمت کے لیے تیار کیا ہے ۔مجھے ایسے لوگوں کے پاس بیٹھنا اور انکا غم سننا
نہایت ہی عزیز ہے ۔اس عورت کی داستان اولاد کی بے رخی بتا رہی تھی یوں لگ رہاتھا کہ
وہ اولاد کے سامنے بے بس ہے وہ بار بار یہی کہہ رہی تھی کہ ”ایسی اولاد سے اولاد نہ
ہونا بہتر ہے “ اس کی زندگی حسرت و یاس کا واضح آئینہ تھی کیونکہ کوئی ماں ایسے
الفاظ اولاد کے لیے استعمال نہیں کر سکتی وہ تقریباََ زندگی کی ستر بہاریں طے کر
چکی تھی مگر اولاد نے نہ کچھ دیا اور نہ اسے امید تھی ۔اس کے بدن پر پرانے بوسیدہ
کپڑے تھے جن میں سے جگہ جگہ پیوند دکھائی دے رہے تھے ۔بقول اس کے اولاد نے ہمیشہ
ستایا ،لاڈ پیار کا صلہ نفرت کی صورت میں ملا اواُسکے ر آنسوﺅں کا نہ رکنے والا
سلسلہ تب شروع ہوا جب اس نے کہا کہ کون انسان ایسا ہے کہ وہ چاہے کہ بھیک مانگے مگر
اسکے بے حس بیٹے بھیک کے لیے مار پیٹ کر گھر سے باہرنکالتے ہیں ورنہ وہ کئی سالوں
سے گھروں میں برتن دھو کر اپنا گھر چلا رہی تھی ۔ اسکے بیٹوں نے بھیک کے پیسے مقرر
کر رکھے ہیں اور اگر کم ہوں توجو شے ہاتھ میں آئے اسی سے پیٹتے ہیں اس نے اپنی زخمی
ٹانگیں بھی بتائیں جن پر سیاہی کی طرح نشان پڑے تھے اور خون خشک تھا اس کی زخمی
ٹانگیں میرے ضبط آنسوﺅ ں کو نہ روک سکیں ۔ اسکی اولاد میں چار بیٹے اور دو
بیٹیاںہیں اور شوہر فوت ہو چکا ہے ۔بیٹوں کے ہوتے ہوئے بھی وہ زمانے کے رحم و کرم
پر پل رہی ہے مجھے اس عورت پر نہایت رحم آیا اس کا ہر ہر لفظ مجھے تکلیف دیتا رہا ۔
اسے ملنے کے بعد اس کا چہرہ مجھے اکثر دکھائی دیتا ہے ،بعض اوقات میں سوچتی ہوں کہ
کسی کی اولاد اتنی بھی بے رحم ہو سکتی ہے ؟نہیں نہیں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا ۔میں
اپنے من کو سکون پہچانے کی کوشش کرتی ہوں مگر سکون نہیں ملتا ۔آخروالدین کو ستانے
والی ایسی اولاد اپنا ضمیر کہاں بیچ لیتی ہے ؟والدین کی محنت و جدوجہد کا بدلہ دینا
تو دور کی بات انکے بڑھاپے کا سکون بھی چھین لیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن یہاں تو سب
اندھیر نگری میں بستے ہیں ۔اگر اس عورت کے بیٹے بے حس ہیں تو یہ زمانہ کیوں بے حس
ہو گیا ہے؟اگر اولاد کے کچھ حقوق ہیں تو انسانیت کے بھی تو کچھ حقو ق ہیں ۔انسانیت
کیوں ختم ہوتی جارہی ہے ؟ہم ایسے لوگوں کی مدد کے لیے کیوں نہیں بڑھ رہے ؟ایسی بے
حس اولاد سے کیوں نہیں نمٹ رہے ؟والدین جن کے لیے رب کریم نے فرمایا کہ انہیں اُف
تک نہ کہو تو ہم ان عظیم والدین کے حقوق کے لیے کیوں نہیں اُٹھ رہے ؟مغرب میں تو کب
سے والدین کے حقوق نہیں ہیں ان کے نزدیک تو والدین کی کوئی قدر نہیں ہے وہ یہی
سمجھتے ہیں کہ والدین کوبنایاہی اولڈ ہاﺅس کے لیے ہے مگر مشرق ........یہاں تو ایسا
بھی ہوتا تھا :
گر پوجو تو ماں ہے
گر جھکو تو باپ ہے
یہاں تنقید بجا ہے کہ پوجنا اور جھکنا کیوں ؟تو وضاحت کیلیے اسلام والدین کی خدمت
،عزت ،احترام اور احسانات چکانے کا حکم دیتا ہے اور پوجنا اور جھکنا لفظ یہاں صرف
والدین کی عزت و احترام کی وجہ سے استعمال کیے گئے ہیں ۔حضرت موسیٰ ؑ کوہ ِ طور پر
اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لیے تشریف لے جاتے جب ان کی والدہ کی وفات ہوئی تو رب
تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسیٰ اب زرا سنبھل کر بات کرنا کیونکہ اب تمھاری دعا کرنے
والی ماں نہیں ہے ۔والدین کی اطاعت ہر کسی پر لازم ہے چاہے وہ جس مذہب یا جس فرقے
کا فرد ہو اور اگر ہم ساری زندگی والدین کی خدمت کریں تو پھر بھی انکے کسی ایک
احسان کا بدلہ بھی نہیں چکا سکتے تو پھر وہ لوگ جو ہمیشہ والدین کو نظر انداز کرتے
ہیں انکا کیا حال ہو گا ایسے لوگوں کو احساس ضرور ہوتا ہے مگر اُس وقت جب قیمتی
ہیرے کھو چکے ہوتے ہیں تب سوائے ہاتھ ملنے کے کچھ نہیں ملتا ،کچھ نہیں ملتا
۔مگر!روز محشر جواب تو لیا جائے گا ۔۔۔۔اور اس بڑھیا کی بات بار بار میرے ذہن میں
کھٹکتی ہے کہ نافرمان اولاد سے اولاد نہ ہونا بہتر ہے واقعی !ایسی اولاد کی مائیں
ایسا ہی کہتی ہیں اور اس کے علاوہ چارہ ہی کیا ہے؟؟؟ |