فرمودات مصطفےٰﷺ۔۔اصلاح کے ضامن

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سات ہلاک کر دینے والے کاموں سے بچو!(صحابہ ) نے عرض کیا :یا رسول اﷲ ﷺ! وہ کیا ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا :اﷲ کے ساتھ شرک کرنا ،جادو ،ایسی جان کو قتل کرنا جسے اﷲ نے حرام کیا سوائے حق کے ،سود کھانا ،یتیم کا مال کھانا ،لڑائی کے روز پیٹھ پھیرجانا اور پاکدامن ایماندار و بے خبر عورتوں پر زنا کا الزام لگانا ۔‘‘(صحیح بخاری و صحیح مسلم)

حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ حدیث بالا میں مذکور سات کام گناہ کبیرہ ہیں ۔شیخ ابو طالب مکی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:میں نے ان احادیث کو جمع کیا جن میں کبیرہ گناہوں کا ذکر ہے تو میں نے یہ سترہ کام گناہ کبیرہ پائے ۔

۱۔ شرک۔۲۔گناہ کا پختہ ارادہ ۔۳۔اﷲ کی رحمت سے ناامید ہوجانا۔۴۔اﷲ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہو جانا ۔۵۔جھوٹی گواہی۔۶۔پاکدامن پر زنا کا الزام۔۷۔جھوٹی قسم اٹھانا۔۸۔جادو۔۹۔شراب نوشی۔۱۰۔یتیم کا مال کھانا۔۱۱۔سود کھانا ۔۱۲۔زنا۔۱۳۔لواطت۔۱۴۔بغیر حق کے قتل کرنا۔ ۱۵۔چوری۔ ۱۶۔کفار سے لڑائی کے روز بھاگنا ۔۱۷۔والدین کی نافرمانی۔

حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں :کبیرہ گناہوں کی تعداد ستر کے قریب ہے ۔

حدیث بالا میں مذکور سات مہلکات (ہلاک کر دینے والے گناہوں)کی مختصر وضاحت:

شرک: لفظ شرک کا لغوی معنی ’’حصہ داری‘‘ ہے اور حصہ دار کو شریک کہتے ہیں ۔شرع شریف میں شرک توحید کی ضد ہے ۔

توحید کا شرعی معنی ہے :’’اﷲ تعالیٰ کو ذات و صفات اور عبادت کے مستحق ہونے میں یکتا ماننا۔‘‘

اور شرک کا معنی شرعی ہے :’’کسی کو اﷲ تعالیٰ کی ذات و صفات میں یا عبادت کے حقدار ہونے میں حصہ دار بنانا ۔‘‘

یاد رہے کہ اﷲ تعالیٰ کی صفات حقیقی آٹھ ہیں:۱۔زندہ یعنی موجود ہونا ۔۲۔علم ۔۳۔سننا۔۴۔دیکھنا۔۵۔کلام نفس، یعنی وہ کلام جو ارادے میں ہوتی ہے ،کیونکہ اﷲ تعالیٰ زبان اور الفاظ سے پاک ہے ۔ ۶۔ ارادہ ۔ ۷۔قدرت۔ ۸۔تکوین ،یعنی عدم سے وجود میں لانا ۔

جس طرح اﷲ تعالیٰ کی ذات غیر مخلوق اور کسی کی محتاج نہیں ۔اسی طرح اﷲ تعالیٰ کی صفات بھی غیر مخلوق ہیں ۔ جبکہ اﷲ تعالیٰ کے سوا ہر چیز مخلوق ہے اور تمام مخلوقات حتیٰ کہ انبیاء و رسل و ملائکہ کی صفات اﷲ تعالیٰ کی طرف سے عطا کر دہ ہیں ۔لہٰذا کوئی مخلوق ذات اور صفات میں اﷲ تعالیٰ کی حصہ داری نہیں کر سکتی ۔

عقیدہ توحید و شرک کے بارے میں ایک ضروری وضاحت:عقیدہ توحید و شرک کا معنی یہ نہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی صفات کو مانا جائے اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مخلوقات کو عطا کر دہ صفات اور اختیارات کی نفی کی جائے ۔بلکہ عقیدہ توحید و شرک کی اصل یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اور مخلوقات کی صفات میں فرق واضح کیا جائے کہ اﷲ تعالیٰ کی صفات غیر مخلوق مستقل اور ذاتی ہیں ،جبکہ مخلوق کی صفات اﷲ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہیں ،غیر مستقل ہیں اور مجازی و عطائی ہیں ۔

عقیدہ توحید و شرک کے بارے میں ایک مغالطہ اور اس کا ازالہ :کہاجاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہی مشکل کشا ،حاجت روا، داتا (دینے والا) اور غوث(مددگار) ہے ،لہٰذا کسی نبی ،ولی کو مشکل کشا، حاجت روا، داتا اور غوث ماننا درست نہیں ،بلکہ شرک و کفر ہے ۔

اس مغالطہ کا جواب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انسانوں کو بے اختیار پیدا نہیں کیا ۔بلکہ درجہ بدرجہ اختیارات عطا فرمائے ہیں اور انبیاء و اولیاء او رملائکہ کو تو بہت زیادہ کمالات و اختیارات عطا فرمائے ہیں ۔

اﷲ تعالیٰ کے نبی حضرت عیسٰی علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کرنا ،نابیناؤں کو بینا کرنا اور ایسے ہی کئی ایک اﷲ تعالیٰ کے پیاروں کے اختیارات و کمالات قرآن پاک سے ثابت ہیں ،احادیث مبارکہ سیدنا حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کے کمالات و اختیارات کے واقعات عجیبہ سے بھری پڑی ہیں ۔

ان دلائل شرعیہ کی روشنی میں اﷲ تعالیٰ کے پیاروں کو اﷲ تعالیٰ کے مقابلے میں نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ کی عطا سے مشکل کشا، حاجت روا، داتا اور غوث جیسے صفاتی اسماء سے پکارا جاتا ہے اور یہ قطعاً شرک نہیں بلکہ عطیات خدا وندی پر ایمان کا اظہار ہے ،جس طرح اﷲ تعالیٰ کا سننا اور دیکھنا اس کی ذاتی صفتیں ہیں ،اس کے باوجود اﷲ تعالیٰ کی عطا سے اﷲ تعالیٰ کی مخلوق میں سننے اور دیکھنے کی صفت ماننا شرک نہیں ،اسی طرح مشکل کشا، حاجت روا، داتا اور غوث ہونا اﷲ تعالیٰ کی ذات و صفت ہے اور اﷲ تعالیٰ کی عطا سے ان صفات کا اس کے پیارے بندوں میں پایا جانا قطعاً شرک نہیں بلکہ عین توحید ہے اور یہی عقیدہ صحابہ کرام اور صوفیاء اسلام سے ثابت ہے ۔

کیا شیخ عبد القادر جیلانی کو غوث اعظم کہنا شرک ہے ؟کچھ لوگ عقیدہ توحید کی غلط تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں : غوث اعظم صرف اﷲ تعالیٰ ہے ،لہٰذا حضرت شیخ سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ کو غوث اعظم کہنا شرک و کفر ہے وغیرہ وغیرہ ۔العیاذبا اﷲ من ذالک

اس مغالطہ کا جواب یہ ہے کہ غوث کا معنی مددگار ہے اور ولی کا ایک معنی بھی مددگار ہے ۔لہٰذا غوث اعظم کا معنی سب سے بڑا ولی اﷲ ہے اور تمام سلاسل روحانیہ کے اولیاء کا اتفاق ہے کہ امت مصطفےٰ ﷺ کے سب سے بڑے ولی اﷲ حضرت غوث اعظم شیخ سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ ہیں ۔

اس وضاحت کے بعد واضح ہو گیا کہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ کو غوث اعظم کہنے کا معنی یہ ہے کہ آپ اولیاء کرام میں سے بڑے ولی ہیں جس طرح حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کو صدیق اکبر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو فاروق اعظم کہا جاتا ہے ۔یا جیسا کہ ائمہ مجتہدین میں امام ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ کو امام اعظم کہا گیا ہے اور تحریک پاکستان کے قائدین میں سے مسٹر محمد علی جناح کو قائد اعظم کہا جاتا ہے ،تو کیا اگر کوئی کہے کہ صدیق اکبر ،فاروق اعظم ،امام اعظم اور قائد اعظم تو اﷲ ہے ؟ تو ایسے قائل کو جو جواب دیا جائے گا وہی جواب غوث اعظم کے لفظ پر اعتراض کرنے والے کو دیا جائے گا۔

بلکہ میں کہوں گا کہ جو الفاظ عرف میں بندگان خدا کے لئے بولے جاتے ہیں ان الفاظ کواﷲ تعالیٰ کے لئے بولنا اﷲ تعالیٰ کو شان الوہیت سے نیچے لاکر بندو ں کی صف میں لانے کے مترادف ہو گا۔

دوسرا موبقہ (ہلاک کردینے والا گناہ):سحر (جادو) سے مراد ایسا ٹونا ہے جس کے ذریعے کسی کو نقصان پہنچانا یا کوئی ناجائز مقصد حاصل کرنا ہو ۔ جادو اگر کسی کلمہ کفریہ یا کفریہ فعل پر مشتمل ہو تو بالا جماع کفر ہے ،اور ایسا جادو گر اور علم کے باوجود ایسے جادو گر سے ایسا جادو کروانے والا کافر ہے ۔جادو سیکھنا بھی جائز نہیں البتہ کسی موذی جادو گر کے توڑ کے لئے ایسا جادو سیکھنا جو خلاف شرع کلمات و افعال پر مشتمل نہ ہو جائز ہے ۔جادو کے ذریعے کسی مسلمان کی جان ،مال ،اولاد اور عزت و آبرو کو نقصان پہنچانا سخت حرام ہے ،بلکہ اسلامی ممالک کے اندر شہریت رکھنے والے یہود و نصاریٰ کے خلاف جادو کرنا بھی جائز نہیں ،کیونکہ ذمیوں کی جان و مال کی حفاظت اہل اسلام پر لازم ہے ۔

تیسرا موبقہ قتل نفس:کسی مسلمان کے قتل کو جائز سمجھ کر اسے ناحق قتل کر دینا کفر ہے ، جس کی سزا دائمی عذاب جہنم ہے ۔کسی مسلمان کے قتل کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہوئے اسے قتل کر نا یا کسی ذمی (اہل کتاب جو دار السلام کے شہری ہوں) کو جان بوجھ کر قتل کر دینا سخت حرام اور گناہ کبیرہ ہے ۔البتہ حدود و قصاص میں قاضی اسلام کے فیصلے کے مطابق کسی مجرم کو قتل کرنا یا پھر اہل حرب اور باغیوں کے خلاف قتال میں کفار اور باغیوں کو قتل کرنا جائز ہے ۔

قرآن و حدیث میں نا حق قتل کو بہت بڑا فساد قرار دیا گیا ہے اور اس پر سخت وعید یں بیان کی گئی ہیں ۔حدیث پاک میں ہے :
’’جو قاتل کی آدھے لفظ کے ساتھ امداد کرے اسے بھی جہنم میں ڈالا جائے گا۔‘‘

اس حدیث مبارکہ کی رو سے برادری اور دوست و احباب کو بھی قاتل کا ساتھ دینا جائز نہیں ۔عوام الناس اس حدیث پاک پر عمل کریں تاکہ قاتلوں کی حوصلہ شکنی ہو اور قتل و غارخ کا خاتمہ ہو سکے !

چوتھا موبقہ ربا (سود):کسی کو پیسہ دے کر اس کے عوض اصل رقم سے زائد رقم مقرر کر کے وصول کرنا ،یا وایسی چیز یں جو ہم جنس ہوں اور وزن کی جاتی ہوں کے لین دین میں زیادتی کرنا یا ادھار کرنا ’’ربا ‘‘ یعنی سود ہے ۔

قرآن و حدیث میں سود کو بہت بڑا گناہ قرار دے کر سخت حرام قرار دیا گیا ہے ۔بلکہ قرآن مجید میں سود خوروں کو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کریم ﷺ کے ساتھ جنگ کا چیلنج کیا گیا ہے ۔حضور نبی اکرم ﷺ نے سود کھانے والے ،سود کھلالنے والے ،سود کا حساب و کتاب لکھنے والے اور سودی کاروبار میں گواہ بننے والے پر لعنت فرمائی ہے ۔

اس وقت دنیا میں افراط زر،مہنگائی اور تجارتی خساروں کی بڑی وجہ سود ہی ہے ۔یہ تو دنیاوی نقصان ہے اور آخرت میں جو درد ناک عذاب ہے اﷲ کی پناہ ! حدیث پاک میں ہے کہ شب معراج حضور اکرم ﷺ نے سود خوروں کو جہنم میں اس حال میں دیکھا کہ ان کے پیٹ بڑی بڑی کوٹھریوں کی طرح ہیں اور یہ لوگ جہنم میں پتھر اور تھوہر کے کانٹے کھا رہے ہیں ۔اﷲ تعالیٰ محفوظ فرمائے۔

پانچواں موبقہ یتیم کا مال کھانا:یتیم سے مراد وہ نابالغ ہے جس کا والد فوت ہو جائے ۔یتیم کا مال کھانے سے مراد کسی بھی ناجائز طریقہ سے یتیم کے مال سے فائدہ اٹھانا ہے ۔ویسے تو شریعت اسلامیہ میں ہر خیانت حرام ہے لیکن یتیم کے مال میں خیانت پر نہایت سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں ۔ایک حدیث میں ہے کہ جب کوئی یتیم پر ظلم کرتا ہے تو اس گناہ کی وجہ سے عرش معلیٰ کانپ جاتا ہے ۔

اسلام میں یتیموں کے ساتھ انتہائی حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے ،ایک حدیث مبارکہ میں ہے :جو شخص کسی یتیم کے سر پر دست شفقت رکھے تو اﷲ تعالیٰ اس کے ہاتھ کے نیچے آنے والے بالوں کی تعداد کے مطابق اس کے گناہ معاف فرما دیتے ہیں ۔ایک حدیث پاک میں ہے ۔بہترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ حسن سلوک کیا جاتا ہے اور بد ترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ بد سلوکی کی جاتی ہے ۔

چھٹا موبقہ قتال کے رو ز بھاگ جانا:اﷲ تعالیٰ کے دین کی سر بلندی اور کفار و فسادیوں کے فتنہ و فساد کو کچلنے کے لئے مسلمانوں پر تاقیامت قتال فرض کر دیا گیا ہے ۔جب مسلمانوں کا امام قتال کا اعلان کر دے اور لڑائی کا وقت آجائے تو مسلمانوں کو ڈٹ کر لڑنے کا حکم ہے ،ایسی جنگ میں جان دینے والا شہید کا اعلیٰ درجہ پاتا ہے اور شہادت کی موت طبعی موت سے بدرجہا بہتر ہے اور شہید کے لا تعداد فضائل قرآن و حدیث میں بیان کئے گئے ہیں۔

میدان جنگ میں مسلمان کو کسی صورت میں بھی پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے ۔ لیکن اگر کفار کی تعداد دو گناہ سے زائد ہوا ور فتح کی کوئی صورت نظر نہ آ رہی ہو تو دوبارہ تیاری کر کے قتال کرنے کی نیت سے پیچھے ہٹنے کی رخصت ہے ،جیسا کہ حدیث پاک میں ہے کہ صحابہ کرام کے ایک سریہ (چھوٹا لشکر) نے جب دیکھا کہ دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے تو واپس لوٹ آئے ،اہل مدینہ نے اس لشکر کو فراروں (یعنی بھاگ آنے والے) کہا تو نبی علیہ السلام نے فرمایا : یہ فراروں نہیں بلکہ کراروں (یعنی پلٹ کر حملہ کرنے والے) ہیں۔

لیکن کفار کی تعدا ددو گناہ یا کم ہونے کی صورت میں پیچھے ہٹنے کی قطعاً اجازت نہیں ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔وَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِائَۃٌ صَابِرَۃٌ یَّغْلِبُوْا مِائَتَیْن۔(القرآن )’’اگر تم میں سے ایک سو صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر ضرور غالب آئیں گے ۔‘‘

ساتواں موبقہ زنا کا جھوٹا الزام:حدیث میں پاکدامن عورتوں پر زنا کا جھوٹا الزام لگانے کو ہلاک کردینے والا گناہ قرار دیا گیا ہے ۔لیکن دیگر دلائل شرعیہ کی روشنی میں عورت کی طرح پاکدامن مرد پر زنا کا الزام لگانا بھی سخت حرام ہے اور اس کی سزا بھی حد قذف ہے ۔

حد قذف یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مسلمان مرد یا عورت پر زنا کا الزام لگائے اور چار عادل یعنی گواہ پیش نہ کر سکے تو زنا کا الزام لگانے والے کو 80کوڑے لگائے جائیں گے اور تا زندگی وہ کسی عدالت میں گواہی کے قابل نہیں رہے گا۔

مذکورہ بالا سزا مسلمان پر زنا کا جھوٹا الزام لگانے والے کی ہے ۔لیکن اگر کسی کافر مرد یا عورت پر جھوٹا زنا کا الزام لگایا تو اگر چہ یہ ناجائز اور گناہ ہے لیکن ایسے شخص پر حد قذف نہیں لگائی جائے گی اور نہ ہی وہ ’’مردود الشھادۃ‘‘ قرار پائے گا۔

اگر شوہر اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے تو حکم مختلف ہے اس صورت میں حکم شرع یہ ہے کہ اگر شوہر چار عادل عینی گواہ پیش کر دے تو عورت کو سنگسار کیا جائے گا کیونکہ شادی شدہ آزاد مسلمان زانی کی سزا یہی ہے اور اگر شوہر چار گواہ پیش نہ کر سکے تو شوہر پر حد قذف نہیں لگائی جائے گی بلکہ لعان کرایا جائے گا۔

لعان کیا ہے ؟:لعان یہ ہے کہ قاضی اسلام کی عدالت میں شوہر چار بار اپنی بیوی کے زانیہ ہونے کی گواہی دے گا اور پانچویں بار کہے گا :اگر وہ جھوٹ کہہ رہا ہے تو اس پر خدا تعالیٰ کی لعنت ہو ۔

اس کے بعد بیوی چار بار گواہی دے گی کہ وہ پاک دامن ہے اور پانچویں بار کہے گی :اگر وہ زانیہ ہے تو اس پر خدا تعالیٰ کی لعنت ہو ۔

اس کے بعد قاضی ان دونوں میں تفریق (علیحدہ) کرادے گا ۔ اگر تفریق کے بعد عورت اقرار کر ے کہ الزام درست تھا تو اسے سنگسار کیا جائے گا اور اگر مرد اقرار کرے کہ اس نے جھوٹا الزام لگایا تھا تو اس پر حد قذف لگائی جائے گی ۔حد قذف کے بعد دونوں پھر سے نکاح کرنے کے مجاز ہوں گے ۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں ان مہلک گناہوں سے بچائے ۔آمین

Peer Owaisi Tabassum
About the Author: Peer Owaisi Tabassum Read More Articles by Peer Owaisi Tabassum: 198 Articles with 658583 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.