پاکستان کے مسا ئل میں اولین توانائی کا بحران ہے کہ جس
نے اس وقت ملک کو اس طرح تباہ و برباد کر رکھا ہے کہ ہم پتھروں کے دور سے
بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔توانائی کا بحران 1984ء سے ہے اور اس
بحران کو ماضی کی تمام حکومتوں کی نا اہلیت نے آج اس سطح تک پہنچا دیا ہے
کہ کاروبار زندگی مفلوج ہو کر رہ چکا ہے۔اس وقت پوزیشن یہ ہے کہ بقول حکومت
اعداد و شمارکاسرکلر ڈیبٹ اتنا بڑھ چکا ہے کہ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ مستقبل
قریب میں ممکن ہی نہیں ہے۔اب سوچنے کی بات ہے کہ الیکشن تو عوام کو لوڈ
شیڈنگ ختم کرنے کی نوید دے کر جیت لیا گیا اور اب کہا جا رہا ہے کہ میاں
شہباز شریف جوش خطابت میں عوام کومختلف اوقات میں لوڈ شیدنگ ختم کرنے کی
نوید دے گئے۔
پاکستان میں تھر کے ریگستان میں کوئلہ کا دنیا میں اب تک کا سب سے بڑا
ذخیرہ دریافت ہوا تھا ۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ 10ہزار کلومیٹر میں
پھیلا ہوا ہے ۔ دنیا کا سب سے بڑا کوئلہ کا ذخیرہ تھر، سونڈا اور لاخرہ کے
علاقوں میں دریافت ہوا تھا ۔ تھر کے کوئلہ کے ذخیرہ کو اگر درست طریقے سے
استعمال کیا جائے تو 200 ملین ٹن کوئلہ حاصل کیا جا سکتا ہے جو کہ بجلی
بنانے کے کام آئے گا جس سے توانائی کے معاملہ میں نہ صرف پاکستان خود مختار
ہو جائے گا بلکہ ہائیڈرو پراجیکٹس اور گیس سے بجلی بنانے کے مہنگے عمل میں
بھی خاطر خواہ کمی آ جائے گی ۔ 1992میں جیولوجیکل سروے آف پاکستان نے 185
ارب ٹن Ligniteکے محفوظ ذخائر تھر کے کوئلے کے ذخائر سے دریافت کیے جو کہ
356کلومیٹر طویل رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں ۔ یہ ذخائر 4بلاکس میں ہیں ۔
اندازہ لگایا گیا ہے کہ4بلاکس میں 9ارب ٹن کوئلہ موجود ہے جو 8کھرب 50ارب
مکعب فٹ گیس کے برابر ہے ۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے کوئلے
کے ذخائر پر بہت ہی کم کام ہوا ہے ۔ کوئلہ انرجی کے حصول کے لئے استعمال
ہوتا رہا ہے اور دنیا میں صنعتی انقلاب اور بجلی کے بہت زیادہ استعمال کا
سبب بھی کوئلہ ہی ہے ۔ لیکن 70کی دہائی میں قدرتی گیس اور تیل کے وسیع
ذخائر دریافت ہوئے تو کوئلے کا استعمال کم کر کے گیس اور آئل کی طرف رجحان
بڑھ گیا ۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں قدرتی ذخائر کی بھرمار ہے ، کوئلہ کے
ساتھ ساتھ تانبے اور سونے کے بھی وسیع ذخائر موجود ہیں لیکن بدقسمتی کی بات
یہ ہے کہ دنیا کے ان سب سے بڑے ذخائر کو استعمال کرنے کے لئے کوئی عملی
اقدام نہیں اٹھایا گیا جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر
پہنچ چکی ہے اور عوام مہنگائی اور غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔
ماضی میں کوئلہ ایندھن کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ
کوئلہ ہی دنیا میں صنعتی انقلاب اور بجلی کے زیادہ استعمال کا باعث بنا ۔
لیکن 70کی دہائی میں جب گیس اور تیل کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے تو کوئلہ
چھوڑ کر گیس اور تیل کا استعمال شروع کر دیا گیا ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ
پاکستان جو کہ قدرتی وسائل جن میں تانبا، سونا، کوئلہ وغیرہ شامل ہیں کے
وسیع ذخائر کا مالک ہونے کے باوجود غریب ممالک کی فہرست میں اوپر آتا جا
رہا ہے ۔ ان ذخائر کو استعمال میں لانے کے لئے بنیادی انفراسٹرکچر ہی نہیں
بنایا گیا ۔ تھر کے کوئلے کے استعمال کے لئے ریگولیٹری اتھارٹی تک نہیں
بنائی گئی جس کی وجہ سے کوئلہ سے بجلی بنانے کے ٹیرف کا تعین بھی نہیں ہو
سکا ۔ اسی وجہ سے وفاقی حکومت نے چین کی ایک کمپنی Shenhao کو کام کا ٹھیکہ
دینے سے انکار کر دیا تھا ۔Shenhao نے ابتدائی طور پر فزیبلیٹی رپورٹ بھی
بنا لی تھی اور وہ تھر میں کوئلہ سے بجلی بنانے کا پاور پلانٹ لگانے میں
دلچسپی رکھتی تھی ۔ اسی کمپنی نے 5.7سینٹ فی یونٹ کا ریٹ دیا تھا ۔ جسے
حکومت نے اپنی نااہلی اور انفراسٹرکچر نہ ہونے کی بنا پر قبول نہیں کیا تھا
۔ لوڈ شیڈنگ کی موجودہ صورت حال کو سامنے رکھا جائے تو پاکستان کو تقریبا
300ارب روپے سالانہ اور6لاکھ نوکریوں کا سالانہ نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے ۔
تھر کول کو استعمال میں لا یا جائے تو پاکستان 50000میگا واٹ بجلی 800سال
تک بنا سکتا ہے ۔ تھر کول سے بجلی بنانے کے علاوہ 100بیرل ڈیزل یومیہ اور
گیس بھی بنائی جائے گی ۔ جو کہ موجودہ گیس کے بحران کو ختم کر دے گی ۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے مطابق تھر کول کے ذخائر 800سال تک استعمال کیے جا
سکتے ہیں۔ تھر کے کوئلے سے نکلنے والے پانی کو زراعت اور علاقوں کے لوگوں
کی ضروریات کے لئے استعمال کیا جائے گا اور تھر کے ریگستان کے لوگ جو پانی
کی بوند بوند کو ترستے تھے ، اب پانی سے فیض یاب ہو سکیں گے اور ان کو ہجرت
کی ضرورت پیش نہیں آئے گی ۔اگر ایران اور سعودی عرب کے تیل کے ذخائر کو
اکٹھا کیا جائے تو وہ تقریباََ 375ارب بیرل کے قریب بنتے ہیں جب کہ پاکستان
میں موجود صرف تھر کے کوئلے کے ذخائر 850کھرب مکعب فٹ گیس کے برابر بنتے
ہیں ۔ جو کہ ایران اور سعودی عرب کے مجموعی ذخائر سے تقریباََ 200گنا زیادہ
ہیں۔
پاکستان کے عوام جو کہ آج ماضی کی تمام حکومتوں کی ناقص معاشی پالیسیوں اور
مستقبل کے فلاحی منصوبوں کے نہ ہونے کی وجہ سے بدحال ہیں اور بجلی کی بندش
اور گیس کی کمیابی کی وجہ سے گھنٹوں لائنوں میں لگنے اور بیروزگاری پر
مجبور ہیں کیوں کہ “آئل مافیا ” نے پٹرول وغیرہ کی قیمتوں میں بے پناہ
اضافہ کر رکھا ہے جو کہ عام لوگوں کی استطاعت سے باہر ہے ۔پاکستان کو تھر
پاور کے لئے 420ارب روپے کی ضرورت ہے جب کہ حکومت پاکستان سالانہ صرف ٹیکس
کی مد میں 1220ارب روپیہ حاصل کرتی ہے ۔ چین اور دوسرے ممالک گزشتہ سات آٹھ
سال سے نہ صرف سروے اورفزیبلیٹی رپورٹس بنا چکے ہیں بلکہ سو فیصد سرمایہ
کاری کرنے کے لئے بھی تیار ہیں ۔ لیکن پٹرولیم لابی جو کہ ایک بہت بڑا پٹر
ولیم گینگ ہے ، ان سب تجاویز کے پایہ تکمیل تک پہنچنے میں بڑی رکاوٹ ہے ۔
یہ گینگ بڑا سٹرونگ ہے اور تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا فائدہ اس “پٹرولیم
گینگ” کو ہی جاتا ہے ۔ پچھلے سال ایک محتاط اندازے کے مطابق 16ارب ڈالر جو
کہ تیل کی قیمتوں کے بڑھاوے سے بچے وہ اس پٹرولیم گینگ کا ناجائز منافع تھا
۔ ایک بات تو طے شدہ ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان میں توانائی کے مئلے کا
کوئی حل نکلتا نظر نہیں آرہا اور جب بھی حل نکلے گا تو بجلی کی قیمت اتنی
بلند سطح پر جا چکی ہو گی کہ عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہو گی- |