رضائے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے لئے جذبہ
ایثار
جس روز حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم عازم موضع تبوک ہوئے، حضرت عبداﷲ
بن خیثمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے گھر آئے۔ ان کی دو حسین و جمیل بیویاں
تھیں جنہوں نے اس رو زخس کے پردوں کو پانی میں بساکر ان سے نہایت عمدہ فرش
تیار کئے اور پھر ان پر عبداﷲرضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے لئے نہایت عمدہ اور لذیذ
کھانے چنے۔ جونہی عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہنے ان کھانوں کو دیکھا تو کہا
سبحان اﷲ ! وہ رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم جسے پروردگار عالم عزوجل
نے آئندہ و گزشتہ تمام گناہوں سے منزہ پیدا فرمایا، اس شدید گرمی کے موسم
میں کفار سے قتال کے لئے تشریف لے جائیں اور عبداﷲ رنگا رنگ کھانوں سے سیر
ہوکر ان بیویوں سے مباشرت کرے،ایسا نہیں ہوسکتا۔ خداعزوجل کی قسم میں جب تک
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت میں نہ پہنچوں ان بیویوں سے
کلام نہیں کروں گا۔
گھر سے نکلے اور اپنے اونٹ پر سوار ہوکر ایک طرف چل دیئے۔ بیویوں نے ہر چند
کلام کی کوشش کی لیکن آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ملتفت نہ ہوئے ۔جوں ہی عبداﷲ
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مقام تبوک کے نزدیک پہنچے تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
والہٖ وسلم کو بتایاگیا کہ ایک اونٹ سوار دور سے اس طرف آتا ہوا دکھائی
دیتا ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا وہ ابن خیثمہ ہوگا۔
نزدیک پہنچے تو دیکھا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے فرمان کے
مطابق وہ ابن خیثمہ ہی تھے۔ انہوں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم
کی خدمت میں پہنچ کر سلام عرض کیا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے
جواباً فرمایا:اے ابن خیثمہ !رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کیا ہی اچھی بات ہے تم فانی
ناز و نعمت کو چھوڑ کر رضائے حق میں کھوگئے جو تمہارے لئے بہتر ہے۔ (شرح
العلامۃ الزرقانی،باب غزوۃ تبوک،ج۴،ص۸۲)
حضرت ابو ذررضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا جذبہ جاں نثاری: حضرت ابوذر غفاری رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم جب غزوہ
تبوک کے لئے روانہ ہوئے تو میرا اونٹ بہت لاغر اور ضعیف تھا۔ میرا خیال تھا
کہ چند روز مزید ٹھہرکر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم سے جا ملوں گا۔
میں نے کئی روز تک اپنے اونٹ کو چارا کھلایا بعدازاں میں عازم سفر ہوا۔ جب
ایک جگہ پہنچا تو میرے اونٹ کی ٹانگ ٹوٹ گئی جس کے باعث وہ آگے نہ چل سکا
میں نے اپنا مال و متاع اپنی پشت پر رکھا اور چل دیا۔ راستے میں سخت گرمی
سے دوچار ہونا پڑا۔ لشکر اسلام کے پاس پہنچا تو لوگوں نے حضور صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم سے عرض کیا کوئی شخص پیدل چلا آرہا ہے۔ سرکار صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا: ابو ذر غفاری ہوں گے۔ جب میں حضور
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ والہٖ وسلم نے قیام کی حالت میں فرمایا: خوش رہو ابو ذر! رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ تم تنہا سفر کرتے ہو تنہاہی اس دنیا سے جاؤ گے اور تنہاہی بروز
حشر اٹھوگے۔
کہتے ہیں جب ابو ذر غفاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا وصال ہوا تو آپ تنہاہی تھے۔
عبداﷲ ابن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بحالت وفات
پایا تو کہا۔ سچ فرمایا تھا خدا کے صادق و مصدوق رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
والہٖ وسلم نے ۔صاحب مستقصی نے لکھا ہے کہ میں نے حضرت ابو ذر رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کے مزار کی زیارت کی ہے۔ مجھے وہاں وہ کیف و جذب حاصل ہوا جو
دوسرے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے مزار پر نہ پاسکا۔ میں نے ان کی
قبر کے پاس نماز ادا کی جونہی میں سربسجود ہوا آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی
تربت انور سے مشک و عنبر کی خوشبو نکلی جس نے میرے مشام جاں تک کو معطر و
معنبر کردیا۔
( شواہد النبوۃ،رکن رابع،ص۱۲۵)
شدیم خاک و لیکن ز تربت ما
=تواں شناخت کزیں خاک مردے خیزد
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے بعد دنیا قابل دید نہ رہی: جب حضور
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے وصال ظاہری کی خبر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
والہٖ وسلم کے مؤذن عبداﷲ بن زید انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے سنی تو وہ اس
قدرغمزدہ ہوئے کہ نابینا ہونے کی دعا مانگنے لگے کہ میرے آقا صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ والہٖ وسلم کے بغیر یہ دنیا میرے لئے قابل دید نہ رہی۔ آپ اسی وقت
نابینا ہوگئے۔ لوگوں نے کہا:تم نے یہ دعا کیوں مانگی؟فرمایا: لذت نگاہ تو
دیکھنے میں ہے مگر سرکار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے بعد اب میری
آنکھیں کسی کے دیدار کا ذوق ہی نہیں رکھتیں۔ (المرجع السابق،ص۱۳۹)
ا ضطرابِ عشق : ایک دن حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے عاشق زار
حضرت ثوبان رضی اﷲ تعالیٰ عنہحاضر ہوئے تو ان کا چہرہ اترا ہوا اور رنگ اڑا
ہوا دیکھ کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے وجہ پوچھی۔ تو درد مند
عاشق نے عرض کیا: یارسول اﷲ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نہ کوئی جسمانی
تکلیف ہے اور نہ کہیں درد ۔بات یہ ہے کہ رخ انور جب آنکھوں سے اوجھل ہوتا
ہے تو دل بیتاب ہوجاتا ہے فوراََ زیارت سے اسکو تسلی دیتا ہوں۔ اب رہ رہ کر
مجھے یہ خیال ستا رہا ہے کہ جنت میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کا
مقام بلند کہاں ہوگا اور یہ مسکین کس گوشہ میں پڑا ہوگا۔ اگر روئے تاباں کی
زیارت نہ ہوئی تو میرے لئے جنت کی ساری لذتیں ختم ہوجائیں گی، فراق و ہجر
کا یہ جانکاہ صدمہ تو اس دل ناتواں سے برادشت نہ ہوسکے گا۔ حضور صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم یہ ماجرا سنکر خاموش ہوگئے۔ یہاں تک کہ جبرئیل امین
علیہ السلام یہ مژدہ لے کر تشریف لائے۔
وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓـئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ
اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِم مِّنَ النَّبِینَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ
وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَج وَحَسُنَ اُولٰٓـئِکَ
رَفِیْقا(پ۴،النساء:۶۹)
ترجمہ کنزالایمان: اور جو اﷲ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اسے ان کا ساتھ
ملے گا جن پر اﷲ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہیداور نیک لوگ۔
(الجامع لاحکام القرآن،الحدیث۲۳۰۹،ج۵،ص۲۶۱)
اطاعت گزار عشاق کو جنت میں جدائی کا صدمہ نہیں پہنچے گا بلکہ ان کواپنے
محبوب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی معیت ورویت میسر ہوگی۔ حقیقت یہ ہے
کہ عشق مصطفوی میں صرف حضرت ثوبان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہی کی یہ کیفیت نہ تھی
بلکہ سب صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کا یہی حال تھا۔
ماخوذ از:کتاب،صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عشق رسول
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے |